ناکام ریاست یا ناکام حکمرانی؟

مقتدا منصور  جمعرات 19 جولائی 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بیرونی تحقیقی اداروں کی رپورٹس کا پاکستان کی تیزی سے ابتر ہوتی اندرونی صورتحال کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ان رپورٹس کے مندرجات کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ خرابیء بسیار کسی ایک شعبے یا ادارے میں نہیں بلکہ پورا ریاستی ڈھانچہ اس کا شکار ہے۔

یہی سبب ہے کہ صرف عالمی میڈیا اور تحقیقی ادارے ہی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تشکیک کا اظہار نہیں کر رہے بلکہ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر اوباما بھی تشویش میں مبتلا ہیں جب کہ خطے کی عمومی فضاء بھی پاکستان کے موافق نظر نہیں آرہی۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ یا خاکم بدہن جیسی اصطلاحات اور گول مول باتوں سے گریز کرتے ہوئے ملکی معاملات پر کھلی اور بے لاگ بحث کا آغاز کیا جائے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔

اس وقت پاکستان جن ان گنت پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے، جو ایک دوسرے سے منضبط ہیں‘ ان کی جڑیں تین بنیادی بحرانوں میں پیوست ہیں۔ اول، ریاست کے منطقی جواز کا بحران، جو ایک صحیح، بروقت اور حقیقت پسندانہ پالیسی سازی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دوئم، آئینی تشریح کا بحران، جو ریاستی نظام کی صحیح سمت کے تعین میں مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے ریاستی اداروں کے درمیان عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ سوئم، نظم حکمرانی کا بحران، جو معیشت کی بدحالی، انتظامی بے قاعدگیوں، کمزوریوں اور کرپشن میں اضافے کا سبب ہے۔

پاکستان کے مسلم ملک ہونے پر عالمی سطح پر کسی کو اعتراض نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے لیکن دنیا کسی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دوسرے ممالک میں بزور طاقت اپنے نظریات ایکسپورٹ کرے اور عقیدے کے نام پر تشدد کو فروغ دینے کا سبب بنے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ قیام پاکستان کے مقاصد کیا تھے، سقوط ڈھاکا کے بعد ہمیں ریاست کے منطقی جواز پر نظرثانی کر لینی چاہیے تھی۔

اگر اس وقت یہ غلطی سرزد ہو گئی تو پھر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے وجود کے منطقی جواز کو Rethink کر لینا چاہیے تھا یا پھر کم از کم9/11 کے بعد جب دنیا کی توپوں کا رخ ہماری طرف ہونا شروع ہوا، ہمیں اپنے رویوں اور پالیسی میں تبدیلی لے آنا چاہیے تھی لیکن ہم نے ہر موقع گنوا دیا اور اب وہ ممالک بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم سے خوفزدہ ہیں جنھیں ہم اپنا دیرینہ دوست سمجھتے ہیں۔ چونکہ خارجہ پالیسی قومی تشخص کے گرد گھومتی ہے اس لیے بروقت اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ناکامی نے عالمی تنہائی کو مزید بڑھاوا دیا۔

دوسرا بحران جس کے خدوخال اب نمایاں ہونا شروع ہوئے ہیں، آئین کی تشریحات کا بحران ہے۔ ریاست کے مقتدر حلقوں (سیاسی جماعتوں، سول اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ) نے آئینی موشگافیوں اور پارلیمانی جمہوری نظام کی باریکیوں کو سمجھنے کی شروع ہی سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ حلقے صدارتی اور پارلیمانی نظام کے درمیان الجھے رہے اور ایک واضح سیاسی نظام قائم کرنے پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ریاستی ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اپنی متعینہ حدود سے تجاوز کرنے لگا۔ یوں ماورائے آئین اقدامات کا کلچر فروغ پاتا چلا گیا جس کے نتائج اب ادارہ جاتی تصادم کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچے پر فیوڈل کلچر کے اثرات گہرے ہونے کی وجہ سے اقتدارواختیار کی مرکزیت کو طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ اور روش اقتدار کی عدم مرکزیت اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی (Devolution) کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ انتظامی ڈھانچہ اور عدالتی نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے اس میں فرسودگی، بے قاعدگی اور کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انتظامی ڈھانچے میں میرٹ اور شفافیت کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے، خاص طور پر سرکاری محکموں اور نیم سرکاری کارپوریشنوں میں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی وجہ سے ان کا معیار تیزی سے گر رہا ہے۔

سول سروس بھی کوٹا سسٹم کی وجہ سے مضحکہ خیز ہو چکی ہے اور ذمے دار انتظامیہ پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان میں انتظامی ڈھانچے میں بہتری کا ایک طریقہ سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی Devolution ہے جس سے تمام سیاسی جماعتیں اپنے فیوڈل Mindset اور طاقت کی مرکزیت کی خاطر کتراتی ہیں جب کہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں محض ایم کیو ایم کے بغض اور مخالفت میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی مخالفت کر کے Status quo کی قوتوں کو مضبوط کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

حکومت کی غلط پالیسیوں، غیرمناسب منصوبہ بندی اور شدت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے تاثر کی وجہ سے ایک طرف ہم سیاسی طور پر عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ 2010-11 کے مالی سال کے دوران تجارتی خسارہ 15.604بلین ڈالر تھا جو 2011-12 کے دوران 21.271 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس طرح صرف ایک برس کے دوران تجارتی خسارے کی شرح میں36فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یوں اس وقت برآمدات کی شرح نمو منفی 4 فیصد ہو چکی ہے جب کہ درآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال 11.13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ بھی افراط زر اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے اور اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

لہٰذا ایک ایسی صورتحال میں جب توانائی کا بحران شدید ہو، امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہو اور مالیاتی بدانتظامی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہو بیرونی سرمایہ کاروں کی آمد تو دور کی بات خود اپنے ملک کے سرمایہ کار اور صنعتکار دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی مرکز کراچی میں بدامنی اور قتل و غارت گری اس بدترین مقام پر پہنچ چکی ہے کہ چھوٹے تاجر بھی اپنا کاروبار بند کرکے بیرون ملک منتقل کرنے پر غور کرنے لگے ہیں۔ یوں موجودہ مالیاتی اشاریے Indices معیشت کی بدترین زبوں حالی کو ظاہر کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی مذہبی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی، توانائی کا بحران، بے روزگاری، مہنگائی، اسٹریٹ اور دیگر جرائم میں تیز رفتار اضافہ، امن و امان کی مخدوش صورتحال، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی امن و امان قائم کرنے میں ناکامی کے علاوہ تیزی سے پھیلتا سیاسی انتشار ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کا سبب بن رہا ہے مگر ان مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی اور ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آرہی۔

پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی بحرانوں اور تیزی سے خراب ہوتی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے عالمی تجزیہ نگار پاکستان کو ایک ناکام ہوتی ریاست قرار دے رہے ہیں لیکن ریاست کی ناکامی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں بے شک اندرونی تضادات اور انتشار کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے لیکن قدرتی وسائل کی قلت، ہنرمند افرادی قوت کی کمی اور سب سے بڑھ کر سول سوسائٹی کے وجود کا نہ ہونا یا انتہائی کمزور ہونا ہے۔ پاکستان ایسی کسی صورت سے دوچار نہیں ہے۔

پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کی تقسیم کا طریقہ کار غیرمنصفانہ ہے۔ اسی طرح ہنرمند افرادی قوت بھی کم نہیں ہے جو ملک میں روزگار کے ذرایع سکڑنے کی وجہ سے بیرون ملک خدمات انجام دینے پر مجبور ہے۔ سول سوسائٹی نہ صرف اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ 2007ء کے بعد سے خود کو Assert بھی کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ میڈیا بھی اپنی تمامتر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود خاصا فعال ہے اس لیے پاکستان کو ناکام ہوتی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان نظم حکمرانی کے شدید بحران کا شکار ہے جس کی ذمے داری مقتدر اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو مناسب پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کرنے میں ناکام ہیں۔ حکمرانی کی ناکامی کی ایک وجہ فرسودہ انتظامی ڈھانچے اور غلط پالیسیوں پر اصرار ہے۔

پاکستان کو موجودہ بحران سے باآسانی نکالا جا سکتا ہے بشرطیکہ حکمران طبقات سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار بنیادی اقدامات کا فیصلہ کر لیں۔ اول، مذہبی تشخص کو اندرونی معاملہ تک محدود رکھیں اور کسی بھی دوسرے ملک کو اپنی حدود میں عقیدے کے نام پر پراکسی جنگ لڑنے کو سختی سے روکیں۔

دوئم، اقتدار و اختیار کی مرکزیت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام اختیارات کو نیک نیتی کے ساتھ نچلی سطح پر منتقل کریں اور صوبوں کو اپنے وسائل کے تصرف اور اپنی ترقی کی منصوبہ بندی کی اجازت دیں۔ سوئم، تمام آئینی، عدالتی اور سیاسی مسائل کو پارلیمان کے ذریعے حل کرنے کے کلچر کو فروغ دیں اور غیرجمہوری عمل سے گریز کو یقینی بنائیں۔ چہارم، علاقائی مسائل اور معاملات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں اور علاقائی تجارت کو فروغ دے کر معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کریں‘ اس لیے جو ملکی یا غیرملکی حلقے پاکستان کو ناکام ہوتی ریاست سمجھ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہاں صرف نظام حکمرانی ناکامی سے دوچار ہے جس کی درستی کے امکانات موجود ہیں بشرطیکہ سنجیدگی اور نیک نیتی کا مظاہرہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔