’’عوام پاکستانی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے‘‘

اچھا کام کریں گے تو تعریف ضرورہوگی، ہمیں کسی کی مدد کے بغیر خودکچھ کرکے دکھانا ہوگا، ایکسپریس فورم فوٹو: محمد عظیم/ایکسپریس

اچھا کام کریں گے تو تعریف ضرورہوگی، ہمیں کسی کی مدد کے بغیر خودکچھ کرکے دکھانا ہوگا، ایکسپریس فورم فوٹو: محمد عظیم/ایکسپریس

ایک وقت تھا جب پاکستانی فلموں کو دیکھنے اور ان سے محظوظ ہونے والوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ قومی فلمی دنیا کے اُس سنہری دور نے ایسے ایسے نامور فنکار متعارف کرائے جو ہزاروں دلوں کی دھڑکن اور پاکستانی فلم انڈسٹری کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ بنے۔

اُس دور میں خوبصورت فلمبندی، جاندار اور متاثرکُن اداری، بہترین کہانی، جاندار ڈائیلاگ اور جامع ہدایت کاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایک مقام عطا کیا تھا لیکن پھر ایسا لگا کہ جیسے ہماری فلم انڈسٹری کو، جسے ’’لالی ووڈ‘‘ کہا جاتا ہے ، کسی کی نظر لگ گئی۔ بدقسمتی سے فلمی دنیا میں ایسے لوگ آگئے جنھیں فلم بنانے  کا شوق اور وسائل تو میسر تھے لیکن وہ فلمی دنیا، اداکاری، ہدایت کاری، اسکرپٹ سے نا آشنا تھے ، انھوں نے معیار کے بجائے تعداد کو بہتر سمجھ کر جو فلمیں پروڈیوس کیں ، انھوں نے فلم انڈسٹری کا بیڑہ غرق کردیا۔ حال ایسا ہوا کہ لوگوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ سنیما جاکر فلمیں دیکھنا چھوڑدیا جبکہ یہ کسی زمانے میں بہترین تفریح سمجھی جاتی تھی۔ اس ابتر حالت کی وجہ سے سنیما بھی ختم ہونا شروع ہوئے لیکن پھر وقت بدلا اور ذہن بھی بدلے، نئے لوگ فلم انڈسٹری میں آئے جنھوں نے ماضی قریب میں  ایسی فلمیں بنائیں جن کی وجہ سے ناظرین ایک بار پھر سنیماگھروں کو جانا شروع ہوئے اور ہمارے ملک میں بھی سنیما جانے کو  تفریح کے طور پر لیا جانے لگا۔

پاکستان فلم انڈسٹری کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ اس وقت لالی ووڈ کی ترقی کے لیے کیا کرنا ہوگا؟، نئی پاکستانی فلمیں پاکستانی عوام کو سنیما لانے میں کامیاب ہوسکیں یا نہیں؟فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت سے کیا توقعات ہیں؟اس قسم کے مختلف سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے کراچی میں ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں فلم انڈسٹری کے مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات نے اظہار خیال کیا، اس مذاکرے کی روداد نذر قارئین ہے ۔

٭ ضروری نہیں کہ ہم جلد کامیابی حاصل کرلیں اور ہماری فلمیں سپرہٹ ہوجائیں ٭ موجودہ حکومت کے پاس ابھی تک گئے نہیں تو ان کو الزام دینا صحیح نہیں ہوگا٭ مجھے پوری امید ہے کہ  2016 میں مزید بہترین کارکردگی سامنے آئے گی٭قونصل خانوں اور سفارتخانوں میں پاکستانی فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جانا چاہیے،شرمین عبید چنائے

٭ ماضی میں پاکستانی فلموں نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی٭ حکومت ہمیں سپورٹ نہیں کررہی‘ کیمروں و پروڈکشن کے دیگر آلات پر ٹیکس معاف نہیں کیا جاتا٭فلم انڈسٹری کی بحالی کا آغاز ہوگیا ہے مگر ہمیں بھارت کی صورت میں ایسا چیلنج درپیش ہے جس سے فی الوقت مقابلہ مشکل ہے،سعید رضوی

٭ خوشی ہے کہ ناظرین ہمیں سپورٹ کررہے ہیں۔ فی الوقت پاکستان میں جو اسکرینز موجود ہیں ان پر صرف 4 سے7 لاکھ لوگ فلم دیکھ سکتے ہیں  جو کہ نا کافی ہیں٭کمرشل سینما کا دور ہے لوگوں کو کام کرنے دیں ایک وقت آئے گا جب سنجیدہ موضوعات پر بھی کام ہوگا اور متبادل سینما خود بخود ابھرے گا،حسن ضیا

٭ مجھے خوشی ہے ہمارے ملک کے نوجوانوں نے فلم انڈسٹری کی سوچ کو تبدیل کردیا٭ اچھی اور معیاری فلمیں بنا کر اس داغ کو دھو دیا گیا کہ پاکستان میں اچھی اور معیاری فلمیں نہیں بن سکتیں٭اچھے موضوعات نے  فلم بینوںکو   اپنی طرف متوجہ کیا ہے٭اب فلم انڈسٹری ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے ،سدرہ خان

٭ جس طرح پاکستانی فلمیں نئی ہیں اسی طرح ہمارے فلم بین بھی نئے ہیں٭ فلم انڈسٹری کی بحالی کے بعداب جو فلم شائقین ہیں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ انھیں پاکستانی فلمیں دیکھنی ہے یا بھارتی فلمیں٭ دبئی میں شاہ رخ خان فلم پروموٹ کرنے جاتا ہے تو پورا میڈیا پہنچ جاتا ہے لیکن پاکستانی فلم دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتاہے گویا 2 گھنٹے کا ڈرامہ دیکھ کر آئے ہوں

٭ بھارتی طرز کی فلمیں ہی باکس آفس پر ہٹ ہورہی ہیں اور عوام اسی کو پسند کررہے ہیں،دانش نواز

٭ اب دور بدل چکا ہے لوگ تفریح چاہتے ہیں اسی وجہ سے انٹرٹینمنٹ والی فلمیں کامیاب ہورہی ہیں٭عوام پاکستانی فنکاروں کی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔٭ ہم اپنے خدشات کو حکومت کے پاس لے کر جائیں گے جبکہ شرمین کی قونصل و سفارت خانے والی تجویز پر بھی کام کریں گے، وجاہت رؤف

٭ ماضی میں فلم بنانے والے شعور سے عاری تھے جس کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو نقصان اٹھانا پڑا

٭ ہم کم بجٹ میں بے حد محنت کے ساتھ فلمیں بنارہے ہیں اور بہتر بنارہے ہیں٭چند پروڈیوسرز کی فلم اچھی چلنے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی فلم میں خود کام نہیں کیا٭ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ جو فلم میں سرمایہ لگارہے ہیں وہ خود ہی رائٹر ہیں، خود ہی ڈائریکٹر اور خود ہی اداکار،اور اپنے اوپر پوری فلم بنارہے ہیں، ان لوگوں کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو نقصان ہورہا ہے،سعودقاسمی

شرمین عبید چنائے (آسکر ایوارڈ یافتہ فلم پروڈیوسر و ڈائریکٹر)

راتوں رات سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتااس کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم کوئی فیصلہ کرلیں کہ ہمیں یہ کرنا ہے تو پھر ڈٹ جانا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہم جلد کامیابی حاصل کرلیں اور ہماری فلمیں سپر ہٹ ہوجائیں، اس وقت میدان کھلا ہے، اچھا کام کریں گے تو تعریف ضرور ہوگی۔موجودہ حکومت کے پاس ابھی تک گئے نہیں تو ان کو الزام دینا صحیح نہیں ہوگا، ہمیں ان کے پاس بار بار جا کر اپنی بات کو باور کروانا ہوگا۔

2015 پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بہترین سال ثابت ہوا ہے جبکہ مجھے پوری امید ہے کہ  2016 میں مزید بہترین کارکردگی سامنے آئے گی اور یہ سال گذشتہ برس سے عمدہ ثابت ہوگا۔ بہت آسانی سے الزام لگا دیا جاتا ہے کہ پاکستانی فلمیں بھارتی فلموں کی چھاپ ہیں لیکن لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، ان کے مسائل ایک جیسے ہیں، لوگ ایک جیسے لباس پہنتے ہیں، موسیقی ایک جیسی پسند کرتے ہیں تو فلمیںکیسے مختلف ہو سکتی ہیں۔ حکومت فلموں کے لیے مالی امداد نہیں دیتی، اسپانسرز فلموں کے لیے سرمایہ دیتے ہیں  تو یہ بہت ضروری ہے کیونکہ اگر یہ بھی نہ ہو تو فلمساز فلمیں کیسے بنائیں، ہمیں کسی پر الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ یہ بالکل نئی انڈسٹری ہے۔

فلمسازوں کو چاہیے کہ مختلف ممالک میں پاکستان کے جو قونصل خانے اور سفارت خانے موجود ہیں، ان سے فلموں کی نمائش کے حوالے سے  بات کریں کہ وہ مختلف تقاریب کا انعقاد کریں جیسے بھارت اور ایران کرتا ہے جس سے نہ صرف پاکستانی فلموں کو انٹرنیشنل سطح پر فروغ ملے گا بلکہ پاکستان کا مثبت تشخص بھی قائم ہوگا۔ ماضی میں جو پاکستانی فلمیں تھیں ان میں بھی اس طرح کے گیت موجود ہوتے تھے اگر چہ اب کیونکہ بھارتی فلموں میں آئٹم سانگ کی  مثال سامنے ہے تواس پر زیادہ تنقید کی جارہی ہے، میں بذات خود اس میںکوئی قباحت نہیں سمجھتی۔

سعید رضوی (فلمساز و ہدایت کار)

وقت کا تقاضا ہے کہ جب تک ہم جدید ٹیکنالوجی سے باخبر نہ ہوں گے ،آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہمیں خودکچھ کرکے دکھانا ہوگا حکومت کے بھروسے پر نہیں رہنا چاہیے۔ ہم نے بہت احتجاج کرکے دیکھ لیا اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہم نے ماضی میںکافی آوازیں اٹھائی ہیں لیکن جواب میں صرف مسکراہٹ اور ٹال مٹول کے سوا کچھ نہیں ملا، حکومت ہمیں سپورٹ نہیں کررہی اور اوپر سے ہمارے سامنے بھارت کی صورت میں ایسا چیلنج درپیش ہیںجس سے فی الوقت مقابلہ مشکل ہے۔ ہمارے کیمروں اور دیگر آلات پر ٹیکس معاف نہیں کیے جاتے۔

1980 جو فلمیں ریلیز ہوئی ہیں اس میں قصور پروڈیوسرز سے زیادہ سنسر بورڈ کا ہے، سائنس فکشن میرا موضوع ہے، میں بھی رومانوی اور مزاح پر مبنی فلمیں بنا سکتا ہوں لیکن جب فلم انڈسٹری کی بحالی کی بات کی جاتی ہے تو آپ کو اپنے آپ کو تکنیکی طور پر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستانی فلموں نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی،بے پناہ ٹیلنٹ سامنے آیا لیکن اس کے باجود حکومت کی جانب سے کبھی فلم انڈسٹری کی سرپرستی نہیں کی گئی، خوشی کی بات ہے فلم انڈسٹری کی بحالی کا آغاز ہوا لیکن یہ ایک بہت مشکل چیلنج ہے۔ اب ہمارا مقابلہ دنیا کے اُن ممالک سے ہے جو فلموں میں نئی جدید ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔

وجاہت رؤف (پروڈیوسر)

ہر کوئی مختلف موضوعات اور مقاصد کے لیے کام کرتا ہے، میں رومانوی اور مزاح پر مبنی فلمیں اس لیے بناتا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ جب سنیما آئیں تو وہ خوشگوار موڈ لے کر باہر نکلیں۔ ہمارے ملک میں انتشار اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ ہر شخص پریشان ہے تو میں لوگوں کی پریشانی کم نہ بھی کرسکوں تو انھیں تفریح فراہم کروں تاکہ وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کو بھول سکیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ فلم میں برانڈنگ کے کروڑوں روپے ملتے ہیں تو یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ وہ پیسے اتنے ہی ہوتے ہیں جن میں فلم بن سکے۔

اب دور بدل چکا ہے لوگ تفریح چاہتے ہیں اسی وجہ سے انٹرٹینمنٹ والی فلمیں کامیاب ہورہی ہیں۔عوام پاکستانی فنکاروں کی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج ہم ایکسپریس کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ہیں اور اب خدشات کو حکومت کے پاس لے کر جائیں گے جبکہ شرمین کی قونصل و سفارت خانے والی تجویز پر بھی کام کریں گے۔میرا مشن ہے کہ   فلم دیکھنے والوں  کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہے، مسائل ڈسکس کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں ضروری نہیں کہ فلموں کے  ذریعے ہم ان مسائل کو موضوع بنائیں۔

دانش نواز (اداکار)

جس طرح پاکستانی فلمیں نئی ہیں اسی طرح ہمارے فلم بین بھی نئے ہیں، فلم انڈسٹری کی بحالی کے بعداب جو فلم شائقین ہیں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ انھیں پاکستانی فلمیں دیکھنی ہے یا بھارتی فلمیں، جب بھارتی فلم لگتی ہے تو پوری فیملی دیکھنے جاتی ہے۔ دبئی میں شاہ رخ خان فلم پروموٹ کرنے جاتا ہے تو پورا میڈیا پہنچ جاتا ہے لیکن پاکستانی فلم دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتاہے گویا 2 گھنٹے کا ڈرامہ دیکھ کر آئے ہوں۔ جب پاکستانی ہدایت کار لوگوں کی پسند کو مد نظر رکھ کر بھارتی طرز کی فلم بناتا ہے تو تنقید کی جاتی ہے کہ بھارتی طرز کی فلمیں بنائی جارہی ہیں لیکن باکس آفس پر ہٹ وہی فلمیں ہورہی ہیں جو اس طرز کی ہیں عوام اسی کو پسند کررہے ہیں۔

ایک اچھی ابتدا ہے کہ پاکستان میں فلمیں بننا شروع ہوچکی ہیں،جب کوئی شعبہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرتا ہے تو حکومت اسے معاونت فراہم کرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ دنیا بھر میں حکومت سینمااور فلم انڈسٹری کو 40 فیصد معاونت فراہم کرتی ہے، ہماری حکومت کو چاہیے کہ جو سینما گھر عرصہ سے بند پڑے  ہیں انھیں بحال کرے اور دوبارہ بحال ہوتی فلم انڈسٹری کو سپورٹ کرے۔

حسن ضیا (پروڈیوسر)

پاکستانی اور بھارتی فلمیںایک جیسی ہی ہیں اور ایک جیسی رہیں گی، 1969 کی فلمیں دیکھ لیں اس میںمشترکہ پہلو اور طرزکی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی، فلموں میں پہلے بھی رقص ہوتے تھے اب اسے آئٹم سانگ کا نام دے دیا گیا ہے۔ ہمارے رواج، روسومات،تہذیب و ثقافت کئی حد تک ایک جیسے ہیں،لیکن خوشی ہے کہ ناظرین ہمیں سپورٹ کررہے ہیں۔ فی الوقت پاکستان میں جو اسکرینیز موجود ہیں ان پر صرف 4 سے7 لاکھ لوگ فلم دیکھ سکتے ہیں  جو کہ نا کافی ہیں۔کمرشل سینما کا دور ہے لوگوں کو کام کرنے دیں ایک وقت آئے گا جب سنجیدہ موضوعات پر بھی کام ہوگا، اور متبادل سینما خود بخود ابھرے گا،ہم فلم انڈسٹری کے مستقبل سے مطمئن ہیں کیونکہ آنے والا دور پاکستان کی فلم انڈسٹری کا دور ہوگا ۔

سدرہ خان (ادکارہ)

ماضی میں بنائی جانے والی فلموں سے فلم بینوں کو مایوسی  ہوئی کیونکہ  ہماری فلمیں اس معیار کی نہیں تھیں جو ملک کا نام روش کرتیں۔گزشتہ چند سال کے دوران  فلم انڈسٹری میں جو تبدیلی آئی ہے  وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ مجھے خوشی ہے ہمارے ملک کے نوجوانوں نے فلم انڈسٹری کی سوچ کو تبدیل کردیا اچھی اور معیاری فلمیں بنا کر اس داغ کو دھو دیا کہ پاکستان میں اچھی اور معیاری فلمیں نہیں بن سکتیں۔ اچھے موضوعات نے  فلم بینوںکو اپنی طرف متوجہ کیا ہے،میں تو کم از کم بہت خوش ہوں کہ  اب فلم انڈسٹری ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے اور آنے والے دنوں میں ہماری فلمیں باکس آفس پر راج کریں گی۔

سعود قاسمی (اداکار)

دنیا میں ہر طرح کی فلمیں بنتی ہیں ہر طبقے، ہر عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے فلمیں بنائی جاتی ہیں،یہ بات درست ہے کہ بھارتی فلموںکی وجہ سے ہماری سینما انڈسٹری کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے اور پاکستانی فلمسازوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ماضی میں فلم بنانے والے شعور سے عاری تھے جس کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو نقصان اٹھانا پڑا، ہمیںماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، ہم میں تو ابھی تک اتحاد ہی نہیں ہے۔

ہم کم بجٹ میں بے حد محنت کے ساتھ فلمیں بنارہے ہیں اور بہتر بنارہے ہیں،چند پروڈیوسرز کی فلم اچھی چلنے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی فلم میں خود کام نہیں کیا، ابھی مسئلہ یہ ہے کہ جو فلم میں سرمایہ لگارہے ہیں وہ خود ہی رائٹر ہیں، خود ہی ڈائریکٹر اور خود ہی اداکار، اور اپنے اوپر پوری فلم بنارہے ہیں، ان لوگوں کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو نقصان  ہورہا ہے۔

کچھ فلموں میں اداکاروں سے ہی کپڑے منگوائے جاتے ہیں اور انھیں واپس کرنے کے بجائے رکھ لیے جاتے ہیں۔بھارتی اداکار عامر خان کو چند لوگ پسند نہیں کرتے لیکن اکثریت ان کو پسند کرتی ہے اور وہی بزنس ہے، ہمیں ایسا بزنس چاہیے۔ پروڈیوسرز اداکاروں کی خوش آمدیں کرتے تھک جاتے ہیں کہ ہماری فلم پروموٹ کرو یا فلاں فورم پر آجاؤ، ہم لوگ آپس میں تعاون  نہیںکرتے ہمارے فنکاروں کو کوئی نہیں جانتا ہمیں اپنے فنکاروں کو اسٹارز بنانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔