’خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا‘

نصرت جاوید  جمعرات 19 جولائی 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پیر کو سپریم کورٹ میں اس 16سال پرانے مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی جو اصغر خان صاحب نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دائر کیا تھا۔ ایئر مارشل صاحب کا الزام ہے کہ 1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی فراغت کے بعد آئی ایس آئی نے اپنی پسند کے چند سیاستدانوں میں لاکھوں روپے بانٹے۔ ان رقوم کی تقسیم کے سبب پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے کھڑے کیے گئے امیدوار ہار گئے‘ جیت نواز شریف اور ان کے ہم نوائوں کا مقدر بنا دی گئی۔

1990ء کے انتخابات میں شکست کھا جانے کے بعد محترمہ کے کئی حامی اور پیروکار یہی دعویٰ کرتے پائے گئے تھے۔ سلمان تاثیر مرحوم نے اصغر خان کے محنتی اور تحقیق کے شوقین فرزند عمر اصغر خان مرحوم کے ساتھ مل کر ایک کتابچہ بھی لکھ دیا تھا جس میں اس دعویٰ کو کچھ حلقوں کے نتائج کی جانچ پڑتال کے بعد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی‘ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔

آئی ایس آئی ہی کے ایک بریگیڈیئر تھے‘ چونکہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اس لیے ان کا نام لکھنا مناسب نہیں‘ بس یہ بتا دینا کافی ہے کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دوست کے توسط سے میرے گھر آئے اور چند دستاویزات کا تذکرہ کیا جو بقول ان کے کسی بھی عدالت میں یہ ثابت کر سکتی تھیں کہ 1990ء کے انتخابات میں محترمہ کے مخالفین کی مالی معاونت کی گئی۔

مجھے چونکا دینے والی خبریں دینا اچھا لگتا ہے مگر کوئی شخص جب خود چل کر آپ کو ہلا دینے والی خبروں کا مواد بن سکنے والی دستاویز سمیت ملنے آئے تو ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس شخص کو آپ سے اتنی محبت کیوں ہو گئی ہے۔ یہی سوال ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اِدھر اُدھر ٹوہ لگائی تو پتہ چلا کہ ان بریگیڈیئر صاحب کے اس زمانے کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ اختلافات ہو گئے تھے۔ یہی اختلافات بالآخر ان کی فوج سے رخصتی کا باعث بھی بنے۔

میں ان دنوں نواز شریف صاحب کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا اور ان کے بنائے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور طریقے مسخروں جیسے لگا کرتے تھے مگر میں نے اپنے جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے معذرت کر لی۔ مرحوم بریگیڈیئر صاحب کو تو میں نے یہ بتایا کہ ان کی دی گئی معلومات کو خبر بنا کر اپنے اخبار میں چھپوانا میری اوقات سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے‘ مجھے کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے دیں‘ مگر سچ یہ بھی تھا کہ میں مرحوم بریگیڈیئر صاحب کی خاطر نواز شریف اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنا نشانہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ دوسروں کی لڑائی میں کرائے کا قاتل بننا ایک معمولی اور بکائو قسم کے رپورٹر کو وارا نہیں کھاتا۔ ’’وڈھے جوڑوں‘‘ میں ’’وڈھے صحافیوں‘‘ کا الجھنا ہی زیادہ بہتر ہوا کرتا ہے۔

بہرحال وہی بریگیڈیئر صاحب بالآخر کسی طرح اصغر خان صاحب سے ملے۔ اس دوران نواز شریف کی جگہ محترمہ دوبارہ اس ملک کی وزیر اعظم بن گئی تھیں۔ نصیراللہ بابر مرحوم ان کے وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے۔ بابر صاحب پر محترمہ کو اندھا اعتماد تھا۔ ویسے بھی وہ اپنے دھن کے پکے اور ضدی آدمی تھے‘ جو چاہتے کر گزرا کرتے تھے۔ انھوں نے ہی جنرل اسد درانی سے روابط استوار کیے‘ انھیں پاکستان کا جرمنی میں سفیر بنوایا اور پھر انھی سے حلف نامہ لیا۔ اس حلف نامے میں جنرل درانی نے اپنی زیرنگرانی سیاست دانوں میں بانٹی رقوم کی ساری تفصیلات بیان کر دیں۔ وہی حلف نامہ آج کل سپریم کورٹ کے زیر غور ہے۔

جنرل درانی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے آئی ایس آئی میں ایک سیاسی سیل بنا دیا تھا۔ 1990ء میں رقوم اسی سیل کے دائرہ اختیار و فرائض کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف سیاستدانوں میں بانٹی گئیں۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ سیکریٹری دفاع اور اٹارنی جنرل کو اس نوٹیفکیشن کی کاپی حکومتی ریکارڈ سے مل کر ہی نہیں دے رہی۔ سپریم کورٹ نے پھر بھی طے کر دیا ہے کہ اب آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل کام نہیں کرے گا۔ اس حکم کے بعد ہمارے ہاں جمہوریت کے متوالے اور سیاسی عمل کو ایجنسیوں کی مداخلت سے پاک دیکھنے والے بہت خوش ہیں۔ خدا ان کی خوشی کو قائم و دائم رکھے۔

میں غالب کی طرح برق کی تمنا کرتے ہوئے حاصل پر افسوس کرنے کے مرض میں مبتلا ہوں اس لیے پیر کے دن سے مسلسل یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانے میں ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ہوا کرتے تھے۔ 1993ء میں جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو فارغ کیا تو اس وقت کی اسمبلی کے اسپیکر گوہر ایوب خان عدالت میں چلے گئے۔ خالد انور‘ جو پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کے فرزند ہوا کرتے ہیں‘ نواز شریف پارٹی کے وکیل بنے۔

خالد صاحب ایک نامی گرامی وکیل تھے مگر آئینی معاملات سے متعلق ان کی کوئی مشہوری نہ تھی‘ پھر بھی اپنے دلائل سے انھوں نے عدالت اور صحافیوں کو حیران و ششدر کر دیا۔ بالآخر نسیم حسن شاہ صاحب کے فل بنچ نے فیصلہ دیا کہ غلام اسحاق خان کی طرف سے نواز شریف حکومت اور اس وقت کی قومی اسمبلی کو برطرف کرنا ایک غیرآئینی اقدام تھا۔ نواز شریف کی حکومت بحال کر دی گئی۔ اپنی قومی اسمبلی کی بحالی پر گوہر ایوب بھی بہت شاداں ہوئے اور سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کو قومی اسمبلی کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔

آج کل بھی اگر آپ قومی اسمبلی کی عمارت کی دوسری منزل پر پہنچ کر لفٹ سے باہر نکلیں تو وہاں کی دیواروں پر ایک طرف انگریزی اور دوسری طرف اُردو میں ترجمہ شدہ نواز شریف کی حکومت کو بحال کرنے والے سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ کو دیکھے بنا آگے نہیں بڑھ سکتے۔

مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے اس ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے بعد بھی نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑا‘ نئے انتخابات ہوئے اور محترمہ بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کی حکومت کو ’’فاروق بھائی‘‘ نے فارغ کیا تو سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا۔ جنرل مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی رخصتی کے بعد بھی نسیم حسن شاہ کا ’’تاریخی فیصلہ ‘‘ کسی کام نہ آیا۔ مشرف اور ان کے چیلے چانٹے نو سے زیادہ سال ’’گج وج‘‘ کر حکومت کرتے رہے۔

میری اپنے ربّ سے التجا ہے کہ اس مرتبہ تاریخ خود کو نہ دہرائے۔ آئی ایس آئی میں اگر واقعی کوئی سیاسی سیل ہے تو اب اپنا کام کرنا چھوڑ دے۔ سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر پوری توجہ یہ جاننے پر لگا دے کہ آج کل طالبان کو بنوں اتنا اچھا کیوں لگنا شروع ہو گیا ہے‘ وہ لاہور پہنچ کر تربیت لینے والے کچھ نوجوانوں کو کیسے اتنی آسانی سے قتل کر دیتے ہیں‘ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کیسے پہنچا اور کیوں اتنے برس اپنی تین بیویوں اور پتہ نہیں کتنے سارے بچوں اور خرگوشوں کے ساتھ ایک بہت بڑے کمپائونڈ میں ویڈیو فلمیں دیکھتا آرام و سکون سے زندگی بسر کرتا رہا۔

سیاستدان اپنا کام کریں اور آئی ایس آئی اپنا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوں‘ مرکز اور صوبوں میں عبور ی حکومتیں بنیں‘ صاف ستھرے آزاد اور منصفانہ انتخابات کروائیں اور پاکستان جمہوریت کی پٹڑی پر طمانیت بھری سیٹیاں مارتا خوشحال منزلوں کی طرف بڑھے۔ میری شدید خواہش ہے کہ یہ سب کچھ اسی طرح ہو جیسے میں سوچ رہا ہوں مگر پتہ نہیں کیوں یاد آ گیا کہ ’خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔