’ بھوت مسافر‘

ندیم سبحان  منگل 2 فروری 2016
جاپان میں آتمائیں ٹیکسیوں میں سفر کرنے لگیں! ۔ فوٹو : فائل

جاپان میں آتمائیں ٹیکسیوں میں سفر کرنے لگیں! ۔ فوٹو : فائل

 مارچ  2011ء میں آنے والے سونامی نے جاپان کے مشرقی حصوں میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی۔ 140 میٹر تک بلند سمندری لہروں نے ساحلی علاقوں کے اندر دس کلومیٹر تک بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کی تھیں۔ بپھری ہوئی لہریں سولہ ہزار انسانی جانیں نگل گئی تھیں۔ جاپانی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سونامی سے 127000 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوگئی تھیں، جب کہ پونے تین لاکھ کے لگ بھگ عمارتیں اور مکانات جزوی طور پر منہدم ہوئے تھے۔ جاپان کے مشرقی ساحلی علاقوں میں اس تباہی و بربادی کے نشانات ہنوز موجود ہیں۔

جاپانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق سونامی کی زد میں آنے والے علاقوں میں عجیب و غریب واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں، بالخصوص ٹیکسیوں میں بھوتوں کے سفر کرنے کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ان داستانوں کی حقیقت جاننے کے لیے توہوکو یونی ورسٹی میں سماجیات کی طالبہ یوکا کوڈو نے شہر کے سو سے زائد ٹیکسی ڈرائیوروں سے گفتگو کی۔ بیشتر نے ’بھوت مسافروں‘ کے موضوع پر بات چیت سے انکار کردیا۔ البتہ سات ڈرائیوروں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے عجیب وغریب واقعات پر لب کشائی کی۔

یاکی شورا نامی ڈرائیور نے طالبہ کو بتایا کہ 2011ء کے موسم گرما کی بات ہے ایک عورت اس کی ٹیکسی میں اشینوماکی اسٹیشن سے سوار ہوئی۔ اس نے لمبا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ گرمیوں میں اس عورت کے کوٹ پہننے پر یاکی کو اچنبھا ہوا مگر اس بابت وہ سوال نہیں کرسکتا تھا۔ اجنبی خاتون نے اس سے کہا،’’ میامیہاما اسٹیشن چلو‘‘۔ جب یاکی شورا نے خاتون سے کہا کہ سونامی کے بعد اس علاقے میں کچھ بھی نہیں بچا تو یکدم وہ چلّا کر بولی،’’ کیا میں مَر گئی ہوں؟‘‘ اس پر یاکی نے گھبرا کر گردن گھمائی تو پچھلی سیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا!

ایک اور ڈرائیور نے یوکا کو بتایا ،’’ وہ ایک نوجوان تھا۔ اندازاً اس کی عمر بیس سال رہی ہوگی۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اس نے بس اتنا کہا کہ آگے چلو۔ کچھ دور جانے کے بعد میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو اس نے آگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلتے رہو۔ کچھ دیر کے بعد میں نے پھر اس سے منزل کی بابت استفسار کیا تو جواب ملا’ ہیوریاما کی پہاڑی‘۔ جب میں نے وہاں پہنچ کر بیک ویو مرر میں نظر دوڑائی تو پچھلی نشست خالی تھی۔‘‘

یاکی شورا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات بہت سے ڈرائیوروں کے ساتھ پیش آچکے ہیں مگر وہ کھلے عام، بالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں اگر اس بارے میں زبان کھولی تو ’ بھوت مسافر‘ انھیں نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں۔

یاکی شورا اور دوسرے ڈرائیور اپنے دعوے کے درست ہونے کی دلیل میں میٹر کا ریکارڈ پیش کرتے ہیں۔ مسافر کے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور میٹر چالو کردیتے ہیں جس کی ریڈنگ ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔ اس ریکارڈ کی بنیاد پر ڈرائیور ٹیکسی سروس کو ادائیگی کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ’ بھوت مسافروں‘ کے غائب ہوجانے کے بعد ان کے حصے کی ادائیگی ڈرائیوروں نے کی تھی۔ کچھ نے تو لاگ بُک میں اپنے اپنے تجربے کا ذکر بھی کرڈالا تھا۔

ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات چیت کے بعد کوڈو کو معلوم ہوا کہ تمام ’ بھوت مسافر‘ تیس سال سے کم عمر کے تھے۔ کوڈو کو یقین ہے کہ یہ تمام ’ مسافر‘ سونامی کا نشانہ بنے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔