- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے دو ہزار 237 ارب پھنسنے کا انکشاف
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا: ٹی ایل پی سے معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
- راولپنڈی؛ نازیبا و فحش حرکات کرکے خاتون کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- حج فلائٹ آپریشن کا آغاز 9 مئی سے ہوگا
- کیویز کیخلاف سیریز سے قبل اعظم خان کو انجری نے گھیر لیا
- بجلی صارفین پرمزید بوجھ ڈالنے کی تیاری،قیمت میں 2 روپے94 پیسے اضافے کی درخواست
- اسرائیل کی رفح پر بمباری میں 5 بچوں سمیت11 افراد شہید؛ متعدد زخمی
- ٹرین سےگرنے والی خاتون کی موت،کانسٹیبل کا ملوث ہونا ثابت نہ ہوسکا، رپورٹ
- 'ایک ساتھ ہمارا پہلا میچ' علی یونس نے اہلیہ کیساتھ تصویر شیئر کردی
- بجلی چوری کارخانہ دار کرتا ہے عام صارف نہیں، پشاور ہائیکورٹ
- عدلیہ میں مداخلت کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا سپریم کورٹ سے رجوع
- مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئی اور شرح مبادلہ مستحکم ہے، وزیر خزانہ
- پی ٹی آئی کی جلسوں کی درخواست پر ڈی سی لاہور کو فیصلہ کرنے کا حکم
- بابراعظم سوشل میڈیا پر شاہین سے اختلافات کی خبروں پر "حیران"
- پنجاب اسمبلی سے چھلانگ لگاکر ملازم کی خودکشی کی کوشش
- 9 مئی کے ذمے دار آج ملکی مفاد پر حملہ کر رہے ہیں، وزیراطلاعات
- کراچی میں تیز بارش کا امکان ختم، سسٹم پنجاب اور کےپی کیطرف منتقل
’ بھوت مسافر‘
مارچ 2011ء میں آنے والے سونامی نے جاپان کے مشرقی حصوں میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی۔ 140 میٹر تک بلند سمندری لہروں نے ساحلی علاقوں کے اندر دس کلومیٹر تک بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کی تھیں۔ بپھری ہوئی لہریں سولہ ہزار انسانی جانیں نگل گئی تھیں۔ جاپانی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سونامی سے 127000 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوگئی تھیں، جب کہ پونے تین لاکھ کے لگ بھگ عمارتیں اور مکانات جزوی طور پر منہدم ہوئے تھے۔ جاپان کے مشرقی ساحلی علاقوں میں اس تباہی و بربادی کے نشانات ہنوز موجود ہیں۔
جاپانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق سونامی کی زد میں آنے والے علاقوں میں عجیب و غریب واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں، بالخصوص ٹیکسیوں میں بھوتوں کے سفر کرنے کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ان داستانوں کی حقیقت جاننے کے لیے توہوکو یونی ورسٹی میں سماجیات کی طالبہ یوکا کوڈو نے شہر کے سو سے زائد ٹیکسی ڈرائیوروں سے گفتگو کی۔ بیشتر نے ’بھوت مسافروں‘ کے موضوع پر بات چیت سے انکار کردیا۔ البتہ سات ڈرائیوروں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے عجیب وغریب واقعات پر لب کشائی کی۔
یاکی شورا نامی ڈرائیور نے طالبہ کو بتایا کہ 2011ء کے موسم گرما کی بات ہے ایک عورت اس کی ٹیکسی میں اشینوماکی اسٹیشن سے سوار ہوئی۔ اس نے لمبا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ گرمیوں میں اس عورت کے کوٹ پہننے پر یاکی کو اچنبھا ہوا مگر اس بابت وہ سوال نہیں کرسکتا تھا۔ اجنبی خاتون نے اس سے کہا،’’ میامیہاما اسٹیشن چلو‘‘۔ جب یاکی شورا نے خاتون سے کہا کہ سونامی کے بعد اس علاقے میں کچھ بھی نہیں بچا تو یکدم وہ چلّا کر بولی،’’ کیا میں مَر گئی ہوں؟‘‘ اس پر یاکی نے گھبرا کر گردن گھمائی تو پچھلی سیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا!
ایک اور ڈرائیور نے یوکا کو بتایا ،’’ وہ ایک نوجوان تھا۔ اندازاً اس کی عمر بیس سال رہی ہوگی۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اس نے بس اتنا کہا کہ آگے چلو۔ کچھ دور جانے کے بعد میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو اس نے آگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلتے رہو۔ کچھ دیر کے بعد میں نے پھر اس سے منزل کی بابت استفسار کیا تو جواب ملا’ ہیوریاما کی پہاڑی‘۔ جب میں نے وہاں پہنچ کر بیک ویو مرر میں نظر دوڑائی تو پچھلی نشست خالی تھی۔‘‘
یاکی شورا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات بہت سے ڈرائیوروں کے ساتھ پیش آچکے ہیں مگر وہ کھلے عام، بالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں اگر اس بارے میں زبان کھولی تو ’ بھوت مسافر‘ انھیں نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں۔
یاکی شورا اور دوسرے ڈرائیور اپنے دعوے کے درست ہونے کی دلیل میں میٹر کا ریکارڈ پیش کرتے ہیں۔ مسافر کے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور میٹر چالو کردیتے ہیں جس کی ریڈنگ ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔ اس ریکارڈ کی بنیاد پر ڈرائیور ٹیکسی سروس کو ادائیگی کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ’ بھوت مسافروں‘ کے غائب ہوجانے کے بعد ان کے حصے کی ادائیگی ڈرائیوروں نے کی تھی۔ کچھ نے تو لاگ بُک میں اپنے اپنے تجربے کا ذکر بھی کرڈالا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات چیت کے بعد کوڈو کو معلوم ہوا کہ تمام ’ بھوت مسافر‘ تیس سال سے کم عمر کے تھے۔ کوڈو کو یقین ہے کہ یہ تمام ’ مسافر‘ سونامی کا نشانہ بنے تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔