چھلکوں کے دام

ایاز خان  منگل 2 فروری 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

اخباروں میں کبھی منڈیوں کے بھاؤ چھپا کرتے تھے۔جہاں تک یاد پڑتا ہے سبزیوںاور پھلوں کے ریٹس کی ایک فہرست ہمارے پاس آیا کرتی تھی جو صفحہ 2 یا 4پر شایع کر دی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ تبدیلی آ گئی۔اخبارات میں اشتہار بڑھ گئے تب یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ منڈیوں کے بھاؤ کی یاد ہفتے کو اس وقت آئی جب نجی چینلز وزیر اعظم نواز شریف کی ایک معصومانہ بات کا بتنگڑ بنانے میں مصروف تھے۔

وزیر اعظم صاحب پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر رہے تھے کہ اچانک انھوں نے افراط زر میں کمی کے ساتھ ہی آلو کی قیمت کا بھی ذکر کر دیا۔ ان کے خیال میں ہفتے کو آلو 5‘4یا 6 روپے کلو تک بک رہا تھا جب کہ چینلز کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں کے بازاروں میں اس کی قیمت 15 سے 20 روپے فی کلو تھی۔ جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ ملک اس وقت جمہوری دور سے گزر رہا ہے۔ اس مناسبت سے ہمارے وزیر اعظم جینوئن سیاست دان ہیں۔

سیاسی لوگ بعض اوقات جوش خطابت میں کوئی انہونی بات بھی کہہ دیتے ہیں۔ کسی جلسے میں آٹھ سے دس ہزار لوگ آجائیں تو اسے لاکھوں کا اجتماع قرار دے ڈالتے ہیں۔اسی طرح ہمارے جمہوری اور سیاستدان وزیر اعظم جب پٹرول وغیرہ سستا کرنے کا اعلان کر رہے تھے تو جوش خطابت میں آلو کی فی کلو قیمت بھی تین چار گنا کم بتا گئے۔ سیاست دان ضرورت کے تحت تعداد یا قیمت کم یا زیادہ کر لیتے ہیں۔ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں۔

آلو5  روپے فی کلو بکے یا 15 سے 20 روپے فی کلو‘ کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے نجی چینلز چونکہ بریکنگ نیوز کی مشق ستم کے مارے ہوئے ہیں اس لیے ان تک جیسے ہی وزیر اعظم صاحب کی یہ ساؤنڈ بائٹ پہنچی انھوںنے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک چینل کافی دیر تک اس ’’ٹوٹے‘‘ کو کچھ یوں چلاتا رہا۔ ’’وزیر اعظم کا آلو 5 روپے کلو‘‘۔ بھئی یہ بڑی زیادتی ہے۔ کیا کسی وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ سبزی خریدنے یا ریٹ معلوم کرنے منڈی یا کسی دکان پر جائے۔ اس کی تو فیملی کے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ یہ کام نہیں کر سکے۔

ہمارے جیسے ملکوں میں تو ایسا تب بھی ممکن نہیں تھا جب امن و امان کی صورتحال بہتر ہوا کرتی تھی۔ آج تو ویسے ہی سیکیورٹی تھریٹس بہت زیادہ ہیں۔ ہاں البتہ کوئی دھرنے وغیرہ کے حالات ہوں تو دوسری بات ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وزیر اعظم ہاؤس ایک سسٹم کے تحت چلتا ہے۔ سبزی‘ پھل‘ گوشت‘ انڈے‘ دودھ وغیرہ سب کچھ خود چل کر آ جاتا ہے۔ قومی خزانے سے بجٹ میںایک خاص رقم مختص کر دی جاتی ہے۔ اس رقم میں سے ہر چیز کی پے منٹ ہو جاتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے مرد حضرات کو آٹے‘ دال اور سبزی کا بھاؤ کہاں معلوم ہوتا ہے یہ خاص خواتین کا شعبہ ہے۔

مرد اپنے گھر کی خواتین کو ایڈوانس پے منٹ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ انھیں آٹے دال کا بھاؤ صرف اس وقت معلوم ہوتا ہے جب خواتین کی طرف سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ وہ بھولے بادشاہ یہ سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں کہ گروسری کے لیے جتنی رقم گذشتہ ماہ دی تھی اتنی ہی ہر ماہ دینا پڑے گی۔ خواتین البتہ بضد ہوتی ہیں کہ ہر ماہ قیمتیں پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ مجھے خواتین کی یہ بات اس لیے ہضم نہیں ہوتی کیونکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں ہی کہتے ہیں افراط زر میں کمی ہو گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ افراط زر کم ہو جائے اور قیمتیں بڑھ جائیں۔ کہیں تو گڑ بڑ ہے۔

5 روپے کلو آلو کی بریکنگ نیوز جب سے دیکھی ہے تب سے سوچ رہا ہوںکہ اس کی بیک گراؤنڈ کیا ہوسکتی ہے۔ نواز شریف صاحب نے آلو کے ریٹ بتانے سے پہلے شاید اپنے کسی قریبی ساتھی سے مشورہ کیا ہوگا؟ یہ ساتھی سیاسی بھی ہو سکتا ہے اور صحافی بھی۔ ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم عموماً ایسے مواقع پر سیاسیوں سے زیادہ صحافیوں کی بات سنتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں کسی نے بتایا ہو کہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا کافی سستی ہو گئی ہیں۔ آلو کے بارے میں بھی کہا گیا ہو گاکہ یہ 80 روپے کلو ہوا کرتا تھا مگر اب کافی ارزاں دستیاب ہے۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بتانے والے کو بھی ریٹ ٹھیک طرح سے معلوم نہ ہو۔ سوچ بچار یہ فایدہ ہوا کہ میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ وہ یہ کہ اگر کسی دوسرے نے وزیر اعظم صاحب کو آلو کا یہ ریٹ بتایا ہے تو وہ یقینا کوئی مرد ہی ہو سکتا ہے۔ میرے اس سائنسی بنیادوں پر کیے گئے تجزیئے کی واحد وجہ یہ ہے کہ کوئی خاتون یہ کام کرتی تو اسے آلو کا درست بھاؤ ہر صورت معلوم ہوتا۔ ایک وجہ اور بھی ہو سکتی ہے۔

پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میںچونکہ 5روپے لیٹر کمی کی گئی تھی اس لیے 5 روپے کا فگر وزیر اعظم صاحب کے ذہن میں رہ گیا اور وہی زبان سے ادا بھی ہو گیا۔ مجھے تو اس سارے قصے میں وزیر اعظم کا کوئی قصور دکھائی نہیں دیتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ تھیں تو جیالے نعرہ لگایا کرتے تھے‘ یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور۔ اب متوالوں کو بھی اس نعرے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

آلو کے ریٹ کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ پٹرول کے ریٹ پر کپتان میدان میں آ گئے۔ وہ گویا ہوئے کہ عالمی منڈی میں پٹرول 80 فیصد تک سستا ہوا لیکن قوم کے نصیب میں صرف 5 روپے لٹر کمی۔ اب خان صاحب کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ انھوںنے خیبر پختونخوا میں درخت لگانے کا جو ٹارگٹ سیٹ کیا ہے اس پر دلجمعی سے لگے رہیں۔ پٹرول کتنا اور کب ستا کرنا ہے اور کب اس کی قیمتیں برقرار رکھنی ہیں یا ان میں اضافہ کرنا ہے یہ حکومت کا ہی درد سر رہنے دیں۔

معیشت کی مضبوطی اور ترقی کے ’’دشمن‘‘ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی فی لٹر قیمت بھی آلو کے فی کلو نرخ کے برابر کرنے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ ایسے مطالبات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ چند ماہ پہلے وزیر اعظم صاحب نے کہا تھا کہ وہ اپنی جیب سے پٹرول پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ وہ اپنی جیب سے کتنی اور کب تک سبسڈی دیں ؟ خود کو طرم خاں سمجھنے والے حساب لگا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ کے مطابق پٹرول 20روپے لیٹر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگ بڑے ہی عجیب ہیں۔

نجی چینلز ہوں یا حکومت کے ناقدین انھیں تو انسانوں کی قدر نہیں یہ بھلا ایک سبزی کے جذبات کا کیسے خیال رکھ سکتے ہیں ۔ ان’’ ظالموں‘‘نے سوچا تک نہیں ہو گا کہ ان کے اس کھیل میں بے چارے آلو پر کیا گزری ہو گی۔ اس کے جذبات سے اس بے رحمی کے ساتھ کھیلنا؟ بہت بری بات ہے۔ ہم سب کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت جب کہتی ہے کہ معیشت مضبوط ہو گئی ہے تو اسے ماننے میں کیا حرج ہے۔

مہنگائی میں بے انتہا کمی کا حکومتی دعویٰ بھی فوری مان لینا چاہیے۔ نواز شریف صاحب نے اپنی تیسری مدت جمہوریت کا جب سے آغاز کیا ہے ریکارڈ غیر ملکی دورے کیے ہیں۔ یہ دورے وہ اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں سیاحت کا شوق ہے یا وہ اپنے ذاتی بزنس کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے سارے بیرونی دورے اس ملک اور قوم کی بہتری اور خدمت کے لیے ہیں۔ مگر کیا کریں یہ قوم احسان فراموشوں سے بھری ہوئی ہے۔

بے چارے آلو کی چینلز کے ہاتھوں بننے والی درگت سے مجھے وہ محاورہ یاد آ گیا جس میں سستے آم کا ذکر ہے یعنی ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ آلو کے حوالے سے ایک نیا محاورہ یوں بن سکتا ہے’’آلو کے آلو چھلکوں کے دام‘‘ اس محاورے میں ردیف قافیہ نہیں ملتا مگر بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔