آؤ کرپشن کریں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 3 فروری 2016

آؤ سوچیں، لیکن اس سے بھی پہلے یہ سوچیں کہ کیا سوچیں اور یہ بھی کہ آیا سوچیں بھی یا نہ سوچیں اور سوچیں تو کیوں سوچیں ساری دنیا ہمارے پیچھے ہی پڑ گئی ہے کہ ہم سوچتے نہیں ہیں ظاہر ہے انھیں تو کوئی کا م دھندہ ہے نہیں سارا وقت فارغ ہی فارغ ہوتے ہیں۔ اس لیے اور کچھ نہیں تو سوچنے ہی بیٹھ جاتے ہیں اور تو اور یہ سوچنے بھی بیٹھ جاتے ہیں کہ آخر دوسرے لوگ سوچتے کیوں نہیں ہیں، جب ہم نے 68 سالوں میں کبھی نہیں سوچا تو اب کونسی ایسی قیامت آ پڑی ہے جو اب سوچیں 68 سالوں کے درمیان کوئی بھی ایک کام بتا دیں جو سوچ کر کیا گیا ہو یا کوئی ایسا عمل بتا دیں، جس میں یہ ظاہر ہو کہ اسے کرنے سے پہلے اس کے لیے سوچا گیا ہو۔

چلو اس کو تو چھوڑو قومی یا سیاسی قیادت کا کوئی بھی دیا گیا ایسا بیان دکھا دو جسے دینے سے پہلے سوچا گیا ہو۔ اور ویسے ہم کون سے دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہنے آئے ہیں، جو سوچنے بیٹھ جائیں۔ ظاہر ہے دو چار روز کی ہی تو زندگی ہے مزے کریں۔ موج مستی کریں کرپشن کریں، سوچنے میں اپنا وقت کیوں ضایع کریں اگر سوچیں گے تو پھر ڈریں گے بھی، کچھ نہیں تو بزدل ہی ہو جائیں گے۔ کمزور پڑ جائیں گے پھر بڑے بڑے کام کیسے کر پائیں گے جو اب تک کرتے آ رہے ہیں، اگر ہمارے بڑے بڑے فنکار سوچتے ہوتے تو کیا وہ اتنے بڑے بڑے کام دکھا پاتے کیا وہ اس طرح پلاٹوں، محلوں، ملوں، زمینوں، جاگیروں کے مالک بن پاتے۔ کیا ملک میں چائنا کٹنگ ہو رہی ہوتی کیا ملکی اداروں میں اتنے بڑے بڑے گھپلے ہو رہے ہوتے۔

کیا اس طرح ملک اور عوام کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے لوٹاجا رہا ہوتا کیا پرمٹوں اور کمیشنوں کا کاروبار اس طرح عروج پر ہوتا۔ کیا یہ سب کچھ جو 68 سالوں سے ہوتا آ رہا ہے اسی طرح سے ہو پاتا۔ ظاہر ہے، آپ کا بھی میری طرح جواب نا میں ہی ہو گا کیونکہ اگر ہم سوچتے تو پھر سب سے پہلے یہ ذہن میں آتا کہ ان کرتوتوں کے بعد خدا کے پا س جا کر کیا منہ دکھائیں گے، پھر اس کے بعد، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے کے موٹی موٹی توندوں والے افسران چاروں طرف دکھائی دیتے اور فوجی عدالتوں کا تو خیال آتے ہی کانپنے لگ جاتے اور تسبیح اٹھا کر مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے اور زور زور سے اللہ ہو کا ورد پڑھ رہے ہوتے اور دوسروں کو بھی خو ف خدا یاد کروا رہے ہوتے اور اپنی بیوی اور بچوں کی فرمائشوں پر انھیں وہ وہ سنا رہے ہوتے کہ پڑوسی بھی کچھ کرنے سے پہلے ہی توبہ توبہ کر رہے ہوتے۔

اصل میں ہمارا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ سقراط ہے کیونکہ سوچنے کی بیماری کے وائرس دنیا میں سب سے پہلے سقراط نے ہی پھیلائے تھے۔ جو یہ کہتا پھرتا تھا کہ سوچو ظاہر ہے، اسے ہماری طرح کوئی کام وام تو تھا نہیں سارا دن بس ننگے پاؤں گھومتا رہتا تھا اگر وہ ہمارے زمانے میں اور ہم میں پیدا ہوتا تو یہ کبھی نہ کہتا پھرتا کہ سو چو بلکہ یہ کہتا کہ کبھی بھی مت سوچو اور ہمیشہ ہی بس کرتے جاؤ کبھی فرصت ملی تو سوچ لینا ورنہ ضرورت ہی کیا ہے سو چنے کی۔ جب ہمارے بزرگوں نے ہی کبھی نہیں سوچا تو ہم کیوں سوچیں۔ اس لیے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے کبھی بھی نہیں سوچا اور نہ ہی کسی اور کو سوچنے دیا کیونکہ یہ سو چ ہی ہے جو ہماری خوشحالی، مسرتوں، پلاٹوں، جاگیروں، محلوں، بینک بیلنس، عیش و آرام، باہر کے دوروں اور جائیداد کی اکلوتی اور واحد دشمن ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور خوبی جو ساری دنیا کے برعکس ہم میں اور پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ٹی وی دیکھنے والی قوم بن کے رہ گئے ہیں ہم روز اپنے گھروں کے صوفے پر بیٹھ کر پوری دنیا کو کام کرتا دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اور بس دیکھتے رہتے ہیں اور اپنا ہلنا تک ہمیں گوارا نہیں اپنی جگہ سے ہلنا ہمیں مر جانے سے زیادہ مشکل لگتا ہے اور ان لوگوں کا جو واقعی اپنی زندگی میں کچھ کر رہے ہیں اور دوسرے انسانوں اور انسانیت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں جو سائنس، طب، ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، ادب میں نئے نئے پہاڑ سرکر ر ہے ہیں، ان لوگوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں، انھیں کوستے رہتے ہیں جی بھر بھر کے برا بھلا کہتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ وہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہے ہیں۔

انھیں تھوڑی اور محنت کرنی چاہیے اور چیزوں کو مزید پرفیکشن کے ساتھ کرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہ سب مسلمانوں کے دشمن ہیں اور یہ ساری چیزیں ساری ایجادات مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہونگی یہ سب مسلمانوں کو مٹانے پر تلے بیٹھے ہیں اور اگر کوئی صاحب ازارہ مذاق ان کے کان میں یہ بات کہہ دے کہ میں مغربی ممالک کا ویزا آپ کو لگوا سکتا ہوں کیونکہ ان ممالک کے سفارت خانوں میں میری بڑی جان پہچان ہے تو یہ سنتے ہی ہم ان صاحب کے پیچھے ہاتھ پاؤں دھو کر پڑ جاتے ہیں کہ خدا کے واسطے جلدی سے ہمارا ویزا لگوا دو جلد ی سے ہماری اس ملک سے جان چھڑا دو تا کہ ہم اپنی بقیہ زندگی چین و سکون و آرام سے گزار سکیں اور تو اور ہم ان صاحب کے پاؤں پکڑنے میں بھی دیر نہیں لگاتے ہیں اور انھیں راضی رکھنے کے لیے جو بن پڑتا ہے کرتے رہتے ہیں۔

سابق امریکی صدر لنکن نے کہا تھا ’’آدمی اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا کہ وہ ہونا چاہتا ہے‘‘ اگر ہم اسی حال میں خوش ہیں تو پھر مزید بات کرنا بیکار ہے، لیکن اگر ہم اپنی موجودہ زندگی اور رویوں سے بیزارہو گئے ہیں تو پھر آئیں میں آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ جیمزلین ایلن اپنی کتاب ’’انسان کیسے سوچتا ہے‘‘ میں لکھتا ہے ’’جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو گئی ہے، اگر کوئی انقلابی طور پر اپنے خیالات کو تبدیل کرے تو وہ اس تیز رفتار تغیر کو دیکھ کر حیران رہ جائے گا، جو اس کے مادی حالات پر اثر انداز ہو گا۔

انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے، جنہیں وہ چاہتا ہے بلکہ انھیں جو وہ خود ہے وہ دیوتا جو ہماری خواہشوں اور آرزؤں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں خود ہم ہی ہیں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اس کے خیالات کا براہ راست نتیجہ ہوتا ہے ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھ سکتاہے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کامیابی کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکار کرے گا تو وہ صرف حقیرکمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال رہے گا۔ ‘‘ آئیں! ہم اپنے خیالات کو یکسر تبدیل کر دیں لیکن اس کے لیے ہمیں سوچنا پڑے گا تو پھر آئیں ابھی سے سوچنے کا آغازکر دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔