خونی شکنجہ

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 4 فروری 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لینا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ مایوسی اور لاچاری مگر جب اپنی آخری حدوں کو چُھونے لگے تو یہ مشکل راہ بھی آسان ہوجاتی ہے۔ ریسرچ اسکالر اور پی ایچ ڈی کے ذہین طالب علم روہت ویمولا نے بھی بے پناہ سماجی دباؤ اور ناقابلِ برداشت معاشی تنگدستی سے مجبور ہوکر اپنی زندگی کی ڈور خود ہی کاٹ ڈالی۔ خودکشی کا یہ سانحہ 17جنوری 2016ء کو بھارت کے ایک معروف تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف حیدرآباد، میں وقوع پذیر ہوا۔ اس کی بازگشت ابھی تک سارے بھارت میں سنائی دے رہی ہے۔

بجا طور پر اس سانحہ نے نریندر مودی اور ان کی متعصب جماعت، بی جے پی کو ملک بھر میں مزید بدنام کر دیا ہے۔ مودی حکومت جو پہلے ہی بھارت کے نامور 39ادیبوں اور شاعروںکی طرف سے حکومتی ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج میں اپنے ادبی ایوارڈز واپس کیے جانے کی وجہ سے شدید نفسیاتی دباؤ میں تھی، نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا کی خودکشی کے سانحہ نے اسے مزید توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

بھارت میں ذات بات کی تقسیم نہایت گہری اور قدم قدم پر اس لعنت کا احساس دلاتی ہے۔ نام نہاد اعلیٰ ذاتی ہندوؤں نے اپنے ہی ہم مذہب نچلی ذات کے ہندوؤں کا جینا حرام بنا رکھا ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو کبھی ’’اچھوت‘‘ کہا جاتا ہے اور کبھی ’’دلت‘‘۔ کبھی یہ ’’بہوجن‘‘ کہلاتے ہیں اور کبھی انھیں ’’ہریجن‘‘ کا  نام دے کر ذلت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ ملازمتوں، تعلیمی اداروں اور حتیٰ کہ مذہبی مقامات پر ان بے چاروں کو حقارت اور نفرت سے دیکھا اور دانستہ دور رکھا جاتا ہے۔

آفرین ہے بھارت کے ان دلتوں،  ہریجنوں، بہوجنوں اور اچھوتوں پر جو اس غیر انسانی معاشرے میں زندگی بِتا رہے ہیں۔ اب ان کے اندر مگر غاصبوں اور ناانصافوں کے خلاف غصہ اور نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ گویا بھارت اجتماعی طور پر سماجی اعتبار سے ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یقینا یہ ایک روز دھماکے سے پھٹنے والا ہے۔

بھارت کی معروف صحافی اور اینکر، برکھا دَت، نے اپنی تازہ کتاب (This  Unquiet  Land) میں ذلّت کے مارے بھارتی دلتوں کے بارے میں جو اشکبار کہانیاں رقم کی ہیں اور جو پیشگوئیاں کی ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہونی والی ہیں۔ غریب بھارتی طالب علموں میں مجبورِ محض روہت ویمولا کی خود کشی سے پیدا ہونے والا زبردست ہیجان اور احتجاج اس کا تازہ عنوان بن گیا ہے۔ غصے اور طیش میں اٹھنے والی آوازوں کو فرو کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم کو برسرِ مجلس، دست بستہ، معافی مانگنا پڑی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔

روہت ویمولا ان پانچ دلت مگر اعلیٰ علمی بیک گراؤنڈ رکھنے والے ہندو ریسرچ اسکالروں میں سے ایک تھا جو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انھیں صوبائی حکومت کی طرف سے 25/25ہزار روپے وظیفہ مل رہا تھا۔ ان کا سارا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار اور غیر متنازعہ تھا۔ جُرم ان کا مگر یہ تھا کہ یونیورسٹی کے دَورے پر آئے مقتدر بی جے پی کے ایک اعلیٰ ذاتی ہندو سیاستدان، سوشیل کمار، کی بدزبانی کے خلاف انھوں نے اٹھ کر احتجاج کیا۔ دلت ہوکر یہ جرأت؟ سیاستدان اس وقت تو خاموش ہوگیا لیکن بعدازاں دلت طالب علموں کو سبق سکھانے کے لیے اپنے دیگر اعلیٰ جاتی ممبرانِ اسمبلی سے مل کر یونیورسٹی کے وائس چانسلر (اپاراؤ) اور وزیرِ تعلیم (سمریتی ایرانی) پر دباؤ ڈالا اور پانچوں کو یونیورسٹی اور ہوسٹل سے نکلوا دیا۔

وظائف بھی بند کردیے۔ یہ گذشتہ برس اگست کے مہینے کی بات ہے۔ تقریباً نصف برس گزر گیا مگر اپا راؤ اور سمریتی ایرانی نے روہت ویمولا سمیت پانچوں پی ایچ ڈی دلت طالب علموں کو بحال کیا نہ ہوسٹل میں آنے دیا۔ پانچوں طالب علم گذشتہ چھ ماہ سے مسلسل یونیورسٹی کی گراؤنڈ میں، احتجاجاً، خیمہ لگا کر نہایت بدحالی اور کسمپرسی میں رہ رہے تھے۔ روہت ان میں زیادہ حساس تھا۔ سترہ جنوری 2016ء کو اس نے اپنے والدین ، ساتھی طالب علموں اور اساتذہ کے نام آخری خط لکھا اور خودہی موت کو گلے لگا لیا۔ اس خط کے مندرجات بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اب بھی شایع اور نشر ہورہے ہیں۔

خط کا ایک ایک لفظ مایوسی، دباؤ، پریشانی میں ڈوبا ہوا نظر آتا اور پڑھ کر دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ دہلی میں بروئے کار تھنک ٹینک، سینٹر فار پالیسی ریسرچ، کے سربراہ پرتاپ بھانو مہتہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں بجا طور پر روہت کے اس خط کے مندرجات پر آٹھ آٹھ آنسو بہائے ہیں۔ بھارت کا کوئی اخبار، کوئی رسالہ، کوئی نجی ٹی وی ایسا نہیں جہاں اس خط اور خودکشی کی گُونج سنائی نہ دے رہی ہو۔ بھارتی پارلیمنٹ (لوک سبھا، راجیہ سبھا اور بھارت بھر کی ریاستی اسمبلیاں) میں اپوزیشن اور بھارتی عوام نے سڑکوں پر نریندر مودی، بی جے پی، اعلیٰ ذاتی ہندوؤں، متعلقہ سیاستدانوں (سوشیل کمار)، وائس چانسلر اپا راؤ اور وزیرِ تعلیم سمریتی ایرانی کے خلاف طوفان اٹھا رکھا ہے۔

اس طوفان میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کے کئی پروفیسرز بھی بہہ چکے ہیں اور کئی سیاستدانوں کو مستعفی ہونا پڑا ہے۔ اور جب 21جنوری 2016ء کو لکھنو کا دورہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے بدقسمت اور جان سے ہارنے والے روہت ویمولا کے غریب والدین سے معافی مانگی تو لاتعداد طالب علموں نے وزیراعظم کے خلاف احتجاجی نعرے لگائے۔ مودی نے بھرائے لہجے میں (غالباً احتجاج کنندگان کو متاثر کرنے کے لیے) کہا: ’’بھارت ایسے مہان ملک کا ایک ذہین بیٹا زندگی ہار گیا۔

مجھے دلی رنج ہے۔ یہ اس ملک کی دلت برادری کا فرزند تھا جس ملک کے ایک دلت (ڈاکٹر امبیدکر) نے ہمارا آئین لکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی بھر (اعلیٰ ذاتی ہندوؤں کی طرف سے) طعنے سہے، توہین برداشت کی، نظرانداز کیے گئے مگر وہ لبوں پر کبھی شکایت نہ لائے۔‘‘ بپھرے ہوئے طالب علم مگر روہت کی موت کے خلاف شکایت بھی کر رہے ہیں اور بے پناہ احتجاج بھی۔ دہلی کے نوجوان وزیراعلیٰ، کجریوال، نے مرکزی وزیرِ تعلیم اور وائس چانسلر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

گویا غریب اور دلت روہت کی موت کے خلاف طوفان بڑھ رہا ہے۔ بھارتی دلتوں میں بیداری اور اپنے حقوق سے گہری آگاہی کے لیے اٹھنے والی یہ تازہ لہر حیرت خیز بھی ہے اور بھارتی برہمنوں کے لیے پریشان کن بھی۔ حکومت نے اگرچہ خودکشی کرنے والے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا کی غریب والدہ (رادھیکا) کو آٹھ لاکھ روپے کا امدادی چیک پیش کردیا ہے اور باقی چاروں دلت طلباء کو بحال بھی کردیا گیا ہے لیکن اب کیا فائدہ؟ شکنجہ تو ایک قیمتی زندگی نگل چکا ہے۔

ذات پات اور اونچ نیچ کا یہ خونخوار شکنجہ مگر اتنی آسانی سے اور جَلد ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ بھارت ہی میں ایک بہت بڑا بیوروکریٹ، جو خود بھی دلت تھا، اسی برہمنیت اور امتیازی سلوک کا شکار بنا ہے۔ اس کا نام امراؤ سلودیا تھا لیکن اب وہ امراؤ خان کہلاتا ہے۔ امراؤ سلودیا بھارتی ریاست راجستھان کا سینئر ترین بیوروکریٹ تھا۔ اکتیس دسمبر 2015ء کو راجستھان کے چیف سیکریٹری (سی ایس راجن) کو ملازمت سے ریٹائر ہوجانا تھا اور اس کی جگہ میرٹ پر امراؤ سلودیا کو چیف سیکریٹری بننا تھا مگر برہمن سامراج ذہنیت کی ماری ہندو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی نچلی ذات کا ہندو ریاست کا چیف سیکریٹری بن جائے؛ چنانچہ راجھستان کی وزیراعلیٰ (وسوندھرا راجی) اور گورنر (کلیان سنگھ) نے راتوں رات ملی بھگت کرکے ریٹائر ہونے والے چیف سیکریٹری سی ایس راجن کو تین ماہ کی توسیع دے دی۔

امراؤ سلودیا کے چیف سیکریٹری بننے کا راستہ روک دیا گیا، ہمیشہ کے لیے کیونکہ جون 2016ء کو سلودیا خود بھی ریٹائر ہونے والے ہیں؛ چنانچہ اس واضح زیادتی اور ظلم کے خلاف امراؤ سلودیا نے احتجاجاً ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ہندو مذہب کے شکنجے سے نجات حاصل کرکے اسلام بھی قبول کرلیا۔ امراؤ سلودیا اب امراؤ خان کہلاتے ہیں اور اسلام کے ہمیشہ زندہ رہنے والے دلکش پیغام، مساوات، سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

بھارتی ہندو اسٹیبلشمنٹ کو امراؤ صاحب کے اسلام قبول کرنے پر سخت ذہنی تکلیف پہنچی ہے۔ ان کے خلاف راجستھان ریاست اور پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر راجندر راٹھور نے مقدمہ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے مگر بھارتی آئین کی دفعہ 25تا 28 کے تحت عمل کرنے والے امراؤ خان کو اس طرح کی دھمکیوں کی زیادہ پروا نہیں رہی کیونکہ دستورِ ہند کی یہ دفعات انھیں مذہب تبدیل کرنے کا پورا حق دیتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔