عظیم لوگ جنہیں ناکامیاں پچھاڑ نہ سکیں

فرحان احمد خان  اتوار 7 فروری 2016
حالات کے بے رحم تھپیڑوں کے سامنے ہار نہ ماننے والے چند عظیم کرداروں کی کہانی ۔  فوٹو : فائل

حالات کے بے رحم تھپیڑوں کے سامنے ہار نہ ماننے والے چند عظیم کرداروں کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

ہر شخص کی زندگی میں ناکامیاں آتی ہیں۔ کبھی اپنی مرضی کا کام نہیں ملتا تو کبھی سخت محنت کے باوجود اس کا مناسب صلہ نہیں ملتا۔ لیکن کامیابی کا خواب دیکھنے والے لوگ ناکامیوں کے آگے ہتھیا ر نہیں ڈالتے وہ مایوسیوں کے بیچ سے امکانات کے پہلو تلاشنے کے بعد نئی توانائی کے ساتھ سفر جاری رکھتے ہیں۔

ان کی مسلسل محنت اور مستقل مزاجی بالآخر انہیں منزل سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی کئی کہانیاں بکھری پڑی ہیں جو ہمت ،حوصلے اور جہدمسلسل سے عبارت ہیں۔ یہاں دنیا کے کچھ مشہور اور کامیاب لوگوں کی زندگی کے نشیب وفراز کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے، جنہوں نے ناکامیوں کو اپنا تعارف نہیں بننے دیا۔انہوں نے سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنایا اور آج دنیا ان کا نام احترام اور محبت سے لیتی ہے۔

جب معذور ایتھلیٹ بنتا ہے
یہ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جو اسکول میں آتشزدگی کا شکار ہو گیا تھا۔اس کی حالت دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ یہ نہیں بچ سکے گا۔اس کی ماں کو ڈاکٹر کی طرف سے کوراجواب دے دیا گیا تھا۔اسکول میں اچانک بھڑک اٹھنے والی آگ سے اس کا زیریں دھڑ مکمل طور پر جھلس چکا تھا۔ ڈاکٹرنے مہین سی امید دلاتے ہوئے کہہ دیا تھا اگر یہ بچ بھی گیا تو ساری عمر کے لیے معذور ہو جائے گا۔

لیکن بہادر لڑکا مرنا چاہتا تھا ، نہ ہی معذوری کی زندگی جینا چاہتا تھا۔اس کے جذبات میں توانائی اور تموج تھا اور اس کے جسم کا نچلا حصہ ہلنے سے قطعی قاصر تھا ۔ اس کی پتلی اور بے جان ٹانگیں اس کے اوپری دھڑ کے ساتھ لٹکتی دکھائی دیتی تھیں۔اسی حالت میں وہ ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا اور گھر پر وہ ایک وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گیا لیکن اس کے دل میں اپنے پاؤں پر چلنے کی شدید خواہش تھی۔

ایک دن تنگ آکر اس نے خودکو وہیل چیئر سے نیچے گرا دیا اور ہاتھوں کی مدد سے گھاس پر گھسٹنے لگا اور اس کی بے جان ٹانگیں اس کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہی تھیں۔ کافی کوشش کے بعد وہ ایک جنگلے تک پہنچ گیا اور ہاتھوں سے جنگلا پکڑ کر آگے بڑھنے لگا۔ وہ چل نہیں رہا تھا بلکہ گھسٹ رہا تھا۔

پھر اس نے اپنی اس عادت کو معمول بنا لیا۔ اسے کامل یقین تھا کہ ایک دن وہ بغیر کسی سہارے کے اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہو جائے گا۔ اپنے آہنی عزم اور پوری توجہ کے نتیجے میں اس نے خود کو کھڑا ہونے کے قابل بنا لیا اور پھرآہستہ آہستہ لنگڑانے لگا۔ایک دن وہ بھی آیا کہ وہ اپنے پاؤں پر نا صرف یہ کہ چل رہا تھا بلکہ دوڑبھی سکتا تھا۔

پہلے اس نے چل کر اسکول جانا شروع کیا اور پھر بھاگ کر جانے لگا۔ عزم کی توانائی اس کا ساتھ دیتی رہی اور اس نے بالآخر اسکول میں ایک ٹریک ٹیم بنا لی۔

پھر 1934ء میں نیویارک شہر کے مشہور میڈسن اسکوائر گارڈن میں لوگوں نے اس شخص کو دنیا کی تیز ترین دوڑ جیتتے دیکھا، جس کے بچنے کی امید بھی نہیں تھی۔ جی ہاں یہ بہادر شخص ڈاکٹر کنگھم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔گلین کنگھم کی کہانی مثبت سوچ اور آہنی عزم کی ایک زندہ مثال ہے جو مایوسیوں کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے انسانوں کو نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔

وہ بے گھر تھا ایک بزنس مین بن گیا
اس کہانی کا نقطۂ آغاز بھی درد سے عبارت ہے۔ ایک ایسا شخص جو بچپن میں سخت حالات کے رحم وکرم پر رہا ۔کمسنی ہی میں اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو گئی تھی۔ ماں نے دوسری شادی کی مگر سوتیلے باپ کا اس بچے اور اس کے بھائیوں کے ساتھ رویہ بہت نامناسب تھا۔ سوتیلا باپ انھیںجسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتا تھا۔

اس کی ماں کو ظالم فطرت سوتیلے باپ کے بے بنیاد الزامات کی وجہ سے دومرتبہ ناحق سزا کاٹنی پڑی۔ ان حالات میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ اس بچے کو 8برس کی عمر میں اپنے بھائیوں سمیت فوسٹر ہوم میں رہنا پڑا۔ اس طرح رُلتے ہوئے یہ جوانی میں داخل ہوا ۔کسی طرح شادی ہوگئی جو بعد میںدردناک انجام سے دو چار ہوئی۔

اس نے میڈیکل کے سامان کے سیلز مین کی حیثیت سے کام شروع کیا مگر ناکامی اس کا مقدر ٹھہری۔ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں بیوی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ مالی حالات کی وجہ سے اپنے بچے کو لے کر یہ موٹلز(موٹر گاڑیوں والوں کی قیام گاہوں)، پارکوں ائیرپورٹوں یہاں تک کہ پبلک ٹوائیلٹ میں بھی راتیں گزارنے پر مجبور ہوا۔ پھر وہ ایک بروکریج فرم میں دن کو کام کرنے لگا جہاں اسے گھنٹوں تک طویل قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا تھا۔

1988ء میں لائسنسنگ کا امتحان پاس کرلینے کے بعد اسے ڈین وِٹر کمپنی میں کل وقتی ملازمت مل گئی۔یہ شخص مسلسل محنت کرتا رہا اور اچھے دنوں کے لیے پر امید رہا۔ 1987ء میں اس نے ’ریچ اینڈ کو‘ کے نام سے اپنی بروکریج فرم قائم کر لی جس کے 75فی صد حصص کا یہ اکیلا مالک تھا۔

2006ء میں اس نے اپنے اسٹاک کا ایک حصہ کئی ملین ڈالرز میں بیچا۔ یہ کہانی باحوصلہ شخص کرسٹ گارڈنر کی ہے جو’کرسٹوفر گارڈنر انٹرنیشنل ہولڈنگز‘ کا بانی اور سی ای او ہے۔ اب اس کمپنی کے سان فرانسسکو،نیو یارک اور شکاگو میں دفاتر قائم ہیں۔ اس کی زندگی پر ہالی وُوڈ نے فلم ’دی پرسوئیٹ آف ہیپی نیس‘ بنائی ہے جسے ناظرین نے بڑے پیمانے پر پسند کیا ہے۔

بالآخراس نے اپنا خواب پا لیا
مہم جوئی اور جنگلی حیات کے بارے میں تجسس شروع ہی سے اس شخص میں موجود تھا۔وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا چاہتا تھا۔ اسکول سے فراغت کے بعد سکم اور جنوبی بنگال میں اس نے کو ہ پیمائی کی۔ پھر اس نے ٹیریٹوریل آرمی(ہنگامی حالات میں کام کرنے والی رٖضا کار فوج) میں ریزروسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ سلسلہ 1996ء تک چلتا رہا۔ 1996ء وہ اس وقت ایک بڑے حادثے کا شکار ہو گیا ، جب وہ زمیبیا میں فری فال پیرا شوٹنگ کر رہا تھا۔

وہ سطح سمندر سے 16000فٹ کی بلندی پر تھا جب اس کے پیرا شوٹ کی چھتری تھوڑا سا کھلنے کے بعد پھٹ گئی تھی ۔ بلندی سے گرتے ہوئے پیرا شوٹ اس کے گرد لپٹ گیا ۔ جب وہ زمین پر گرا تو اس کی ریڑھ کی ہڈی تین جگہ سے کچلی جا چکی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ ’مجھے مین پیرا شوٹ کو کاٹ دینا چاہئے تھا مگر میں نے سوچاکہ ابھی وقت ہے‘۔ اس کے سرجن کے بقول ایسا لگتا تھا کہ وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جائے گا۔ اس کے بعد تقریباً ایک سال تک وہ آرمی کے بحالی مراکز میں بستر پر رہا۔

وہ خود کو مہم جو سمجھتا تھا ۔سواس نے محنت کا دامن نہیں چھوڑا۔ اس شخص نے کمر کی ہڈی کو گہرا صدمہ آنے کے ٹھیک 18ماہ بعد 16مئی1998ء میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کامیابی سے سر کر کے اپنے بچپن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر لیا۔ اس نے یہ کا رنامہ محض 23برس کی عمر میں سر انجام دیا تھا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ یہ کہانی ہے بیئر گرلز کی جسے بعد میں دنیا نے ڈسکوری چینل کے پروگرام ’مین وورسز وائلڈ‘ کے مقبول ترین میزبان کی حیثیت سے جانا۔

اسے دوبار مسترد کیا گیا تھا
2009ء کے وسط تک یہ ایک عام سا سافٹ ویئر انجینئر تھا جسے کوئی بھی ملازمت دینے پر تیار نہیں تھا۔ گو کہ اس کا یاہو اور ایپل کمپیوٹرز کے ساتھ کام کا وسیع تجربہ تھا مگر قسمت یاوری پر تیار نہ تھی۔

اس سب کے باوجود اسے انٹرنیٹ کی دو مشہور سماجی سائٹس ٹویٹر اور فیس بک نے یکے بعد دیگرے مسترد کر دیا۔ جب اس سافٹ ویئر انجینئر نے محسوس کیا کہ اسے اب کسی کمپنی میں ملازمت ملنے کا امکان نہیں ہے تو اس نے یاہو میں کام کا تجربہ رکھنے والے ایک اور دوست جان کوم سے مل کر ایک ایسی ایپلیکیشن بنائی جس نے میسجنگ کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھوڑے ہی عرصے میں صارفین کی بڑی تعداد اس اپلیکیشن سے وابستہ ہو گئی۔

یہ کہانی ہے برئین ایکٹن کی جس نے اسمارٹ فونز کی دنیا کی مشہور ایپلیکشن ’’واٹس ایپ‘‘ بنائی ہے جو اب ہم سب کے سمارٹ فونز کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔واٹس ایپ کی مقبولیت کو دیکھ کر فیس بک نے بالٓاخر 2014ء میں 19بلین ڈالرز کے عوض اس کا سودا کیا۔ اس طرح ایکٹن 3.8بلین ڈالرکا مالک بن گیا۔ 2009ء میں جب اسے فیس بک نے مسترد کیا تو اس کی 3اگست کی ٹویٹ ان الفاظ پر مشتمل تھی ’فیس بک نے مجھے مسترد کر دیا۔ یہ اچھے لوگوں سے رابطہ بڑھانے کا ایک اور موقع ہے ۔

میں زندگی کے اگلے ایڈونچر کے لیے تیار ہوں۔‘ اور جب ٹویٹر نے بھی ملازمت دینے سے انکار کیا تواس نے مئی 2009ء میں لکھا ’میں ٹویٹر کے ہیڈ کوارٹر کی طرف سے مسترد کیا گیا۔ کوئی بات نہیں ہے۔ہمیں اب طویل سفر کرنا ہو گا۔‘‘ پھر بالٓاخر اس نے ایڈونچر کو اپنی عالی ہمتی اور مسلسل محنت سے کامیاب کر دکھایا۔

اس نے ناکامیوں کو بہت  پیچھے چھوڑ دیا
یہ کہانی ایک فلم اسٹار کی ہے جسے 70ء کی دھائی میں شہرت ملی اور مقبولیت کا یہ سلسلہ 80ء کی دہائی تک چلتا رہا ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فرانسیسی فلم ڈائریکٹر فرانکوئس ٹروفاٹ نے اسے ’ون مین انڈسٹری‘ قرار دیا۔ پھر اچانک اس پر برے دن آئے ۔ اس کا پروڈکشن ہاؤس خسارے میں جانے لگا ۔ مالی نقصانات اس حد تک بڑھ گئے کہ 1997ء میں اسے پروڈکشن ہاؤس مکمل طور پر بند کرنا پڑ گیالیکن وہ اداکار ہمت نہیں ہارا۔

اس نے محنت اور لگن کے ساتھ کام جاری رکھا اور ایک بار پھر فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔دوبارہ ملنے والے عروج کے بعد اس نے پھر زوال نہیں دیکھا۔ آج بھی اس کا شمار انتہائی مالدار ،کامیاب اور قابل احترام فلم اسٹار زمیں ہوتا ہے۔ جی ہاں یہ ہیں بالی وُوڈ کے بادشاہ امیتابھ بچن جن کے مداحوں کی تعداد اب کروڑوں میں ہے۔ 72سالہ امیتابھ واحد اداکار ہیں جنہوں نے اپنے کام سے ثابت کیا ہے کہ عمر کامیابی اور شہرت کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مقبولیت کا تعلق جنون اور لگن سے ہے۔ ان کی نئی فلم ’پیکو‘آج کل دنیا بھر کے شائقین سے داد پا رہی ہے۔

جاؤ ! تمہارے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں
یہ شخص بھی حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں رہا۔ 1919ء میں یہ ایک اخبار میں ملازمت کرتا تھا جہاں سے اسے اس بنیاد پر ایڈیٹر نے نکال دیا کہ ’وہ پر تخیل ہے، نہ ہی اس کے پاس کوئی اچھے آئیڈیاز ہیں‘۔ 1920ء میں اس نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ایک کارٹون بنانے والی چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی۔

ایک بے ترتیب سی شروعات کے بعد اس نے پیسے کمانے کے لیے کینساس سٹی فلم کمپنی میں ملازمت کر لی۔ پھر کچھ عرصے بعد اس نے لورِکس جائن کرلیا جو اکیلے کام جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس شخص نے اپنا اسٹوڈیو اس ادارے میں ضم کر دیا مگر منافع اتنا کم تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسٹوڈیو قرضے میں ڈوب اور بالآخر اس کا دیوالہ نکل گیا۔ ناکامیاں اس شخص کو مگر پچھاڑ نہ سکیں۔اس نے کیلیفورنیا میں فلم انڈسٹر ی ہالی وُوڈ میں ایک نیا اسٹوڈیو کھول لیا اور کارٹون بنانے کی صنعت میں خوب جم کر کام کیا۔ اسی زمانے میں اس نے ’آس والڈ دی لکی ریبٹ‘ کارٹون بنایا ۔

یہ کرداراس وقت میں کارٹوننگ کے بزنس کی کامیاب ترین مثال سمجھا جاتا تھا۔ اس دورمیں یہ اپنی فلموں سے محض 20فیصد کما پاتا تھا۔ امید تھی کہ اب حالات بہتری کی جانب جائیں گے مگر ایک بار پھر اس نے خود کو شکستہ پایا جب ایک پروڈیوسر اس کا کردار اور اینی میشن کے عملے کو بھی سمجھا بجھا کر ساتھ لے گیا۔ اس کے پروڈیوسر کا خیال تھا کہ یہاں اسے محض بیس فی صد پر ہی کام کرنا پڑے گا جبکہ نیا تجربہ اسے دولت مند بنا دے گا۔

جب اکثر لوگ کم اجرت کی شکایت کرتے ہوئے واپسی کے لیے اپنے بیگ پیک کر رہے تھے تو یہ حوصلہ مند آدمی ایک نئی اور دھماکہ خیز سیریز بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ کارٹون کی دنیا میں اسے ’مکی ماؤس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ذکرہے اپنے عہد کے مشہور انٹر پرینیور،کارٹونسٹ،اینمیٹر،صداکار اور فلم ساز والٹ ڈزنی کا۔جب اس نے اس سیریز پر کام شروع کیا تو اسے کہا گیا کہ یہ کردار اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا جب تک ایک بڑا خوفناک چوہا ٹی وی دیکھنے والی خواتین کوخوفزدہ نہ کر دے۔

اس نے سنی ان سنی کر دی اور کام جاری رکھا ۔اس نے چوہے(مکی ماؤس) کو اس انداز میں پیش کیا کہ مقبولیت کے لیے اسے خواتین کو ڈرانے کی ذرا بھی ضرورت نہیں پڑی۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مکی ماؤس کی کہانی جاری ہے اور شائقین کی بڑی تعداد ٹکٹکی باندھے اسے سن اور دیکھ رہی ہے۔

اس شخص نے زندگی کی ناکامیوں کو خود پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ آج شاید ہی کوئی باخبر شخص ایسا ہو جس نے ڈزنی کے بارے میں نہ سنا ہو۔ ڈزنی کا یہ سب کام دیکھ کر وہ ایڈیٹر یاد آتا ہے جس نے اخبار کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا تھا کہ اس کے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں۔

سفر کے دوران اس پر خیال اترا اور کام بن گیا
یہ ایسی خاتون مصنفہ کی کتھا ہے جو اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اس کی کتابوں کے 4سو ملین سے زائد نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ اس کی شہرت سے پہلے کی زندگی کافی مشکل تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کی تشخیص بطور کلینیکل ڈیپریشن کے مریض کے ہوئی اور اس نے خود کشی کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔

اس کی شادی بھی ناکامی سے دوچار ہوئی جس کے بعد وہ ایک ایسی بے روزگار عورت تھی جس پر ایک بچے کی پرورش کی ذمہ داری بھی تھی۔ اس نے وہ وقت بھی دیکھا کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے اپنے اور اپنی بچی کی پرورش کے لیے حکومت سے مالی امداد مانگنا پڑی اور اپنی مالی حالت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرنا پڑا ’’ایک ایسی ماڈرن برطانوی خاتون جو بے گھر نہیں ہے مگرغریب ہے‘‘

یہ 1990ء کی بات ہے جب وہ ایک ٹرین کے ذریعے مانچسٹر سے لندن جا رہی تھی تو اس کے ذہن میں ایک ایسے چھوٹے بچے کی کہانی کا مکمل آئیڈیا اترا جو وِزرڈے اسکول میں پڑھتا ہے۔ 1995ء میں اس نے پرانے ٹائپ رائٹر کی مدد سے اپنی پہلی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اس نے وہ مسودہ قریب 12پبلشنگ ہاؤسز کو بھیجا جنہوں نے اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ ایڈیٹر بیری کنگھم نے اسے دن کے اوقات میں ایک ملازمت کا مشورہ دیا جس میں اس کے پاس بچوں کی کہانیاں لکھ کر کچھ پیسے کمانے کا موقع تھا۔

اس خاتون نے ایک بار پھر ہمت اور حوصلے سے سفر شروع کیا اور آج وہ برطانیہ کے سب سے زیادہ بکنے والے مصنفوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مالی اثاثے 560ملین یوروہیں اوراس کا شمار برطانیہ کی 12 امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ اس حوصلہ مند خاتون کا نام جے ۔کے رولنگ ہے جو مشہور زمانہ ہیری پورٹر سیریز کی خالق ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔