تعلیم کی حفاظت کی ضرورت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 6 فروری 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

بچے اور تعلیم قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، جب تعلیم متاثر ہوتی ہے تو اس ملک کا مستقبل بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوتا ہے۔ وہی اقوام اور ممالک ترقی کے افق پر جگمگاتے نظر آتے ہیں جو اپنے تعلیم کے نظام کو بہتر اور معیاری رکھتے ہیں، تعلیم کے لحاظ سے پاکستان بدقسمت ملک رہا ہے جس پر حکومتی سطح پرکبھی بھی توجہ نہیں دی گئی۔

تعلیمی بجٹ کی شرح انتہائی قلیل رکھی گئی، مختلف حکومتوں نے اس شعبے میں وقتی اور غیر سنجیدہ قسم کے تجربات کیے جن سے قومی دولت ضایع ہونے کے علاوہ کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے،اسی لیے تعلیم کی شرح پڑوسی اور پسماندہ ممالک سے بھی نیچے ہے، تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے سے معیار تعلیم مزید خراب ہوا جس کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کا قیام اور ان کے تعلیم کے بجائے خالصتاً تجارتی کاروبارکا رجحان بڑھتا گیا۔ اس میں کرپشن کے نت نئے دروازے کھلے، نتیجہ یہ نکلا کہ آج متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان اپنے دو تین بچوں کو بھی معیاری تعلیم دلوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونی ورسٹی کے واقعات کے بعد سے تو طلبا کی تعلیم و تربیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر تعلیمی ادارے بند کردینے سے طلبا اور ان کے والدین خوف و ہراس اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں، آرمی پبلک اسکول اور بحریہ کے اسکولوں میں تو تدریسی عمل فوری طور پر معطل کردیاگیا تھا۔ KPK کے علاوہ دیگر صوبوں نے بھی دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر تعلیمی ادارے 31 جنوری تک بند کردیے اور ملک بھر کے اسکول، کالجز اور یونی ورسٹیز کو سیکیورٹی انتظامات سخت کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔

تعلیمی اداروں کی بندش کے بارے میں مختلف سطحوں سے مختلف و متضاد اعلانات کیے گئے جن کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں پہلے سے موجود کفیوژن اور خوف و ہراس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ طلبا اور ان کے والدین لا علم تھے کہ تعلیمی اداروں کو فوری طور پر بندکرنے کے پس پردہ اصل عوامل و محرکات کیا ہیں، بندش کی وجہ کبھی سردی توکبھی دہشت گردوں کی جانب سے نئے امکانی حملوں کے بارے میں ملنے والی اطلاعات بتائی گئیں۔

وزیراعظم نے تعلیمی اداروں کی بندش پر اظہار افسوس کیا تو وزیر داخلہ بھی بندش کے فیصلے پر نالاں و برہم نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کی بندش کرکے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو تعلیم کے دشمن ہیں، ہم حالت جنگ میں رہ رہے ہیں جنگیں صرف بندوقوں اورگولیوں سے نہیں لڑی جاتی ،دنیا میں روایت ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہو تو وہ چہرہ سامنے آنا چاہیے جو دشمن کوکمزور اور ملک کو مضبوط کرے۔ یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے جب جنگ ہو تو وار دونوں طرف سے ہوتا ہے مایوسی کی باتیں دشمنوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہیں، ہمیں ایک طرف بندوق کے خلاف لڑنا ہے تو دوسری طرف خوف و وحشت کی فضا کے خلاف لڑنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی میں بہتری تعلیمی ادارے کھلے رکھ کر بھی لائی جاسکتی ہے ۔

اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ صوبے اسکول بند کردیں کیوں کہ دہشت گرد تو چاہتے یہی ہیں کہ ہم اسکول، اسپتال، گلیاں، محلے بند کردیں،   ہمیں مایوسی و ڈپریشن پھیلانے والوں کا راستہ روکنا ہوگا، صورتحال کے تناظر میں وزیر داخلہ یہاں تک کہہ گئے کہ دہشت گردی کے خلاف ہم جنگ جیت رہے ہیں لیکن نفسیاتی طور پر جنگ ہار رہے ہیں، بلا جواز نکتہ چینی کی وجہ سے قوم کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، میڈیا ذمے داری کا مظاہرہ کرے ، اچھے برے کی تمیز کرے، وزیر داخلہ کے ان خیالات سے کوئی ذی شعور پاکستانی اختلاف نہیں کرسکتا ہے۔

تعلیمی اداروں کی اچانک بندش کا فیصلہ نا مناسب نظر آتا ہے اسکولوں کی بندش اور نجی تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی انتظامات کے اعلان کی بعض اسکولوں کی جانب سے مخالفت کی گئی کچھ اسکول کھلے رہے بعض نے حکومتی سیکیورٹی کے بغیر یکم فروری سے اسکول کھولنے سے انکارکردیا، ان کا کہناہے کہ اسکولوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمے داری ہے جس کے لیے وہ بھاری ٹیکسز وصول کرتی ہے۔ اسکول انتظامیہ سیکیورٹی انتظامات کرسکتی ہے نہ اس کے اخراجات کی متحمل ہوسکتی ہے، تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے انتظامات اور حکومتی احکامات کے سلسلے میں اسکول مالکان بھی تقسیم کا شکار ہیں، کافی اسکولوں کو سیل کردیاگیا ہے مالکان کے خلاف FIR بھی درج کی گئی ہیں۔

سیکیورٹی انتظامات کے اخراجات کی وصولی کی تلوار طلبا کے والدین کے سروں پر لٹکی نظر آرہی ہے جو پہلے ہی فیسوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ملک بھر میں سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلانات و اقدامات نے اسکول مالکان اور طلبا کے والدین میں مزید کنفیوژن اور خوف و ہراس پیدا کردیا ہے صرف کراچی شہر میں آرمڈ فورسز، مشنری، کیمرج اور سرکاری اسکولوں کی جن کی تعداد 15000 ہے فہرست ترتیب دی گئی ہے۔

جنھیں خصوصی سیکیورٹی کی ضرورت ہے جن کے لیے 300 کمانڈوز تعینات کرنے اور اسکولوں کے اطراف میں گشت بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دیگر تعلیمی اداروں کا کیا بنے گا اور کیا ان انتظامات سے خصوصی سیکیورٹی کے حامل ان 15000 اسکولوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جاسکے گا۔ کیا عملی طور پر یہ ممکن ہے کہ تمام تعلیمی ادارے CCTVکیمرے میٹیل ڈیٹیکٹر، واک تھروگیٹ، خاردار تاریں نصب کریں، 8 فٹ اونچی دیواریں تعمیرکریں؟ اور کیا ہنگامی بنیادوں پر اتنی بڑی مقدار میں یہ سامان مارکیٹ میں میسر آجائے گا؟

بعض دانشور یہ تجاویز پیش کررہے ہیں کہ طلبا کی سیکیورٹی کے لیے رقم ان کے والدین سے وصول کی جائے۔ طلبا اور اساتذہ کو ہتھیار چلانے کی تربیت اور ہتھیار رکھنے کی اجازت دی جائے ایک جانب ملک کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری جانب تعلیمی اداروں میں اسلحہ رکھنے اور چلانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ دہشت گردوں کے حملوں سے تو عسکری مراکز محفوظ نہیں ہیں، پھر چند اساتذہ اور طلبا کے ہاتھوں میں ہتھیار دیگر تعلیمی اداروں کو محفوظ کیسے بنایاجاسکتا ہے۔

30 سال قبل طلبا یونینز پر پابندی تعلیمی اداروں میں اسلحے کی بھرمار اور قتل و غارت گری کا جواز پیش کرکے لگائی گئی تھی مگر آج حکومت خود قلم کتاب پکڑنے والے طلبا اور اساتذہ کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمانے کی بات کررہی ہے جب کہ انھیں تحفظ دینا خود حکومت کی آئینی ذمے داری ہے ہمارے حکمرانوں نے دیگر اداروں کے علاوہ تعلیم کے شعبے کو بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اگر ڈکٹیٹر نے ارکان اسمبلی کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی تو صرف اس لیے کہ اپنے مخالفین کو اسمبلیوں سے باہر رکھا جاسکے۔

دوسرے جمہوری سپہ سالار نے یہ پابندی ختم کی تو اس لیے کہ اپنے ان پڑھ ارکان کو اقتدار کے ایوانوں اور قانون ساز اداروں میں متمکن کرسکے۔ حکومتی اور سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے بڑی تعداد میں جعلی ڈگریوں کے حامل اساتذہ، پولیس والے، ڈاکٹر اور پائلٹوں تک کی بھرتی کے اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں، پی آئی اے کی نجکاری پر زمین آسمان ایک کردینے والے مزدور اور انسانیت دوست سیاست دان اور دانشور اسٹیل ملز کی نجکاری اور بندش اور ملازمین کو چار چار ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے پر واویلا کیوں نہیں کرتے۔ تنخواہوں سے محروم اساتذہ اور اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والے سینئر پروفیسرز پر تشدد اور لیڈی ورکرز کی سرعام توہین و تذلیل اور درگت بنانے پرخاموشی کیوں سادھ لیتے ہیں؟

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم، مساوات، انسانی حقوق کے معاملات میں صرف سیاسی مفادات و عزائم کے لیے پوائنٹ اسکورننگ کی جاتی ہے۔ اس کے لیے نان ایشوز کو بھی قومی ایشوز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی اور پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں دیکھنے میں آرہاہے، قومی ادارے تو مکمل طور پر تباہی و بربادی سے ہمکنار کردیے گئے ہیں اب قوم کے نونہالوں کے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگایا جارہاہے، دہشت گردی سے زیادہ اس خطرناک اور بے رحمانہ و بہیمانہ روش کو ترک کرنا وقت کی اہم اور قومی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔