آسکر ایوارڈ؛ نسلی امتیازکا تنازعہ

سید بابر علی  اتوار 7 فروری 2016
لگاتار دوسرے سال بھی بہترین اداکاری کے زُمرے میں کسی سیاہ فام اداکار کو نام زد نہیں کیا گیا ۔  فوٹو : فائل

لگاتار دوسرے سال بھی بہترین اداکاری کے زُمرے میں کسی سیاہ فام اداکار کو نام زد نہیں کیا گیا ۔ فوٹو : فائل

آسکر یا اکیڈمی ایوارڈ دنیا بھر میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آسکر جیتنا دنیا میں کسی بھی فن کار کے لیے فن کی معراج پر پہنچنے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا آغاز 1929میں امریکی ادارے اکیڈمی آف موشن پکچرز آرٹس اینڈ سائنسز کی جانب سے کیا گیا تھا۔

فلمی صنعت کی سب سے پُرانی اس ایوارڈز کی تقریب کو اب دنیا بھر کے دو سو سے زاید ممالک میں نشر کیا جاتاہے۔ فلم کی دنیا میں اس ایوارڈ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ٹیلی ویژن میں ایمی ایوارڈ، تھیٹر میں ٹونی ایوارڈ اور موسیقی میں گریمی ایوارڈ کو حاصل ہے۔ آغاز سے گذشتہ سال تک دنیا بھر میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والی 2947 شخصیات کو اداکاری، صداکاری، ہدایت کاری اور فلموں کے دیگر شعبہ جات میں بہترین کارکردگی پر اس ممتاز ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

اکیڈمی ایوارڈ کو تقریباً ہر سال ہی کسی نہ کسی تنازعے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس سال آسکر ایوارڈ نسلی امتیاز برتے کے حوالے سے شہ سرخیوں میں ہے۔

28فروری 2016کو ہونے والے اٹھاسی ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے کی جانے والی نام زدگیوں نے ہالی وڈ کے سیاہ فام فن کاروں کے جذبات کو مجروح کردیا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل اس ایوارڈ میں گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی بہترین اداکار اور معاون اداکاروں کی فہرست میں ایک بھی سیاہ فام اداکار کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ سو لہ مئی 1929کو شروع ہونے والی اس تقریب کو ماضی میں بھی کئی بار تنازعات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے بائیکاٹ کے لیے اتنی شدت سے مہم اب سے پہلے کبھی نہیں چلائی گئی۔

بہترین اداکاروں کے نام منتخب کرنے والے جیوری اراکین کے مبینہ تعصب نے سوشل میڈیا پر #OscarsSoWhite کے ہیش ٹیگ کو جنم دیا۔ اس ہیش ٹیگ کا آغاز کرنے والی نیو ٹرائب نامی جریدے کی سیاہ فام مدیر اپریل ریگن نے آسکر ایوارڈ کی نام زدگیوں میں سارے سفید فام اداکاروں کے انتخاب کو منتظمین کا نسلی امتیاز قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام منتخب کرنے والے جیوری کے ارکان اور اس کا طریقۂ کار تبدیل کیا جائے۔

اے ایم پی اے ایس کی جانب سے ناموں کے اعلان کے بعد نہ صرف ہالی وڈ سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام اداکاروں، ہدایت کاروں نے اکیڈمی ایوارڈ تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا بل کہ جارج کلونی جیسے آسکر ایوارڈ یافتہ سفید فام اداکار نے بھی نسلی امتیاز برتنے پر منتظمین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امریکا کے فلمی جریدے ورائٹی سے خصوصی گفت گو میں جارج کلونی نے کہا: دس سال پہلے تک اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹ اینڈ سائنسز اپنا کام بہتر طریقے سے سرانجام دے رہی تھی۔ آپ خود یاد کریں کہ اُس وقت بھی نام زد ہونے والوں میں کتنے فن کار سیاہ فام تھے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم کسے نام زد کر رہے ہیں، بل کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اقلیتوں (سیاہ فام) کو اچھی فلموں میں کام کرنے کے لیے کتنے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ 2015میں ریلیز ہونے والی فلم ’کریڈ‘ ایک بہترین فلم تھی۔

اس کے سیاہ فام اداکار مائیکل بی جارڈن اور ہدایت کار Ryan Coogler سمیت زیادہ تر نام زدگیاں اس فلم کے حصے میں آنی چاہیے تھیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، صرف سلویسٹر اسٹالون کو اس فلم میں بہترین معاون اداکاری کرنے پر نام زد کیا گیا۔ جارج کلونی نے کہا کہ سیاہ فام فن کار اس بات میں بالکل حق بہ جانب ہیں کہ ہالی وڈ جیسی بڑی فلمی صنعت میں اُن کی عکاسی موثر طریقے سے نہیں کی جارہی۔

اس آسکر میں ہالی وڈ کی کام یاب ترین فلموں کون کاشن، کریڈ، اسٹریٹ آؤٹ کامپٹن اور بیسٹس آف نو نیشن کو زیادہ نام زدگیاں ملنی چاہیے تھیں جو کہ نہیں ہوئیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اکیڈمی ایوارڈ میں سیاہ فاموں کو نظرانداز کرنے سے اُن کا دل ٹوٹ گیا ہے۔

اکیڈمی ایوارڈ کے لیے ناموں کا اعلان ہونے کے محض چار دن بعد ہی ہالی وڈ کو گذشتہ 38سالوں میں کام یاب ترین فلمیں دینے والے سیاہ فام ہدایت کار اسپائک لی نے انسٹاگرام پر اکیڈمی ایوارڈز کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اسپائک اور اُن کی اہلیہ نے اپنے پیغام میں لکھا،’’ہم اس ایوارڈ کی حمایت نہیں کرسکتے، یہ کس طر ح ممکن ہے کہ لگاتار دوسرے سال بھی بہترین اداکاروں کی فہرست میں سارے نام سفید فام اداکاروں کے ہیں؟‘‘انہوں نے اپنے پیغام میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا قول بھی نقل کیا’’“(I WANNA BE IN THE ROOM WHERE IT HAPPENS

To Say The Truth Is We Ain’t In Those Rooms And Until Minorities Are, The Oscar Nominees Will Remain Lilly White.”۔ اسپائک کے بعد مشہور امریکی اداکار، پروڈیوسر اور گیت کار ول اسمتھ کی اہلیہ جاڈا پنکیٹ اسمتھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو پیغام میں اکیڈمی ایوارڈ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اپنے پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ اکیڈمی کے پاس حق ہے کہ وہ جسے چاہے منتخب کرے، جسے چاہے مدعو کرے، لیکن نام زدگی کے لیے اُن سے بھیک مانگنا، حتی کہ اس بارے میں اُن سے پوچھنا بھی اپنی عزت اور وقار کم کرنا ہے اور ہم باعزت اور پُر وقار لوگ ہیں۔‘‘

دوسری جانب کنگز لیگیسی ایوارڈز میں اکیڈمی کی صدر چیرئیل بون آئزیکسCheryl Boone Isaacs کے ہاتھوں گذشتہ سال فلم سیلما میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے کردار میں بہترین اداکاری کرنے پر ایوارڈ وصول کرنے والے اداکار ڈیوڈ اولیوو نے اپنی فلم سیلما اور آسکر کے دہرے معیار پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ سال اکیڈمی ایوارڈ کے بعد میری آئزیکس سے ملاقات ہوئی، جس میں بہترین اداکاری کے تمام تر اکیڈمی ایوارڈز سفید فام اداکاروں کو دینے پر کافی تفصیلی گفت گو ہوئی تھی، اور اس سال پھر یہی تعصب ناقابل برداشت ہے۔

ہالی وڈ پر گہری نظر رکھنے والے نقاد کا کہنا ہے کہ اکیڈمی ایوارڈ کی نام زدگیوں میں ول اسمتھ کو بھی بُری طرح نظر انداز کیا گیا، جب کہ وہ بائیوپک ’اسٹریٹ آؤٹ آف کومپٹن‘ اور ’کنکوشن‘ جیسی بہترین فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے پر بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کرنے کے حق دار تھے۔

14جنوری کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے ناموں کے اعلان کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اس کا بہت تذکرہ رہا۔ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد نے بھی اکیڈمی ایوارڈ کے اس متعصبانہ فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی۔ دوسری جانب ہالی وڈ کے ممتاز اداکار ول اسمتھ نے بھی ٹی وی پروگرام ’گُڈ مارننگ امریکا‘ کے میزبان رابن رابرٹس سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی اہلیہ (جاڈا اسمتھ) کے ویڈیو پیغام کی توثیق کرتے ہوئے 28 فروری کو منعقد ہونے والی آسکر تقریب میں شرکت نہیں کروں گا۔

اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے، اس سال اکیڈمی ایوارڈ میں شرکت کرنا ہمارے لیے بہت ہی عجیب بات ہوگی، کیوں کہ اس میں شرکت کرنا ایوارڈ منتظمین کے متعصبانہ فیصلے کو قبول کرنے کے مترادف ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا کی سب سے بڑی طاقت ’تنوع‘ ہے اور ہم اسی خوب صورتی کو فلموں کی شکل میں لوگوں کے سامنے لاتے ہیں، لیکن اس بار ہونے والی نام زدگیاں ہالی وڈ کی اس خوب صورتی کی عکاسی نہیں کر رہیں۔

میں نام زد ہونے والے سفید فام اداکاروں کی برائی نہیں کر رہا وہ تمام لوگ اچھے ہیں، اس ایوارڈ کے حق دار ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود مجھے یہی لگتا ہے کہ سب کچھ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ماضی میں دو مرتبہ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والے ول اسمتھ کا کہنا ہے کہ بات یہ نہیں ہے کہ مجھے نام زد کیا گیا یا نہیں لیکن مسئلہ اُن بچوں کا ہے جو اپنی ٹی وی اسکرین پر براہ راست یہ تقریب دیکھیں گے، اور انہیں اپنی (سیاہ فام) نمائندگی کہیں نہیں دکھائی دے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے یقیناً ان بچوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ سیاہ فام اداکارہ لوپیتا یونگو نے بھی آسکر کی نام زدگیوں میں سیاہ فام اداکاروں کو نظر انداز کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ہالی وڈ میں اکیڈمی ایوارڈ کے بڑھتے ہوئے تنازعے کی وجہ سے کامیڈین کرس براؤن پر بھی ایوارڈ کی تقریب کی میزبانی نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ تاہم ابھی تک انہوں نے تقریب میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ گذشتہ سال فلم ’12 ایئرز اے سلیو‘ پر بہترین ہدایت کاری کا ایوارڈ حاصل کرنے والے برطانوی سفید فام ہدایت کار اسٹیو میک کوئین نے بھی اس تعصب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاہ فام اداکاروں کو ایک مناسب موقع دینا چاہیے۔

آسکر تقریب کی تاریخ قریب آنے اور ہالی وڈ کے مشہور فن کاروں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان نے اے ایم پی اے ایس کی سربراہ چیرل بُون آئزیکس کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں،انہوں نے آسکر کے لیے نام زد تمام امیدواروں کے بہترین کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ نامزدگیوں میں تنوع کی کمی نے ان کا دل توڑ دیا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں اور آنے والے چند ہفتوں میں جیوری کے لیے کی جانے والی بھرتیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں گے۔

اس حوالے سے بْون آئزیکس کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل لیکن اہم بات ہے کہ اب بڑی اور اہم تبدیلیاں لانے کا وقت آگیا ہے۔ آپ میں سے کئی لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ گذشتہ چار سالوں سے ہم اپنے اراکین کی رکنیت میں تنوع لانے کے لیے تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی رفتار ہماری توقعات سے کم ہے، اور اس کے لیے ہمیں زیادہ تیزی سے بہترین کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ایسی ہی تبدیلیاں ساٹھ اور ستر کے عشرے میں بلا رنگ و نسل اور جنس نوجوان اراکین کی بھرتی کرکے کی تھیں۔

یا د رہے کہ آسکر ایوارڈز کی نام زدگیوں کے لیے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے اراکین کا تعلق فلم انڈسٹری سے ہوتا ہے جو ہر سال اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اس بات کہ تعین کرتے ہیں کہ کن اداکاروں اور فلموں کو آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد کرنا ہے۔

٭اکیڈمی ایوارڈ 2016کے لیے نام زد کیے گئے بہترین اداکار اور معاون اداکار
رواں برس 14جنوری کو آسکر ایوارڈ کے لیے نام زدگیوں کا اعلان کیا گیا۔ بہترین اداکاری پر برائن کرانسٹون کو فلم ٹرمبو، لیونارڈو ڈی کیپریو کو فلم دی ریوانینٹ، مائیکل فیس بینڈر کو فلم اسٹیوجابز، ایڈی ریڈ مینکو فلم دی ڈینش گرل اور میٹ ڈیمن کو فلم دی مارٹیئن میں بہترین اداکار کے طور پر نام زد کیا گیا، جب کہ اداکاراؤں کی فہرست میں کیٹ بلین چیٹ کو فلم کیرول، برائی لارسن کو فلم روم، جینیفر لارینس کو فلم جوائے، شارلوٹ ریمپلنگ کو فلم 45 ایئرز اور ساؤرسی رونین کو فلم بروکلین کے لیے بہترین اداکارہ کے طور پر نام زد کیا گیا ہے۔

بہترین معاون اداکاری کرنے پر کرسٹائین بیل کو فلم دی بگ شارٹ، ٹام ہارڈی کو فلم دی ریوانینٹ، مارک رائیلینس کو فلم برج آف اسپائز، سلویسٹر اسٹالون کو فلم کریڈ، رونی مارا کو فلم کیرول، راشیل میک ایڈم کو فلم اسپاٹ لائٹ، ایلیسیا وکندر کو فلم دی ڈینش گرل، کیٹ ونسلیٹ کو فلم اسٹیو جابز اور جینیفر جیسن لی کو فلم دی ہیٹ فُل ہیٹ کے لیے نام زد کیا گیا ہے۔ اکیڈمی ایوارڈ 2016 کے لیے نام زدکیے گئے ان اداکاروں میں ایک بھی فن کار سیاہ فام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔