ماتحت عدلیہ کے مسائل حل کیے بنا کوئی تبدیلی ممکن نہیں

رحمت علی رازی  اتوار 7 فروری 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کا عدالتی نظام اس وقت تک انتہائی کمزور رہیگا جب تک تیزتر اور شفاف ترین انصاف کی بہتر سے بہتر فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بھاری تعداد میں زیر التوا مقدمات کی وجہ سے عام آدمی کا عدلیہ پر سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ مہنگی مقدمہ بازی اور سست روی کے ساتھ مقدمات کی سماعت نے لوگوں‘ خصوصاً غریب طبقہ کو مایوس کیا ہے۔ آزاد اور متحرک عدلیہ گڈ گورننس کے لیے بھی بدرجہا ضروری ہے۔

معاشرے میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔ یہی وقت ہے کہ عدالتی وقار کی بحالی کے لیے اصلاحات پر مخلصانہ طور پر اقدامات کیے جائیں۔ ملک میں انصاف کی فراہمی کے ذریعے عدلیہ پر لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ عوامی شکایات حکومتی اہلکاروں کی بدانتظامی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح انتظامیہ قوانین پر عملدرآمد کی پابند ہے‘ بعینہٖ عدالتیں قوانین کی تشریح کرتی ہیں‘ عدلیہ کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

وکلاء کا رزق سائلین سے جڑا ہے اور ججز کو تنخواہیں بھی انھی کے ٹیکس سے جاتی ہیں‘ اس کے باوجود سائلین انصاف کے لیے خوار و زبوں ہیں۔ ماتحت عدلیہ مسائل کا گڑھ بن چکی ہے جن کے اصل ذمے دار  وکلاء ہیں۔ کچھ کم فہم یہ سمجھتے ہیں کہ ججز کی تعداد بڑھا دینے سے زیریں عدالتوں کے تمام مسائل ختم ہو جائینگے‘ اس کے لیے چند سالوں سے نئے ججز کی بھرتی کی عملداری پر توجہ دی جا رہی ہے۔ وکلاء کی غیر پیشہ ورانہ ذہنیت اور رویوں کے سبب نہ صرف سائلین پریشان ہیں بلکہ ماتحت عدلیہ کے منصفین بھی بیشمار مسائل کا شکار ہیں۔ ماتحت عدلیہ کے مسائل کا حل وکلاء کے لیے نئے رولز آف بزنس بنانے کے ساتھ ساتھ ججز کو مناسب سہولیات و مراعات بہم پہنچانے میں ہے۔ نظامِ عدل میں ماتحت عدلیہ اس لیے بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ عام سائلین کو انصاف کے حصول کے لیے سب سے پہلے اسی دَر پہ دستک دینا پڑتی ہے۔

پنجاب کے عدالتی نظام میں سول جج بطور رینٹ کنٹرولر، فیملی جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ 80 فیصد سے زائد مقدمہ بازی ماتحت عدلیہ میں دائر ہوتی ہے‘ اور ان کے فیصلے بھی ماتحت عدلیہ سے ہوتے ہیں جن میں تقریباً پچاس فیصد میں کوئی اپیل بھی دائر نہیں ہوتی۔2013ء میں نیشنل جوڈیشل پالیسی کے تحت سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے 1013 سول اور سیشن ججز جب کہ 8 ہزار 483 عدالتی اسٹاف کی نئی آسامیاں پیدا کی گئیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے گریڈ 20 کے 317 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے لیے 2219 افراد پر مشتمل عدالتی اسٹاف بھی بھرتی کرنے کا پروگرام بھی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ گریڈ 17 کے 696 سول ججز کے ساتھ ساتھ ان کی عدالتوں کے لیے عدالتی اسٹاف بھی بھرتی کرنے کی منظوری دی گئی۔

امکان واضح تھا کہ ججز کی نئی بھرتی وکلاء میں سے شروع کی جائے گی جس کے لیے حکومت نے ایک ارب روپے کی رقم بھی مختص کر دی تھی۔ اس طرح یہ طے تھا کہ نئی بھرتیوں سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی تعداد 290 سے بڑھ کر 607 اور سول ججز کی تعداد 790 سے بڑھ کر 1086 ہو جائے گی۔ بعد ازیں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور احمد ملک کے حکم پر انتظامی کمیٹی کی طرف سے  378 نئے سول ججوں کی تعیناتی کی منظوری دی گئی جن پر متاثرہ اہل امیدواروں کی طرف سے مختلف فورمز پر کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں 79 نئے ایڈیشنل سیشن ججوں کے تقرر کی منظوری کے معاملہ پر بھی لاہور ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے رکن جسٹس صاحبان کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آ گیا۔

جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں 21 اکتوبر 2015ء کو ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو کمیٹی کے 7 میں سے 3 جج صاحبان نے ان تقرریوں کے طریقہ کار کے حوالے سے عدم شفافیت کا نکتہ اٹھایا جسکے بعد کمیٹی کے ارکان کے سوا  تمام عدالتی عملے کو کمیٹی روم سے نکال دیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج کے امتحان میں پاس ہونیوالے 143  امیدواروں کا 7  اکتوبر تک انٹرویو کا شیڈول جاری کیا گیا۔ 3  اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات کے باعث اس روز انٹرویو نہ ہو سکے۔

بعدازاں 3  اکتوبر اور 7  اکتوبر کے شیڈول میں شامل امیدواروں کو ٹیلیفون کے ذریعے اطلاع دیکر 6  اکتوبر کو انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا اور اسی رات ساڑھے 9 بجے کے قریب انٹرویو کا عمل مکمل کر کے 82 کامیاب امیدواروں کے نتیجہ کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ ان اسامیوں پر سول ججوں کو امتحان دینے کی اجازت نہ ملنے کے باعث انھوں نے بھرتیوں کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا اور اس کیس کی سماعت کے لیے 7 اکتوبر کی تاریخ مقرر تھی۔ 6 اکتوبر کو کامیاب ہونیوالے امیدواروں کے نتیجہ کے باعث سول ججوں کی درخواست سپریم کورٹ نے 7 اکتوبر کو غیر موثر قرار دیدی۔  بعد میں معلوم ہوا کہ نئے بھرتی ہونیوالے ایڈیشنل سیشن ججوں میں سے ایک کے خلاف جعلی چیک دینے کے مقدمات درج ہیں۔

ایک ممتحن نے اپنی قریبی عزیزہ کا امتحانی پرچہ خود ہی چیک کیا جو ایڈیشنل سیشن جج کا انٹرویو بھی پاس کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ 2014ء میں بھرتی ہونیوالے ایک سول جج کی خدمات واپس پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دی گئیں جسکے باعث وہ بھرتیوں کے لیے درخواست دینے کے اہل ہو گئے اور بعد میں ایڈیشنل سیشن ججوں کے امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ ایسے3 ایڈیشنل سیشن ججوں کے تقرر کا بھی انکشاف ہوا جو جولائی میں ہونیوالے سول ججوں کے امتحان میں ناکام ہو گئے تھے۔

لاہور ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے اجلاس میں مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، مسٹر جسٹس خالد محمود خان اور مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار نے بھرتی کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا جب کہ اس وقت کے چیف جسٹس منظور احمد ملک، انٹرویو کمیٹی کے سربراہ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس محمد یاور علی نے ان تقرریوں کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا۔ اجلاس میں متفقہ فیصلہ کے لیے اختلافی نوٹ لکھنے والے 3 ججوں کو آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی‘ ان کے انکار کے بعد کثرت ِرائے کی بنیاد پر ان ایڈیشنل سیشن ججوں کے تقرر کی منظوری دیدی گئی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اور عدالت عالیہ کی نئی ایڈمنسٹریشن کمیٹی اس معاملے کو “ری اوپن” نہیں کر سکتی تاہم ان ایڈیشنل سیشن ججوں کی کنفرمیشن کے معاملہ میں سخت موقف اختیار کرنے کی مجاز ہے۔ سال 2009ء سے جوڈیشل پالیسی کے تحت پرانے مقدمات کے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت تھی، آج ججز پر کام کے بوجھ کی اصل وجہ وکلاء کی عدم دستیابی ہے۔ چھوٹے اضلاع میں 5/6 اچھے دیوانی اور اتنے ہی فوجداری وکلاء ہوتے ہیں جب کہ بڑے اضلاع میں 10 سے 12 تک دیوانی اور فوجداری کے اچھے وکلاء ہوتے ہیں۔ تمام لوگ اپنے کیسز ان وکلاء کو دینا چاہتے ہیں جس سے ان پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے‘ باوجود اس کے بھی وہ سول جج کی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک کے کیسز لے لیتے ہیں۔

اصولاً تو کیس لاء کمپنی کے پاس ہونا چاہیے اور کسی ایک وکیل کی عدم موجودگی میں ساتھی وکیل کو پیش ہو کر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کرنی چاہئیں یا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکلاء کو صرف متعلقہ عدالتوں میں ہی وکالت کرنی چاہیے‘ اور 10 سے 15 سال کی وکالت کے وکلاء کو ماتحت عدالتوں میں کام نہ کرنے کا پابند کیا جانا چاہیے‘ اس کے ساتھ ساتھ وکلاء کو بھی ٹریننگ دی جانی چاہیے اور انھیں بھی کسی ڈسپلن کا پابند کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس وکلاء کے لائسنس کو معطل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

باقی معاملات اپنی جگہ۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ججز کے امتحان کا ہے، قبل ازیں بھی سول ججز کی 696 نشستوں کے امتحان کے رزلٹ پر بھی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی شکایات سنی گئی تھیں اور اب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے امتحان میں بھی بے قاعدگیوں کی شکایات سننے میں آ رہی ہیں۔ پنجاب جوڈیشل سروس رولز 1994ء کے تحت سول ججز کی بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونی چاہیے۔

عدالت ِ عالیہ لاہور نے پنجاب پبلک سروس کمیشن سے نگران عملہ اپنے ہی ادارے سے لینے کی فرمائش کی تھی جس سے انکار کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے سول ججز کے امتحانات خود لینے کا فیصلہ کیا۔ لاہور ہائیکورٹ کوئی امتحانی ادارہ نہیں ہے۔ جس طرح سول ججز کی بھرتی کا امتحان متعلقہ رولز کے تحت پنجاب پبلک سروس کمیشن کو لینے کا اختیار ہے‘ اسی طرح ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی بھرتی بھی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونی چاہیے۔ اس طرح ایک طرف تو کسی بے قاعدگی یا بے ضابطگی کی صورت میں کوئی انگلی عدالت عالیہ کی طرف نہیں اُٹھے گی‘ دوسری طرف امیدواران کو متعلقہ بے ضابطگی اور بے قاعدگی کی صورت میں عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا حق ہو گا۔

موجودہ صورتحال میں متعلقہ امیدوار عدالت ِ عالیہ سے رجوع کرنے سے محروم ہو جاتا ہے جو فطری قانون کے بھی خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی ادارہ یا انسان ایسا نہیں ہے جس سے غلطی نہ ہو۔ عدالت ِعالیہ لاہور کے فیصلوں کی روشنی میں اس کے خلاف رِٹ دائر نہیں ہو سکتی۔ یہ بات بہت حیران کن ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن، فیڈرل پبلک سروس کمیشن یا کسی بھی بورڈ/ یونیورسٹی کے امتحان میں بے قاعدگی، بے ضابطگی یا کسی رُول کی خلاف ورزی پر متعلقہ امیدوار کو عدالت  ِعالیہ سے رجوع کرنے کا حق ہے لیکن عدالت ِعالیہ کی طرف سے لیے جانے والے امتحان میں کسی بے ضابطگی یا بے قاعدگی پر اس سے رجوع کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ان حالات میں عدلیہ میں بھرتی کا اختیار بھی کسی خاص ادارے کو دے دینا چاہیے۔

سول ججز کی 696 آسامیوں کی بھرتی کے امتحان کے رزلٹ میں تمام امیدواران کے رات کو پاس ہونے اور صبح زیادہ تر امیدواران کے فیل ہونے سے نہ صرف بہت سے والدین کو ہارٹ اٹیک ہوا بلکہ ادارے کی بھی بدنامی ہوئی‘ اس بارے میں رِٹ فرہاد علی شاہ بنام رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ صرف اختیارِ سماعت کی وجہ سے خارج ہوئی۔ آئینِ پاکستان کی تشکیل کے وقت ہائیکورٹ لاہور کو سول ججز یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحانات کا انعقاد نہیں کرنا ہوتا تھا جس کے لیے آرٹیکل 199(5) آئین میں شامل کیا گیا جسکے تحت عدالت ِ عالیہ کے خلاف رٹ دائر نہیں ہو سکتی تھی۔

حالات و واقعات میں تبدیلی کی بنیاد پر متعلقہ قوانین میں مناسب ترامیم کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے مسائل کی اصل ذمے دار وکلاء برادری ہے جو جوڈیشل مافیا کا روپ دھار چکی ہے، اسے لگام دیے بغیر جوڈیشل ریفارمز کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ عدالتوں میں بدتمیزی کرنیوالے وکلاء کے لائسنس معطلی کا اختیار متعلقہ ڈسٹرکٹ جج یا ایک جوائنٹ کمیٹی کے پاس ہونا چاہیے جو متعلقہ عدالت سے اس کی اطلاع یا نوٹس پر فوری کارروائی کرے۔

اس پر بھی پابندی ہونی چاہیے کہ کسی وکیل یا بااثر شخصیت کے ذریعے مدعی یا مدعاعلیہ کے لیے کوئی متعلقہ جج سے ملاقات نہ کر سکے‘ اس کے ساتھ ساتھ ججز پر حکومتی، سرکاری یا نام نہاد شخصیات کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ان دونوں صورتوں میں جس پارٹی کی طرف سے جج تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے یا اس پر دباؤ ڈالا جائے تو جج کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس پارٹی کے خلاف فیصلہ سنا دے۔ ججز کی بھرتی کا اختیار ہائیکورٹ کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔

بھرتی کی شروعات سول ججوں سے ہو جسکا اختیار صوبائی پبلک سروس کمیشن کے پاس پہلے کی طرح ہو۔ بہت بڑی تعداد میں ججز کی اکٹھے بھرتی پر بھی پابندی ہونی چاہیے اور (اے ایس جے) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کی براہِ راست بھرتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی براہِ راست بھرتی سے پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں بے چینی اور مایوسی پھیل چکی ہے۔ علاوہ ازیںاتنے زیادہ جوڈیشل آفیسرز کی بھرتی سے آیندہ 4/5 سال تک نئی بھرتی نہیں ہو سکے گی اور اہل، مستحق اور لائق افراد سے عدلیہ کا ادارہ استفادہ کرنے سے قاصر رہیگا۔ پروموشن صرف ان سول ججز کو دی جائے جن کا کیریئر ریکارڈ بہتر اور صاف ہو۔ یہ اَمر انتہائی قابل ذکر ہے کہ ماتحت عدلیہ میں عدالتوں اور رہائشگاہوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔

حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے جھنگ اور گوجرانوالہ میں وکلاء سے خطاب میں کہا کہ پنجاب میں 1600 عدالتوں کی کمی ہے‘ اسطرح رہائشگاہیں بھی بہت کم ہیں۔ ایک سول جج کو چھوٹے شہر میں 4000 روپے جب کہ بڑے شہر میں6000 روپے کی اماؤنٹ ماہانہ ہاؤس رینٹ کی مد میں ملتی ہے جس سے گھر کرائے پر لینا انتہائی مشکل ہے۔ اتنی رقم میں تو آج کل ایک کمرے کا مکان بھی کرایہ پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ 4 اور 6 ہزار کا خیراتی وظیفہ دیکر سول ججز کو کاسہ لیس بنانے کی بجائے سرکاری رہائش فراہم کی جائے یا ایک اچھے علاقہ میں گھر تلاش کر کے اس پر جتنا بھی کرایہ اٹھتا ہو حکومت اسے خود برداشت کرے۔

اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں ججز کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کی فیس بچوں کی تعداد اور سٹینڈرڈ  کے حساب سے ’’چلڈرن ایجوکیشن بونس‘‘ (سی ای بی) کی شکل میں تنخواہ کے ساتھ ایڈ کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ججز کے لیے فیملی میڈیکل الاؤنس کا انتظام اس لیے بھی کرنا ضروری ہے تا کہ ججز یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے رشوت کا سہارا نہ لیں۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں ماتحت عدلیہ کے ججز چھوٹے چھوٹے کمروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں، جہاں انھیں واش روم اور ریٹائرنگ روم تک کی سہولت بھی میسر نہیں ہے‘ لاہور کے ایوانِ عدل سے پنجاب کے دوسرے اضلاع کی کچہریوں میں سول ججز ریڈرز کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ماتحت عدلیہ کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرے‘ اس کے علاوہ عدالتوں اور رہائشگاہوں کی کمی کو بھی دُور کرے۔ ہائیکورٹ کی طرف سے وکلاء کے لیے تین سو چیمبر   زیر تعمیر ہیں مگر افسوس کہ ججز کے لیے عدالتوں میں اوّل تو کم کم ہی چیمبرز  موجود ہیں اور جو ہیں وہ بھی تنگ و تاریک اور  انتہائی وحشتناک ہیں جن میں آسانی سے جج، اس کا عملہ اور متعلقہ ساز و سامان بھی نہیں سما سکتا۔ ماتحت عدلیہ میں سیشن کورٹس اس معاملے میں کافی حد تک سہولت پذیر ہیں لیکن سول کورٹس کو مناسب اور پیشہ ورانہ سہولیات سرے سے میسر نہیں ہیں۔

اکثر شہروں میں سول جج کا کمرہ کسی اسکول ماسٹر کے کمرے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ ریلوے کا کوئی بکنگ کلرک نظر آتا ہے‘ یہ انتہائی عجیب سی بات ہے کہ ایسے غیر مثالی ماحول میں جج کا نہ تو اپنے عملے پر کوئی رعب رہ جاتا ہے‘ نہ ہی پولیس والے جج صاحب کو عزت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی مدعی اور ملزمان کے دل میں عدالت کا کوئی خوف ہوتا ہے اور مقدمے کی کارروائی کے دوران دونوں پارٹیاں آپس میں سرِعدالت گالی گلوچ پر اُتر آتی ہیں اور جج صاحب بت بنے انھیں دیکھتے رہتے ہیں۔

اس سے بھی بڑا مسئلہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو سیکیورٹی کا ہے‘ نامناسب عدالتوں اور رہائشگاہوں کی وجہ سے ماتحت عدلیہ کے ججز کو سیکیورٹی کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ سال اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج شہید ہوئے‘ راولپنڈی میں طاہر نیازی ایڈیشنل سیشن جج کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا جب کہ حال ہی میں ڈسکہ میں ایڈیشنل سیشن جج قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہوئے۔ حکومت ِ پنجاب اور محکمہ داخلہ کو چاہیے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو مناسب سیکیورٹی فراہم کرے‘ ان کی عدالتیں اور رہائشگاہیں ایسی جگہوں پر تعمیر کی جائیں جہاں سیکیورٹی کے خطرات کم سے کم ہوں۔ پاکستان کی عدالتوں کا حال اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہاں نسلوں تک مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔

انصاف میں تاخیر بذاتِ خود انصاف کے ساتھ ایک ایسا کھلواڑ ہے جو قانونی ہی نہیں معاشرتی جرم بھی ہے اور اس جرم کی مذہب کی نظر میں بھی بہت بڑی سزا ہے۔ وکلاء کو چاہیے کہ وہ مدعی اور متعلقہ عدالت سے تعاون کے ساتھ ساتھ ہر تاریخ پر بروقت پیش ہو کر مقدمات کو التواء کی نذر ہونے سے بچائیں۔ اس کے علاوہ مقدمات کے ختم کرنے کے لیے ایک حد مقرر کی جانی چاہیے۔ سیدھے سیدھے مقدمات کا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں فیصلہ ہو جانا چاہیے‘ پیچیدہ مقدمات کو بھی تین سے چار ماہ میں بہرصورت نمٹا دیا جانا چاہیے۔ فیملی مقدمات اور کرایہ داری کے مقدمات میں حد مقرر کرنے کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

سول مقدمات کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ جب کہ فوجداری مقدمات کے لیے زائد از زائد ایک سال کا عرصہ متعین ہونا چاہیے۔  دانستہ التواء یا خلاف وزی کی صورت میں متعلقہ جج، وکیل اور فریقین پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔ مقدمات کا بوجھ ماتحت عدلیہ پر کم کرنے کے لیے معمولی نوعیت کے معاملات کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اندر ختم کیا جانا چاہیے۔ پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں ہزاروں مقدمات نام درستی، تاریخ پیدائش درستی اور پیدائش و اموات کی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے دائر کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عدالتوں پر غیرضروری بوجھ پڑتا ہے‘ عوام الناس کے وقت اور پیسہ کا ضیاع اس کے علاوہ ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اس کام کے لیے متعلقہ محکمہ جات کو ہدایات جاری کرے کہ وہ ایسے کاموں کے لیے اپنے اپنے ہاں آنسر  سیل قائم کریں جو ایک ہی دن میں درستی کر کے سرٹیفکیٹ سائل کے حوالے کرے‘ یا پھر ایسا ایک ادارہ قائم کیا جائے جس میں بلدیہ، ٹاؤن کمیٹیاں، تعلیمی بورڈ اور اس طرح کے دیگر ادارے شامل ہوں جنہیں ریکارڈ درستی کے لیے نادرا کے ایک علیحدہ ’’ڈیپارٹمینٹل کرنچ یونٹ‘‘ (ڈی سی یو) کا تعاون حاصل ہو۔

اس طرح کے معمولی معاملات کو اپنے سر سے اُتارنے کے لیے عدالتوں پر لادنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ عدالتیں چھوٹے موٹے ریکارڈ کی درستی کے لیے نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے کے لیے ہیں‘ انھیں بے جا کاموں میں اُلجھا کر اصل مقدمات سے توجہ ہٹانا بھی ایک جرم ہے‘ اس بارے میں سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔ ماتحت عدالتوں میں ہزاروں مقدمات بجلی کے بلوں اور اداروں سے متعلقہ ہیں‘ اس نوعیت کے کاموں کو مقدموں میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ متعلقہ اداروں کے اپنے کرنے کے کام ہیں جس کے لیے انھیں ہر حال میں ’’اِن ڈور‘‘ یا ’’موبائل یوٹریکل‘‘ قائم کرنے چاہئیں تا کہ سائلین کو خواہ مخواہ کی پریشانی سے نجات دلائی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ محتسب ِاعلیٰ کے ادارہ کو مضبوط بنائے جس سے عدالتوں پر سے مقدمات کا غیرضروری بوجھ کم ہونے میں مدد ملے اور لوگوں کو سستا اور فوری انصاف بھی میسر آئے۔

اسی طرح معمولی نوعیت کے مقدمات کو دیہاتوں اور شہروں میں پنچائتی نظام کے سپرد  ہونا چاہیے۔ چونکہ نمبردار کا کردار دیہاتوں میں ختم ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی حیثیت اب بے معنی سی ہو گئی ہے‘ ایسی صورتحال میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کوچند مناسب سے نیم فوجداری اختیارات بھی تفویض کر دینے چاہئیں جو مقامی سطح پر فریقین میں صلح صفائی کروا کر اور لین دین کے معاملات کو بطریقِ احسن نمٹا کر عدالتوں کا آدھے سے زیادہ بوجھ کم کر سکتے ہیں‘ ایک لحاظ سے یہ فوری اور سستے بلکہ مفت انصاف کی ایک عملی شکل ہو گی جسے فی الفور نو منتخب بلدیاتی نمایندوں کی ذمے داریوں میں شامل کیا جانا از حد ضروری ہے۔

کارپوریٹ اور دیگر مقدمات میں اے ڈی آر (تنازعہ کے حل کا متبادل نظام) کے ذریعے بھی لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے جس کے لیے فریقین کی طرف سے نامزد افراد پر مشتمل پنچائت نما ایک باڈی قائم کی جائے جو باہمی رضا مندی سے تنازعہ کا حل تلاش کر کے فریقین کو مطمئن کرے۔ فوجداری کے معمولی نوعیت کے مقدمات کے لیے سپیشل مجسٹریٹ کو اختیارات دیے جائیں جو ایک ماہ میں ان کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو اور ہر مقدمہ پر سیشن کو ایک حلف جمع کرائے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیگا اور نہ ہی کسی فریق سے رشوت لے گا‘ اس کے بعد بھی اگر وہ جانبداری ظاہر کرے یا انصاف میں ڈنڈی مارے تو متاثرہ فریق کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو شکایتی درخواست جمع کروانے کا پورا پورا حق ہونا چاہیے جس پر اے ڈی ایس جے کو چاہیے کہ وہ دو افراد پر مشتمل ایک نظرثانی ٹیم مقرر کرے جو متاثرہ فریق کے مقدمہ کی جانچ کر کے اسے دوسرے مجسٹریٹ کے پاس دوبارہ سماعت کے لیے بھیجے۔

جہاں تک خطرناک ملزموں کے مقدمات کا تعلق ہے تو ایسے مقدمات کو جیل میں ہی سنا جانا چاہیے تا کہ وہ عدالتوں کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ کا باعث نہ بنیں۔ فوجداری مقدمات کے لیے جدید ڈیوائسز میں ویڈیو کانفرنس اور فرانزک لیب کا استعمال بڑھایا جائے جس سے مقدمات کو تیزی سے چلانے میں ہر ممکن مدد ملے گی۔

فوجداری مقدمات میں تیزی اور سزاؤں کو یقینی بنانے کے لیے تفتیشی پولیس کی ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ متعدد پولیس افسران عدالتی طریقہ کار اور  قانون سے نابلد ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مقدمات میں بہت سے خطرناک ملزمان بھی بری ہو  جاتے ہیں جن کا الزام سیدھا سیدھا عدالتوں پر لگتا ہے‘ اسی طرح پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی اصلاح بھی نہایت ضروری ہے۔ پراسیکیوشن کا کام بطور مدعی مقدمہ کی پیروی کرنا ہے لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھرتی کا طریقہ کار ٹھیک نہ ہونے اور مختلف سہولیات نایاب ہونے کی وجہ سے اس محکمہ کے نتائج انتہائی حوصلہ شکن ہیں جسکا نتیجہ فوجداری مقدمات میںطوالت اور ملزمان کے بری ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔

صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ پراسیکیوشن میں بھی ضروری اصلاحات متعارف کروائی جائیں اور اسے نتیجہ خیز بنایا جائے تا کہ عدالتوں میں ملزمان کو سزائیں بھی مل سکیں۔ جس طرح فوجداری مقدمہ میں پولیس اور پراسیکیوشن کی وجہ سے مقدمات میں ملزمان بری ہو جاتے ہیں اور مقدمات غیریقینی طوالت کا شکار ہوتے ہیں، کمزور استغاثہ تیار کرنیوالی پولیس اور پراسیکیوشن کو کڑی سزا دی جائے تو اس سے ان کے بارے میں مسلسل شکایات کا ازالہ ہو سکے گا۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں بھی محکمہ مال کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے‘ لاکھوں کی تعداد میں دیوانی مقدمات کی بڑی وجہ محکمہ مال کی کرپشن اور بدانتظامی ہے۔ محکمہ مال میں ریکارڈ درست طریقہ سے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دیوانی عدالت کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

لوگوں کی جائیدادوں کا فیصلہ بھی سالہاسال نہیں ہو پاتا۔ جب تک محکمہ مال کی مرمت اور صفائی ستھرائی نہیں ہو جاتی، دیوانی عدالتوں کی صحت بھی خرابی کا شکار رہے گی اور سائلین بھی انصاف کے لیے دَربدر ہوتے رہیں گے۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو لوگوں کی جائیدادوں کا ریکارڈ درست طریقہ سے رکھنے کا پابند کیا جائے اور ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کو بھی تیز کیا جائے۔ اسی طرح جائیداد کی رجسٹریشن کے لیے بذریعہ کمیشن یا مختارنامہ منتقل ہونے پر پابندی ہونی چاہیے‘ جیسا کہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسے کامیاب منصوبوں میں ہوتا ہے۔

فیملی اور گارڈین کیسز میں حکومت نے بہت سی ترامیم کی ہیں‘ تاہم ان مقدمات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس سے لوگوں، خاص طور پر خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فیملی کیسز میں اجراء (تعمیل) کے عمل کو تیز کرنے کے لیے عدالتوں کی معاونت کرے۔ یہ ذمے داری عدالت ِ عالیہ کی ہے کہ گارڈین اور فیملی جج (جو کہ سینئر سول جج کے رینک کا ہو) تعینات کیا جائے تا کہ عائلی مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد کیا جا سکے۔ ان تمام مسائل کے بیان کے بعد حتمی رائے ہم یہی دینگے کہ جب تک انصاف کرنیوالوں کے مسائل حل نہیں کیے جائینگے تب تک عوام کو انصاف کے حصول میں تاخیر و پریشانی کا سامنا رہیگا اور ماتحت عدلیہ کے ماحول میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئیگی اس کے لیے فرسودہ عدالتی نظام کو سرجیکل ریفام کے چرخے پر چڑھانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔