تھوڑا سا حصہ…

شیریں حیدر  اتوار 7 فروری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بچے رات کو دیر تک جاگ کر لاؤنج میں بیٹھے رہے تھے، اس کا ثبوت لاؤنج میں مختلف جگہوں پر دھری پلیٹیں اور گلاس تھے۔ مونگ پھلیوں کے چھلکے میز سے اٹھا کر پیالے میں ڈالتے ہوئے میرے ہاتھ سے مونگ پھلی کا ایک ثابت دانہ ٹکرایاجو کہ غالباً کسی کے ہاتھ سے چھوٹ کر پیالے میں گر گیا تھا، اتنی سی بات سے مجھ پر اپنے انتہائی پیارے چچا جان کی یاد کا غلبہ ہوا جو اس دار فانی سے گزشتہ برس کوچ کر گئے تھے۔یوں تو ہمیں اپنے ان عزیزوں کی یاد زندگی میں بار ہا آتی ہے مگر یوں ان کی یاد آ جانے کا ایک سبب اپنے بچپن کی ان سے منسلک ایک یاد ہے، جب ہم سب اپنی دادی جان کے گھر میں اکٹھے رہا کرتے تھے، چچا جان ہم سب بچوں کے ہردلعزیز چچا ہوتے تھے، بذلہ سنج، خوش مزاج ، میں نے عمر بھر انھیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔

سردیوں میں ہم لوگ رات کے کھانے کے بعد بڑے کمرے میں جمع ہوتے تھے جہاں ہماری دادی جان کا پلنگ ہوتا تھا۔ کوئلوں کی انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر ڈالے جاتے اور دھواں ختم ہونے پر اسے اندر لایا جاتا، انگیٹھی کے ارد گرد ایک دنیا آباد ہو جاتی، بچے بڑے سب بیٹھ جاتے، کوئی چارپائی پر کوئی صوفے پر، کوئی دادی جان کے پلنگ پر… بزرگ چائے یا قہوہ پیتے ، اس کے بعد مونگ پھلیوں ، ریوڑیوں اور کنو، مالٹوں کا دور چلتا، جوں جوں رات بیتتی جاتی، چھلکوں کے ڈھیر بلند ہوتے جاتے۔ مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے بڑے ہم سے پہیلیاں پوچھتے، کسوٹی کھیلتے اور معلومات عامہ کے مقابلے ہوتے، اس کے لیے چچا جان کی سرپرستی میں ٹیمیں بنتیں ۔

چچا جان کا حکم تھا کہ مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے جو چھلکے ہم فرش پر بچھی ہوئی چادر پر پھینکتے تھے ان میں سے ہر دسویں چھلکے کے ساتھ ایک ثابت دانہ مونگ پھلی کا پھینک دیں، ہمیں اس وقت ایسا کرنا کیسا محال لگتا تھا مگر چچا جان کا حکم تھا اگرچہ کئی بار ہم اس میں ڈنڈی بھی مار جاتے تھے۔ اس کی وجہ چچا جان بتاتے تھے کہ صبح جب صفائی والی صفائی کرے گی ( چھلکے سمیٹ کر وہ اپنے گھر جلانے کے لیے لے جاتی تھی) اسے چھلکے اٹھاتے ہوئے ان میں سے ثابت مونگ پھلیوں کے دانے ملیں گے تو خوشی ہو گی!! اب سوچتی ہوں کہ ان کا فلسفہ، ہر دس دانوں میںسے ایک دانہ، اپنے حصے کے رزق میں سے دسواں حصہ دینے کا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح اللہ تعالی نے ہم پر زکوۃ یا عشر لاگو کیا ہے۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات اور اس سے حاصل ہونے والا سبق چھوٹا سا سبق لگتا ہے مگر سمجھنے والوں کے لیے اس میں معانی کے سمندر ہیں ۔

اپنی آمدن میں سے زکوۃ یعنی چالیسواں حصہ غریبوں یا ضرورت مندوں کے لیے مختص کرنا، اسلامی احکام میں سے وہ حکم ہے کہ جس کی صحیح طریقے سے تعمیل کی جائے تو شاید ہمارے ملک میں کوئی غریب نہ رہے، کوئی بھوکا نہ سوئے، کوئی ٹھٹھر ٹھٹر کر شب و روز نہ گزارے، کوئی بے سائباں نہ ہو، کوئی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، کوئی اپنا بچہ غربت کے باعث کسی جھولے میں نہ ڈال جائے، کسی کی بیٹی جہیز کے بغیر عمر بھر کنواری نہ بیٹھی رہے، کسی کا جوان بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش دل میں دبا کر رکشہ نہ چلانا شروع کر دے، کوئی بغیر علاج کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرے، کوئی مجبور ہو کر خودکشی کرے نہ اپنے بچوں کو بیچے۔

عشر… لفظ عشر سے ہی مطلب واضح ہو جاتا ہے، یعنی دسواں حصہ۔ زکوۃ ہماری دولت اور قیمتی اشیاء کا چالیسواں یا اڑھائی فیصد حصہ اللہ کی راہ میں دینے کا نام ہے تو عشر اپنی ہر طرح کی فصل میں سے دسواں یا بیسواں حصہ مستحقین کے لیے وقف کر دینے کا نام ، خواہ وہ فصل بھنڈی توری کی ہو، کدو ، خربوزے، گندم، چاول، جو ، گنا، زیتون، انار، انگور یا کوئی بھی پھل، غرض ہر طرح کی جنس پر عشر کے احکامات ہیں۔ زکوۃ کے لیے سال بھر کے لیے نصاب آپ کے پاس ہونے کی شرط ہے جب کہ عشر اسی وقت لاگو ہو جاتا ہے جب آپ فصل کاٹتے ہیں، خواہ کوئی درخت یا بیل سال میں دو بار پھل دے یا سارا سال اس پر پھل لگتا رہے!! سورۃ الانعام کی آیت نمبر 141 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔

’’اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے، وہ بھی جو ٹٹیوں ( منڈیروں یا چھپروں) وغیرہ پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی   جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے، ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے ( عشر) وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 267 میں ارشاد ربانی ہے۔

’’ اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو… ‘‘

عشر کی وضاحت کے لیے حدیث، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔’’ جو زمین کھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہوتی ہو یا وہ زمین جو خود بخود سیراب ہو اس میں سے دسواں حصہ عشر کی مد میں لیا جائے اور جو کھیتی کنوئیں کے پانی سے سینچی جائے اس میں سے بیسواں حصہ لیا جائے۔‘‘

ہم میں سے وہ لوگ جنھیں اللہ تعالی نے استطاعت اور طاقت دے رکھی ہے، ہمیں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں سے بہتر بنایا تا کہ ہم اپنے حصے میں سے ان لوگوں کو بھی عنایت کریں جنھیں ان کی سکت نہیں ہے۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے اور اس پر کوئی سوال ہے نہ بحث، اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں ان میں سے بنایا جو دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں روزمرہ زندگی میں کتنا رزق ضایع کر دیتے ہیں، ضرورت سے زائد پک جاتا ہے اور کبھی کبھار اتنی اقسام کے کھانے بن جاتے ہیں کہ سب کھانے پر طبیعت نہیں مانتی، ہماری میزیں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھری ہوتی ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم اس پکے ہوئے کھانے میں سے کچھ حصہ کسی اور کو بھی دے دیں۔

لازم نہیںکہ ہم کسی کو بچا ہوا کھانا ہی دیں، ہم اپنے دستر خوان پر کھانے میں کسی کو شامل کر لیں یا کسی کے ہاںایک پلیٹ سالن یا چاول بھجوا دیں۔ایک کھانے کی مثال ہی نہیں، ہم اپنی ہر خوشی میں کسی کو شامل کرلیں، جب ہم کپڑے بنائیں اور اپنے لیے دس جوڑے خریدیں تو ان میں سے ایک جوڑا کسی اور کو دے دیں، اس کے لیے بھی کسی کا غریب ہونا شرط نہیں، اپنے کسی قریبی عزیز کو ایک جوڑا دے دیں۔ نئے کپڑے بنوائیں تو اتنی ہی تعداد میں پرانے جوڑے نکالیں جو کئی سالوں سے الماریوں میں لٹکے ہوئے آپ کی نظر کرم کے محتاج رہتے ہیں، کئی موسم آتے اور جاتے ہیں ۔

فیشن بدل جاتے ہیں مگر وہ اس لیے بغیر پہنے لٹکے رہ جاتے ہیں کہ وہ آپ کو اچھے نہیں لگتے، مگر یقین کریں کہ وہ آپ کی نظر میں چاہے اچھے نہ سہی مگر کئی لوگوں کے تن ڈھانکنے کے کام آ جائیں گے، خود سے نیچے کے لوگوں کو دیکھیں تو ان کے لیے وہ کپڑے بہت قیمتی ہوں گے کہ انھیں ایسے کپڑے خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔

ہم سب کے گھروں میں ہمارے پرانے سویٹر، شالیں، مفلر، جوتے، تولیے، برتن، دوائیں، بستروں کی چادریں، دلائیاں ، کمبل، رضائیاں، سرہانے، قالین، مصلے… بہت سی چیزوں کو ہم اپنے گھروں میں یونہی پڑا رہنے دیتے ہیں، نہ خود استعمال کرتے ہیں نہ کوئی اور ان سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کبھی گنجائش نکلے تو موسم کے حساب سے ایسی چیزیں خرید کر غریب بستیوں میں پہنچائیں تو کئی لوگ آپ کو دعائیں دیں گے۔

اسلامی تعلیمات کا یہ سبق اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو پر لاگو کر لیں تو نہ صرف ہمیں خوشی ملے گی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے زکوۃ ، صدقات اور خیرات کے صلے میں جس اجر کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی ملے گا، صدقات اور خیرات ہم پر سے بلاؤں اور آفات کو ٹالتے ہیں اور معاشرے میں توازن اور اعتدال پیدا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔