بٹ، گُرو اور 68 شہدا کی یاد

تنویر قیصر شاہد  پير 8 فروری 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہر سال فروری کا مہینہ آتے ہی حریتِ کشمیر اور کشمیریوں سے بھارت کی زیادتیوں کی داستانیں پھر سے یاد آنے لگتی ہیں۔ پانچ فروری کو ’’یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ کا ملک بھر میں جوش و خروش سے منایا جانا ان یادوں ہی کی ایک عملی شکل ہے۔ یہ فروری کا ہی مہینہ ہے جس میں بھارتیوں نے مقبوضہ کشمیر کے ایک جری اور نامور مجاہد، مقبول بٹ، کو شہید کر دیا تھا۔ یہ شہادت بتیس سال قبل، گیارہ فروری 1984ء کو ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجے سے آزاد کرانے کے لیے ان کی جدوجہد کو سیلوٹ کیا جانا چاہیے۔

ساٹھ کے عشرے کے وسط میں بھارتی قابض فوج نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں قتل ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کے ذمے دار ہیں۔ مقبول بٹ چونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف خاصے سرگرم تھے اور ایک حریت پسند تنظیم ’’جے کے ایل ایف‘‘ کے بانیوں میں سے ایک بھی، اس لیے ایسا الزام لگانا آسان تھا۔ انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ ایک مختصر سماعت کے بعد بھارتی عدالت نے انھیں سزائے موت سنا دی۔ کچھ عرصہ بعد وہ سری نگر جیل سے سرُنگ کے ذریعے فرار ہو کر کشمیر و بھارتی سرزمین سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

آزادی کی لگن و تڑپ کا جذبہ مگر سرد نہ ہو سکا۔ یہی جذبات انھیں دوبارہ اپنی سرزمین پر  لے گئے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی مظالم اور کشمیریوں کے خلاف متشددانہ کارروائیوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے مقبول بٹ نے 1971ء میں اپنے ساتھیوں (ہاشم قریشی وغیرہ) سے مل کر ایک بھارتی مسافر طیارہ اغوا کیا اور اسے پاکستان لے آئے۔ یہاں حکام نے انھیں گرفتار کر لیا اور مغوی مسافر رہا کر کے واپس بھارت بھجوا دیے۔ تین سال بعد مقبول بٹ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہا تو کر دیے گئے لیکن تقریباً دو سال بعد ہی وہ آزادی کشمیر میں ایک بار پھر بھرپور ذاتی کردار ادا کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گئے۔

یہ خبر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو بھی مل گئی تھی۔ آخر ایک روز وہ گرفتار کر لیے گئے۔ ان کی سابقہ سزائے موت کا فیصلہ ابھی قائم تھا؛ چنانچہ بھارت نے اب اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔ مقبول بٹ کے خاندان، ان کی پارٹی اور کشمیری قیادت کی طرف سے مہم چلائی گئی کہ مقدمہ ناجائز اور فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے لیکن بھارت ٹس سے مَس نہ ہوا۔ سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ آخری اقدام کے طور پر بٹ کے اہلِ خانہ کی طرف سے بھارتی صدر، گیانی ذیل سنگھ، کو رحم کی اپیل کی گئی مگر یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔

یوں مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو، جب کہ اُن کی عمر صرف 45 سال تھی، دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بھارت نے شہادت کے بعد ان کا جسدِ خاکی بھی اسی جیل کے اندر ہی دفن کر دیا۔ یہ ظلم پر مزید ظلم تھا۔ شہید مقبول بٹ کے خلاف بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا منفی پروپیگنڈہ ابھی تک ختم نہیں ہو سکا حالانکہ اس واقعہ کو تین عشرے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کی مثال بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُولت کی لکھی گئی تازہ کتاب (Kashmir:  The  Vajpayee  Years) ہے جس میں مصنف کی طرف سے مقبول بٹ شہید کی کردار کشی کی قابلِ مذمت کوشش کی گئی ہے۔

اس پروپیگنڈے کے باوجود 3 فروری 2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں ’’حریت کانفرنس‘‘ کے دونوں ممتاز رہنماؤں (سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق) اور ’’جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ‘‘ کے سربراہ (محمد یاسین ملک) نے متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ 9 اور 11 فروری 2016ء کو شہید مقبول بٹ اور محمد افضل گرو شہید کی یاد میں سارا کشمیر بند رہے گا اور اس موقع پر یہ مطالبہ ایک بار پھر کیا جائے گا کہ ہمارے ان دونوں عظیم شہید سپوتوں کی میتیں ہمارے حوالے کی جائیں۔

مقبول بٹ کی شہادت کے 29 سال بعد یہ بھی فروری کا ہی مہینہ تھا جب ایک اور سرفروش مگر بے گناہ کشمیری کو بھارتی ظالموں نے دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کر دیا۔ ان کا نام محمد افضل گُرو تھا۔ بھارتیوں نے جب سوپور کے ایک گاؤں ’’دوآبگاہ‘‘ کے رہنے والے اس معصوم کشمیری کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا، اس وقت ان کی عمر صرف 43 سال تھی۔ الزام لگایا گیا تھا کہ دسمبر 2001ء کو جب مبینہ طور پر دہشت گردوں نے دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو گُرو حملہ آوروں کی معاونت کرتے ہوئے مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔

یہ سراسر تہمت تھی لیکن اس کے باوجود بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے گُرو کو تین دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت انھیں موت کی سزا سنائی گئی لیکن نظر ثانی کے لیے مقدمہ مزید بارہ سال چلتا رہا۔ اس دوران دنیا کی بہت سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ کئی انصاف پسند بھارت دانشوروں نے بھی یہ مہم چلائی کہ افضل گرو بے گناہ ہیں، اس لیے انھیں موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ ان باضمیر لوگوں میں بھارت کی ممتاز دانشور اور صحافی محترمہ ارُن دھتی رائے سرِ فہرست ہیں۔

رائے صاحبہ نے کئی بھارتی اور غیر ملکی اخبارات و جرائد میں، محمد افضل گُرو کی بے گناہی کے حق میں، مضامین لکھے، مظاہرے کیے لیکن بھارتی عدالتیں اور اسٹیبلشمنٹ طے کر چکی تھی کہ افضل گُرو کو ہر حال میں پھانسی دینی ہے؛ چنانچہ جب گُرو کی اہلیہ (تبسم) نے بھارتی صدر، پرنب مکھرجی، سے رحم کی اپیل کی تو اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ اور آخر کار افضل گرو کو 9 فروری 2013ء کو صبح آٹھ بجے دہلی میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔

بھارتیوں نے مزید ظلم یہ کیا کہ پھانسی سے قبل نہ تو گُرو کے گھر والوں کومطلع کیا اور نہ ہی پھانسی کے بعد ان کی میت خاندان کے سپرد کی بلکہ مقبول بٹ شہید کی طرح افضل گرو کو بھی تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا۔ گُرو کی شہادت کے تقریباً دو سال بعد، مئی 2015ء کو، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے بھارتی انگریزی اخبار ’’دکن کرانیکل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا: ’’ہمیں آج یہ بات پسند آئے یا نہ آئے مگر حقیقت یہی ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت نے افضل گُرو کو محض سیاسی مفادات کے تحت پھانسی دی تھی۔‘‘

گُرو کی شہادت کے ایک روز بعد، دس فروری 2013ء کو، برطانیہ کے معروف اخبار ’’گارڈین‘‘ نے اپنے ایک طویل آرٹیکل میں لکھا تھا کہ افضل گُرو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جو کبھی نہ مٹ سکے گا۔ بارہ جنوری 2016ء کو افضل گُرو کی شہادت کی یاد سے ایک بار پھر پاکستان اور مقبوضہ کشمیرمیں لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں جب یہ خبر آئی کہ گُرو کے اکلوتے بیٹے، غالب افضل گُرو، نے میٹرک کے امتحان میں 95 فیصد نمبر لے کر ممتاز ترین پوزیشن لی ہے۔ غالب گُرو مقبوضہ کشمیر میں سوپور کے ’’شاہ رسول میموریل اسکول‘‘ میں زیرِ تعلیم تھے۔ ننھا گرو ڈاکٹر بننا چاہتا ہے کہ اس کا شہید باپ بھی تو ڈاکٹر ہی بننا چاہتا تھا مگر تعلیم بیچ میں ادھوری رہ گئی اور وہ جنت سدھار گیا۔

اور یہ بھی اٹھارہ اور انیس فروری 2007ء کی درمیانی شب تھی جب ’’انڈیا پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ پر بموں سے حملہ کیا گیا۔ اس بہیمانہ اقدام میں 68 پاکستانی مسافر شہید کر دیے گئے۔ یہ حملہ بھارت اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر کیا گیا تھا اور بھارت کی مسلم دشمن ہندو مذہبی جماعتیں اس میں پوری طرح ملوث تھیں۔ آر ایس ایس کا مرکزی رہنما، سوامی آسیما آنند، کو مسلمان مسافروں کو تہ تیغ کرنے کی پوری آزادی اور سہولت فراہم کی گئی۔ آسیماآنند گرفتار بھی ہوا اور سزا پر جیل بھی گیا مگر نریندر مودی کی حکومت بنتے ہی اسے باعزت رہا کر دیا گیا۔

مودی جی اپنے ہم نظر آسیما آنند کو کیوں نہ رہا کرتے کہ جب 2002ء میں نریندر مودی نے ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ ہونے کے ناتے بھارتی متشدد اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے ہاتھوں بے گناہ گجراتی مسلمانوں کا قتلِ عام کروایا تو یہ آسیما آنند ان کا ہتھیارا تھا۔ یہ سانحہ 27 فروری کو ظہور میں آیا تھا۔ فروری تو بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ستمگر مہینہ بن کر رہ گیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم تقریباً سب ہی ان سانحات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔