ہمارے الفاظ مر چکے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 10 فروری 2016

یوجنبی یوتو شینکو کہتا ہے ’’اگر سچ کی جگہ خاموشی لے لے تو اس خاموشی سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں‘‘ آج ہم سب خاموش ہیں سب جھوٹے ہیں لگتا ہے سب مر گئے ہیں، پورا ملک قبرستان بن گیا ہے۔

ہوریس نے کہا تھا ’’جنگل سال کے ختم پر اپنی پتیاں بدلتے ہیں اور پہلے کی پتیاں گر جاتی ہیں اسی طرح الفا ظ بھی بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔‘‘ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہو گیا ہے، ہمارے الفا ظ بوڑھے ہو کر مر گئے ہیں، جب الفاظ جوان ہوتے ہیں، تو وہ سچ ہوتے ہیں اور جب بوڑھے ہو جائیں تو جھوٹے ہو جاتے ہیں اور جب ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہوتا ہے تو پھر سناٹا جنم لے لیتا ہے اور اس وقت تک سناٹا رہتا ہے، جب تک نئے الفاظ پیدا نہ ہو جائیں، اسی لیے آج ہر طرف سناٹا ہے۔

اسی لیے آج کسی چیز کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں ہر چیز بے معنیٰ ہو چکی ہے کیونکہ الفاظ مر چکے ہیں آج کرپشن، فراڈ، دھوکا دہی، چوری، ڈاکے، زنا کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، آج ایمانداری، دیانتداری، وفا، خلوص، بے معنی ہیں اور تو اور ہم سب بھی بے معنیٰ ہو چکے ہیں، اب ہمارے ہاں کچھ بھی ہو جائے کیسا بھی ہو جائے نہ لوگ چیختے ہیں نہ چلاتے ہیں نہ تڑپتے ہیں اور نہ کہیں ماتم ہوتا ہے نہ لوگ اپنے آپ کو پیٹتے ہیں بس چپ چاپ سب کچھ ہوتا ہو ا دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک لفظ تک نہیں بولتے کیونکہ ہمارے الفاظ مر چکے ہیں۔

جب آپ سماج میں نئی سو چ، نئی فکر، نئے خیالات آنے کے تمام راستے، تمام دروازے، تمام کھڑکیاں بند کر دیتے ہیں تو پھر شدید حبس اور گھٹن کے باعث سماج کی ساری چیزیں بوڑھی ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور آپ بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں آپ کا نفس، ضمیر، ذہن اور دل بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور پھر الفاظ بھی بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔

ایسے سماج میں لوگ پھر اپنے اندر نفرت اور عداوت کی بارودی سرنگیں لیے لیے پھرتے ہیں پھر سماج میں ایسی بربادی پھیلتی ہے کہ پھر وہاں پھول نہیں نفرت، تعصب، کرپشن کے کانٹے اگتے ہیں اور ان کانٹوں سے کسی کا بھی دامن محفوظ نہیں رہ پاتا۔ لوگ جتنی بار ان کانٹوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ہر بار اپنی ہتھیلیوں کو زخمی کر لیتے ہیں پھر ملک کے کرتا دھرتا ہی لٹیرے بن جاتے ہیں۔

انصاف دینے والے انصاف لوٹنے لگ جاتے ہیں پھر عصمتیں اور عزتیں تار تار کر دی جاتی ہیں پھر ایمانداری، دیانتداری، وفا، خلوص، محبت کو سرعام برہنہ کر دیا جاتا ہے پھر شریفوں اور مفلسوں کو پتھر مارے جاتے ہیں پھر احساسات، جذبات، تہذیب و تمدن، روایتوں کی اجتماعی زناکاری کی جاتی ہے پھر ہر جگہ اقتدار کے بھوکوں، لٹیروں، قاتلوں، قبضہ گیروں، بھتہ خوروں، کمیشن ایجنٹوں کے غول کے غول گھومتے رہتے ہیں اور عزت دار چھپتے پھرتے ہیں پھر بنیاد پرستی وحشیانہ ناچ ناچتی ہے پھر فتوے گلی گلی بکتے ہیں۔ پھر لوگ اپنے علاوہ سب پر الزامات کی بارش کر رہے ہوتے ہیں ۔

روم کے Capitoline عجائب گھر میں سنگ مرمر پر کی ہوئی سنگ تراشی کا ایک نمونہ رکھا ہوا ہے جو ایک بہترین تخلیق ہے یہ مجسمہ ہے ایک ’’مرتے ہوئے گال‘‘ کا۔ گال مغربی یورپ کے اس علاقے کا پرانا نام ہے، جو اب فرانس، لکسمبرگ اور سو ئٹزر لینڈ کا حصہ ہے گال کے باشندے بھی گال ہی کہلاتے تھے، وہ شخص شدید زخمی میدان جنگ میں لیٹا ہوا ہے، لڑائی سے سخت کوش اس کا تنومند جسم موت کی آغوش میں جا رہا ہے، اس کا موٹے بالوں سے ڈھکا سر ڈھلکا ہوا ہے۔

اس کی مضبوط گردن مڑی ہوئی ہے، مزدوروں جیسے طاقتور کھردرے ہاتھ جو ماضی قریب میں تلوار اٹھاتے تھے، اب زمین پر ٹیک لگا کر آخری کوشش سے اپنا ڈھلتا ہوا بدن سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس ان خداؤں سے جنگ کر نے پر اکسایا گیا تھا، جنہیں وہ جانتا نہیں تھا، اپنے ملک سے بہت دور اور اس طرح وہ اپنے انجام کو پہنچا اب وہ اس مقام پر لیٹا ہوا خاموشی کی موت مر رہا ہے، دنگے فساد کی آوازیں اس کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اندر کی جانب پھری ہوئی ہیں وہ شاید آخری بار اپنے بچپنے کے گھر کو تک رہا تھا۔ مجھے جب جب ’’مرتے ہوئے گال‘‘ کا مجسمہ یا د آتا ہے، تب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم ’’سب مرتے ہوئے گال‘‘ کے مجسمے بن چکے ہیں اور اپنے بچپنے کے پاکستان کو تک رہے ہیں۔ اسے یاد کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کیا سے کیا ہو گیا ہے۔

آج ہماری زندگی کی ڈور ان نقب زنوں اور کمتر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ان کی حرکتوں کے نتائج کیا نکلے ہیں۔ ہماری اذیت اور تکلیف کو وہ ہی محسوس کر سکتے ہیں، جنہوں نے قحط سالی کا سامنا کیا ہوا ہو، بھوک سے ہونے والی اموات ان کے سامنے ہو رہی ہوں تب ہی وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر بدقسمتی کی حالت کو دیکھ سکتا ہے جب انھوں نے اپنی عاجز آنکھوں سے پھیکی پڑی ہوتی دن کی روشنی میں بھوکے بچوں کے چہرے دیکھے ہوں جب تلملاتی ہوئی ماؤں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی اپنی چھاتیوں سے لگاتے دیکھا ہوا ہو اور مردوں کے بھوت جیسے ڈھانچوں کو کچے فرش پر بچھی چٹائیوں پر پڑے مہربان موت کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہو ۔

جب انھوں نے معصوم چھوٹے چھوٹے اسکول کے یونیفارم میں ملبوس بچوں کو خون میں لت پت دیکھا ہو، جب انھوں نے عبادت گاہوں کے در و دیوار پر چپکے انسانی گوشت کے لوتھروں کو دیکھا ہو۔ تب وہ سمجھ سکیں گے کہ یہ سب ہمیں کس طرف لے جا رہے ہیں اور تب ہی وہ ان سوالات کی اصلی نوعیت کو سمجھ سکیں گے۔

خدارا انسانوں کو زندہ رہنے دو، انھیں چین و سکون سے جینے دو انھیں وقت سے پہلے قبروں میں مت اتارو وقت سے پہلے ان کی قبریں مت کھودو خدارا ملک کو قبرستان مت بناؤ ۔ خدارا سماج کے بند دروازے، کھڑکیاں کھول دو، نئی سوچ، نئی فکر، نئے خیالات کو آنے دو ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دو، تا کہ پھر سے نئے الفاظ جنم لے سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔