ڈومیسائل کی ضرورت کیا ہے؟

قادر خان  بدھ 10 فروری 2016
qakhs1@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں غیرضروری طور ایسے سرکاری کاغذات کا بھی اجرا کیا جاتا  ہے، جن کا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اب کوئی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔

جب سے پاکستان میں کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا اجرا نادرا کے توسط سے ہونا شروع ہوا ہے تو اس کے بعد ڈومیسائل کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ڈومیسائل کا اجراء ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کی یادگار ہے اور جاگیر درانہ انداز فکر کی تکمیل کے لیے اس کا اجراء کیا جاتا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد ضرورت ملازمت، داخلہ پالیسی اور تعلیمی امور کے علاوہ دیگر ضروریات تھیں، لیکن نہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بنا لیے  جاتے ہیں، تو اس میں ضلع کا نام بھی آ جاتا ہے اور سکونت کا عارضی اور مستقل ایڈریس بھی درج ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد ڈومیسائل جو اسی قسم کی شناخت کے لیے بنایا جاتا ہے، ماسوائے ڈپٹی کمشنرز آفس میں کام کے اضافے اور رشوت ستانی کے  علاوہ کسی دوسرے مقصد میں کام نہیں آتا۔ بچوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے دوران ڈومیسائل کا طلب کیے جانا عجیب ہے کہ جب قومی شناختی جیسی اہم دستاویز موجود  ہے تو پھر الگ سے ڈومیسائل بنا کر عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کس قسم کی پالیسی ہے۔ ڈی سی آفس میں ڈومیسائل بنانے کے لیے نہ صرف بھاری رشوت وصول  کی جاتی ہے بلکہ اس سلسلے میں متعلقہ آفس میں رشوت خوری کا بازار ہمہ وقت گرم  رہتا ہے۔

اب تو ایک نئی صورتحال شروع ہو گئی ہے کہ بچوں کا ڈومیسائل بنانے کے لیے والدین کا ڈومیسائل ضروری  قرار دے دیا گیا ہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ جب والدین کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کا اندراج نادرا آفس میں ب فارم کی شکل میں کروا دیا ہے تو پھر ان کے ڈومیسائل کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔

یہ اس وقت یقینا لازمی ہو گا، جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے شناختی علامت کے لیے اس قسم کے کاغذات کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ پاکستان میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجرا 1951ء میں سیٹزن ایکٹ کے تحت شروع ہوا، اس کا مقصد درحقیقت بھارت سے کثیر تعداد میں  ہجرت کرنے والوں کو شہریت کا سرٹیفیکٹ دینا تھا، اس دور میں یہ کسی بھی فرد کی واحد سرکاری دستاویز تھی جو کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلوں اور ملازمت کے حصول کے لیے کام آتی تھی۔

اس کے بعد ہر شخص پر پاکستانی شناختی کارڈ کا حصول ضروری قرا ردے دیا گیا کہ اس کی رجسٹریشن اور ریکارڈ بنانا لازم قرار دیا گیا، کچھ اور وقت آگے بڑھا اور عوام کے مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایک سہل جدید طریقہ اپنانے کی کوشش کی گئی اور نادرا کے ادارے کی ضرورت میں عمل میں لایا گیا۔

نادرا سے مکمل کمپیوٹرائیزڈ دستاویز بنی شروع ہوئیں، جسے معتبر بھی قرار دیا جاتا ہے، لیکن مقام حیرت ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری اداروں میں اسے شہریت یا سکونت کا تصدیق نامہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سرکاری اداروں میں شناختی کارڈ کے ساتھ ڈومیسائل کا دم چھلا لگانا ضروری قرار دیا گیا ہے جس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی، ڈومیسائل کے مقابلے میں شناختی کارڈ شہریت اور سکونت کی ایک معتبر سرکاری دستاویز ہے، لیکن اسے اداروں میں ڈومیسائل کے مقابلے میں اہمیت نہیں دی جاتی۔ جب ڈومیسائل کی اتنی قدر و قیمت ہے تو پھر شناختی کارڈ اور ب فارم بنانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ عوام سے ایک ہی کام کے اربوں روپے کس مد میں لیے جا رہے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ڈومیسائل سرٹیفیکٹ کے لیے شرائط کا تعین کرنا اکثر متعلقہ افسران کی صوابدید پر ہوتا ہے، کمپیوٹرائز شناختی کارڈ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی کسی بھی وقت کسی بھی ضلع سے ڈومیسائل 1500 روپے میں جتنے چاہے با آسانی بنا لیتا ہے، جب کہ نادرا کے شناختی کارڈ جاری ہونے کے بعد ڈومیسائل کی اہمیت اور افادیت ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ جو تفصیلات ڈومیسائل کے لیے طلب کی جاتی ہیں، وہی معلومات نادرا کے کارڈ میں اور اس کے کوائف کی صورت میں ڈیٹا بیس میں جمع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ایک سخت شرط فارم ب کی لگا دی گئی ہے، جس نے تمام بگاڑ پیدا کیا ہوا ہے۔

غیر ملکی تارکین وطن ملکی شہریت کے لیے کسی بھی خاندان کے کوائف میں اپنا نام داخل کرا دیتے ہیں اور اکثر اوقات اُس خاندان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کے افراد خانہ میں کسی غیر متعلقہ فرد کا اضافہ ہو گیا ہے یا پھر اس کے کوائف سے کسی دوسرے شخص کا کارڈ بن چکا ہے۔ نادرا کا نظام بھی اس قدر انوکھا ہے کہ غلطی وہ کرے اور سزا عوام بھگتیں۔

ڈومیسائل کی حشر سامانیاں کیوں ہیں؟ اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے،  یہ عوام سے پیسے بٹورنے کا پرانا طریقہ ہے، اب تو شناختی کارڈ کی طرح ڈومیسائل کے لیے بوڑھے والدین کے شناختی کارڈ کے ساتھ ان کے ڈومیسائل بھی بنانے کی شرط لگا دی گئی ہے۔  عوام اب فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ شناختی کارڈ ضروری اور اہم سرکاری شناخت ہے یا پھر ڈومیسائل اہم ملکی شناخت ہے ۔ وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ کو اس معاملے میں نوٹس لینا چاہیے کہ اہم سرکاری دستاویز نادرا شناختی کارڈ کے بعد ڈومیسائل کی کیا ضرورت پیش آتی ہے، کیا ڈومیسائل میں ایسے کچھ کوائف درج ہیں جو شناختی کارڈ میں نہیں ہیں۔ یقینی طور پر وفاقی وصوبائی حکومتوں کو اس پر غور ضرورکرنا چاہیے۔

اسی طرح دوسرا اہم غیر ضروری معاملہ مردم شماری کا ہے، نادرا شناختی کارڈ میں کوائف کے بعد پاکستانی شہریوں کے تعداد گھر گھر جا کر معلوم کرنے کی کیا ضرورت پیش آتی ہے؟ تمام ریکارڈ اضلاع اور علاقے کی سطح پر بن جاتے ہیں، بچوں کے ب فارم کا اندراج بھی نادرا میں کیا جاتا ہے۔ اب اگر کسی شخص نے شناختی کارڈ یا ب فارم  تیس یا چالیس سال سے نہیں بنایا، تو اس کا مطلب کہ اسے پاکستانی شہریت سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، اب تو بھاری جرمانے بھی عائد کیے جا رہے ہیں تا کہ 5 فیصد ایسے افراد یا خاندان میں  جنھوں نے شناختی کارڈ نہیں بنایا تو وہ بنا لیں۔

مردم شماری کے لیے نادرا کا ریکارڈ ہی کافی ہے، لٰہذا اربوں روپوں ضایع کرنا اور حدود بندی کے لیے خانہ شماریاں کرنا بھی ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، ویسے بھی پاکستان میں مردم شماری کبھی وقت پر نہیں ہو پاتی، لیکن نادرا کے توسط سے ہر مہینے بلکہ ہر روز ہمیں باآسانی پتہ لگ سکتا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں روز کتنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دس سالہ قانون کی قدغن  اور مردم شماری ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جائے۔

نادرا  کی جدید سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام پاکستانیوں کا انکم ٹیکس نمبر اس کے شناختی کارڈ کو قرار دینا چاہیے اس طرح ٹیکس دائرے میں تمام شناختی کارڈ ہولڈرز، سرکاری یا غیر سرکاری قومی ڈیٹا بیس میں آ جائیں گے۔ انکم ٹیکس کے لیے شناختی کارڈ نمبر ہی واحد اور معتبر شناخت بنا دی جائے تو اس کے بعد رشوت دیکر انکم ٹیکس بچانے کے لیے جعلی ایف بی آر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔

ملک کا سب اہم مسئلہ  ووٹ کے اندراج کا بھی ہے، نادرا کی سہولت کی وجہ سے شناختی کارڈ ہولڈر کو علاقے اور ضلع کی مناسبت سے مستقل بنیادوں پر ووٹ نمبر جاری ہو سکتا ہے۔ گھرگھر جا کر نئے ووٹوں کا اندراج جس میں ایڈریس بھی درست نہیں لکھا ہوتا اور ووٹرزکی شکایت ہوتی ہے کہ اس  کا ووٹ دوسری جگہ منتقل کر  دیا گیا ہے، اس سے مستقل بنیادوں پر عوام کی پریشانی کا ازالہ ہو جائے گا۔ ہر الیکشن میں نئی ووٹر لسٹیں فوٹوکاپی کی شکل میں دی جاتی ہیں جس سے اربوں روپوں کا ضیاع ہوتا ہے اور عوام کو پریشانی کا سامنا  بھی  کرنا پڑتا ہے۔

شناختی کارڈ میں مستقل رہائشی پتے پر ووٹ کا اندراج کر کے انتخابات سے قبل جعلی ووٹوں کے اندراج کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر ضلع کی آبادی اور ہرعلاقے کی آبادی کا درست اندارج مہیا ہو گا اور الیکشن کے لیے کسی نئے اندارج کی ضرورت، جعلی ووٹوں کا تصور ختم ہوکر از خود حلقہ بندیاں درست کی جاسکیں گی، لیکن یہ سب کرے گا کون؟ اور اس میں قباحت ہی کیا ہے، اگر کوئی خاندان یا شخص جس نے علاقے کو تبدیل کرنا ہے تو شناختی علامت میں تبدیلی اس کے لیے ناگزیر ہو جائے گی  اور وہ اپنا ووٹ درست جگہ کاسٹ کر سکے گا اور نقل مکانی کی نگرانی از خود ہوتی رہے گی۔

جس سے جرائم پیشہ عناصرکی نقل و حرکت سے ادارے باخبر رہ سکیں گے، مردم شماری کے بکھیڑے میں دھاندلیوں اور اپنے علاقے میں آبادی کے اضافے کا رجحان ختم ہو جائے گا،  نیز ایک جگہ اندارج کے بعد وہ دوسری جگہ  ووٹ نہیں ڈال سکے گا ۔ ڈومیسائل کے خاتمے سے لے کر عوام کی ان گنت پریشانیوں کا حل صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔