پروٹو ٹائپ

اوریا مقبول جان  جمعرات 11 فروری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ ’’کابلی والا‘‘ ایک ایسے دکھ، کرب اور نفرت کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جو پورے برصغیر میں پشتونوں کے بارے میں ایک مخصوص پراپیگنڈے کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا۔ یہ تاثر بھی انگریزوں کی 1857ء کی آخری لڑائی کے بعد نظر آتا ہے‘ ورنہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ قوم ہندوستان کے شہروں میں ایسے مدغم ہو گئی تھی کہ ان کی شخصیات وہاں کی ثقافت، ادب اور معاشرت کی پہچان سمجھی جاتی تھیں۔

شاعری اور ادب کا کونسا بڑا نام ہے جس کا تعلق افغانستان سے نہ ہو۔ ان کے آباء اجداد وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئے تو ان کی نسلوں سے میر، سودا، ذوق، داغ، غالب اور جوش ملیح آبادی تک اردو کے درخشندہ ستارے پیدا ہوئے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز کا جن اقوام نے سامنا کیا اس نے انگریز پر واضح کر دیا کہ دو طبقات ایسے ہیں جن سے نفرت انگریز سرکار کے امن کے لیے ضروری ہے۔

ایک مولوی اور دوسرے پشتون۔ مولوی اس لیے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کا فتویٰ دہلی کی جامع مسجد سے جہاد کی صورت جاری ہوا اور فوج کی سپہ سالاری ایک پشتون جنرل بخت خان کر رہا تھا۔ انگریز نے سب سے پہلے اس جنگ آزادی کو ہندو مسلم مشترکہ لڑائی بنا کر پیش کیا گیا تا کہ لفظ جہاد مسلمانوں کی لغت سے خارج ہو جائے۔

یہ تو بھلا ہو ولیم ڈارلپل کا جس نے طویل تحقیق کے بعد ’’لاسٹ مغل‘‘ تحریر کی اور ثابت کیا کہ 1857ء کی جنگ تو صرف مسلمانوں نے جہاد کے طور پر لڑی تھی اور فتح کے بعد دلی میں وسیع پیمانے پر قتل عام بھی انھی کا ہوا تھا۔ اسی لیے انگریز نے دو کرداروں کو ہمیشہ تضحیک کا نشانہ بنایا، ایک مولوی اور دوسرے پٹھان۔ وہ پٹھان جو برصغیر میں سب سے کامیاب اور عوامی فلاح، گڈگورننس اور انتظامی معاملات میں نابغہ روزگار کے طور پر مشہور شیرشاہ سوری کی ذات میں جلوہ گر ہوا تھا۔

اس پشتون کا تصور اجڈ، گنوار، بے رحم اور ظالم کے طور پر پیش کیا گیا۔ محاورے اور کہانیوں کی کہانیاں تخلیق کی گئیں۔ ٹیگور کی ’’کابلی والا‘‘ ان محاوروں اور کہانیوں کی ضد تھی۔ ایک کابلی والا جو بازار میں ڈرائی فروٹ بیچتا ہے۔ ایک چھوٹی بچی اس سے مانوس ہو جاتی ہے، جسے وہ اپنی بیٹی جو اس کے وطن افغانستان میں ہے، یاد کر کے پیار کرتا ہے، لیکن بچی کی ماں ہمیشہ اس سے خائف رہتی ہے۔

اسی افسانے پر اپنے وقت کی کامیاب فلم کابلی والا بنی تھی جس کا کردار بلراج ساہنی نے ادا کیا تھا۔ کسی ایک قوم کو بحیثیت مجموعی بدنام کرنے، اس کے خلاف نفرت کا تاثر پیدا کرنے اور ان کا ایسا خاکہ لوگوں کے دلوں میں جاگزیں اور ذہن نشین کرنے کا کھیل ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور کی تخلیق کہا جاتا ہے اور اس معاملے میں انگریز کو کمال حاصل تھا۔ فورٹ ولیم کالج میں ہزاروں ایسے محاورے تخلیق کیے گئے جس میں کسی قوم کو بحیثیت مجموعی ایک مخصوص کردار کے ساتھ نتھی کر دیا جائے۔ ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور کا تخلیق کرنے اور اسے دنیا میں عام کرنے کا فن اب ایک سائنس بن چکا ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں روس کے کیمونسٹ نظام کے بارے میں کئی سیل منظم تھے جو اس کے بارے میں لطیفے گھڑا کرتے تھے جنھیں ریڈر ڈائجسٹ جیسا معتبر رسالہ بھی بڑے اہتمام سے شایع کرتا تھا۔ روس جب افغانستان میں داخل ہوا تو امریکا پر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی۔

آپ ریگن کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان لطیفوں میں سے کوئی نہ کوئی کسی تقریر میں ضرور ملے گا۔ اسی طرح جیمز بانڈ کی ساری فلمیں اسی پراپیگنڈے اور ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور تخلیق کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔ باقاعدہ افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور دیگر اصناف میں کسی قوم، کسی پیشے سے وابستہ افراد یا پھر کسی مذہب سے وابستہ افراد کا منفی تصور ابھارنے کے لیے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو اس معاملے میں طاق تھا۔ اس نے جس مولوی کا کردار بھی گھڑا اس میں چھپا ہوا ایک شیطان ضرور دکھایا اور جس طوائف کا کردار تخلیق کیا، اسے انسانیت کے کسی اعلیٰ وصف کا حامل فرد دکھایا۔ فلموں میں بھی اسی طرح مخصوص اقوام اور گروہوں کے بارے میں ایک ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور تخلیق کیا جاتا ہے جیسے مراثی کو سردی بہت لگتی ہے اور جولاہے بے وقوف ہوتے ہیں۔ شیخ سعدی جیسا جہاں گرد شخص بھی جب قوموں کے بارے میں مجموعی تاثر تخلیق کرنے لگتا ہے تو افغانوں کو بحیثیت مجموعی رگید دیتا ہے۔

سعدیا روز ازل حسن بہ ترکاں دادند

زلفِ پیچاں، کمرِ نرم بہ ایراں دادند

ناز و انداز و ادا ختم بہ زنان ہند

جہل و نادانی و جنگ بہ افغان دادند

’’سعدی! روز ازل حسن ترکوں کو عطا کر دیا گیا، پیچ دار زلف اور نرم کمر ایرانی حسیناؤں کا حصہ ہوئی، ہندوستان کی عورتوں کو ناز نخرے اور ادائیں ملیں اور افغان قوم کو جہالت، نادانی اور جنگ عطا کی گئی‘‘ دراصل اس قطعے کے پہلے تین مصرعے صرف اور صرف افغان قوم کا ایک منفی تاثر پیدا کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔

ایرانی ایسا کیوں کرتے تھے، یہ ایک طویل تاریخی بحث ہے۔ لیکن آج بھی کسی قوم کے بارے میں ایسا تاثر بنانا ہو تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی تحریروں کو پیش کیا جاتا ہے جو قوموں سے تعصب کی بنیاد پر لکھی گئیں۔ جدید دنیا میں جس پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کسی قوم کا ایک ’’پروٹوٹائپ امیج‘‘ ’’Prototype Image‘‘ تخلیق کیا جاتا ہے۔

اس کا طریق کار اسقدر حیران کن ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرتا کہ ایسا ایک پلاننگ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس کا آغاز اسکول کی کتابوں سے کیا جاتا ہے۔ کہانیوں کے ساتھ جو تصویریں بنائی جاتی ہیں اس میں منفی کرداروں کا حلیہ بالکل ویسا رکھا جاتا ہے جیسا اس قوم کا ہوتا ہے جس کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ انھیں ویسے ہی کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح انتہائی معصومانہ انداز سے کہانیاں لکھی جاتی ہیں اور منفی کردار اسی قوم یا گروہ سے لیے جاتے ہیں جیسے تاریخ کے دو مزاحیہ کردار دوپیازہ اور نصیرالدین کے ساتھ ملاّ کا لفظ لگا کر تمام ملاؤں کے تمسخر کا انتظام کیا گیا‘ ویسے ہی جدید دور کی ہی کہانیوں میں انتہائی خاموش انداز سے مخصوص گروہوں اور اقوام کے بارے میں منفی کردار گھڑے جاتے ہیں۔

اس کے بعد کارٹونوںکی باری آتی ہے‘ وہاں بھی یہی انداز اپنایا جاتا ہے۔ لباس اور حلیے سے شناخت کروائی جاتی ہے کہ فلاں قوم جاہل‘ اجڈ‘ گنوار یا خونخوار ہے۔ ان دونوں یعنی نصابی کتب اور کارٹون کی دنیا کے دیرپا اور انمٹ نقوش ایک بچے کے ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج آپ دیکھ لیںکہ بچوں کو پینٹ قمیض میں ملبوس شخص مہذب‘ پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ لگتا ہے جب کہ شلوار قمیض والا جاہل‘ گنوار اور پسماندہ۔ یہی فرق کلین شیو اور داڑھی والے کے درمیان پایا جاتا ہے۔

جب بچپن سے آپ نے بچے کے ذہن میں تہذیبی برتری اور تہذیبی پستی ڈال دی‘ اب آپ کھل کھیلتے ہیں۔ ڈرامہ بنائیں‘ فلم بنائیں‘ اشتہار چلائیں‘ جہاں چاہیں اس ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور یا امیج کو ذلیل و رسوا کریں۔ آپ کو کوئی کچھ نہ کہے گا۔ گزشتہ پندرہ سال کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو گروہوں کا ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور منفی طور پر پیش کیا گیا‘ ایک افغان قوم اور دوسرا مولوی۔ آج دنیا بھر کے ہر ملک کی چیک پوسٹ پر اسی حلیے کے لوگ دھر لیے جاتے ہیں‘ قابل تفتیش تصور ہوتے ہیں اس کا تازہ ترین اظہار وہ اشتہار ہے جو دہشت گردوں کے بارے میں ہمارے اخبارات میں شایع ہوا ہے

۔ اس میں کسی مصور نے کمال مہارت اور چابکدستی سے دہشت گردوں کے حلیے اور لباس کو کسی مدرسے کے طالب علم یا مولوی اور پشتون قوم سے ملا دیا ہے۔ ان میں کوئی تصویر بھی ایک عام آدمی یا بچے بوڑھے کے ذہن میںیہ تاثر بنا دینے کے لیے کافی ہے کہ کراچی سے لے کر گلگت تک جو کوئی اس حلیے کا آدمی ٹرک چلا رہا ہو‘ ہوٹل پر کام کرتا ہو‘ جوتے پالش کرتا ہو یا پھر اسی دہشت گردی کے ہاتھوں لٹ پٹ کر کچرا دان پر اپنا رزق تلاش کر رہا ہو‘ وہ مشکوک ہے‘ اس میں ایک دہشت گرد چھپا ہوا ہے۔

اسی طرح مسجد کی طرف رخ کرنے والا تہجد گزار ہو یا راتوں کو گڑ گڑا کر اللہ سے اس ملک کے لیے امن کی بھیک مانگنے والا ہو‘ وہ مشکوک ہے اور ہو سکتا ہے اس نے کمر پر خود کش جیکٹ پہن رکھی ہو۔ آرٹسٹ کو تصویر بناتے وقت بلوچستان کے وہ لوگ یاد نہ آئے جنہوں نے شناختی کارڈ دیکھ کر اس ملک میں قتل کرنے کی رسم کا آغاز کیا۔ بلدیہ فیکٹری کے وہ ظالم اسے بھول گئے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے ظالم ترین فعل کا ارتکاب کیا اور چار سو معصوم اور بے گناہ لوگوں کو زندہ جلا دیا۔

اس لیے کہ اگر مصور ایسا کرتا تو لوگ ہر پتلون اور شرٹ پہننے والے شخص کے بارے میں یہ تاثر لیتے کہ اس کے ہاتھ میں کیمیکل ہے اور وہ کسی گھر پر چھڑکنے والا ہے۔ لیکن یہ ’’پروٹوٹائپ‘‘ تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کے چہرے سنت رسولؐ سے مزین ہیں‘ ماتھے پر سجدے کا نشان ہے اور لباس مقامی‘ یا پھر وہ جو پشتون پگڑی یا ٹوپی اور لباس پہنتے ہیں۔ لیکن تاریخ بڑی ظالم ہے۔ آپ صرف ان قوموں کی تاریخ اٹھا لیں جن کا پروٹوٹائپ تصور منفی تخلیق کیا گیا تو ان کا ردعمل کیسا تھا۔

چین کے باسیوں نے منگولوں کے بارے میں ایسا ہی منفی پروٹوٹائپ تخلیق کرنے میں صدیاں لگائیں اور ردعمل کے طور پر چنگیز خان نے دنوں میں انھیں تاراج کر دیا۔ اس کے سپاہی بیجنگ میں قتل و غارت کرتے ہوئے یہی کہتے پھرتے تھے‘ ہم گنوار ہیں‘ ہم اجڈ ہیں‘ ہم ظالم اور جاہل ہیں بتاؤ ذرا۔ پروٹوٹائپ بنا کر ذلیل و رسوا کرنا آسان ہے لیکن اس کے اجتماعی ردعمل کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل۔ جب آپ ایک قوم کو نفرت کی علامت بنا دیتے ہیں تو اس کا انتقام نسل در نسل چلتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔