بُک شیلف

مُنی کہانی یا افسانچے اپنے پس منظر، کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے قطعی منفرد ہوتے ہیں۔: فوٹو:فائل

مُنی کہانی یا افسانچے اپنے پس منظر، کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے قطعی منفرد ہوتے ہیں۔: فوٹو:فائل

زرافہ اور لمبی لڑکی (افسانے)
افسانہ نگار: اجمل اعجاز
ناشر: فائزہ پبلی کیشنز
صفحات: 160
قیمت: 300 روپے

ڈسٹ کور کے ساتھ شایع ہونے والا خوب صورت ٹائٹل، عمدہ کاغذ، چھپائی کا معیار نفیس، اور پھر دل کو موہ لینے والا انتساب: ’’اُن قارئین کے نام، جو کتاب اور اس کے مصنف کو زندہ رکھتے ہیں!‘‘

اجمل اعجاز کا افسانوی سفر کئی عشروں پر محیط۔ جہاں اوروں نے تعلقات عامہ کے فن اور اپنی تشہیر پر توجہ دی، وہاں وہ سر جھکائے کام میں مصروف رہے۔ شریف النفس آدمی ہیں۔ افسانے بھی لکھے، ڈرامے بھی، بچے کا ادب بھی تخلیق کیا۔ سب ہی کو کتابی صورت دی۔

ڈاکٹر حسن منظر کو ان کے افسانوں کا یہ پہلو بھایا کہ وہ خیالی دنیا کے تخلیق کار نہیں۔ آس پاس سے کردار اور واقعات چنتے ہیں، حقیقت پر مبنی افسانہ بنتے ہیں۔ نصیر احمد ناصر ان کے بہ ظاہر سیدھے سبھاؤ میں بیان کردہ افسانوں کے معنی خیز اختتام کا تذکرہ کرتے ہیں، جو قاری کو ایک خاموش اتھل پتھل سے دوچار کردیتا ہے۔

محمد حمید شاہد کے نزدیک وہ واقعاتی اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرتے، الجھاوے نہیں ڈالتے، اور لطف یہ ہے کہ اسی ماجرائی ترتیب سے معنویت بھی تراش لیتے ہیں۔ ان کی سادہ کہانی کا اعجاز یہ ہے کہ یہ اپنے قاری کو چوکنا کیے بغیر اس کی ہم دردیاں شکستگی کی زد میں آئے ہوئے اپنے کرداروں کے لیے ہتھیا لیتی ہے، اور یہ کوئی کم اہم بات نہیں ہے۔

ان صاحب الرائے قلم کاروں کے الفاظ اجمل اعجاز کے فن افسانہ نگاری پر خوب روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا کمال یہی کہ کہانی میں حکم لگانے سے اجتناب برتتے ہیں، نامعلوم کی بازیافت کے چکر میں نہیں پڑتے، غیرضروری طور پر آہنگ بلند نہیں ہوتا، چیختے چنگھاڑتے الفاظ سے ورق کو پاک رکھتے ہیں۔

اور یوں کہانی ایک فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، سادہ زبان، سیدھے سبھاؤ کے بیانیے کے ساتھ ایک بامعنی اختتام کو پہنچتی ہے۔ مختصر افسانہ ان کا خاصہ۔ اس مجموعے میں بیس افسانے شامل۔ ’’بے گھری‘‘ سب سے متاثر کن افسانہ۔ کہانی کے قارئین کے لیے یہ کتاب وقت کا اچھا مصرف ہے۔

نوکری محمدؐ کی
شاعر: آصف زیدی
صفحات: 161
قیمت:200روپے
ناشر: پیپرڈاٹ کام، کراچی

زیرتبصرہ کتاب ’’نوکری محمد ؐکی ‘‘ کراچی کے سنیئر صحافی وشاعر آصف زیدی کے زور ِ قلم اور توفیقِ خدا کا نتیجہ ہے۔ شاعر نے تقریباً 163 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں حمد ونعت، سلام و منقبت، نوحے اور قطعات شامل کیے ہیں، جن میں حضرت محمد ؐ اور اُن کی آل پاکؓ سے اپنی محبت و عقیدت کا منظوم اظہار متاثر کن انداز میں کیا ہے۔

آصف زیدی کے والد سید محمد اسلم زیدی ’’اسلم خیال‘‘ کے ادبی نام سے مشہور تھے۔ انھی کی تعلیم و تربیت کا عکس آصف زیدی کی شاعرانہ کاوشوں میں صاف جھلکتا نظر آرہا ہے۔ کتاب کا سرورق مسجد نبوی اور جنت البقیع کی تصاویر سے مزین ہے، جو پہلی نظر میں ہی اپنی طرف توجہ مبذول کرالیتا ہے ۔

بیک کور پر کربلا میں روضہ امام حسینؓ کا عکس اور سیدالشہداء کے لیے عقیدت کے چار مصرعے انتہائی اثرانگیز ہیں۔ مجموعہ کلام کے حوالے سے معروف عالم دین علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی، معروف شعرا ڈاکٹر ریحان اعظمی اور ظفر عباس ظفر کے تاثرات اہمیت کے حامل ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعرو سخن کے میدان میں خود کو طالب علم کہنے والے آصف زیدی نے اپنی تخلیقات سے ثابت کیا ہے کہ وہ آگے چل کر اس سے زیادہ اچھا کام کرسکتے ہیں۔

کتاب میں شامل حمد باری تعالیٰ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنہ کو شامل کیا ہے جو ایک بڑی کاوش کہی جاسکتی ہے۔ نعتیہ اشعار اور کربلا کے حوالے سے موجود کلام بھی عقیدت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مجموعہ کلام کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ شاعر نے اپنی نگارشات میں اپنے عقیدے کا ذکر تو کُھل کر کیا ہے لیکن کسی دوسرے کے عقیدے کو چھیڑنے سے ممکنہ حد تک گریز کیا ہے جو کتاب کا ایک مثبت پہلو ہے۔

اس کے علاوہ سندھی کلام بھی کتاب میں شامل ہے، اچھا ہوتا کہ اگر سندھی کلام کچھ زیادہ ہوجاتا لیکن پھر بھی مختلف زبانوں میں شاعری کو علم دوستی کا اعلان کہا جاسکتا ہے۔ اپنے والد محترم اسلم خیال کے کلام کا ایک حصہ بھی کتاب میں شامل کرکے آصف زیدی نیسعادت مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات بغیر نقطوں والا کلام ہے، آصف زیدی نے ایک نعت ِ رسول مقبول ؐ اور ایک منقبت میں بغیر نقطوں والے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو ان کے مطالعے، بہترین تربیت، کتابوں سے لگاؤ، منقبتی شاعری سے محبت اور میدان سخن میں بہت آگے جانے کا اعتراف ہے۔

امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں وہ کمی بھی پوری ہوجائے گی جو اس میں رہ گئی ہے۔ کتاب پیپرزڈاٹ کام، پاکستان چوک ، کراچی کے تحت شائع ہوئی ہے جس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’’نوکری محمد ؐ کی ‘‘ شاعری سے شغف رکھنے والوں اور کتاب دوستوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے۔

آپ بیتیاں
مصنف: محبوب الٰہی مخمور، نوشاد عادل
صفحات: 334
قیمت: 600 روپے
ناشر: الٰہی پبلی کیشنز، شمالی کراچی

یہ کتاب بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے والے قلم کار اور ان کے لیے مختلف رسائل مرتب کرنے والوں کے احوال پر محیط ہیں، جس میں ان کے بچپن اور تعلیم سے لے کر قلمی سفر تک زندگی کے مختلف مراحل کو رقم کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ مسعود احمد برکاتی اور حکیم محمد سعید سے لے کر حنیف سحر اور پروفیسر مجیب ظفر تک 14 قلم کار اور مدیران کے احوال تک دراز ہے۔

جہاں کٹھنائیوں کا بیان ہے، وہیں ترقیوں اور کام رانیوں کی داستان بھی ہے۔ کتاب میں مختلف اہم تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب کے پچھلے سرورق پر محبوب الٰہی مخمور کا یہ دعویٰ سرفہرست ہے کہ ’’یہ پاکستان کی پہلی تاریخ ساز کتاب ہے، کیوں کہ اس سے قبل اس موضوع پر اردو میں کوئی کتاب شایع نہیں ہوئی ہے۔‘‘

نوشاد عادل کہتے ہیں،’’کہنے کو تو یہ قلم کاروں کی آپ بیتیاں ہیں، لیکن درحقیقت یہ ادب کی ایک تاریخ مرتب ہور ہی ہے۔‘‘ ہمارے ہاں جس طرح بچوں کا ادب قابل قدر پذیرائی حاصل نہیں کرسکا، اسی طرح بچوں کے ادیب بھی شاذ ونادر ہی کوئی نام وَری سمیٹ سکے۔

اس اعتبار سے یہ ایک قابل قدر کاوش ہے۔ یقیناً یہ کتاب جہاں عام قاری کے لیے دل چسپی کا سامان ہے، وہیں ادب کے محققین کے لیے ایک اہم حوالہ ثابت ہوگا۔ اس کتاب کے دوسرے حصے کی اشاعت کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، جس میں دیگر ادیبوں کے آپ بیتی کو جگہ دی جائے گی۔

متلاشی
مصنف: نعیم شاہ
صفحات: 184
قیمت:300 روپے
ناشر: علم وعرفان پبلشرز، اردوبازار، لاہور

اس کتاب میں دنیا، زندگی اور رویوں سے متعلق مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مختصر مختصر ٹکڑوں میں منقسم اس کتاب میں ہر موضوع پر مصنف نے اپنی نظریاتی عقیدت، تجربات، فکر اور خیالات کو رقم کیا ہے اور اسے قارئین تک پہنچایا گیا ہے۔ بہت سی جگہوں پر روحانیت اور پراسراریت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔

کتاب کے حوالے سے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں،’’میں دل کی آوازیں سنتا ہوں۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کتاب بھی میں نے اپنے دل کی آواز سننے پر ہی لکھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کی حتمی شکل کیا ہوگی، کوئی اسے پڑھے گا بھی یا نہیں؟ میرے حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ میں اسے تحریر کرنے میں اپنا وقت صرف کروں۔

میرے دل میں منفی آوازیں بھی اٹھتیں کہ میں اس کتاب کو لکھنے میں کیوں اپنا وقت ضایع کر رہا ہوں؟ میں اس میں ایسا کیا لکھ دوں گا جسے لوگ پڑھنا چاہیں گے؟ اپنے حالات کے پیش نظر مجھے پیسہ کمانے پر توجہ دینی چاہیے۔۔۔ لیکن میں نے اسے لکھنا جاری رکھا، کیوں کہ میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ میں اسے لکھوں۔ مجھے اس سے غرض نہ تھی کہ کوئی اسے پڑھتا ہے یا نہیں، یہ بکتی ہے یا نہیں۔ میری ذمہ داری صرف اسے لکھنا تھا۔

میں نے آج تک جب بھی اپنے دل کی آواز سنی، میں خوش اور مطمئن رہا تھا۔ وہ میری روحانی وسعت میں اضافے کا باعث ہی بنا تھا۔‘‘ کتاب کے مندرجات روحانیت، تخیلات اور انسانی نفسیات کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں، ناصحانہ انداز بھی دیکھا جا سکتا ہے، تاہم کتابت کی اغلاط توجہ کی متقاضی ہیں۔

35 سال بعد
(نیشنل بک فاؤنڈیشن سے انعام یافتہ مصنفہ کی کہانیوں کا مجموعہ)
مصنف: رابعہ حسن
صفحات: 114
قیمت: 300 روپے
ناشر: الٰہی پبلی کیشنز، شمالی کراچی

بچوں کی ان کہانیوں میں ایک مقصدیت اور پیغام واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مصنفہ نے آزاد کشمیر کی بیٹی ہونے کے باوجود ’’امداد‘‘ نامی کہانی میں جس طرح تھر کے خوف ناک قحط کا نقشہ کھینچا ہے، وہ لاجواب ہے۔

لفظوں کی بُنت سے لے کر منظرکشی کا اپنا ہی رنگ ہے۔ کہنے کو یہ بچوں کی کہانیاں ہے، لیکن عام ادب کے طور پر بھی اس کے معیار سے انکار ممکن نہیں۔ کتاب کی ورق گردانی کرنے والا، مصنفہ کی اس رائے سے متفق ہو جاتا ہے، جو انہوں نے پیش لفظ میں لکھی: ’’پینتیس سال بعد‘‘ بذات خود ایک خواب ہے، ایک ایسی بستی کا خواب جو امن و شانتی کا گہوارہ ہو، جہاں محبت، عدل اور انصاف کا راج ہو اور اپنے ملک کو، اپنی دنیا کو امن ومحبت کا گہوارہ انہی بچوں نے بنانا ہے۔‘‘

2005ء میں رابعہ حسن کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انعام دیا گیا، جب وہ فقط انٹر کی طالبہ تھیں۔ کتاب کے صفحات 20 مختلف کہانیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ محبوب الٰہی مخمور (مدیر انوکھی کہانیاں) رقم طراز ہیں،’’رابعہ حسن کی تحریروں میں معاشرے کی بے حسی اور استحصال کا ذکر ہمیشہ سے موجود ہے، وہ چاہتی ہیں کہ ناانصافی کا یہ دور ختم ہو۔‘‘

بانی کاروان ادب، ندیم اختر کہتے ہیں کہ وہ اپنی کہانی میں بچوں کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ظلم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بستی کے لوگوں کو منظم ہونا پڑے گا۔‘‘ بچوں کے ادب میں براہ راست اس طرح کی تربیت اور آگہی یقیناً لائق تحسین کوشش ہے۔

برائے فروخت
مصنف: محمد اعظم خاں
صفحات: 208
قیمت: 300 روپے
ناشر: علی میاں پبلی کیشنز، لاہور

یہ کتاب ماہ نامہ ’’نئے افق‘‘ میں شایع ہونے والی چھے کہانیوں کا مجموعہ ہے، جس کی ایک کہانی کے عنوان ’برائے فروخت‘ کو کتاب کے سرورق کی زینت بھی بنایا گیا ہے۔ کہانیوں کے موضوعات بھی سماج کے ارد گرد سے مستعار ہیں، مصنف کے الفاظ میں معاشرے کے انہی جیتے جاگتے کرداروں سے متعلق لکھنا ہمیشہ سے ان کا من پسند موضوع رہا ہے۔

کتاب کے دیباچے میں مدیر ’نئے افق‘ عمران احمد قریشی گویا ہیں ’’میری رائے میں اچھا لکھنے اور منفرد لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے، مگر اعظم کی کہانیاں پڑھ کر یہ دونوں احساس ختم ہو جاتے ہیں۔ اعظم خان میں یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں، وہ اچھا بھی لکھتے ہیں اور منفرد بھی۔

ان کی کہانی کا ہر موضوع پچھلی کہانی سے یک سر مختلف ہوتا ہے، کہیں بھی کسی دوسری کہانی کا عکس نظر نہیں آتا، اور ایک اچھے لکھنے والے کی یہ بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے۔‘‘ مصنف اس سے قبل سات کتابیں تصنیف کرچکے، جس میں سے چار ناول، جب کہ تین افسانوں پر محیط ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں،’’یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں نہ صرف محبت ونفرت بل کہ ہر موڑ پر مکر و فریب اور دھوکا بھی ہے۔

اس میں آپ کو زندگی کے بہت سے روپ نظر آئیں گے، کہیں انسان ہی انسان کا دشمن دکھائی دے گا جو ذاتی مفادات کی خاطر دوسروں کی بربادی کی پروا نہیں کرتا اور معصوم جانوں کی تباہی کو کھیل سمجھتا ہے۔‘‘ مجلد کتاب کا سرورق رنگین خاکے سے آراستہ ہے۔ تبصرہ لکھا جا چکا تھا کہ یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ محمد اعظم خان انتقال کر گئے ہیں۔

واقعات قائداعظم
مصنف: حماد الٰہی
صفحات: 50، قیمت: 50 روپے
ناشر: الٰہی پبلی کیشنز، شمالی کراچی

یہ تصنیف نویں جماعت کے طالب علم کا کارنامہ ہے، جو 2014ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انعام کے حق دار قرار پاچکے ہیں۔ اس کتاب میں 40 سے زاید مختصر واقعات جمع کیے گئے ہیں۔

مختلف مواقع پر پیش آنے والے یہ واقعات قائداعظم کی حاضر جوابی، شگفتہ مزاجی اور ان کے سیاسی و مذہبی نقطہ نظر کے عکاس ہیں۔ اس مختصر کتاب کے ذریعے قائداعظم کی زندگی سے متعلق خاطرخواہ معلومات ملتی ہیں۔ اس کتاب کے توسط سے نوعمر قارئین اور طالب علموں کو سہل انداز میں بابائے قوم کے حالات و واقعات اور ان کی جدوجہد سے آگاہ کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ بہ نسبت کسی دقیق تاریخی کتب یا سوانح عمری کے مختصر ٹکڑوں میں بٹی ہوئی کتاب کی قرأت میں نہایت سہولت رہتی ہے۔

بھیگے پل
مصنف: سرور غزالی
صفحات:158
قیمت: درج نہیں
ناشر: سید سرور ظہیر، برلن، جرمنی

مُنی کہانی یا افسانچے اپنے پس منظر، کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے قطعی منفرد ہوتے ہیں۔ اب تو اس صنف کے فنی اظہار میں اس قدر تنوع پیدا ہو چکا ہے کہ لکھنے والوں کی صلاحیت اور سکت پر حیرت ہوتی ہے۔ پاکستانی ادیبوں نے اس پر کم توجہ دی ہے اور اس کی واحد وجہ ناشرانِ جرائد کی بے توجہی ہے۔

ادبی جرائد نے بھی اس پر خصوصی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے افسانہ نگاروں نے بھی کم کم دل چسپی لی اور پاکستان میں افسانچہ نگاروں کی بہت کم تعداد سامنے آئی۔ انہی میں سے ایک اہم نام سرور غزالی کا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانچوں کا پہلا مجموعہ 2008 میں پیش کیا جسے خاصی پزیرائی ملی تھی اس کے بعد اب دوسرا مجموعہ ’’بھیگے پل‘‘ سامنے لایا ہے۔

نمبرشمار کے اعتبار سے یہ مجموعہ 158 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں کل 58 افسانچے شامل ہیں۔ ان افسانچوں کو فنی باریکیوں اور خیالات کی ندرت کو مدنظر رکھ کر جانچا جائے تو ایک دو کے علاوہ سب کے سب اعلیٰ پائے کے ہیں۔ چند جملوں یا ایک صفحے پر محیط یہ افسانچے جھنجوڑ دینے والے ہیں۔ کئی افسانچے تو ایسے ہیں کہ پڑھتے ہی قاری سوچ میں ڈوب جائے۔ یہ مجموعہ سید سرور ظہیر نے برلن (جرمنی) سے شائع کیا ہے۔

سہ ماہی الزبیر، بہاول پور
مدیر: ڈاکٹر شاہد حسن رضوی
صفحات: 272، قیمت: 300 روپے
ناشر: اردو اکیڈمی، بہاول پور

کسی بڑے شہر سے پرے اور عمومی طور پر ادبی مرکز نہ سمجھے جانے والے بہاول پور سے شایع ہونے والا یہ جریدہ ادبی ذوق رکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرے گا۔ یہ رسالہ ’’اردو اکیڈمی‘‘ کے زیراہتمام شایع ہوتا ہے۔

اردو کو بطور سرکاری زبان اپنانے والی متحدہ ہندوستان کی سابق ریاست بہاول پور، اردو کے معاملے میں حیدرآباد دکن کی ہم سری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بٹوارے سے قبل ہندوستان کی نمایاں ریاستوں میں شمار ہونے والا بہاول پور اپنے جغرافیے کے لحاظ سے بھی خطے میں منفرد رنگارنگی لیے ہوئے ہے، وادیٔ مہران، راوی اور راجستھان کے سنگم نے یہاں کی زرخیزی میں ایک عجب شیرینی سی گھولی ہے۔ ’الزبیر‘ کے اس ادبی گُل دستے کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

تحقیق وتنقید کے حصے میں 12، بحث ونظر میں آٹھ، افسانے اور انشائیے کے خانے میں 11، نقد ونظر میں 16 مضامین استوار ہیں۔ اس کے علاوہ شعر وسخن کے گوشے میں بارہ شعرا کا کلام شامل کیا گیا ہے۔ یوں اس شمارے کو ہم زبان وادب، لسانیات اور تنقید کا حسین امتزاج قرار دے سکتے ہیں۔ ’الزبیر‘ کی مجلس مشاورت میں ہندوستان سے شمس الرحمان فاروقی اور ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کے علاوہ کراچی سے ڈاکٹر معین الدین عقیل سمیت درجن بھر شخصیات شامل ہیں۔

سہ ماہی الزبیر۔ بہاول پور (خصوصی شماروں کا ادبی و تحقیقی جائزہ)
مصنف: عفت سرفراز
صفحات: 400، قیمت: 900 روپے،ناشر: ماورا بکس، لاہور،اہتمام: اردو اکیڈمی، بہاول پور

بہاول پور میں 1959ء میں اردو اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جس کے تحت 1961ء میں سہ ماہی الزبیر منصہ شہود پر آیا۔ ’’الزبیر‘‘ کے بہت سے خصوصی شمارے بھی منظر عام پر آئے۔

زیرنظر کتاب ان ہی خصوصی شماروں کے ادبی وتحقیقی جائزے پر استوار ہے۔ چھے ابواب میں بٹی ہوئی اس کتاب کے پہلے باب میں الزبیر کے پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ملک کے معروف ادبی جرائد کے جائزے سے لے کر الزبیر کے اجرا اور اس کے مدیران کے علاوہ کچھ عمومی شماروں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں شخصیات پر جاری ہونے والے سات خصوصی شماروں پر بات کی گئی ہے، تیسرے باب میں چھے مختلف ادبی اصناف پر شایع ہونے والے خصوصی شماروں کا جائزہ ہے، چوتھے باب میں بہاول پور پر سامنے آنے والے چھے خصوصی شماروں کا تذکرہ ہے، پانچویں باب میں تین متفرق خصوصی شماروں کا ادبی مقام متعین کیا گیا ہے، جب کہ باب ششم میں مجموعی جائزہ اور کتابیات موجود ہے۔

معروف ادیب انور سدید لکھتے ہیں،’’ہندوستان میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ڈاکٹر منظر حنفی ایک سال کے دوران چھپنے والی کتب کے وضاحتی جائزے پیش کرنے کی روایت کو فروغ دے رہے ہیں۔ عفت سرفراز کی یہ کتاب اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔‘‘ ڈاکٹر شاہد حسن رضوی رقم طراز ہیں کہ اس کتاب میں الزبیر کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا گیا ہے، آنے والا وقت عفت سرفراز کو اعتباریت عطا کرے گا۔ سابق صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شفیق لکھتے ہیں،’’عفت سرفراز نے اس تحقیق میں اپنی طبیعت کے مطابق پورے ناپ تول کے ساتھ ایسی رائے دینے کی کوشش کی ہے، جو حق کے معیار پر پوری اترے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔