’’اسلامی بورژوا‘‘

غلام محی الدین  پير 5 نومبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

’’فتح 1453‘‘ انگریزی میں ’’Conquest 1453‘‘ ترکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم کا امتیاز حاصل کر چکی ہے۔

امریکا اور جرمنی سمیت مشرق وسطیٰ کے 12 ممالک میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم میں سلطنت عثمانیہ کے 21 سالہ فرمانروا سلطان مہمت دوئم کے عہد میں قسطنطنیہ کی فتح کی کہانی کو فلمایا گیا ہے۔ اس فلم کے اثرات کو مغربی میڈیا نظر انداز نہیں کر پایا اور اس بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ترکی میں اس فلم کے نام پر ایک ٹیلی ویژن شو کا آغاز ہوا جو د یکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔ اس شو کے ذریعے ترکی کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کے مقصد سے قائم کلبوں اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور کی فتوحات کاتذکرہ فخر اور احترام کے ساتھ کیا جانے لگا ہے اور ان کلبوں اور تنظیموں کے رکن اس زمانے کی فوجی وردیاں اور سلطنت عثمانیہ کے درباری لباس زیب تن کر کے اپنے شاندار ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

’’Once Upon a Time Ottoman Empire Mutiny‘‘

کے نام سے عثمانی فرمانروا سلطان احمت خان سوئم کے خلاف 18 ویں صدی میں برپا ہونے والی بغاوت کے موضوع پر ٹیلی ویژن سریز بنانے والی ٹیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ استنبول میں ایک ایسا تھیم پارک بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں سلطنت عثمانیہ کے دور کے استنبول کے گلی کوچوں میں گھوما پھرا جا سکے گا اور اُس زمانے کے فن تلوار بازی کے مظاہروں کو دیکھنے کا موقع بھی اس پارک میں آنے والوں کو میسر ہو گا۔ اسی رجحان کے زیر اثر مزید چار فلمیں ترکی کی فتوحات کے موضوع پر بنائی جا رہی ہیں۔ ان میں دو قابل ذکر فلموں میں سے ایک گیلی پولی کے معرکہ پر ہے‘ جب کہ دوسری‘ جنگ عظیم اول میں اتحادیوں کے ساتھ ٹکراؤ میں Straits of Dardanelles کی عظیم فتح کے موضوع پر ہے۔ ’’ان گیلی پولی‘‘ نامی فلم میں برطانوی فوج کے کمانڈر کا کردار ادا کرنے کے لیے میل گیبسن کا انتخاب کیا گیا ہے۔

مغربی میڈیا اس بات کا بطور خاص تذکرہ کر رہا ہے کہ ترکی میں اقتصادی ترقی اور معاشی آسودگی کے نتیجے میں عظمت رفتہ کے ساتھ لوگوں کی شدید محبت کے احساس کا اظہار اب کُھلے عام ہو رہا ہے اور اس کو تُرکی کی خارجہ پالیسی سے لے کر لوگوں کے لباس اور داڑھی مونچھ کے اسٹائل تک ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مغربی میڈیا نے ترکی کی مڈل کلاس کو اسلامی بورژوا کہہ کر پکارنا شروع کر دیا ہے۔ مغرب میں یہ تک محسوس کیا جا رہا ہے کہ لوگ اپنے گھروں‘ دفاتر کی دیواروں‘ زیورات حتیٰ کہ بزنس کارڈز تک کو ابرو ’’Ebru‘‘ کے نام سے شہرت رکھنے والے اسلامی آرٹ کے ڈئزائنوں سے مزین کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

استنبول کے پینوراما میوزیم میں ’جسے مکمل ہوئے محض تین برس ہوئے ہیں‘ قسطنطنیہ کے محاصرے کی عکاسی کرتی ہوئی 45 فٹ بلند اور قریب 14میٹر لمبی ایک تصویر کی نمائش جاری ہے جس پر گولے اُگلتی توپوں کے تاثر کو مزید گہرا کرنے کے لیے گولوں کے داغے جانے کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور میوزیم کے گارڈز عثمانی سپاہیوں کی وردیوں میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ اس عجائب گھر پر لوگوں کا ایسا ہجوم ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔

مغربی ا نٹیلی جنشیا میں ترک معاشرے کے بدلتے ہوئے چہرے کو سلطنت عثمانیہ جیسا عروج دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کا نقطہ آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ ’’فتح 1453‘‘اور اس جیسی دیگر فلموں کے بارے میںجو تبصرے منظر عام پر آ رہے ہیں ان میں ڈھکے چھپے ا لفاظ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایسی فلمیں جنگی جنون پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسا تنقیدی اور مخالفانہ رد عمل اگر تُرکی کے اندر سے یا مسلم دنیا کے دانشوروں کی جانب سے سامنے آئے تو مغربی اہل دانش کے لیے یہ مغربی مفکرین کے تجزیوں سے کہیں زیادہ قابل قدر حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

ترکی کے اندر اتاترک مصطفی کمال پاشا کے فکری ورثہ کے مقلدین اسے ناگواری سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسے سماجی و معاشرتی رویوں سے ’’عالمی امن‘‘ خطرے میں پڑ سکتا ہے جو امریکا اور اس کے حواریوں نے جگہ جگہ فوجی کارروائیوں کے ذریعے بڑی مشکل سے قائم کر رکھا ہے۔

ترکی میں آنے والی تبدیلیوں پر مغربی فکری ردعمل میں میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار یہی لکھا اور کہا جاتا ہے کہ ترکی مشرق وسطیٰ کے نئے قائد کے طور پر اُبھر رہا ہے، یعنی تُرکی کا سب سے اہم حوالہ اُن کے نزدیک قومی ہے مذہبی نہیں اور مغرب باقی دُنیا کو بھی یہی باور کرانا چاہتا ہے کہ اسے مشرق وسطٰی کے قومیتی تناظر ہی میں دیکھا جائے۔ یہ وہی انداز فکر ہے جسے مقبول بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ اقوام کی باہمی قربت یا پھر مخالفانہ کشمکش اگر معاشی و اقتصادی مفادات کی بنیاد پر ہو‘ قومیت کی بنیاد پر ہو‘ رنگ و نسل کی بنیاد پر ہو‘ زمین کی ملکیت کی بنیاد پر ہو تو یہ سب کچھ مغرب کو گوارا ہے لیکن اگر ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے مشترکہ مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی صفیں استوار کرنے کی بات ہو تو ہر طرف کہرام مچ جاتا ہے۔

تُرکی مشرق وسطیٰ کا علاقائی قائد بن سکتا ہے اور ایسے میں مذکورہ خطے کے لوگوں کے ساتھ اس کے نسلی اور قومیتی رشتے اور تضادات بھی دریافت کیے جا سکتے ہیں لیکن مسلمان ملک ہونے کی حیثیت سے کوئی قائدانہ کردار قابل قبول نہیں ہو گا۔ تنقید کرنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مذکورہ فلم میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کے محاصرے کے مناظر میں مسلم افواج جو اللہ اکبر کے جو فلک شگاف نعرے بلند کرتی ہیں وہ تُرکی کے سیکولر کلچر کے خلاف ہے۔ اس پر فلم کے ڈائریکٹر فاروق اکسوئے کا کہنا ہے ’’فلم تو لطف اندوز ہونے کے لیے ہوتی ہے آپ اس پر سیاست کر رہے ہیں‘ اگر یہی معیار ہے تو کیا ریڈلے اسکاٹ بھی سیاسی مقاصد کے زیر اثر کام کرتا ہے‘‘۔ یہ وہی دلیل ہے جو مغربی میڈیا اکثر اپنے حق میں استعمال کیا کرتا ہے۔

ترکی کے لوگوں میں آنے والی اس تبدیلی میں ہمارے لیے بھی سبق ہے، گو کہ ہم کسی قسم کا سبق سیکھنے کے جھنجٹ میں نہیں پڑتے۔ وہ یہ کہ اقوام اس وقت عروج کی طرف مائل ہوتی ہیں جب وہ مانگے تانگے کی دانشوری سے مُنہ موڑ کر اپنے علمی‘ فکری‘ معاشرتی‘ ثقافتی اور سماجی ورثے کو گلے لگا لیتی ہے۔ ان کی زبان‘ لباس اور رہن سہن جیسا بھی ہو وہ اسی کو اپنی اصل مان کر بہتری کی جدوجہد شروع کرتی ہیں۔ تاریخ کامطالعہ کریں تو کہیں بھی یہ لکھا نہیں ملتا کہ فلاں قوم کا زوال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو شروع ہوا تھا لیکن زوال کی داستانوں میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی تاریخ، روایات، زبان و ادب، علمی و فکری ورثہ اور اُن تمام حوالوں کو دوسری اقوام کے مقابل کمتر سمجھنے لگے جو اُس کی پہچان تصور کیے جاتے ہیں تو اُس کو دنیا کی کوئی طاقت رُسوائی سے نہیں بچا سکتی۔ ایسی اقوام کو زیر کرنے کے لیے کسی فوج کشی کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ ترکی نے جس راستے کو اختیار کیا ہے وہ ساری اسلامی دنیا کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہماری مغرب زدہ حکومتیں اور ان کی پروردہ اشرافیہ یہ خطرہ کبھی مول نہیں لے گی۔ یہ کام بقول مغربی میڈیا ’’اسلامی بورژوا‘‘اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔