ستھراشاہی فقیروں کی گم گشتہ تاریخ کا اہم باب

مدثر بشیر  اتوار 14 فروری 2016
تقسیم کے بعد ایک طویل عرصہ تک اس عمارت کے نیچے دوسرے شہروں سے آئے مسافر حضرات بیٹھا کرتے تھے :فوٹو : فائل

تقسیم کے بعد ایک طویل عرصہ تک اس عمارت کے نیچے دوسرے شہروں سے آئے مسافر حضرات بیٹھا کرتے تھے :فوٹو : فائل

جد توڑی رکھے گا جیوندا
دیوے گا کھاون نوں ناہیں تاں سٹے گا مار
سُتھرے شاہ جی غم نہ کھاؤ ساہنوں ودابن کلبن بہار

حق بات کرنے والے،کہنے والے، سچ کا بول بالا کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں۔ سچ بات کہنے والے لوگ ابتداء میں عموماً انتہائی کم ہوتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ہزاروںتک جا پہنچتی ہے۔ اسی طرح کی ایک داستان سُتھرا شاہی فقیروںکی ہے۔

ایک فقیر تیگ شاہ نامی روایات میں ملتا ہے جس کے گھر 1625ء میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام چندرا رکھا گیا۔ تیگ شاہ نندا کھتری خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا علاقہ برہما پور تھا۔ جو موجودہ ہندوستان کے گورداسپور میں واقع ہے۔ چندرا جب پیدا ہوا تو اس کے ماتھے پر ایک کالا نشان تھا اور پیدائشی طور پر اس کے منہ میں دانت موجود تھے۔

بچے کی غیر معمولی جسمانی ساخت کے باعث اس کو اہل علاقہ اور عزیز رشتے داروں نے نحوست کی علامت مانا اور اس کو ’’کھترا‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ اس لفظ کے معنی بدصورت اور نحوست کے ہیں۔ لوگوں کی ان باتوں کے باعث پیدائش کے چند روز بعد ہی تیگ شاہ نے بچے کو علاقے کے باہر جنگل کے راستے روڑی (پتھروں والی جگہ) پر ڈالدیا۔ اتفاق سے اس وقت سکھوں کے چھٹے گرو‘ گرو ہرگوبند جی جنگل سے شکار کر کے واپس جا رہے تھے۔

جب انہوں نے سرراہ ایک بچے کو دیکھا تو اس کو اٹھوایا اور اہل علاقہ سے اس کے بارے میں پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کے پیدائشی نشانات کے باعث اس کو ’’کھترا‘‘ کہہ کر بلایا اور ساری بات بیان کی۔ جب گرو ہرگوبند جی نے ساری بات سنی تو کہا کہ یہ بچہ چندرا مل ’’کھترا‘‘ نہیں بلکہ یہ ’’سُتھرا‘‘ ہے۔ جس کے معنی صاف‘ کھرا اور حق بات کرنے والا ہے۔ اس کے بعد انہوںنے اپنے جانشین گرو ہررائے کو چندرا مل کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپ دی یوں سُتھرا شاہ نے اپنا بچپن ان گرو حضرات کے زیرسایہ گزارا۔ کچھ روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ گرو ہررائے نے دوران شکار خود چندرا مل کو روڑی سے اٹھایا تھا۔

بادشاہت کو ہمیشہ عوام اور عوام میں موجود خاص اشخاص خوف رہتا ہے۔ چندرامل تمام ہندوستان میں اپنی حق گوئی کے باعث انتہائی معروف ہو گیا۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد ہر شہر میں پائی جانے لگی اور وہ تمام سُتھرے شاہی فقیر کہلاتے تھے۔ عوام میںاس مقبولیت کی وجہ سے اورنگ زیب کو سُتھرے شاہ سے ایک خاص قسم کی عقیدت تھی۔ سرکار کی مہر کے باعث سُتھرے شاہی فقیروں کو بازاروں،دکانوں اورطوائف کے کوٹھوں سے ایک خاص مد نذرانے کی صورت میں ملتی تھی۔

سُتھرے شاہی فقیروں میں کئی مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ فقیر ایک خاص طرز کی حجامت بنواتے، منہ پر رنگ ملتے جو عموماً کالے رنگ کا ہوتا تھا۔ ہاتھوں میں ایک خاص طرز کے ڈنڈے پکڑتے اور بازوؤں میں کڑے پہنتے تھے۔ سُتھرے شاہی فقیر کئی صدیوں تک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پائے گئے۔ سُتھرے شاہ کی وفات 1682ء میں ہوئی لیکن ان کے پیروکار ان کے طرز عمل کو آگے بڑھاتے رہے۔

چونکہ ان کی ابتدائی تعلیم سکھ گرووں کے ہاتھوں سے ہوئی تھی اس لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں ان فقیروں کو خاص عروج ملا۔ اس عہد میں ہندوستان اور خصوصاً پنجاب میں ان کی خاص اہمیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی‘‘ (ص675) پر چیلہ بننے کی رسم اور دیگر تفصیلات کچھ یوں بیان کی ہیں۔

’’ان میں معمول ہے کہ جب کوئی چیلہ ہونے کو آتا ہے تو گورو کے آگے شیرینی رکھتا ہے۔ پھر گورو اس کی بودی منڈوا کر چار ابرو کی صفائی کرواتا ہے۔ بعدازاں چار پانچ سُتھروں کو بلوا کر ان کے پاؤں مع اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے پانی سے دھلوا کر اس میں قدرے قند سیاہ ملا کر چیلے کو سورج کے سامنے کھڑا کر کے یہ شبد پڑھتا ہے

شبدے دھرتی شبدے آکاش
شبدے شبد بھیا پرکاش
ست کی چھری شبد کا پانی
گورو نے مونڈی جگت نے جانی
چند سورج نے ساکھی دیتی
برہما بشن مہادیو نے سان لیتی
من مونڈے ناں مونڈ منڈواؤ
بن من مونڈے مکت نہ پاؤ
نانک نرنجن سری چند بالا
چتے پرم گت نہ پاؤ
چوٹی کٹائے امرت رس پیا
کل جگ میں آ کر سُتھرے مرد کا سرنالیا

بعدازاں اس پانی کو اول اس کی آنکھوں پر ڈالتا ہے اور پھر قدرے آپ اور بقیہ اس کو پلاتا ہے۔ پھر حلوہ تیار کر کے فقراء کو تقسیم کرتے ہیں اور سُتھرا دگنا حصہ پاتا ہے۔

پہلے چندرامل کے دور میں سُتھرے شاہی فقیروں میں دستور بودی منڈوانے کا نہ تھا، اس نے اپنا مذہب مسلمان میں مشترک رکھا، یعنی سوائے بودی کے ایک بڑا چکلہ بالوں کا سر پر رکھتے تھے اور باوا جھنگڑا شاہ نے بودی کاٹنا چیلوں کی شروع کی۔ اب ان میں دستور ہے کہ صرف مونچھیں رکھتے اور داڑھی منڈواتے ہیں۔ مگر اب بطرف شمال داڑھی رکھتے ہیں۔

بعہد مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک روپیہ بیاہ اور ایک پیسہ فی دکان کا مقرر رہا۔ پہلے ہر روز گدائی کرتے تھے۔ اب تیسرے دن۔‘‘

رنجیت سنگھ کے عہد میں تمام پنجاب خصوصاً ثناوری، برہما پور‘ انبالہ ‘ امرتسر اور لاہور میںان کی کئی تعمیرات اور یادگاریں از سر نو تعمیر میں نظر آئیں۔ ان کے علاوہ کچھ تعمیرات جونپور اور قندھار افغانستان میں بھی موجود رہی ہیں۔

سُتھرے شاہی فقیر انگریز عہد میں بھی بام عروج پر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنہیا لال ہندی اور نور احمد چشتی کی تحریروں سے ان پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی اور یہ دونوں مصنفیں اور محققین انگریز عہد کے تھے۔ سُتھرے شاہی فقیروں میں سے ایک شخص جھینگر شاہ تھا جس کو نور احمد چشتی نے جھنگڑ شاہ تحریر کیا ہے۔ اس کی سمادھ لاہور قلعے کی بیرونی فصیل کے ساتھ ہے۔ اس شخص اور اس کی سمادھ کے بارے میں نور احمد چشتی نے تحقیقات چشتی (ص670) پر یوں تحریر کیا ہے

حال دھرم سالہ جھنگڑ شاہ

متصل قلعہ لاہور کے جنوب رویہ مکان دھرم سالہ المشہور دھرم سالہ جھنگڑ شاہ فیمابین دروازہ مستی و روشنائی موجود ہے۔ یہ جھنگڑ شاہ کھتری رشتہ دار دیوان لکھ پت وجسپت رائے کا تھا جو دیوان خانہ بہادر ناظم لاہور کے تھے۔ بعدہ سُتھرا فقیر ہو کر باوا رجال شاہ کا چیلہ ہوا۔ یہ جھنگڑ شاہ بعہد نواب خان بہادر ہوا ہے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ لوگوں نے نواب خان بہادر کو جا کر کہا کہ مستی دروازہ کے باہر جو سُتھرا المشہور جھنگڑ شاہ رہتا ہے اس نے مکان عالی شان بنوایا ہے حکم ہوا کہ اس کو لے آؤ۔ جب وہ حاضر ہوا تو خان بہادر نے فرمایا کہ اے جھنگڑ شاہ تو مسلمان ہے یا ہندو۔ اس نے کہا میں دونوں میں مشترک ہوں۔ مذہب میرا صلح کل۔ ہندو مسلمان دعا گو ہوں۔ نواب نے خوش ہو کر اس کو نہ ستایا۔ تاریخ مرنے کی جھنگڑ شاہ کی پہلی اسوج مشہور ہے۔ چنانچہ اس دن اس کو سرادہ کرتے ہیں۔‘‘

جھینگر شاہ کی یہ عالیشان سمادھ قلعے کی دیوار سے متصل تھی۔ اس سمادھ کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس کی عمارت کے بارے میں کچھ تفاصیل کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص215) پر کچھ اس طرح بیان کی ہیں۔

’’یہ مکان بھی شمالی دیوار قلعہ کے ساتھ ملحق ہے۔ حکام وقت چند بار اس کو گرا دینے کے در پے ہو چکے ہیں ۔ کیونکہ اس کی دیواروں اور اس کے درختوں کی شاخوں سے اگر کوئی چاہے تو قلعے کے اندر پہنچ سکتا ہے۔ مگر محض درگزر اس لئے ہوتا رہا کہ اس مکان کی بزرگی کے ہزاروں لوگ قائل ہیں۔ کئی بار اس مکان کی قیمت کی فرد بھی بن چکی ہے۔

جس جگہ سمادھ بنی ہے۔ احاطہ مکان پختہ ہوا ہے۔ طول میں زیادہ اور عرض میں کم ہے۔ دروازہ مکان کا بہ جانب شرق ہے۔ جب اس سے اندر جائیں تو صحن میں داخل ہوتے ہیں۔ اس صحن کے جنوب و شمال میں فقرا کے رہنے کے لئے مکانات بنے ہیں۔ اور ایک درخت بڑھ کابہت بڑا سر بہ فلک کھڑا ہے جس کا سایہ تمام صحن اور دو طرفہ دالانوں پر ہے۔ جب اس سے آگے بڑھیں تو فرش پختہ اور چاہ( کنواں) آتا ہے۔ اس چاہ کے جنوب کی سمت ایک نشت گاہ نہایت مکلف ، چاہ کے چبوترے کے برابر کرسی دے کر بنی ہوئی ہے۔ اس نشست گاہ کی عمارت پختہ اور چونہ گچ منقش ہے اور چھت تختہ پوش ہے۔

اس بیٹھک میں مہنت کی نشت رہتی ہے۔ چاہ کے شمال کی سمت کو بھی ایک مکلف چونہ گچ نشست گاہ بنائی گئی ہے جس پر زینہ چڑھ کر جاتے ہیں۔ اس کے اندر تین دریچے بہ طرف میدان پریٹ رکھے گئے جس میں بیٹھ کر پریٹ کے میدان کے سبزہ زار کی بہ خوبی سیر ہوتی ہے۔

اس بیٹھک سے آگے بڑھ کر ایک اور مکلف مکان چونہ گچ مکلف بنا ہوا ہے، اس میں گرنتھ رکھا رہتا ہے اور اس سلسلے کے فقرا اس کو نہایت شوق سے پڑھتے ہیں ۔ اس مکان سے بہ جانب جنوب دیوار بہ دیوار قلعہ لاہور کے مکان سمادہ جھینگر شاہ سُتھرے کا عالی شان پختہ گنبد دار بنا ہواہے۔ دروازہ اس کا بہ جانب شمال ہے۔

مندر کے اندر کی عمارت منقش چونہ گچ ہے اور دیواروں پر گروؤں کی تصاویریں لگی ہیں۔ چھت قالبوتی ہے اور اس کے اوپر گنبد مدور عالی شان بنا ہے۔ مندر کے وسط میں اصلی سمادہ جھینگر شاہ کی ایک سنگ مرمرکے چبوترے پر ہے۔

یہ چبوترہ نہایت مکلف بنایا گیا ہے۔ سنگ مرمر کے اندر بیل بوٹے وغیرہ پتھروں کے رنگا رنگ بنائے گئے ہیں۔ اس کے اوپر سمادھ چھوٹی سی سنگ مرمر کی نہایت قبول صورت تعمیر ہوئی ہے۔ چبوترے کے چاروں کونوں پر چار ستون سنگین قائم کر کے ایک قبول صورت گنبدی ایسی عمدہ بنائی گئی ہے جس سے مکان کی زینت دوبالا ہو گئی ہے۔

اس مندر کا مہنت اڑ کی شاہ سُتھرا فقیر انیس سال سے مقرر ہے۔ جو نہایت خلیق و مہمان پرست ہے۔ وہ ہر ایک مسافر کی‘ جو مکان میں آ جاتا ہے، دل و جان سے خدمت کرتا ہے۔ چڑھاوہ بھی لیتا ہے‘‘۔

تقسیم کے بعد بربادیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو گئے اور سماجی، سیاسی، ثقافتی زوال پذیریاں بام عروج کی جانب مائل رہیں اور بدستور اسی سیدھ پر گامزن ہے۔ کئی تاریخی اور ثقافتی اقدار ختم ہو گئیں۔ کئی فن، گن متروک ہو کر رہ گئے۔

اب تو زبوں حالی اس مقام پر ہے کہ عصر حاضر وہ اقدار اور وہ عمارات جن کا تعلق مسلم شخصیات سے تھا‘ وہ بھی مذہب، اور ترقی کے نام پر تباہ و برباد کر دی گئیں۔ اسی طرح سُتھرے شاہ کے نام سے موسوم ان کی یہ سمادھ بظاہر کسی بھی مذہب سے تعلق نہ رکھتی تھی اس عمارت کو ہمارا سماج کس کھاتے میں ڈالتا ، قلعے کی جنوب مشرقی دیوار سے ملحقہ یہ عماراتیں بادامی باغ کے سامنے والی سیدھ میں تھیں۔

تقسیم کے بعد ایک طویل عرصہ تک اس عمارت کے نیچے دوسرے شہروں سے آئے مسافر حضرات بیٹھا کرتے تھے کیونکہ کئی دہائیوں تک لاری اڈا ہی دیگر شہروں سے آنے جانے والوںکی آماجگاہ تھی۔ شام ہوتے ہی نشہ کرنے والے حضرات بیٹھ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر پتنگ باز حضرات بھی آ جایا کرتے تھے۔ اس جگہ پر قلعے کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایک سرسبز باغ ان دنوں نوجوان لڑکوں کے لئے کرکٹ کھیلنے کے میدان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ عموما یہ وہ لڑکے ہوتے تھے جن کو کھیلنے کے لئے منٹو پارک میں جگہ نہیں ملتی تھی۔

مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی دشمنی کی بدترین مثال ہندوستان میں سانحہ بابری مسجد کی شکل میںدکھائی دی۔ بابری مسجد کے اس سانحے کے بعد تمام لاہور میں غم و غصے کی لہر تھی۔

لوگوں نے لاہور کی کئی قدیم اور تاریخی عمارتوں کو توڑا‘ گرایا اور جلایا، یہ اقدم کسی بھی طور پر قانونی اور مذہبی ہرگز نہ تھا۔ اس کے پیچھے قبضہ گروپوں کی ایک خاص سوچ بھی موجود تھی۔ جھینگر شاہ سُتھرا کی اس سمادھی کی عمارت کے کئی حصوںکو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔

خاص سمادھ والی جگہ کو جلا دیا گیا۔ اس کے ساتھ دیگر عمارتوں کو ان کی بنیادوں تک سے ختم کر دیا گیا۔ کئی برس تک یہ عمارت اسی طرح جلی ہوئی حالت میں اپنے پرانے گھنڈرات کے ساتھ کھڑی دکھائی دی۔ پھر یہ عمارت چوبیس گھنٹے بھنگی چرسی حضرات کا مسکن رہی۔ اس سمادھ سے مغرب سیدھ میں بھائی دستی رام کی سمادھی بھی ہے۔ آج کل ان دونوں عمارات کی از سر نو تعمیر اور مرمت کی جا رہی ہے۔

بجانب سڑک لوہے کے جنگلے لگا کر باقی حصے کو سرسبز میدان بنا دیا گیا ہے۔ سمادھ کی عمارت پر پرانے پھول بوٹوں کے نمونہ جات آج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ داخلی د روازے کے اوپر ہندی میںتحریریں اور نمونہ جات دیکھے جا سکتے ہیں۔ دروازہ کے اوپر عمارت کو جلائے جانے کے نشان آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ خاص سمادھ کے کمرے پر اس کا قدیم گنبد انتہائی خوبصورت حالت میں ہے۔ جبکہ استھیوں کی جگہ فرش کے برابر کی جا چکی ہے جس کے باعث سمادھ کا اصل مقصد ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔ سمادھ کی بنیادوں کا مضبوط چبوترہ تعمیر کے روز اول کی مانند مضبوط اور مستقل نظر آتا ہے۔

سمادھ کے آگے کھلے میدان کو دوسرے شہروں کے اسکول کالج سے مطالعاتی دوروں پر آئے طالب علم بطور آرام گاہ استعمال کرتے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک ہم صرف کہا اور لکھا کرتے تھے کہ ماضی کی ان یاد گاروںکو سنبھالا جائے وگرنہ یہ محض ماضی اور کتب کا حصہ بن کر رہ جائیں گی۔ لیکن اب یہ بات انتہائی واضح ہو چکی ہے کہ لاہور کی اکثر عمارتیں اگلے کچھ برسوں میں صرف اور صرف تحریروںکا حصہ دکھائی دیں گی۔ سماجی اور سرکاری رویئے اور بے حسی ان اقدار اور عمارات کو تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔