فوجداری نظام میں قابل عمل اصلاحات کے بغیر انصاف ممکن نہیں

رحمت علی رازی  اتوار 14 فروری 2016

جب سے ن لیگ کی حکومت اقتدار میں آئی ہے اس نے تمام اہم سرکاری شعبوں میں اصلاحات لانے کے لیے بڑے بڑے اعلانات کیے ہیں‘ اس ضمن میں متعدد کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ابھی تک وفاقی حکومت کے ماتحت کسی بھی شعبے میں اصلاحات کی کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔

کچھ معاملات میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن جیسے آئینی ادارے نے اصلاحات پیکیج تیار کیا اور حکومت سے اس پر عملدرآمد کی منظوری چاہی مگر اس پر بھی حکومت نے کوئی صائب فیصلہ نہ کیا اور مجوزہ اصلاحات حسبِ دستور فائلوں کا حصہ بن کر رہ گئیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے حکومت نے جس طرح کی شتابی دکھائی وہ نا اہل اور غیر موثر بیوروکریسی کو بہتر بنانے، پولیس کو غیر سیاسی کرنے، آزاد احتساب کا نظام قائم کرنے، تیز اور سستے انصاف کی فراہمی، ٹیکس نظام کو فروغ دینے، فوجداری نظام کی خامیاں دُور کرنے، انتخابی اصلاحات اور دیگر بڑے معاملات میں نظر نہیں آئی۔

وزیر اعظم وفاقی حکومت کے خدمات فراہم کرنیوالے تمام محکموں کو اب تک کئی مرتبہ ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ وہ سٹیزن فیڈبیک مانیٹرنگ پروگرام (سی ایف ایم پی) پر عملدرآمد کریں تا کہ خدمات کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے، کرپشن ختم اور شہریوں کے اعتماد اور رابطہ کاری میں اضافہ کیا جا سکے لیکن اس مخصوص معاملہ میں بھی ہنوز کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی۔

حکومتی حلقوں میں مسائل کے حل کا متبادل نظام (آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیوشن سسٹم) لانے پر دو برسوں سے باتیں چل رہی ہیں تا کہ موجودہ عدالتی نظام کا بوجھ کم کرنے اور اس کی توجہ سنگین نوعیت کے مقدمات کی جانب مبذول کرانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں لیکن عملاً تاحال کچھ نہیں ہو پایا کیونکہ اب تک تمام معاملات تجاویز کی حد تک ہی محدود ہیں۔ 2015ء کے اوائل میں محصولات میں اصلاحات کے لیے ٹیکس ریفارم کمیشن قائم کیا گیا تھا تا کہ ٹیکس سے متعلقہ امور اور موجودہ ٹیکس نظام کو بہتر بنایا جا سکے اور اس معاملہ میں عوام کو مناسب سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

اگست 2014ء میں حکومت نے انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی تھی لیکن اس بابت بھی کوئی ٹھوس نتیجہ نکل کر سامنے نہ آ پایا۔ ملک کی انتظامی مشینری کو سیاست سے پاک کرنے اور اسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے زود حِس بنانے کے لیے سول سروس اور پولیس اصلاحات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ احتساب کمیشن، ایف آئی اے اور صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کی اوور ہالنگ اور انھیں موثر و غیرجانبدار بنانے کے معاملہ پر بھی مسلسل سکوت چھایا ہوا ہے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے بھی صوبائی حکومتوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ اسی طرح حکومت نے خودمختاری کے ذریعے بھرتی کے نظام، افرادی قوت کے معیار میں بہتری، سول سروس کو پیشہ ورانہ بنانے اور اداروں کو موثر بنانے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی مشاورت اور سفارشات کو بھی خاطر میں لانا گوارا نہیں کیا۔

ایف پی ایس سی نے پروموشن پالیسی، سی ایس سی کے امتحان میں پروفیشنل اہلیت کو بہتر بنانے، سی ایس ایس کے امیدواروں کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ متعارف کرانے، سیکشن افسران کے پروموشن کے امتحان کے لیے بہتر میکا نزم لانے، سی ایس ایس کا امتحان بہتر بنانے وغیرہ جیسی کئی تجاویز و سفارشات دی تھیں لیکن حکومت نے کسی ایک کی بھی منظوری دینا مناسب نہ سمجھا۔ اس مختصر سی اصلاحاتی ٹائم لائن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہے کہ ایسی کون سی طاقت ہے جس نے حکومت کی جبیرہ بندی کر رکھی ہے اور وہ اصلاحاتی ایجنڈے کو عملی شکل دینے سے قاصر ہے۔

کیا یہ واقعی کوئی نادیدہ مجبوری ہے یا حکمرانوں کے طبلہ نواز بیوروکریٹوں کی نااہلی؟ یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ سارا کچھ قوم کا وقت اور پیسہ برباد کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے؟ کیا حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور وہ محض وقت گزاری کے لیے اصلاحات کے بار بار ڈرامے رچائے جا رہے ہیں؟ ہمارے نزدیک اصلاحات کا لفظ اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اصلاحات کی جو فہرست ہم نے گنوائی ہے وہ قصۂ پارینہ ہو چکی ہے اور سال سوا سال سے اب اس بیوقوف اور سادہ لوح قوم کو لیگل ریفارمز کی گولی دی جا رہی ہے۔

اس موضوع پر دیگر اہلِ نابغہ کی طرح ہم بھی قرطاس و روشنائی کاضیاع اور خواہ مخواہ کی مغز ماری کر رہے ہیں۔ خیر! حکومت بھلے اسے مشغلے کے طور پر لے مگر ہم اسے اپنے فرض کے طور پر انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ قبل ازیں سول سروس اصلاحات پر ہم نے چار ماہ تک قلم آزمائی کی‘ اس مرتبہ بھی عدالتی اصلاحات پر ہم تواتر سے لکھ رہے ہیں۔ جوڈیشل ریفارمز سیریز میں اب کی بار ہمارا موضوع فوجداری نظامِ انصاف ہے۔

فوجداری نظام کی خرابیوں کی طرف آنے سے پہلے پاکستان کے نظامِ تعزیرات کا ایک طائرانہ جائزہ لینا ہو گا۔ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کا بنیادی ماخذ تعزیراتِ ہند ہے‘ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے جسکا مقصدقانونِ فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا جسکے پیچھے برطانوی ہندوستان کے پہلے قانونی کمیشن کی سفارشات کارفرما تھیں۔

یہ کمیشن 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس باربنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔ یہ فوجداری قانون برطانوی ہندوستان میں 1862ء میں نافذ کیا گیا تھا تاہم یہ قوانین نوابی ریاستوں میں نافذ نہیں کیے گئے تھے‘ ان کے پاس 1940ء کی دہائی تک ان کی اپنی عدالتیں اور قانونی نظام قائم تھے۔ تعزیراتِ ہند ہی پر مبنی جموں و کشمیر میں ایک علیحدہ ضابطہ فوجداری نافذ کیا گیا جسے رنبیر ضابطہ تعزیرات کہا جاتا ہے۔

تعزیراتِ ہند برطانوی استعماری اربابِ مجاز کی جانب سے برما (میانمار)، سیلون (موجودہ سری لنکا)، مستعمرات آبنائے (اب ملیشیا کا حصہ)، سنگاپور اور برونائی دار السلام میں بھی نافذ کیا گیا جو آج ان ممالک کے فوجداری قوانین کی اساس بنا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر میں نافذ رنبیر ضابطہ تعزیرات اسی ضابطے پر مبنی ہے۔ تعزیراتِ ہند کا مسودہ پہلے قانونی کمیشن کی جانب سے 1834ء میں تیار کیا گیا تھا جس کی صدارت میکالے کی تھی‘ اور تعزیرات کا حتمی مسودہ نظرثانی کے لیے ہندوستانی کونسل کے گورنر کو 1837ء میں پیش کیا گیا تھا، اس کی بنیاد انگلستان کا قانون ہے۔

جس میں اس کی منفردات، طرزیات اور مقامی پیچیدگیوں کو دُور رکھا گیا تھا۔ اس کے کچھ اجزاء نپولینی ضابطہ اور ایڈورڈ لیونگ اسٹون کے 1825ء کے لوزیانا ضابطہ دیوانی سے بھی لیے گئے تھے۔ مسودے کی نئے سرے سے تیاری 1850ء میں مکمل ہوئی اور اس ضابطے کو قانون ساز کونسل میں 1856ء کو پیش کیا گیا تھا‘ مگر مسودہ کو اس کا مقام نہیں ملا کیونکہ تب جنگ ِ آزادیٔ ہند 1857ء کا شورش زدہ دور چل رہا تھا۔

بالآخر یہ مسودہ بارنیس پیکاک کی نظر سے گزرا جو کہ بعد میں کلکتہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے اور اس کے بعد مستقبل میں اسی کورٹ کے جج حضرات نے، جو قانون ساز کونسل کے ارکان بھی تھے، 6 اکتوبر 1860ء کو اسے منظور کر لیا۔ اس ضابطہ کو یکم جنوری 1862ء سے روبہ عمل لایا گیا تھا تاہم میکالے اپنا قانونی شاہکار عملی شکل میں دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے ‘ ان کا انتقال 1859ء میں ہو گیا تھا۔

انگریزوں کی واپسی کے بعد تعزیراتِ ہند پاکستان کو ورثے میں ملا جسکا زیادہ تر حصہ سابقہ برطانوی بھارت کا حصہ تھا جسے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کا نام دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد میں یہی قانون وہاں بھی نافذ رہا۔ پاکستان کے موجودہ فوجداری نظام میں بیشمار فنی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا جوڈیشل سسٹم معصوم اور بیگناہ شہریوں کے لیے عذاب بن کر رہ گیا ہے۔ فوجداری نظامِ انصاف میں اصلاحات اور بہتری کے بغیر معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ناممکن ہے۔ فوجداری نظامِ انصاف کے تین اہم شعبے عدلیہ، پولیس اور پراسیکیوشن ہیں۔ مقدمے کے اندراج، تفتیش، گواہان کے تحفظ سے شہادت پیش کرنے کی ذمے داری پولیس کی ہے جب کہ امن و امان کی ذمے داری بھی اسی ادارے کی ہے۔ عوام اپنی شکایت کے اندراج کے لیے پولیس سے رجوع کرتے ہیں۔

شکایت کنندہ/ عام آدمی ایک طرف چوری، ڈکیتی، قتل اور جائیداد، مکان، دکان پر ناجائز قبضہ سے متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف پولیس ان کی شکایت کا اندراج نہیں کرتی۔ ایس ایچ او تھانہ جو کہ ہر قابلِ دست اندازی جرم کی رپورٹ تحریر کرنے کا قانوناً پابند ہے، جان بوجھ کر اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتا ہے۔

اندراج مقدمہ میں تاخیر یا اندراج مقدمہ سے انکار کی مسلسل شکایات کے بعد مجموعہ ضابطہ فوجداری میں ترمیم کر کے ہر ضلع کے سیشن ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز کو دفعہ 22-A اور 22-B ف کے تحت جسٹس آف پیس کے اختیارات دیے گئے۔ اگرچہ جسٹس آف پیس ایڈیشنل سیشن ججز کے حکم سے شکایت کنندہ کی اندراج مقدمہ کی داد رسی ہو جاتی ہے لیکن نہ تو کرائم میں محفوظ ہوتا ہے نہ جائے وقوعہ سے فنگرپرنٹ سمیت کوئی شہادت اکٹھی کی جا سکتی ہے جس سے ملزم کے خلاف ثبوت اور ٹھوس سائنسی انداز میں شہادت جمع کرنے کا بہترین موقع ضایع ہو جاتا ہے۔

اندراج مقدمہ میں اس تاخیر کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مظلوم فریق شکایت کی دادرسی نہ ہونے پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بااثر ملزمان کمزور اور مظلوم فریق کو دادرسی سے محروم کرنے کے لیے دھمکیوں سمیت تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ کرائم سین سے ابتدائی اور سائنسی انداز میں شہادت جمع نہ کرنے اور اندراج مقدمہ میں تاخیر کا تمام فائدہ بااثر ملزمان کو ہوتا ہے اور وہ عدالت سے ضمانت اور ٹرائل میں شک کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے بری ہو جاتے ہیں۔

اندراج مقدمہ کے بعد تفتیش کا مرحلہ آتا ہے۔ اگرچہ تفتیشی افسر کے شعبے کو واچ اینڈ وارڈ سے علیحدہ کر دیا گیا ہے لیکن عملاً تفتیشی افسران سے تمام کام لیے جا رہے ہیں۔ تفتیشی افسر قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی سمیت تمام جرائم کے مرتکب ملزمان کو بیگناہ قرار دینے سے لے کر ملزم کو مستغیث اور مستغیث کو ملزم بنانے تک کا اختیار رکھتا ہے۔ ضلع ملتان کے ایک مشہور فوجداری کیس میں ایک شخص کو زمین کے تنازعہ پر دشمنوں نے ٹانگ پر گولی مار دی۔

پولیس نے مقدمہ کا اندراج تو کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد ملزمان کو بیگناہ قرار دیکر مستغیث کو خودکشی کا ملزم بنا دیا‘ ان حالات میں مستغیث فریق اپنی دادرسی کو بھول کر اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں لگ گیا۔ اگرچہ مستغیث فریق دادرسی کے لیے پولیس کے اعلیٰ حکام سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اس طرح کی تفتیش یا تو اپنے پولیس افسران کے حکم سے ہوتی ہے یا کسی دوسرے دنیاوی فائدے کی خاطر ہوتی ہے اور مستغیث کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

تفتیشی افسران تفتیش کے بنیادی نکات سے ناواقف ہوتے ہیں اور جدید سائنسی ٹیکنیک بشمول فنگر پرنٹس ای ایم آئی سی اور کال ڈیٹا ریکارڈ، فرانزک شہادت کے حصول کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ زیادہ ترتفتیشی افسران یا تو ان جدید سائنسی ٹیکنیکس کے استعمال کا طریقہ کار نہیں جانتے یا کام کی زیادتی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے کام سے کتراتے ہیں۔

تفتیشی افسران کا یہ رویہ صرف معمولی جرائم کی تفتیش کے دوران نہیں ہوتا بلکہ اغواء، اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، دہشت گردی اور ناجائز قبضہ کے مقدمات میں بھی تفتیش کا انداز یہی ہوتا ہے۔ تفتیشی افسران اور پولیس کی یہ بے حسی مظلوم فریق میں مخالفانہ اور انتقامی جذبات پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں انتہا پسندی کا موجب بنتی ہے۔ تفتیشی افسران اور پولیس پر اُن کے اعلیٰ حکام کے چیک اینڈبیلنس اور احتساب کے نظام کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

فرانزک سائنسی لیبارٹری کا تحصیل اور ضلع کی سطح تک قیام کرائم سین کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ تفتیشی افسران کا فرانزک سائنس لیبارٹری اور نادرا، بینک ریکارڈ تک رسائی سے تفتیش میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے‘ البتہ پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پولیس میں ہر سطح کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر کی جانی چاہیے۔ پولیس ملازمین اور افسران کو جدید خطوط پر تربیت دینے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔

پولیس کی تنخواہ میں بہتری کر کے احتساب کا سخت نظام قائم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کے دوران ڈاکٹر عاصم کو بھی گرفتار کیا گیا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عاصم کی رہائی کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔

تفتیشی افسر کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے متعلقہ تفتیشی افسر نے ملکی تاریخ میں پہلی بار دفعہ 497 ضابطہ فوجداری کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہا کرنے کا پورا منصوبہ ترتیب دیکر اس پر عمل بھی کر دیا تاہم صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا خواب متعلقہ جج انسداد دہشت گردی نے چکناچور کر دیا۔

سیاسی اور عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے شروع ہونے والے نیشنل ایکشن پلان اور اس کے تحت اپیکس کمیٹی کے مسلسل اجلاس اور تمام امور پر تبادلۂ خیالات کے بعد سیاسی قیادت کا ایک ملزم کو اس طرح رہا کروانے کے لیے پولیس کو استعمال کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت پولیس کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے اور اسے عام آدمی کے مسائل اور امن و امان کی بہتری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ محکمہ پراسیکیوشن فوجداری نظامِ انصاف میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔

محکمہ پراسیکیوشن میں تجربہ کار، اہل اور محنتی افراد کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کم تنخواہ و مراعات کی وجہ سے محکمہ پراسیکیوشن کے مختلف معاملات میں اثر و رسوخ کے استعمال نے پراسیکیوٹرز کو محکمہ پراسیکیوشن کی باندی بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں سپیشل پراسیکیوٹر کی تبدیلی، کیس کی واپسی کی کوششوں اور سندھ کریمنل پراسیکیوشن ایکٹ ء2009 میں تبدیلی کے لیے قانون سازی کی کوششوں نے سیاسی قیادت کے ذاتی مفادات اور اقربا پروری کے سارے ایجنڈے بے نقاب کر کے رکھ دیے ہیں۔

عدالتوں کی رہنمائی اور امداد کے لیے لائق اور محنتی پراسیکیوٹرز پر مشتمل ایک نئے، آزاد اور سیاست سے پاک غیرجانبدار محکمہ قائم کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم کی بھی متعلقہ صوبائی حکومتوں نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ سبین محمود قتل کیس میں ڈرائیور گواہ کا قتل اور ولی بابر کیس میں چھ گواہان کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں گواہان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ دہشت گردی اور خوفناک جرائم کی تفتیش میں ابتدائی طور پر پولیس کرائم اور فرانزک کی مدد سے شواہد اکٹھے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور گواہان کو خطرناک ملزمان ڈرادھمکا کر اپنے خلاف گواہی دینے سے باز رکھتے ہیں۔

زین قتل کیس میں تمام گواہان کا منحرف ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بااثر افراد کس طرح گواہان کو اپنے حق میں شہادت دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ سندھ حکومت نے گواہان کے تحفظ پر قانون سازی کی ہے لیکن لمبے عدالتی عمل میں اتنے عرصے تک گواہ کو علیحدہ جگہ رکھنا اور اسے مسلسل سیکیورٹی دینا ممکن نہیں ہے‘ ان حالات میں ایک ایسے محکمہ پراسیکیوشن کی ضرورت ہے جو اہم گواہان کی شہادت قانون کے مطابق محفوظ کر سکے۔

محکمہ پراسیکیوشن میں محنتی، اہل اور دیانتدار افراد کی بھرتی، بہتر تربیت، بہتر تنخواہ پیکیج کے ذریعے ایک آزاد اور غیرجانبدار ادارہ بنائے جانے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی بااثر شخص بشمول کوئی حکومت کسی فردِ واحد کے لیے تمام نظام اور ادارے کو بدنام کر کے اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل نہ کر سکے۔

محکمہ پراسیکیوشن اور پولیس میں ایک قریبی تعلق اور رابطہ کی ضرورت ہے۔ محکمہ پراسیکیوشن کی بھی محکمہ پولیس کی طرح نادرا، بینک ریکارڈ اور کال ڈیٹاریکارڈ تک رسائی ضروری ہے۔ فوجداری نظامِ انصاف میں مجسٹریٹ سے سیشن جج تک کی عدالت کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پولیس اپنی تمام رپورٹس بذریعہ پراسیکیوٹر عدالت میں ٹرائل کے لیے بھجواتی ہے۔ شواہد اور گواہان پیش کرنا پولیس کی اور جرم کو ثابت کرنا پراسیکیوشن کی ذمے داری ہے۔

اگر شواہد ناقص ہوں اور گواہان ملزمان کے خلاف شہادت نہ دیں تو عدالت کسی ملزم کو سزا نہیں دے سکتی۔ فوجداری عدالتوں کو وکلاء نے بھی بار اور بنچ کو ایک گاڑی کے دو پہیوں کے نام پر یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آخر وکلاء تحصیل، ضلع، ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسل کے صدر اور ممبر منتخب ہونے کے لیے رقم کا بے دریغ استعمال کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان بار کونسل کے حالیہ انتخابات میں کروڑوں روپے کے لین دین کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‘ یہ سب کچھ آخر کس لیے؟

اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان عہدوں کی بناء پر عدالتوں کو یرغمال بنایا جائے اور من پسند فیصلے حاصل کیے جائیں۔ مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سیشن ججز کی عدالتوں کی یہ صورتحال ہے کہ گواہان برسوں عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لیکن ان کی شہادت کبھی ایک فریق کے وکیل کبھی دوسرے وکیل اور کبھی ہڑتال کی وجہ سے قلم بند نہیں ہو سکتی حالانکہ سیشن ٹرائل کی شہادت شروع ہونے کے بعد اسے مسلسل سیشن ہی میں مکمل ہونا چاہیے۔

اگر قانون کی روح کے مطابق حل ہو تو ایک سیشن ٹرائل کا دو ہفتوں کے اندر فیصلہ ہو جانا چاہیے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سالوں سیشن کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اگر کوئی جج کسی کیس کا جلد ٹرائل کرنے کی کوشش کرے تو یا تو اس پر جانبداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے، اس سے کیس ٹرانسفر کروا لیا جاتا ہے یا جج صاحب کو ہی ٹرانسفر کروا دیا جاتا ہے۔ فوجداری عدالتوں کا پورا ڈسپلن ایک نائب کورٹ پر منحصر ہوتا ہے۔

ریکارڈ کی ترتیب سے ریکارڈ کی فراہمی تک نائب کورٹ کی سیکڑوں ذمے داریاں ہوتی ہیں‘ وہ وکلاء کے مضبوط اور طاقتور گینگ کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن ججز اور مجسٹریٹس مقدمہ قتل سے لے کر ڈکیتی جیسے سنگین جرائم تک کا فیصلہ کرنے کے بعد پیدل گھروں کو جاتے ہیں۔ ججز کو نہ تو کوئی گارڈ مہیا کیا جاتا ہے نہ گھریلو ملازم‘ ان حالات میں ججز کس طرح بے خوف ہو کر آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں؟ مجسٹریٹ سے عدالتِ عظمیٰ تک ججز کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے جسکے تحت ججز نہ تو بازار جا سکتے ہیں‘ نہ کسی سے میل ملاپ رکھ سکتے ہیں۔

ان تمام حالات میں ضروری ہے کہ ان کے نجی امور کی بجاآوری کے لیے ’’پرسنل سروس اسٹاف‘‘ اور دیگر جائز مراعات کا بندوبست کیا جائے ورنہ مجسٹریٹس اور ججز سے آزادانہ و بے باک انداز میں انصاف کی توقع خود فریبی ہی ہو سکتی ہے۔ یہ امر انتہائی تاسف کے قابل ہے کہ ہمارے ملک میں قبضے، قتل اور مقدمے سے متعلق قوانین صدیوں پرانے ہیں۔

ضابطہ دیوانی ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے ، ضابطہ فوجداری ایک سو سال سے زائد پرانا ہے اور تعزایرت کا قانون تو کم و بیش ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔ اگرچہ ان قوانین میں مختلف ادوار میں تر امیم ہوتی رہی ہیں لیکن یہ ترامیم ناکافی ہیں اور مقننہ کو اب بھی بہت سارا کام کرنا باقی ہے کیونکہ ناجائز قبضے کی شکل میں ہونے والا قتل اور پھر اس قتل کا مقدمہ درج ہو نے اور فیصلے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے اور اس کے باعث لوگوں کی ذہنی پریشانی کے علا وہ جو بھی مالی، وقتی اور ذہنی نقصان ہو رہا ہے۔

اس میں انتظامیہ، مقننہ کے ساتھ ساتھ سارا نظامِ عدل برابر کا شریک ہے۔ جب ایک جائز قابض و مالک شخص سے غیر قانونی طور پر زبردستی یا جعلسازی کر کے قبضہ چھین لیا جاتا ہے تو اس کے پاس داد رسی کے دو طریقے ہیں: ایک تو وہ دیوانی عدالت میں قبضہ بحالی کا مقدمہ دائر کرے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص فوجداری مقدمہ کے لیے تعزایرتِ پاکستان کا سہارا لے کیونکہ جب بھی غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب نقصِ امن کا نہ صر ف خدشہ ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات فریقین میں سے کسی کی جان تک چلی جاتی ہے‘ ایسی صورت میں فوجداری مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔

اگر ملزمان بااثر ہوں تو گرفتاریاں جلد عمل میں نہیں آتیں۔ مقدمہ تفتیشی مراحل میں ہی کمزور ہو جاتا ہے اور ملز مان ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ضمانت ہو جانے کی صورت میں مدعی مایوس ہو کر گھر بیٹھ جاتا ہے اور پھر پولیس عرصہ دراز تک چالان جمع نہیں کرواتی حالانکہ سپریم کورٹ کے لاتعداد فیصلے موجود ہیں کہ پولیس ہر صورت میں مکمل چالان قانونی مدت 14دن میں ہی پیش کر ے لیکن فوجداری مقدمات بھی دیوانی مقدمات کی طر ح برسوں چلتے ہیں۔

مقننہ قانون بناتی، عدلیہ قانون کی تشریح کر تی اور مقدمات کا فیصلہ سناتی ہے جب کہ فیصلوں پر عملدرآمد انتظامیہ کا کام ہے، مقدمات میں تفتیش کا کام بھی انتظامیہ کا ہی ہے، خاص طور پر فوجداری مقدمات میں سزا و جزا کا انحصار تفتیش پر زیادہ ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ مقننہ جدید دور سے ہم آہنگ قانون سازی کرے اور پرانے قوانین میں ترامیم لائے، ملک میں تفتیش کا نظام بہتر بنایا جائے، مقدمات کی تفتیش کو جدید سطح کے ذرائع سے استو ار کیا جائے۔

جدید آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے، اہم مقدمات کی تفتیش ان پیشہ وارانہ تفتیشی افسروں کے سپرد کی جائے جو واقعی خوفِ خدا بھی رکھتے ہوں، غیرضروری ہڑتالوں اور چھٹیوں کو کم سے کم کیا جائے، ججوں کی تعداد میں اضا فہ کیا جائے اور بار اور بنچ مل کر مقدمات کے فیصلوں میں ہونے والی تاخیر کے اسباب ختم کرنے کے لیے مشترکہ لا ئحہ عمل بنائیںتا کہ جلد اور سستے انصاف کی راہ ہموار ہو سکے۔ ہمارے موجودہ سسٹم میں ایف آئی آر کے اندراج کا دوسرا نام نامزد شخص کی گرفتاری ہوتی ہے لیکن اگر نظامِ انصاف میں اصلاحات لانی ہیں تو پولیس تفتیش کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے کسی بھی شخص کی شکایت پر پہلے ایف آئی آر درج ہونی چاہیے۔

گرفتاری پولیس تفتیش کے بعد ہو تو سسٹم میں بہتری کے امکانات ہیں۔ پولیس کی خودسری کے باعث عدالتوں پر کام کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ عدالتوں میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے سیکڑوں درخواستیں دائر ہوتی ہیں تو دوسری طرف سے ان کے خلاف بڑی عدالتوں میں درخواستیں دائر کر دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اگر اصلاحات لائی جائیں تو سسٹم میں بہتری آ سکتی ہے لیکن اس سے قبل پولیس کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا کیونکہ اگر یہ ایمانداری سے کام کرے تو اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ورنہ عوام تو پہلے ہی پس رہے ہیں اور عدالتوں کا بھی پولیس اور بیورو کریسی پر کوئی زور نہیں چل رہا۔

ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی لانے سے قبل ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کو بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ اصلاحات سے قبل اگر پولیس کا قبلہ درست نہ کیا گیا تو معاملہ عوام کی گردن پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں دینے کے مترادف ہو گا۔ پہلے ہی پنجاب میں ایف آئی آر کا اندراج کروانے کے لیے عدالتوں سے روزانہ 1 ہزار سے زائد مقدمات پر احکامات جاری ہوتے ہیں۔

اگر پولیس تفتیش کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا قانون لایا جاتا ہے تو پھر یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ کسی بھی درخواست پر پولیس 24 یا 48 گھنٹوں میں فیصلہ کرے اور اگر درخواست مسترد کی جائے تو وجوہات بھی بتائی جائیں ورنہ یہ پولیس کو مزید طاقتور اور بے لگا م بنانے کے مترادف ہو گا۔ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کو سزاکا ڈر نہیں رہا کیونکہ یہ افراد سمجھتے ہیں کہ وہ قانون کی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر بچ جائینگے‘ ایسے حالات میں فوجداری قوانین کو جدید زاویوں پر پرکھنے اورمعاشرہ کو ایسے جرائم اور مجرموں سے بچانے کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔

جس کے لیے ضلعی سطح پر جیوری سسٹم کے تحت علیحدہ سے ’’ایکشن کمیٹیوں‘‘ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے جسے فوجداری نظام کا قانونی حصہ بنایا جانا چنداں ناگزیر ہے۔ فوجداری نظامِ انصاف میں بامعنی اصلاحات لائے بغیر معصوم لوگوں سے جیلیں بھرتی رہیں گی‘ بیگناہ پھانسیوں پر جھولتے رہیں گے اور بااثر مجرم قانونی پیچیدگیوں اور خامیوں سے فائدہ اٹھا کر عدالتوں سے رہا ہوتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔