ہاکی میں گولڈ میڈل خوش آئند؛ ساف گیمز میں پاکستان کی مجموعی کارکردگی مایوس ُکن رہی

ایم اے سلیمی  اتوار 14 فروری 2016
جب بھارتی سرزمین پر پاکستانی پرچم سب سے اونچا لہرا تھا تو سب کی خوشی قابل دید تھی فوٹو : فائل

جب بھارتی سرزمین پر پاکستانی پرچم سب سے اونچا لہرا تھا تو سب کی خوشی قابل دید تھی فوٹو : فائل

کمنٹریٹر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا، پاکستان ایک بار پھر چیمپئن بن گیا،کھلاڑیوں کی آنکھیں خوشی سے نم تھیں، کچھ گراؤنڈ میں سجدہ ریز تھے اور ٹیم کی بڑی کامیابی پر اللہ تعالی کا شکر بجا لا رہے تھے اور جب بھارتی سرزمین پر پاکستانی پرچم سب سے اونچا لہرا تھا تو سب کی خوشی قابل دید تھی، پاکستان میں بھی جشن کا سا سماں تھا۔

صدر، وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا، سب خوش کیوں نہ ہوتے کیونکہ پاکستان وائٹس ہاکی ٹیم ساؤتھ ایشین گیمز میں شرکت کے لئے جب کراچی سے 30 گھنٹے کا طویل سفر کرنے کے بعد بھارتی شہرگوہاٹی پہنچی تو تھکاوٹ کا شکار2 کھلاڑی بیمار پڑ گئے، تجربہ کار حسیم خان ٹریننگ میں زخمی ہو گئے جس کے بعد افتتاحی میچ میں ایکشن میں دکھائی دینے والے پلیئرز کی مجموعی تعداد کم ہو کر 12 رہ گئی۔

اس صورت حال پر نہ صرف بیماری میں مبتلا پلیئرز کو وقفے وقفے سے کھلایا گیا بلکہ ٹیم کے کوچ سابق کپتان ریحان بٹ کو بھی بطور کھلاڑی میدان میں اتارا گیا، بات صرف یہیں پر ختم نہیں بلکہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان ہاکی ٹیم 15،15 منٹ کے 4 کوارٹرز کی تیاری کرنے کے بعد بھارت پہنچی تھی لیکن ہاکی مقابلے شروع ہونے سے ایک روز قبل ٹیم مینجمنٹ کو بتایا گیا کہ4 کی بجائے 35،35 منٹ کے 2 ہاف ہوں گے۔

مشکلات میں گھری پاکستانی ٹیم نے ان حالات میں بھی امید کا دامن نہ چھوڑا اور ابتدائی مرحلے میں بھارت سمیت سری لنکا اور بنگلہ دیش کو بھی شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کی، فیصلہ کن مقابلہ میں حریف ایک بار پھر بھارتی ٹیم تھی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہاکی کے افق پر دوبارہ چھانے والی بلیو شرٹس مسلسل دوسری بار گرین شرٹس کے خلاف شکست سے دو چار ہو جائیں گے۔ پاکستانی ٹیم کو چیمپئن بنانے میں اہم کرداراویس الرحمن کا رہا جنہوں نے پہلے ہاف کے آخری منٹ میں گول کیا جو بعد میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔

ایونٹ میں قومی ٹیم کی عمدہ کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے حریف سائیڈز کے خلاف مجموعی طور پر12گول کئے جبکہ اس کے خلاف صرف ایک گول ہوا۔ فاتح ٹیم کے کپتان محمد عرفان ٹیم کی کارکردگی سے خوش تو ہیں تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بھارت کو2بار ہرا کر اور جنوبی ایشیائی چیمپئن بن کر ہم نے اپنا کردار ادا کر دیا، اب حکومت پر ہے کہ وہ نہ صرف ہمیں مراعات دے بلکہ بے روزگار کھلاڑیوں کو ملازمتیں اور ترقی کے منتظر کھلاڑیوں کو پروموشن دے۔

ماضی کے پی ایچ ایف عہدیداروں کے زیر عتاب رہنے والے سابق کپتان محمد ثقلین کی قومی ٹیم کے بعد بطور چیف کوچ یہ پہلی انٹرنیشنل اسائنمنٹ تھی جس میں وہ سرخرو رہے۔

ساف گیمز میں ہاکی کی طرح پاکستانی ریسلرز بھی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب رہے،مجموعی طور پر سات پہلوانوں نے ساف گیمز میں شرکت کی اور 2گولڈ، 4 سلور اور ایک برونز میڈلز جیتا، ویٹ لفٹنگ میں نوح دستگیر بٹ طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے، ووشو گیمز کے ذریعے بھی پاکستان کے حصہ میں 2طلائی تمغے آئے، تاہم سکواش، ٹینس، سائیکلنگ سمیت دوسری گیمز میں ملک کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں نے قوم کو بری طرح مایوس کیا۔

ساؤتھ ایشین گیمز میں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان بھارت سے میڈلز کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے اور تو اور سری لنکا بھی ہم سے آگے ہے۔

گیمز کے دوران ایک موڑ ایسا بھی آیا جب بنگلہ دیش کے مجموعی میڈلز کی تعداد بھی ہم سے آگے تھی۔ پاکستان نے اب تک 74 میڈلز جیتے ہیں جن میں 8 سونے، 23 چاندی اور 43 کانسی کے تمغے شامل ہیں جبکہ بھارت نے سونے کے148 تمغوں سمیت مجموعی طور پر 253 میڈلز اپنے نام کیے ہیں، جن میں 82 چاندی اور 23 کانسی کے میڈلزشامل ہیں۔ سری لنکا 158 میڈلز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے،جن میں 25 سونے، 53 چاندی اور80 کانسی کے میڈلز شامل ہیں۔پاکستان کا تیسرا اور بنگلہ دیش کا نمبر چوتھا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ جب کھلاڑیوں کا چناؤ میرٹ کی بجائے پسند ناپسند پر ہو گا، اپنے بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں اورچہیتوں کو ٹیموں کا حصہ بنایا جائے گا تو میڈلز کی بجائے طعنے، رسوائی اور مایوسی ہی ہمارا مقدر بنے گی، بعض کھلاڑی تو ایسے بھی ہیں جو سال بھر رہتے تو دیار غیر میں ہیں لیکن جونہی انٹرنیشنل مقابلے آتے ہیں توان کے دلوں میں وطن کی ’’محبت‘‘ جوش مارنے لگتی ہے اوروہ ارباب اختیار کی ملی بھگت یا کسی بڑی سطح پر ہونے والے ایونٹ کو جواز بنا کرسکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جب مقابلے شروع ہوتے ہیں تو ابتدائی سٹیج پر ہی ایونٹس سے باہر ہو کر پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی 3 درجن سے زائد کھیلوں کی فیڈریشنوں کے بیشتر عہدیداروں کا مقصد کھیلوں کے فروغ کی بجائے دنیا بھر کے سیر سپاٹے جبکہ کھلاڑیوں کا ’’ماٹو‘‘ میڈلز کے حصول کی بجائے صرف ایونٹس میں شرکت کرنا ہی رہ گیا ہے۔

سوشل ویب سائٹس پر دیکھیں تو ساف گیمز کے دوران مختلف کھیلوں کے عہدیدار اور کھلاڑیوں کی ایسی ایسی تصاویر ملیں گی جن کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہو گا کہ قومی دستہ ساف گیمز کی بجائے کسی فیشن شو میں شرکت کے لیے کوریا گیا ہے۔ چلومان لیا کہ اولمپکس اورکامن ویلتھ گیمز میں تو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے کھلاڑی شریک ہوتے ہیں لیکن ہماری صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ عالمی تو درکنار جنوبی ایشیائی سطح پر بھی ہمارے کھلاڑی بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں دھڑا بندی کے خاتمے کے بعد احسن انداز میں نئے انتخابات بھی ہو چکے ہیں، منتخب عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ ٹھوس بنیادوں پر کھیلوں کی بہتری کے لئے اقدامات کریں، کیونکہ پاکستانی نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، اس ملک کے کونے کونے میں جان شیر خان، جہانگیر خان، بریگیڈیئر عاطف، شہناز احمد سینئر، شہناز شیخ اور اختر رسول جیسے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جو عالمی افق پر کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے پر عزم بھی ہیں لیکن ان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دینے کے لیے انقلابی اقدامات اور تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔