ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے

مقتدا منصور  پير 15 فروری 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے IB (انٹیلی جنس بیورو) کے سربراہ آفتاب سلطان کی سینیٹ کمیٹی میں دی گئی بریفنگ میں داعش کی ملک میں موجودگی کے بارے میں بعض سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے ملک میں داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ بعض کالعدم تنظیموں کے اس عالمی اسلامی عسکری گروہ کے ساتھ روابط ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں مذہبی شدت پسندی کا بیج جنرل ضیا کے دور میں بویا گیا، جو اب تناور درخت بن چکا ہے۔ اس لیے اس عفریت کو ختم کرنے میں 10 سے 15 برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

اسی روز آرمی چیف کا بیان بھی اخبارات میں شایع ہوا ہے، جو انھوں نے کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کے دوران دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں، جب کہ دشمن کی ایجنسیاں ان کی فنڈنگ کر رہی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، جس میں کامیابی کے لیے متحد اور ثابت قدم رہنا ہو گا۔ لیکن اگلے ہی روز وزارت خارجہ کے ترجمان نے ملک میں داعش کی موجودگی کے تصور کو قطعی طور پر رد کر دیا۔ جس سے ریاست کے اہم اور کلیدی اداروں کے درمیان پائے جانے والے فکری تضادات اور ورکنگ ریلیشن شپ کے فقدان کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب کہ وفاقی وزیر داخلہ بھی ایک سے زائد مرتبہ ملک میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ اپنے محکمہ کے ایک اہم شعبہ کے سربراہ کے دعوے کی تصدیق و توثیق کرتے ہیں یا حسب معمول اس بیان کی صحت سے انکار کا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آرمی چیف کے مذکورہ بیان کے بارے میں وہ کس رائے کا اظہار کرتے ہیں؟

دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکا کے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں تقریر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر عملدرآمد کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کے بجائے لبرل سیاسی جماعتوں کا ناطقہ بند کرنے میں مصروف ہے۔ انھوں نے نام لے کر کہا کہ پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی کو سیاست سے روکا جا رہا ہے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں، جو مذہبی شدت پسندی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر جس انداز میں ان جماعتوں کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کے مذہبی شدت پسندی کے خلاف اقدامات محض نمائشی ہیں، بلکہ اصل ہدف لبرل اور سیکولر سیاست کا ملک سے خاتمہ ہے۔

لہٰذا بلاول بھٹو کی امریکی تھنک ٹینک میں کی گئی تقریر کا جائزہ لیں تو بہت سے حقائق کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں جو غلط فیصلے  سرد جنگ کے دور میں کیے گئے، ریاستی منتظمہ کا ایک بڑا حصہ آج بھی ان کے تسلسل پر اصرار کر رہا ہے، جس کی وجہ سے معاملات و مسائل الجھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے بلاول کی تقریر کے یہ نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ مسلسل ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں، جو حکومت کی غفلت مجرمانہ یا دوسرے الفاظ میں حکومت کے شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشے کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس کی ایک مثال گزشتہ دنوں کراچی میں زیر حراست ایک کالعدم تنظیم کے کارکن کا JIT کے سامنے اعترافی بیان ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کی تنظیم کے کارکن کراچی کی جامعات میں سرگرم ہیں، وہ طلبا و طالبات میں شدت پسندی پر مبنی لٹریچر تقسیم کر کے انھیں اپنی تنظیم میں شامل ہونے پر اکساتے ہیں۔ اس بیان کا ثبوت یہ ہے کہ ایک نجی جامعہ کا ایک استاد اسی نوعیت کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مگر ان انکشافات کے باوجود حکومت ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی نظر آ رہی ہے۔

ہم گزشتہ دو برس سے بار بار یہ لکھتے چلے آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے بارے میں وفاقی حکومت کا نقطہ نظر (Perception) غیر واضح اور مبہم ہے۔ اول، آج بھی ایک حلقہ ان عناصر کی موجودگی کو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات کی درستی کے لیے ضروری تصور کرتا ہے۔ اس لیے ان عناصر کی سرگرمیوں کو صرف ایک حد تک محدود کرنے کا خواہشمند ہے۔

دوئم، وہ حلقے جو ان عناصر کی سرکوبی کو ملک میں امن و امان کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، مگر وہ ممکنہ خانہ جنگی سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان حلقوں کے خیال میں یہ عناصر معاشرے کی رگ وپے میں گھس چکے ہیں۔ کسی آپریشن کی صورت میں امن و امان کے سنگین مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

سوئم، ایک تیسرا حلقہ ان عناصر کی سرگرمیوں سے خائف ضرور ہے، مگر بعض خلیجی ممالک کی ان عناصر کو حاصل سرپرستی کی وجہ سے ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریز کرنے کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ وہ ان خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے پر آمادہ نہیں ہے۔ یوں ان عناصر کے خلاف سخت گیر کارروائی نہیں ہو پا رہی۔

لیکن معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری مسلم دنیا کا ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو مسلم معاشرے 1258ء میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے اور اس کی تباہی کے بعد شدید مایوسی اور فکری اضمحلال کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں اس کیفیت سے 1299ء میں قائم ہونے والی سلطنت عثمانیہ نے کسی حد تک نکالنے کی کوشش کی تھی۔ مگر یورپ میں پیش قدمی جیسی کئی اہم کامیابیاں حاصل کرنے والی یہ سلطنت بھی وقت گزرنے کے ساتھ روبہ زوال ہوتی چلی گئی۔ یوں پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ سلطنت شکست و ریخت کا شکار ہو کر ختم ہوئی، تو مسلمانوں میں ایک نئی فرسٹریشن نے جنم لیا۔

18 ویں صدی میں بعض اصلاحی تحاریک شروع ہوئیں۔ مگر ان کا محور و مرکز مسلمانوں کی فکری اور نظریاتی اصلاح تھی۔ ان تحاریک نے مسلم معاشروں کو بعض سماجی برائیوں اور خرابیوں سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش ضرور کی۔ لیکن یہ تحاریک مسلمانوں کو جدید عصری تقاضوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے میں ناکام رہیں۔ بلکہ مسلمانوں کو عقیدے کی بنیاد پر مزید تقسیم کرنے کا باعث بن گئیں۔ نتیجتاً مسلمان یورپ سے ابھرنے والی استعماریت کا علمی اور فکری بنیادوں پر مقابلہ کرنے کے بجائے عسکری تصادم کی راہ پر لگ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات گہرے ہونے کی وجہ سے ان کی توانائیاں باہمی اختلافات اور آپس کی لڑائیوں میں ضایع ہونے لگیں۔

اس صورتحال کو مہمیز 1979ء میں دو اہم واقعات کے رونما ہونے سے لگی۔ اول، اس برس مسلم دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم ملک (ایران) میں مذہبی اشرافیہ کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا، جس نے دیگر عقائد اور مسالک کے مسلمانوں کی مذہبی اشرافیہ کو یہ شہ دی کہ وہ بھی سیاسی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آ سکتی ہے۔ یہی وہ رجحان ہے، جسے سیاسی اصطلاح میں سیاسی اسلام یا (Political Islam) کہا جاتا ہے۔ دوئم، اسی سال کے آخر میں جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، تو امریکا کو یہ موقع مل گیا کہ وہ سوویت یونین کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے اسلام کے تصور جہاد کا بہیمانہ استعمال کرے۔ یوں ایک طرف ایران کے مذہبی انقلاب نے شیعہ عسکریت کو جب کہ افغانستان کی جنگ نے سنی عسکریت پسندی کو فروغ دیا۔

پاکستان میں تھیوکریٹک نظریات کے فروغ کے لیے میدان 1949ء میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد نے ہموار کر دیا تھا۔ جسے مہمیز دوسری آئینی ترمیم اور پھر جنرل ضیا الحق کے اقدامات نے لگائی۔ جنرل ضیا کے دور میں جس انداز میں مذہبی عسکریت کو فروغ دیا گیا اس کا اظہار خود آفتاب سلطان نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ وہ عسکری جتھے، جنھیں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجتمع کیا گیا تھا، جنیوا معاہدے کے بعد (بقول جنرل پرویز مشرف) انھیں کشمیر میں برسرپیکار کر دیا گیا۔ لیکن جب عالمی سطح پر اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تو اس وقت سے یہ جتھے تقریباً بے روزگار ہیں۔ جن کی مالی اعانت کچھ خلیجی ممالک کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کا داعش جیسی تنظیموں کی طرف راغب ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن اصل معاملہ حکومت کی فیصلہ سازی کا ہے، جو شدت پسند عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے لبرل سیکولر جماعتوں کا ناطقہ بند کر کے دراصل ان تنظیموں کا راستہ ہموار کرنے کی دانستہ کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔