لوٹ کر مقتل کو دیکھوں

قادر خان  بدھ 17 فروری 2016
qakhs1@gmail.com

[email protected]

پانی انسان کی ایک ضرورت ہے جس کا نعم البدل صرف موت ہے، زندگی کی بقا کے لیے پانی ناگزیر ہے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے یہی انسان کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہروں میں واٹر مافیا کی صورت میں ہو یا دیہاتوں میں جاگیرداروں، وڈیروں و خوانین، سرداروں کی صورت میں، حضرت انسان کسی بھی لحاظ سے پانی کو قیمتی اثاثہ سمجھتا ہے اور جو اس قدرتی نعمت کی قدر نہیں کرتے انھیں ایک نہ ایک دن پانی جیسی نعمت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اگلی جنگ پانی کے حصول بزور طاقت قرار دی جا رہی ہے تو شہروں میں اسے لسانی خانہ جنگی کی ہونے والی ایک شکل بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوئی تو شہروں میں پانی کے مسئلے پر خانہ جنگیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ حکومتوں کا اس پر کیا ردعمل اور کیا عوامل ہوں گے، اس کے لیے جتنی تفصیل میں جائیں تو سوائے بڑے بڑے دعوئوں کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ کسی بھی حکومت کے وزیر، مشیر کے پاس بیٹھ جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے دفتر سے اٹھیں گے تو گھر پہنچتے ہی پانی کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔

تھر کی زمین اور تھری باشندوں کے لیے آر او پلانٹ بھی کام نہیں آیا اور وہاں پسماندہ ترین علاقوں میں بھی واٹر ٹینکرز مافیا کا راج چل نکلا۔ تھر کی زمین ہمیشہ ابر کرم کے انتظار میں رہتی ہے، لیکن آسمانی پانی نہ برسنے پر وہ اپنے گھربار مویشیوں کے ساتھ قحط سالی میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ R O پلانٹ یعنی ریورس آسموس (آر او) کا خواب 9 مارچ 2014ء کو سینیٹر و وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر تاج حیدر تھر کے لیے لائے، بقول ان کے انھوں نے ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا کہ اب وہاں آر او پلانٹس سے تھر کی زمین سیراب ہو گئی ہے۔

16 لاکھ افراد نل سے پانی پیتے ہیں، 80 لاکھ سے زائد جانور اس حوض سے پانی پیتے ہیں جو تعمیراتی کام میں ٹھیکیدار بناتے تھے، انھوں نے اس آر او فلٹر پلانٹ کا پانی جو بھرنے سے بھی ضایع نہ ہو، اس کے لیے پائپ لگا دیے ہیں۔ مجھے انھوں نے ایک تصویر دکھائی کہ جس میں انسان نلوں سے اور جانور ٹینک سے پانی پی رہے تھے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے تھرپارکر کی تحصیل مٹھی میں ایشیا کے سب سے بڑے پانی صاف کرنے کے پلانٹ کا افتتاح کیا، جس میں ان کے دعوے کے مطابق روزانہ 20 لاکھ گیلن نمکین پانی کو میٹھا بنانے کی صلاحیت ہے، جس سے مٹھی، اسلام کوٹ، نوکوٹ سمیت تھرپارکر کے 100 سے زائد دیہات کو میٹھے پانی کی سہولت میسر آئے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورے صوبے کے ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر منتقل کر دیں گے اور پی پی پی کے دور میں ہی تھر میں میٹھے پانی کی سہولت فراہم کریں گے۔ اس کی تعمیراتی لاگت 94 کروڑ 20 لاکھ روپے تھی جو مکمل طور پر سولر سسٹم سے چلے گا۔ آج تاج حیدر صاحب نے کر دکھایا کہ ایک کلو ووٹ بھی برآمد کیے بغیر وہیں کے وسائل سے سیلولر ٹیکنالوجی استعمال کر کے ریورس آسموس واٹر فلٹر پلانٹ چلا دیا، جس پر وہ اور ان کی حکومت و جماعت فخر محسوس کرتی ہے۔ لیکن جب ارباب اختیار کہیں دورے پر جاتے ہیں تو انھیں نقشے کا دوسرا رخ دکھایا جاتا ہے اور ان کے دورہ ختم ہوتے ہی عوام کو پرانی حالت میں واپس آنا پڑتا ہے۔

انتظامیہ نے دعویٰ تو کیا تھا کہ یومیہ بیس لاکھ گیلن میٹھا پانی تیار کر کے مٹھی کے شہریوں کو فراہم کیا جائے گا، لیکن ذرایع یہ بتاتے ہیں کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس پلانٹ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے، بلکہ آر او پلانٹ کا پانی ٹینکر واٹر مافیا کو فروخت کیے جانے لگا، جس کی قیمت چار سے چھ ہزار روپے ہے۔

ٹینکر ڈرائیور کا الزام ہے کہ انتظامیہ فی ٹینکر تین سو سے پانچ سو روپے وصول کرتی ہے۔ پلانٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانی فلٹر کر کے تالاب میں جمع کر دیا جاتا ہے جس کے بعد شہریوں کو پانی کی ترسیل مقامی تحصیل انتظامیہ کی ہے، جب کہ مقامی انتظامیہ کے مطابق واٹر لائنیں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے باقاعدہ طور پر پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ آج بھی ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ لگنے کے باوجود تھر کے باسیوں کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اس ناانصافی کی تحقیق ہونی چاہیے۔

آر او پلانٹ کس کے کنٹرول میں ہے، اس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں۔ ویسے تو سندھ میں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی ذمے داری قرار دی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں اسے عضو معطل بنا دیا گیا، کیونکہ یہ وزیراعلیٰ کا خصوصی پروگرام ہے جس کا محکمہ بلدیات یا کسی اور محکمہ کے علم میں نہیں۔

آر او پلانٹس نصب کرنا اور ان کی دیکھ بھال کس محکمے کی ذمے داری ہے، بلکہ ان کی لاگت کا بھی نہیں پتہ، پلانٹ لگانے والی کمپنی اپنے بے شمار پلانٹ پر کام کر رہی ہے جس کی تعداد اشتہار میں نہیں بتائی گئی تھی۔ ذرایع کے مطابق پلانٹ چلانے کے لیے چھوٹے چھوٹے گائوں میں بھی ایک ایک آدمی سات ہزار روپے مہینہ پر رکھا ہے۔ پی پی پی کے رہنما تاج حیدر کو ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ کراچی، حیدرآباد کے صحافیوں کو تھرپارکر لے جائیں اور آر او پلانٹس دکھائیں۔

ماہرین کی رائے کے مطابق کہیں کوئی ایسا سروے موجود نہیں ہے کہ زیر زمین کتنا پانی ہے، کس علاقے میں اس کی سطح کیا ہے۔ ڈاکٹر سونو کھنگرانی این جی او ایک جانا پہچانا نام ہے، ان کا تعلق بھی تھرپارکر سے ہی ہے، وہ مصر ہیں کہ سروے کیا گیا ہے تو بتائیں کہاں ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیر زمین موجود پانی کھینچ لینے سے درخت ہی پیدا ہونے بند ہو جائیں، اب بھی کھلے تالابوں میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے اور دیسی طریقہ کار کے تحت فلٹر کیا جاتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ ان پلانٹوں سے زندگی میں تبدیلی آئے گی لیکن شمسی توانائی یا پلانٹ کام کرنا چھوڑ دے تو کمپنی کے لوگ فوری طور پر آ سکیں، ایسا کوئی طریق کار موجود نہیں ہے۔ حکومت نے تو سرکاری طور پر یہ ذمے داری بھی کسی کے سپرد نہیں کی ہے۔

تھر کے رہنے والے بتاتے ہیں کہ تھرپارکر کے چیدہ چیدہ علاقوں میں (تاج حیدر کے مطابق 700) پلانٹ نصب کر دیے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھا گیا گائوں کی پوری آبادی مستفید ہو سکے گی کہ نہیں۔ کئی علاقوں میں پانی کی فروخت کاروبار بھی بن گئی ہے، واٹر ٹینکر ہوں یا گدھا گاڑی والے بھاری قیمت لے کر پانی پہنچاتے ہیں۔ تھرپارکر 23 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے، جہاں دیہاتوں کی تعداد بھی لگ بھگ 23 سو کے قریب ہے۔ اب اس منصوبے میں کتنی صدق دلی سے کام ہو رہا ہے؟ ایسے نقشوں اور فوٹوگرافروں کی من پسند تصاویر دیکھ کر متاثر تو ہوا جا سکتا ہے لیکن زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔

کراچی میں واٹر بورڈ کے ذرایع کے مطابق آر او پلانٹ کام نہیں کر رہے، سب غیر فعال ہیں۔ سائیں سرکار کے سندھ میں اربوں روپے سے لگنے والے آر او پلانٹس کھارے پانی میں بہہ چکے ہیں۔ تھر، کراچی، ٹھٹہ، بدین، جامشورو اور دادو میں 24 ارب روپے کی لاگت سے لگائے گئے آر او پلانٹس ناکارہ ہو چکے ہیں۔ تھر میں 80 فیصد پلانٹس لگائے گئے تھے جو کسی کام نہیں آ سکے، پھر مرمت تین سال تک پلانٹ لگانے والی کمپنی کی ذمے داری تھی، یہی نہیں مٹھی میں 86 کروڑ روپے کی لاگت سے لگایا گیا آر او پلانٹ بھی شہریوں کو فیض نہیں دے سکا۔ آر او پلانٹس کے نام پر کراچی والوں کو بھی چونا لگا دیا گیا۔

لیاری میں لگایا گیا آر او پلانٹ صرف ایک ٹنکی پر مشتمل ہے، جس میں پانی بھی ٹینکروں کے ذریعے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ لیاری اور کیماڑی ٹائون میں انھی پلانٹس کے لیے قومی خزانے سے پانچ ارب روپے لیے گئے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ گلہ کرتے ہیں کہ صحافی ہماری کاوشوں کو کیوں نہیں بتاتے، جب صحافی سب سچ بتائے گا تو اسے میڈیا ٹرائل کہہ دیا جاتا ہے۔

یا پھر ایک محترم سیانے سچ کہتے ہیں کہ گنجے کو ناخن مل جائیں تو اپنا سر پہلے کھجاتا ہے۔ محترم سیانے بھائی! کیا سچ لکھنا جرم ہے؟ پھر کوئی خوش ہو گا۔ آپ کے منصوبے وقتی ضرورت کے تحت اور وقتی فائدے کے لیے ہوتے ہیں، طویل المدتی اور مربوط پلاننگ کے ساتھ منصوبے نہیں بنائے جاتے۔ اربوں روپے چند دن کے لیے تو فائدہ مند ہوتا ہے لیکن پھر سب کچھ کرپشن اور نااہل افراد کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان دے جاتا ہے۔ میں کاغذی نقشوں کو دیکھوں کہ لوٹ کر مقتل کو دیکھوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔