تم ہو پہچان پاکستان کی! ؛ نرگس ماول والا، عمران خان اورسَمیراقبال

سید بابر علی  جمعرات 18 فروری 2016
دنیا میں ہمارے ملک کا روشن حوالہ بن جانے والے نوجوان سائنس داں ۔  فوٹو : فائل

دنیا میں ہمارے ملک کا روشن حوالہ بن جانے والے نوجوان سائنس داں ۔ فوٹو : فائل

دنیا بھر خصوصاً مغربی ممالک میں پاکستان کا نام دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی واقتصادی بحرانوں کا شکار ریاست کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ہماری پہچان بدعنوان سیاست دانوں کے تاریک چہرے بنتے رہے ہیں یا دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے سیاہ عکس ہماری شناخت قرار پائے ہیں، لیکن کچھ ایسے تابندہ چہرے ہیں جن کی تابندگی پاکستان کا روشن حوالہ اور ہمارے دمکتے مستقبل کی نوید ہیں۔

یہ اس سرزمین کے وہ بیٹے بیٹیاں ہیں جو کسی نہ کسی میدان میں کوئی کارنامہ انجام دے کر اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیے سرمایۂ ناز بن جاتے ہیں۔ ان مایہ ناز پاکستانیوں میں ایسے لاتعداد نام ہیں جنہوں ایسے حالات میں پاکستان کا نام روشن کیا جب دنیا بھر میں اسے ناکام ریاست اور دہشت گردوں کی جنت تصور کیا جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں کبھی ارفع کریم نے کمپیوٹر کے میدان میں پاکستان کو ایک نئی شناخت دی تو کہیں ملالہ یوسف زئی نے علم کی شمع جلا کر اور جُرأت کا علم اٹھا کر پاکستان کو ایک نئی شناخت دی، ایک نئی پہچان دی۔

آج ایسے افراد کی فہرست میں تین اور نام جگمگا اٹھے ہیں، نرگسماول والا، عمران خان اور سمیراقبال۔ ان تینوں نوجوانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دے کر ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ پاکستانی نوجوان کون ہیں اور انھوں نے کیا کیا ہے:

 ٭نرگس ماول والا اور عمران خان
مشہور سائنس داں آئن اسٹائن کی خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کے نظریے کی تصدیق کی خبروں نے دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ میں سنسنی پھیلادی۔ پاکستان میں اس خبر کو اُس طرح ہی برتا گیا جو کہ عموماً سائنس کی خبروں کے حوالے سے کیا جاتاہے۔ لیکن اہم سائنسی دریافت کا اعلان کرنے والی ٹیم میں دو پاکستانی نژاد سائنس دان کی موجودگی نے دنیا بھر میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا۔ پاکستان کی قابل فخر بیٹی اور بیٹے نرگس ماول والا اور عمران خان نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ اُجاگر کیا۔

رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور امریکی حکومت کے 620ملین ڈالر بجٹ کے پروجیکٹ ایڈوانسڈ لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں اہم تاریخی پیش رفت کا اعلان کیا۔

خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کا اعلان کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کے مطابق،’’ہم نے بلیک ہولز سے آنے والی اُن ثقلی امواج کو شناخت کرلیا ہے، جن کی موجودگی کا دعویٰ ایک صدی قبل 1915میں آئن اسٹائن نے کیا تھا۔‘‘ لیگو کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں ثقلی امواج کی موجودگی کی تصدیق گذشتہ سال ستمبر میں ہی ہوگئی تھی، لیکن انہوں نے چھے ماہ تک اس بات کی تصدیق کی اور مکمل مطمئن ہونے کے بعد اس دریافت کا اعلان کیا۔

ان سائنس دانوں کے مطابق کشش ثقل کی یہ لہریں 1اعشاریہ 3 ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود اور جسامت میں سورج سے تیس گنا بڑے دو بلیک ہولز کے درمیان تصادم کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی گذشتہ سال ستمبر میں زمین کے پاس سے گزریں۔ اس دریافت کا اعلان واشنگٹن میں Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory (لیگو) نے کیا۔

یہ وہ خیال ہے جو ایک صدی قبل یعنی 1915 میں معروف سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن نے پیش کیا تھا، جس کی تصدیق 100 سال بعد اب ہوئی ہے۔ اپنے نظریۂ عمومی اضافیت میں البرٹ آئن اسٹائن نے پیش گوئی کی تھی کہ کائنات میں ہونے والے بڑے واقعات، جیسے ستاروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور انتہائی دور تک توانائی کو منتقل کرتی ہیں۔

ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا خیال درست ثابت ہوگیا۔ فلکیات کے میدان میں اس صدی کی سب سے اہم دریافت کا نظریہ البرٹ آئن اسٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت میں پیش کیا تھا۔ اس نظریے میں انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ خلا میں رونما ہونے والے طاقت ور تصادم، جیسے بڑے ستاروں یا بلیک ہولز کا ٹکراؤ، کائنات بڑے پیمانے پر انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ آئن اسٹائن کا خیال تھا کہ اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیرمعمولی توانائی لہروں کی شکل میں منتشر ہوکر روشنی کی رفتار سے خلا میں انتشار کا سبب بنے گی، جسے ہم اسپیس ٹائم کہتے ہیں۔ تاہم کم زور ہونے کی وجہ سے اُس وقت اور آج بھی ان ثقلی امواج کو شناخت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اہم سائنسی دریافت کرنے والی ٹیم میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان ماہر طبیعات نرگس ماول والا اور عمران خان بھی شامل ہیں۔

نرگس ماول والا نے کراچی کے ایک پارسی گھرانے میں جنم لیا۔ ثقلی امواج کی محقق اور میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے شعبہ طبیعات کی سربراہ نرگس ماول والا نے ابتدائی تعلیم کراچی کے کانونٹ آف جیسز اینڈ میری اسکول سے حاصل کی۔ 1986میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا کا رُخ کیا اور 1990میں ویلیسلی کالج سے فلکیات اور طبیعات میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1997میں فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا۔

زمانہ طالب علمی ہی میں انہوں نے کشش ثقل کی لہروں کو شناخت کرنے کے لیے پروٹو ٹائپ لیزر انٹر فیرو میٹر بنالیا تھا۔ 2002میں ایم آئی ٹی کا حصہ بننے سے قبل ڈاکٹر نرگس ماول والا نے کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل ایسوسی ایٹ اور تحقیقی سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کے لیے کام کا آغاز کردیا تھا۔ ثقلی امواج پر نمایاں کام کرنے پر انہیں 2010 میں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ایکسپریس ٹریبیون کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ بچپن میں میری رہائش کراچی کے میک نیل روڈ پر تھی اور دس سال کی عمر میں اپنی رہائش گاہ سے متصل دکان پر ایک سائیکل کے مستری نے نہ صرف میری سائیکل ٹھیک کی بل کہ مجھے مرمت کا طریقۂ کار بھی سمجھایا۔ اس کے بعد سے جب بھی میری سائیکل خراب ہوتی تھی تو میں اسی مستری سے اوزار مانگ کر اپنی سائیکل خود ہی ٹھیک کرلیا کرتی تھی۔

ایسا کرنے پر مجھے اپنی والدہ سے بہت ڈانٹ سننی پڑتی تھی، کیوں کہ سائیکل مرمت کرنے کی وجہ سے میرے ہاتھ اور کپڑوں پر تیل اور گریس کے نشانات لگ جاتے تھے، لیکن میں آج بھی اُس مستری کی شکر گزار ہوں کیوں کہ اُن کی بتائی ہوئی تیکنیک نے میسا چوسٹس میں تعلیم کے دوران میری بہت مدد کی۔

ثقلی امواج کی شناخت، جسے اس صدی کی سب دے اہم دریافت بھی قرار دیا جا رہا ہے، کرنے والوں میں نرگس ماول والا کے ساتھ ایک اور پاکستانی نوجوان عمران خان بھی شامل ہیں، جو اس ٹیم کے سب سے کم عمر رکن بھی ہیں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ عمران خان نے بھی لیگو کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کشش ثقل کی لہروں کی شناخت میں اہم کردار ادا کیا۔

تعلیمی میدان میں شان دار کیریر کے حامل عمران خان نے 2011 میں پشاور کی فاسٹ یونیورسٹی میں اسکالر شپ حاصل کی اور وہاں سے ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ 2015 میں انہیں ٹُرکش انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے آپٹیو الیکٹرانکس اینڈ فوٹونکس انجینیئرنگ میں ایم ایس کرنے کے لیے اسکالرشپ کی پیش کش کی گئی۔

عمران خان آج کل اٹلی کے گران ساسو سائنس انسٹی ٹیوٹ (جی ایس ایس آئی) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ کم عمری میں کام یابی سے ہم کنار ہونے والے عمران خان کا کہنا ہے کہ میری کیوری ٹریننگ نیٹ ورک پروگرام ، گریویٹون’ (GraWIToN) کے لیے سخت مقابلے کے بعد مجھے منتخب کیا گیا اور لیگو کی جانب سے ثقلی امواج کی شناخت کرنے والی ٹیم کا حصہ بننا میرے لیے ایک زبردست تجربہ تھا۔ کوئٹہ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے عمران خان سائنس کے میدان میں مزید کام یابی حاصل کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ وہ اپنی کام یابی کو اپنی والدہ کی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

سمیراقبال
امریکا کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کے پاکستانی نژاد الیکٹریکل انجنیئرسمیر اقبال نے نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سرطان کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنے کا طریقہ کار ایجاد کرلیا ہے۔

ڈاکٹر سمیر اقبال کی یہ تحقیقی رپورٹ سائنسی جریدے نیچرز میں ’’ایفیکٹس آف نینو ٹیکسچر آن الیکٹریکل پروفئلنگ آف سنگل ٹیومر سیل اینڈ ڈی ٹیکشن آف کینسر فرام بلڈ ان مائیکرو فلوئیڈک چینلز‘‘ کے نام سے شایع ہوئی ہے۔ تحقیقی مقالے کے مطابق ان کا تیارکردہ نظام کینسر کا سبب بننے والے خلیات کو اس ابتدائی مرحلے ہی میں جانچ لیتا ہے۔ ڈاکٹر سمیر کے اس نئے طریقۂ کار سے سرطان جیسے موذی مرض کی شناخت بیماری کے پھیلنے سے پہلے ہی ممکن ہوجائے گی۔ اس بابت ڈاکٹر سمیر کا کہنا ہے کہ ہم نے اس طریقۂ کار میں نیوٹیکنالوجی سے بنی ساختوں کو استعمال کیا ہے۔

ڈاکٹر سمیر کو اس قابل قدر ایجاد میں اپنے ساتھیوں محمد معتصم باﷲ، عدیل سجاد اور محمد ریاض الحسن کی مدد بھی حاصل رہی۔ ڈاکٹر سمیر نے اپنی ٹیم کی معاونت سے نینو ٹیکسچرڈ والز آلہ تیار کیا جو رئیل ٹائم انسانی خلیوں کے رویے کی جانچ کرتا ہے۔ سمیر اقبال اور ان کی ٹیم نے انسانی جسم میں عضلات کی مختلف پرتوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس سے مماثل پرتیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسی نینوٹیکسچرڈ وال بنانا تھا، جو خون کو یہ دھوکا دینے میں کام یاب ہوجائے کہ یہی اصل بافتیں ہیں۔

سمیر اقبال کا کہنا ہے کہ سرطان کی پیشگی تشخیص کا آلہ بنانے کے لیے خلیے کی دیوار کی وراثتی خصوصیات کو استعمال کیا گیا۔ ان سرطان زدہ خلیات نے نینو ٹکسچرڈ وال کے ساتھ ٹچ ہوتے ہی رقص کرنا شروع کردیا۔ ان ’ڈانسنگ سیلز‘ کی مدد سے ڈاکٹروں کو کینسر سے متاثرہ خلیات کی تشخیص میں مدد ملے گی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ان ’ڈانسنگ سیلز‘ کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی شناخت کرلینا سرطان کے علاج میں بہت بڑی پیش رفت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان خلیات کا علاج کرکے ابتدا ہی میں کینسر کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیقی کام کے لیے عطیات امریکا کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے مہیا کیے گئے تھے۔

سمیراقبال نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا کا رُخ کیا۔ 2007میں انہوں نے امریکا کی Purdueیونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 2009 میں انہیں این ایس ایف کیریر ایوارڈ اور 2013 میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ’غیرمعمولی انجینئر‘ کا بھی اعزاز دیا گیا۔ الیکڑیکل ٹیکنالوجی میں غیرمعمولی تحقیق کرنے پر 2014 میں انہیں سگما سائی کی جانب سے بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

لیگو نے کشش ثقل کی لہروں کو کس طرح شناخت کیا ؟
لیگو کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ان لہروں کی شناخت کے لیے ایک خصوصی مشین استعمال کی، جو کہ لائٹ اسٹوریج آرم، بیم اسپلیٹر، شیشے اور فوٹو ڈی ٹیکٹر پر مشتمل تھی۔ ہم نے مشین میں ایک لیزر شعاع داخل کی، جس نے اس کی روشنی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ان منقسم حصوں نے لیزر شعاع کو چار کلومیٹر لمبی دو ٹیوبز میں منتقل کردیا، جس سے روشنی منعکس ہوکر ہر سرنگ میں چار سو مرتبہ آگے پیچھے ہوکر ڈی ٹیکٹر تک پہنچتی۔ اس طرح ہر شعاع سولہ سو کلومیٹر کا آنے جانے کا سفر طے کرکے اپنی ماخذ کے قریب اکھٹی ہوئی۔

عام حالات میں روشنی کی یہ لہریں ایک جگہ پر مرتکز ہو کر ایک دوسرے کو مکمل طور پر کاٹ دیتی ہیں اور قریبی ڈی ٹیکٹر میں کسی حرکت کا سگنل نہیں ملتا، مگر کشش ثقل کی لہر پاس سے گزرنے پر ایسا نہیں ہوتا، کیوںکہ اس صورت میں دو شعاعیں ایک ہی زاویے پر اکٹھی نہیں ہوپاتیں، اور ڈی ٹیکٹر سگنل کو پکڑ لیتا ہے۔ امریکی ریاست واشنگٹن اور لوزیانا میں نصب کیے گئے ان ڈی ٹیکٹرز پر ملنے والے سگنلز سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ ثقلی امواج زمین سے آئی ہیں یا خلا سے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔