غلام اسحاق خان کا جنون

نصرت جاوید  منگل 6 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آج کل چونکہ سونامی کے زور پر انقلاب لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں، میرے جیسے پرانی وضع کے لکھنے والے اگر’’لفافے‘‘ والے نہ سہی شکست خوردہ اور بوسیدہ نظام کے حامی ضرور سمجھے جارہے ہیں ۔

انٹرنیٹ پر چند لفظ لکھ کر دنیا بدلی جاسکتی تو میں ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے لیپ ٹاپ سے دور رہنا گناہ سمجھتا ۔مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں پوری طرح جانتا ہوں کہ ہماری اشرافیہ بڑی ڈھیٹ ہے ۔سو طرح کے روپ بدل کر اس معاشرے پر اپنا تسلط بر قرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے،ہار مان کر ہی نہیں دیتی۔ان کے خلاف باسی کڑی میں ابال آتے ہیں اور عملی زندگی میں کوئی بھی فرق لائے بغیر اپنی موت مرجاتے ہیں ۔

مثال کے طورپر چند دن پہلے تک سپریم کورٹ کے اس ’’تاریخی فیصلے‘‘ کا بہت ذکر ہورہا تھا جس نے واضح کردیا کہ جنرل اسلم بیگ کی ذہانت،اسددرانی کی معاملہ فہمی اور یونس حبیب کے سرمائے کی بدولت 1990 کے انتخابات اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے چرالیے تھے ۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی آگے بڑھتا اور ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ وسیع تر قومی مفاد کے نام پر کیوں اور کیسے عسکری اور سول بیورو کریسی کا ایک گروہ یہ طے کرلیتا ہے کہ فلاں شخص اور سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے لیے خطرناک ہے ۔ وہ پاکستان کے سادہ لوح عوام کو دھوکا دے کر انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوسکتے ہیں ۔ان کا راستہ روکا جائے ۔چاہے اس کے لیے ایک جانے پہچانے چکر باز بینکار کا پیسہ ہی کیوں نہ خرچ کرانا پڑے ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔اسلم بیگ صاحب بلکہ ایک کے بعد دوسری ٹی وی اسکرین پر آتے رہے ۔

سینہ پھلاکر اپنا دفاع کرتے رہے ۔ان کی مسلسل رونمائی نے جنرل حمید گل صاحب کو مجبور کردیا کہ وہ بھی مختلف ٹاک شوز میں اکیلے بیٹھ کر دنیا کو یاد دلائیں کہ 1990تو بہت بعد کی بات تھی،اس سے بھی دو سال پہلے ان کے زرخیز اور محب وطن ذہن نے طے کرلیا تھا کہ جنرل ضیاء کی طیارے کے حادثے کے ذریعے ہلاکت کے بعد بھٹو کی بیٹی کو ’’فری ہینڈ‘‘ نہ دیا جائے ۔دائیں بازو کے سارے ’’نظریاتی ووٹ‘‘ آئی جے آئی کی چھتری تلے اکٹھے کردیے جائیں ۔بجائے سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے بعد اسلم بیگ اور اسد درانی جیسے لوگوں کا احتساب کرنے کے قوم حمید گل صاحب کے رعونت بھرے دعوئوں کے سحر میں گرفتار ہوگئی ۔رات گئی بات گئی۔

ان حالات میں پھر بھی ایک کردار ایسا رہ گیا تھا جس کے دفاع کے لیے کوئی میدان میں آنے کو تیار نہیں دِکھ رہا تھا۔نام اس کردار کا تھا غلام اسحاق خان جو 1990میں پاکستان کے صدر ہوا کرتے تھے ۔ان کی ’’ذہانت اور درویشی‘‘ کی یاددہانی کے لیے ان کا ایک نواسہ ہی بولا۔وہ بھی انگریزی کے ایک اخبار میں شایع ہونے والے ایک خط کے ذریعے ۔اسد درانی نے اپنے چند انٹرویوز میں یہ اشارے ضرور دیے کہ شاید غلام اسحاق خان محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو ہٹانے اور پھر 1990کے انتخابات میں ان کی جماعت کو شکست دینے کے لیے اس لیے مجبور ہوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اپنے باپ کے شروع کردہ ایٹمی پروگرام پر ’’کمزور‘‘ پڑتی نظر آرہی تھی۔

جب معاملہ ایٹمی پروگرام جیسے ’’حساس قصے سے جوڑ دیا جائے تو ہمارے ملک میں سارے گناہ معاف ہوجایا کرتے ہیں ۔اور شاید غلام اسحاق خان کے ماضی پر لگے داغوں کو اسی ’’صابن‘‘ سے دھونے کے لیے اب ’’محسنِ پاکستان‘‘ بھی میدان میں اُترآئے ہیں ۔موصوف نے پیر کو ایک کالم لکھا۔جس میں بڑی شدت سے اصرار کیا کہ غلام اسحاق خان تو سیاسی معاملات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔اسلم بیگ صاحب کو بھی 1988میں محترمہ بینظیر بھٹو کے انتخابات جیتنے کے امکانات کے بارے میں کوئی پریشانی نہ تھی۔معاملات اس وقت خراب ہوئے جب محترمہ نے اپنی پہلی حکومت کے دوران ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل مواد کو ایک خاص سطح پر ’’فریز‘‘ کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا اور ظاہر ہے ان کی یہ مبینہ خواہش امریکی خوشنودگی کے حصول کی وجہ سے تھی ۔

ایک عام سے رپورٹر کی حیثیت سے میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ملٹری سیکریٹری جنرل امتیاز مرحوم اور ان کے ایک انتہائی وفادار دوست ڈاکٹر ظفر نیازی کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی امور کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے ۔چونکہ میں ’’محسنِ پاکستان’’ نہیں ہوں،اسی لیے اس حساس موضوع پر اپنی زبان بند رکھنا ہی مناسب سمجھتا ہوں۔ایٹمی پروگرام کو ایک طرف رکھے بغیر اس کالم میں البتہ میں’’محسنِ پاکستان‘‘ کے اس دعویٰ کی شدت سے نفی کرتا ہوں کہ غلام اسحاق خان کو سیاسی معاملات سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ہاتھ باندھ کر التجا بلکہ یہ انکشاف کررہا ہوں کہ ریاست اور حکومت کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات کو صرف ا پنے ہاتھوں نمٹانے کے لیے صدر اسحاق کچھ زیادہ ہی بے چین رہا کرتے تھے۔ان کا طریقہ واردات البتہ بڑا باریک تھا۔اپنے مہروں کے ذریعے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف صاحب کو ان کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کے لیے ہمہ وقت مگر انتہائی راز داری سے مصروف رہتے ۔

محترمہ اور ان کے ساتھی تو مرحوم اسحاق خان کا مقابلہ نہ کر پائے ۔مگر پنجاب سے آئے ’’وطن پرست‘‘ کی حیثیت میں نواز شریف ڈٹ گئے ۔نواز شریف کو پہلا چیلنج ان ہی کی جماعت کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے منتخب ہونے والے میاں زاہد سرفراز کی جانب سے آیاتھا۔وہ مگر اکیلے کھیلنے کے عادی تھے ۔ٹیم بنانے کے قابل نہ تھے ۔نواز شریف کوٹیم کے ذریعے قابو کرنے کا فارمولا مرحوم جونیجو کو متحرک کرنے کے ذریعے آزمایا گیا۔ انھوں نے حامد ناصر چٹھہ کو ’’اوپنر‘‘ کے طورپر میدان میں اُتارا۔ بات مگر پھر بھی نہ بنی۔بہت جلد یہ بات جان لی گئی کہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کے بغیر کام نہیں ہوگا۔

اسی مقصد کی خاطر جہلم سے پی پی پی کے رکن اسمبلی چوہدری الطاف حسین کو شریف الدین پیرزادہ کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا گیا ۔سردار فاروق خان لغاری کے لیے ان کے ساتھ سول سروس اکیڈمی کے تربیت یافتہ افسران استعمال ہوئے اور آفتاب احمد شیر پائو کی جنرل وحید کاکڑ سے رشتے داری کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا گیا ۔محمود خان اچکزئی اور افتخار گیلانی زندہ ہیں ۔وہ چاہیں تو بتاسکتے ہیں کہ کیسے وہ دونوں مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو غلام اسحاق خان کے ’’جال‘‘ میں پھنسنے سے بچانے کی ناکام کوششوں میں مبتلارہے ۔سید خورشید شاہ بھی ان دونوں کے حامی ہوا کرتے تھے ۔

بہرحال تفصیلات میں اُلجھے بغیر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ نوازشریف کے خلاف اپنی لڑائی کو فیصلہ کن صورت دینے کے لیے غلام اسحاق خان نے ایک موقعہ پر ’’محسنِ پاکستان‘‘ کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور یہ بدنصیب رپورٹر اس کا وسیلہ بنا تھا۔ہوا یہ کہ میں ان دنوں جس اخبار میں کام کرتا تھا، اس کی انتظامیہ نوازشریف سے کچھ اپنی وجوہات کی بنا پر تنگ تھی۔دشمن کا دشمن ہونے کی حیثیت میں غلام اسحاق خان ان کا دوست ٹھہرا۔ایک بڑے ہی نازک موقعہ پر صدر اسحاق خان کے سازشی گروہ نے فیصلہ کیا کہ ’’محسنِ پاکستان‘‘ کو کسی اخباری انٹرویو کے ذریعے قوم کو بتانا چاہیے کہ پاکستان کے حساس ایٹمی پروگرام کا صرف اور صرف ایک محافظ ہے اور اس کا نام غلام اسحاق خان ہے ۔اس کو للکار کر کمزور کرنے والے درحقیقت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کمزور کردینا چاہتے ہیں ۔

فیصلہ تو ہوگیا مگر اس پر عمل کیسے ہو یہ طے نہ ہوپارہا تھا۔مجھے اس منصوبے کی سن گن ملی تو کھٹ سے خود کو پیش کردیا ۔صدر اسحاق کے ایک معتمد جنھیں پکے راگوں کا بہت شوق ہوا کرتا تھا،میرے کام آئے ۔انھوں نے میری ایک بہت ہی عزیز شخصیت کے ذریعے مجھے مطلع کیا کہ میں کس دن کتنے بجے ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے E-11والے گھر جاکر ان کا ’’انٹرویو‘‘ کرلوں۔میں پھر بھی وہاں اکیلا نہیں بلکہ اپنے ایک بزرگ سیاسی کرم فرماکے ساتھ گیا۔رمضان کے دن تھے ۔’’محسنِ پاکستان‘‘ کا طبی وجوہات کی بناء پر روزہ نہ تھا۔ہم دونوں ملاقاتی ویسے ہی ’’روزہ خور‘‘ تھے ۔ہمیں گرما گرم پکوڑے اور چائے پلائی گئی اور ’’محسنِ پاکستان‘‘ نے وہی باتیں اپنے منہ سے ادا کردیں جو ایک ’’اسکرپٹ‘‘ کی مانند کسی اور نے لکھی تھیں۔میں نے ان کی باتیں پوری ایمانداری سے حرف بہ حرف لکھ کر دوسری صبح کے اخبار کے پہلے صفحے پر چھپنے کی ’’عزت‘‘ کمالی۔

آج بھی وہ صفحہ میرے پاس موجود ہے ۔ضرورت پڑے تو اس کا عکس اسی کالم میں شایع بھی کرایا جاسکتا ہے ۔مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، بس اتنا ہے کہ غلام اسحاق خان مالی معاملات میں یقیناً صاف ستھرے ہوا کرتے تھے ۔مگر مکمل اقتدار واختیار کو اپنے ہاتھوں میں ہی رکھنے کا انھیں جنون تھا اور یہی جنون حمید گل کو 1988 میں آئی جے آئی بنانے اور 1970کے ا نتخابات کو یونس حبیب کے سرمائے،اسد درانی کی معاملہ فہمی اور اسلم بیگ کی ذہانت کے ذریعے چرانے کا سبب ٹھہرا۔غلام اسحاق خان کے بارے میں پاکی داماں کی حکایتیں گھڑنا دانشورانہ بددیانتی ہے ۔ہماری محسن بنی شخصیتوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔