مقامی حکومتیں، گمان اور حقیقت

تاج حیدر  منگل 6 نومبر 2012

میں نے اپنی پچھلی گزارشات کا اختتام اس امید پر کیا تھا کہ اس نئے قانون کے تحت منتخب ہونے والی مقامی حکومتیں اپنا کام مثبت اور تعمیری انداز میں کریں گی اور قانون میں جو وسیع ترین اختیارات صوبائی حکومت اور صوبائی وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں ان کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

مناسب ہے کہ اب ہم قانون میں دی گئی میٹروپولیٹن کارپوریشنوں کا جائزہ لیں اور کراچی کے پانچ اضلاع پر مشتمل کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بارے میں جو بد گمانیاں ہمارے ناقدین کے ذہن میں پائی جاتی ہیں اس پر حقیقی صورتحال کو سامنے لایا جائے۔

قانون کے سیکشن 8 کے تحت سندھ کی ہر ڈویژن کے ہیڈ کوارٹرز کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور میرپورخاص کے اضلاع کے علاقوں میں میٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی گئی ہیں۔ اسی سیکشن میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپویشن کا علاقہ کراچی کے پانچوں اضلاع پر مشتمل ہو گا۔ اسی سیکشن میں حکومت سندھ کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی دوسرے ضلع کے علاقے کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دے سکتی ہے۔

قانون کی اس شق میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت سندھ نے خیرپور ضلع کو بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دے دیا ہے اور اس طرح قانون نافذ ہونے کے فوراً بعد اب سندھ میں پانچ کے بجائے چھ میٹروپولیٹن کارپوریشنیں ہیں۔ اس کے برخلاف کراچی کے پانچ اضلاع میں جن میں ہر ایک کی آبادی لگ بھگ تیس لاکھ سے زیادہ ہے الگ الگ پانچ میٹروپولیٹن کارپوریشنیں نہیں بنائی گئی ہیں بلکہ یہاں پہلے کی طرح صرف ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن ہے۔

ایک بڑی بدگمانی اس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے کہ ہمارے ناقدین ابھی تک مشرف کے 2001 کے بلدیاتی آرڈیننس میں پائے جانے والے تصورات میں گرفتار ہیں اور ان کو ابھی تک پورے طور پر اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ سندھ کی ہر سیاسی جماعت کے مشترکہ مطالبے پر کمشنری نظام اور پولیس کے محکمے کو مقامی حکومتوں سے واپس لے لیا گیا ہے۔ جہاں جہاں بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا قانون میں دی گئی دیگر مقامی حکومتیں قائم کی جا رہی ہے وہ وہاں صرف اس قانون میں دیے گئے اپنے فرائض صوبائی حکومت کی نگرانی اور کنٹرول میں سرانجام دیں گی۔ دیگر تمام سرکاری امور کمشنر، ڈپٹی کمشنر، صوبائی اور ضلعی پولیس براہ راست حکومت سندھ کے احکامات پر سر انجام دیے جائیں گے۔

یہاں اس بات کی وضاحت کرنی بھی ضروری ہے کہ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص اور خیرپور میں بنائی جانے والی میٹروپولیٹن کارپوریشنوں کا علاقہ صرف ان شہروں پر ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کا علاقہ پورے ضلع پر پھیلا ہوا ہے اور ان شہروں کے علاوہ پورے ضلع کے دیہی علاقے بھی مساوی نمایندگی کی بنیاد پر میٹروپولیٹن کونسل میں شامل ہوں گے۔ ضلع کی دیہی نمایندگی کی قابلِ ذکر اور غالب نمایندگی کی بنیاد پر یہ قیاس کرنا کہ میٹروپولیٹن کونسل کی تشکیل کا فائدہ صرف ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے شہروں تک محدود رہے گا سراسر غلط ہے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ 1979 کے قانون کے تحت صوبہ سندھ میں کراچی وہ واحد علاقہ تھا جہاں میٹروپولیٹن کارپوریشن تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کراچی کے پانچ اضلاع میں الگ الگ پانچ ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیاں تھیں نیز یہ کہ کراچی کی ہر سمت میں پھیلی ہوئی دیہی آبادی اور گوٹھوں پر مشتمل ایک کراچی ڈسٹرکٹ کونسل بھی موجود تھی۔ ان تمام میونسپل کمیٹیوں اور کراچی ڈسٹرکٹ کونسل کا انتخاب کراچی میں بنائے گئے 256 وارڈوں ملیر اور ویسٹ کی 149 یونٹوں سے واحد نمایندگی کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ اس طرح 1979 کے قانون کے تحت میٹروپولیٹن کارپوریشن، ضلعی میونسپل کمیٹیوں اور کراچی ضلعی کونسل میں منتخب افراد کی کل تعداد 395 تھی۔

جنرل مشرف کے 2001 کے قانون کے تحت کراچی ضلعی کونسل اور ضلعی میونسپل کمیٹیاں ختم کردی گئیں اور ان کی جگہ 18 ٹائون بنا دیے گئے۔ کراچی کے دیہی علاقے جو بڑی تیزی کے ساتھ شہری علاقوں میں تبدیل ہو رہے تھے نئے ٹائونز میں شامل کر دیے گئے۔

ایک بہت بڑی خرابی جو جنرل مشرف کے قانون کے نتیجے میں پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ ٹائون اور اس کے نیچے یونین کونسل کو دیے جانے والے مالی وسائل کا تعین ناظم کراچی کے ہاتھ میں تھا اور ان ہی کے ذریعے ان مالی وسائل کی ترسیل ٹائونز اور یونین کونسلوں میں کی جاتی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہر چند کہ ان چار ٹائونز میں جیتی تھی جہاں پرانی دیہی آباد ی بستی تھی اور وہاں اس کے ناظم تھے لیکن ان کے ساتھ زیادتی پر مبنی سلوک کیا گیا اور ترقیاتی کام تو دور کی بات تھی جو کام چل رہے تھے ان کی تکمیل کے لیے ضروری رقومات روک دی گئیں حتی کہ پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی تک رک گئی۔ ان تمام زیادتیوں کی وجہ سے ان ٹائونز میں جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کے ناظم تھے بے چینی اور احساس محرومی پیدا ہوا اور لوگ کراچی ضلع کونسل کے دور کو یاد کرنے لگے جس کے زمانے میں اس قسم کے مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے۔

جنرل مشرف کے قانون میں کراچی میں دانستہ طور پر یونین کونسلوں کی تعداد میں کمی کی گئی تھی جس پر پاکستان پیپلزپارٹی نے سخت احتجاج کیا تھا۔ پورے ملک میں یونین کونسلیں بائیس ہزار سے پچیس ہزار تک کی آبادی پر بنائی گئی تھیں۔ جب کہ کراچی میں یونین کونسلیں پچپن ہزار کی اوسط آبادی پر بنائی گئی تھیں۔ اس طرح کراچی جس میں آباد ی کے حساب سے تقریباً 450 یونین کونسلیں ہونی چاہئیں تھیں، وہاں صرف 178 یونین کونسلیں بنا ئی گئیں۔ ظاہر ہے کہ اگر انتخابی حلقے چھوٹے ہوں گے اور ان کی آباد ی کم ہو گی تو بہت سی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں کامیاب ہونے اور نمایندہ حیثیت حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔

نئے قانون کے تحت یونین کونسلیں مساوی آباد ی کی بنیاد پر تشکیل پائیں گی اور اس طرح کراچی میں یونین کونسلوں کی تعداد (اگر 25,000 آبادی کی بنیاد پر یونین کونسل تشکیل دی جاتی ہے) 500 سے تجاوز کر جائے گی۔ ان یونین کونسلوں، ٹائون کونسلوں، میٹروپولیٹن کونسل نیز نچلی سطح پر پڑوس کی کونسلوں میں منتخب افراد کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہو جائے گی جب کہ 1979 کے پرانے قانون کے تحت یہ تعداد صرف 395 تھی۔ بڑی بات یہ ہے کہ جیسا اوپر ذکر آ چکا ہے ہر سطح کی کونسلوں کو مالی وسائل براہ راست صوبائی مالیاتی کمیشن منتقل کر ے گا، مزید کہ کسی بھی انتظامی حق تلفی کے بارے میں ہر سطح کی کونسل براہ راست اپنی شکایت صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کو پیش کر سکتی ہے۔

کسی بھی الیکشن کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ لیکن ہماری کوشش ہے اور ہم سب کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ انتخابات شفاف اور ایماندارانہ ہوں اور کسی قسم کی جعلی ووٹنگ، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے اور نتائج میں ردوبدل کو روکا جائے۔ ہمارے ناقدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ضلعی میونسپل کمیٹیوں کا 1979 کا نظام برقرار رہتا تو پانچ میں صرف دو اضلاع متحدہ قومی موومنٹ کو جاتے اور تین اضلاع دوسری جماعتوں کو جاتے۔

قوانین کبھی یہ دیکھ کر نہیں بنائے جاتے کہ ان کا فائدہ کس فرد یا کس سیاسی جماعت کو پہنچے گا۔ ہم بارہا یہ دیکھ چکے ہیں کہ فرد یا جماعت کے لیے بنائے جانے والے قانون آگے چل کر خود قانون بنانے والوں کے لیے مصیبت بن گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر کون جیتے گا، کون ہارے گا کی قیاس آرائیوں اور الجھائو کی بنیاد پر کوئی موقف تشکیل دینے کے بجائے ایسے انتخابی سسٹم کی تشکیل کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے جس سے ہر آیندہ انتخاب کو شفاف اور ایماندارانہ بنایا جا سکے۔ اگر ہم عوام کی آزادانہ رائے کے ذریعے اپنے نمایندے منتخب کر سکتے ہیں تو پھر کوئی بھی جیتے، کوئی بھی ہارے، جیت ہم سب کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔