حسین اصغر کو آج لیکر آئیں، نہیں آتا تو برطرفی کا نوٹس دیں، چیف جسٹس

ایکسپریس اردو  جمعرات 19 جولائی 2012
اٹارنی جنرل وزیراعظم کوعدالتی احکامات اورتشویش سے آگاہ کریں،سپریم کورٹ کوسول جج کی عدالت بنانے سے گریزکیاجائے،ریمارکس۔ فوٹو/ایکسپریس

اٹارنی جنرل وزیراعظم کوعدالتی احکامات اورتشویش سے آگاہ کریں،سپریم کورٹ کوسول جج کی عدالت بنانے سے گریزکیاجائے،ریمارکس۔ فوٹو/ایکسپریس

اسلام آباد: حکومت ایک بار پھرحسین اصغرکی معطلی کا نوٹیفکیشن پیش نہیںکرسکی،سپریم کورٹ نے کارروائی کے لیے حکومت کوآج تک کی مہلت دی ہے اوراٹارنی جنرل کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم سے خود ملاقات کرکے انھیں عدالت کے احکامات اور تشویش سے آگاہ کریں۔

مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ حسین اصغر کوکل(آج) لیکرآئیں،نہیں آتا تواس کو برطرفی کانوٹس دیں،اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل عرفان قادر سے کہا کہ آخرحسین اصغر واپس کیوںنہیں آ رہا اگروہ اتناسر چڑھاہواہے تو اس کو فارغ کردیں۔نمائندے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی احکامات متعلقہ حکام کو پہنچا دیے تھے تاہم وزیراعظم نے کل اس معاملے کی انکوائری کے لیے امتیاز عنایت الہیٰ کو نیا افسر مقررکیا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرحسین اصغر واپس نہیں آتا تو اسکومعطل کر دیں ۔بدھ کو حج کرپشن کیس کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ حسین اصغر کیخلاف کارروائی کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے تاہم انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے معذرت کا اظہارکیا ہے۔عدالت نے اس موقف پرسخت برہمی کا اظہار کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے وقار پرکوئی سمجھوتہ نہیںکیا جائے گاان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو سول جج کی عدالت بنانے سے گریزکیا جائے۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت کی حکم عدولی وطیرہ بن گیا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سرکاری ملازم کوحکومت بلائے اوروہ نہ آئے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ حکومت اگر ان کوواپس لانے میںسنجیدہ ہے توپھرانکارپران کے خلاف کارروائی ہوتی۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ ایک شخص عدالت کو نہیں مانتا حکومت کو نہیں مانتا اور پھر بھی مراعات لے رہا ہو تواس کا مطلب ہے’’ لگے رہو منا بھائی‘‘ کوئی پرواہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کے آنے سے ہم خوش تھے کہ اب کام ہوگالیکن کچھ نہیں بدلا۔ مزیدسماعت آج پھرہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔