میں پرانا قیدی ہوں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 20 فروری 2016

میں پرانا قیدی ہوں، مجھ جیسے 20 کروڑ اور بھی قیدی ہیں اپنی خواہشات ، آرزؤں کی قبر میں محصور پرانا قیدی ایسی قبر کا قیدی جس میں بنیاد پرستی کے بچھو رجعت پسندی کے سانپ قدامت پسندی کے کیڑے سارا وقت میرے جسم کو نوچتے رہتے ہیں۔

اس قبر کے چاروں طرف موٹی موٹی تندوں والے دلکش سوٹوں میں ملبوس خوش کن خوشبو لگائے جن کی جیبوں میں سے نوٹ ابل ابل پڑرہے ہیں، قہقہے لگاتے رہتے ہیں، وحشیانہ ناچتے رہتے ہیں اور میں آج بھی روٹی کے چاروں حرف لیے قید ہوں ۔کسی زمانے میں ایک ضعیف عورت تھی، بصارت سے محروم مگر عقل مند ایک دن کچھ نوجوان جو اس کی مبینہ غیب بینی کی قوتوں کو جھوٹی ثابت کرنے اور اس کو اپنے قیاس کے مطابق فریبی ثابت کرنے کے درپے ہیں۔

اس سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں ان کا منصوبہ بہت سادہ سا ہے وہ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور ان کا سوال اس کی اہم ترین کمزوری یعنی اس کی کور چشمی سے فائدہ اٹھانے والا تھا۔ وہ ا س کے سامنے جاکر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں بڑی بی میری ہاتھوں میں ایک پرندہ ہے بتاؤ وہ زندہ ہے کہ مردہ ؟ عورت کوئی جواب نہیں دیتی سوال دہرایا جاتا ہے میرے پاس جو پرندہ ہے وہ زندہ ہے یا مردہ ؟ وہ پھر کوئی جواب نہیں دیتی، وہ نابینا ہے اور آنے والوں کو دیکھ نہیں سکتی، چہ جائے کہ اس سے واقف ہوسکتی کہ ان کے ہاتھوں میں کیا ہے وہ ان کے رنگ سے ، تذکیر و تانیث سے یا ان کے وطن سے نابلد ہے وہ صرف ان کے ارادوں سے واقف ہے۔

بوڑھی عورت کی خاموشی اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ آنے والے نوجوانوں کو اپنی ہنسی روکنی مشکل ہوجاتی ہے بالآخر وہ بولتی ہے اس کا لہجہ دھیما مگر روکھا ہے ’’ مجھے نہیں معلوم ‘‘ ۔ وہ کہتی ہے ’’ مجھے نہیں معلوم کہ جو پرندہ تمہارے ہاتھوں میں ہے وہ زندہ ہے مردہ مگر جتنا میں جانتی ہوں اس کے مطابق وہ تمہارے ہاتھوں میں ہے تمہارے ہاتھوں میں ! اس کے جواب سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مردہ ہے تو، یا تو تم نے اس کو اسی حالت میں پایا ہے یا تم نے اس کو مار دیا ہے اگر وہ زندہ ہے تو تم اس کو مار سکتے ہو اگر اس کو زندہ رہنا ہے تو یہ تمہارا فیصلہ ہوگا۔

جو کچھ بھی ہو ان سب کے ذمے دار تم ہو۔ میری قبر کے داروغو خدا کے واسطے میرا فیصلہ تو سنا دو یا تو مجھے قید سے رہائی دے دو یا مجھے زندگی سے رہائی دے دو یا مجھے اور ستاؤ اور تڑپاؤ اور اذیت دو اور رولاؤ یا پھر مجھے اس اذیت سے نجات دے دو خدارا فیصلہ سنانے میں دیر مت کرو۔ اپنے فیصلے کو اور ملتوی مت کرو یاد رکھو ہماری قبروں کی چیخ و پکار سے آسمان بھی لرز رہا ہے۔ یاد رکھو جتنی دیرکرو گے تمہارا نقصان اور بڑھتا جائے گا۔

تنزانیہ کے شاعر اولو تھوجنیڈ اپنی نظم ’’خدا کو بتاؤ ‘‘ میں کہتا ہے ’’خدا کو بتاؤکہ ہر روز دوپہر کے کھانے پر میں اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کوڑے کے ڈبے سے گندگی کھاتے دیکھتا ہوں۔ اسے بتاؤ کہ میں اپنے دل میں ان کے لیے آنسو بہاتا اور روتا ہوں کیونکہ میں ان محتاجوں اور مفلسوں سے محبت کرتا ہوں، میں ان کی بوسیدگی اور غلاظت سے ان کی شرمناک حالت سے ان کی مفلسی اور شقاوت سمیت ان سے محبت کرتا ہوں۔ خدا کو بتاؤ کہ میں نے اس کے ان بندوں کو گرجا گھر میں جاتے دیکھا ہے۔

اسے بتاؤ کہ میں نے اس کے پادری کو انھیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے لیکن یہ پادری ان میں سے نہیں کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں وہ اس کے دوست نہیں ہوسکتے۔ مفلس لوگ بخشی ہوئی روحیں ہیں وہ تمہاری کتاب سے بغیر کسی ایقان کے انھیں پڑھ کر سناتا ہے لیکن یہ لوگ ہر امید سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور اب جنت کے حسین خوابوں پر انھیں کوئی یقین نہیں رہا۔ خدا کو بتاؤ کہ میں نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا، میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں مگر اس نے جواب نہیں دیا۔

اسے بتاؤ کہ میں نے عبادت گاہ میں خوب رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں لیکن اس نے ہماری طرف نگاہ نہیں کی۔ خدا کو بتاؤ … اسے بتاؤ کہ وہ آسمان کے ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے ان کے لیے جو بیمار ہیں اور بے یارو مددگار ہیں یہ اجڑے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں۔ اسے بتاؤ کہ یہ غریب اور محتاج لوگ اس کے مبارک ظہور کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ اسے بتاؤ کہ یتیم، معذور، عاشق اور خبطی سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں۔ خدا کو بتاؤ خدارا اسے بتاؤ کہ اسے گرجا گھروں اور نئے طرز تعمیر کی شاندار عبادت گاہوں میں رہتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے، خدا کو بتاؤ کہ وہ غریبوں کے گندے محلوں کی طرف آئے اسے بتاؤں کہ اب دیر کی گنجائش نہیں ہے۔

یہ ہی فریاد ہماری بھی خدا سے ہے اے خدا تیرے بندے بہت مشکل میں ہیں۔ اب ان سے اور اذیت اور تکلیفیں سہی نہیں جارہی ہیں۔ اب یہ برداشت سے باہر ہوچکی ہیں، ہم جتنے گل سڑ سکتے تھے گل سٹر چکے ہیں ، جتنی، ذلت، غلاظت اور ذلالت برداشت کرسکتے تھے، کرچکے ہیں، جتنی دھتکار اور گالیاں سن سکتے تھے، سن چکے ہیں، جتنے فاقے کرسکتے تھے کرچکے ہیں۔ اے خدا تیری زمین پر ہمیں تو کوئی انسان ہی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ہم سے وہ کہتے ہیں کہ تمہاری یہ سوچ ہی غیر انسانی ہے۔ کیا انسان ایسے ہوتے ہیں، بھوکے ننگے جیسے تم ہو اب تو ہی بتا ہم کیا کریں۔ اے خدا اب تو ہماری بھی فریاد سن لے کہیں ایسا نہ ہوکہ بہت دیر ہوجائے اب یہ تاریک قید خانے اور برداشت نہیں ہوتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔