احتساب

جاوید قاضی  ہفتہ 20 فروری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہمارا احتساب کا قانون و حساب بھی موسموں کی مانند ہے، اور جب بھی اس کی بازگشت سنی گئی یوں لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ حکمرانوں کو یہ وہ نکتہ ہے جو عوام سے دور کرتا ہے اور پھر اس طرح جمہوریت کو پٹڑی سے ہٹانے میں جواز مل جاتے ہیں۔ اس بار بالکل اس طرح سب کچھ کاربن کاپی کی طرح بھی نہیں۔ احتساب حکومت کو ہٹا کے نہیں ہورہا، بلکہ حکومت کے ہوتے ہوئے حکومت کے اہم لوگوں پر ہورہا ہے یا ہونے والا ہے، جو بالآخر وزیراعظم بھی بول پڑے۔ جب تک اس کارروائی کو سندھ تک رکھا گیا تو وفاق نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے، سندھ حکومت نے اقربا پروری میں کرپشن میں حد کردی ہے۔

ہمارے قائم علی شاہ کی بھی کسی نے نہ سنی۔ ان کی آواز نگار خانے میں کسی طوطی کی طرح دب سی گئی مگر وزیراعظم کی آواز سب نے سنی، جب یہ پہاڑ پنجاب حکومت پر گرا۔ اب سنا ہے نیب کو محدود کرنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔

پنجاب اور وفاق یک بہ یک ساتھ ساتھ، کل جس طرح زرداری صاحب کے زمانوں میں سندھ و وفاق ایک صفحے پر ہوتے تھے، مگر یہ ماجرا اتنا سلیس و سادہ بھی نہیں۔ پنجاب حکومت و پنجاب کی اشرافیہ ڈاڈی ہے۔ تاریخی اعتبار سے وہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے اور جو اقتدار سے کمزور ہوا پنجاب کی اشرافیہ نے کھڑے کھڑے اس کو چھوڑ دیا۔ اب بال دوبارہ پنجاب کے ڈی میں داخل ہوگیا ہے۔

ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ بھلا کیوں نہ نیب کو چھوٹ ہو، بلا ناغہ و موسم، جہاں دیکھا جب چاہا اس ادارے نے اپنا کام کیا۔ ایک مستقل مزاجی و محسوس رفتار کے ساتھ۔ اور کوئی اندھی بھی نہیں۔ شواہدات خود بولتے ہیں، ان سے اگلوانے کی کوئی بھی ضرورت نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے ہم دنیا میں چند گنے چنے بڑے کرپٹ ممالک میں آتے ہیں اور کیا یہ بری حکمرانی ہمیں دیمک کی طرح چاٹ نہیں رہی۔ یہ اس اشرافیہ کا ہی ثمر ہے جو اس نے اس ملک کو اس دہانے پہ لگایا ہے اور اگر کہیں سے بری خبر نہیں یا یہ کوئی کسی چال کا حصہ نہیں تو خود جمہوریت کی مضبوطی کے لیے یہ راستہ صحیح ہے۔ احتساب کا عمل بغیر تفریق جاری رہنا چاہیے۔

ہماری دوررس سوچ میں یہ بات شامل ہونی چاہیے کہ بغیر احتساب، بہتر ٹیکس کے نظام کے اس ملک نے آگے نہیں جانا۔ معاملہ صاف ہے ہماری اشرافیہ کوئی برلا، ٹاٹا نہیں۔ کچھ نے تو قومی ادارے ہتھیائے ہیں اور کچھ نے ترقیاتی کاموں پہ اپنے ہاتھ صاف کیے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو شہروں میں سرکار کے خالی پلاٹوں پر قبضہ کرتے ہیں اور دیہات میں وڈیروں نے اپنی اپنی مافیا بنائی ہوئی ہے اور یہ سب کام آج کل جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کام ارباب رحیم کے زمانے میں بھی زور و شور سے جاری تھا۔ لیکن جب جمہوریت آتی ہے تو میڈیا بھی کچھ پہلے سے زیادہ بولتا ہے اور اگر پیپلز پارٹی کا دور ہو تو پھر تو میڈیا کے کرپشن کے راگ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

جو بھی آمر آیا اس نے احتساب کے الاپ کو خوب بجایا۔ اور پھر آہستہ آہستہ خود اپنے ہونے کے جواز کو جب کمزور دیکھا یا احتساب نے کوئی گل نہ کھلایا تو آپ بھی اس اشرافیہ کے کارندے بن گئے، کیونکہ جھوٹی موٹی جمہوریت تو دینی تھی۔ آئین کو ڈگر پر تو لگانا تھا۔ خود سپریم کورٹ بھی ایسے آمر کو حکم امتناعی کی طرح Validity دے دیتی ہے۔

ہمارے حکمران پنجاب سے باہر نہ نکل سکے، اگر نکلے تو غیر ملکی دوروں پر چلے گئے۔ ہر تین مہینے بعد ایک چکر کراچی کا، سال میں دو چکر کوئٹہ کے وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ ن سندھ میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی، نہ قیادت کو اس بات کی کوئی فکر ہے۔ یوں لگتا ہے بٹوارا ہوچکا ہے۔ ادھر تم ادھر ہم کی طرح۔ سندھ زرداری صاحب کے حوالے تو پنجاب ان کے۔ اور اس طرح مسلم لیگ ن کی قیادت ملک کی کم پنجاب کی زیادہ حاکم نظر آتی ہے۔ بھلا کیوں نہ ہو ایسا۔ اقتدار اعلیٰ کے سارے مکیں پنجاب سے جو ٹھہرے۔ ہمارے لیے فوجی نسب کا اعلیٰ افسر دور کی بات ہے اور ان کے لیے گھر کی بات۔ وہ اگر بولیں تو کوئی بات نہیں، ہم اگر بولیں تو ہماری حب الوطنی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

اب کی بار احتساب کا عمل بھی گھر کی بات ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اس تنگ آمد بجنگ آمد کو سول حکومت کی باگ ڈور کو کمزور کرنے کے زاویے سے اگر دیکھیں تو ہمیں میاں صاحب اپنی صفوں میں پائیں گے۔ اس کے برعکس اگر اس کا زاویہ یہ ہے کہ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے کہ نیب پنجاب میں حرکت میں آگئی ہے تو کوئی بھی بری بات نہیں اور ہاں اگر پارلیمنٹ بھی نیب کے قانون میں ترمیم لا کے پلی بارگین والی شق اڑا دیتی ہے تو یہ بھی خوش آیند بات ہے۔ مجھے تو مارچ میں مارچ نظر آ بھی رہا ہے اور نہیں بھی۔ بالکل اس طرح ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔

جہاں ریاست ہوتی ہے وہاں اس کی اشرافیہ بھی ہوتی ہے، وہ ریاست اپنے مفادات کی مضبوطی کے لیے بہانے بھی بناتی ہے۔ غدار و محب وطن کی تشریح بھی۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس اشرافیہ کی ماہیت یا خدوخال کیسے ہیں۔ یہ سب کے آپ کے نظریے۔ مسئلہ مسلم لیگ کا نہ تھا، مسلم لیگ میں موجود نوابوں کا تھا۔

متحدہ ہندوستان میں ہندو مڈل کلاس و قومی سرمایہ دار بالآخر ابھر کے آیا تھا۔ جو بات مسلمانوں میں نہ تھی اور مسلم لیگ بھی اس حقیقت کا عکس تھی۔ سندھ میں 1937 سے لے کر 1944 تک مسلم لیگ نہیں تھی اور یہی ماجرا پنجاب کا بھی تھا اور اچانک جب سمجھ آیا کہ پاکستان کی شکل میں بٹوارا بنا کے حکومت مل رہی ہے تو سارے چوہدری، وڈیرے مسلم لیگ میں شامل۔ پاکستان کی تحریک تو اترپردیش میں یا بنگال میں چلی تھی، ہم نے تو مفت میں اس کا ثمر کھایا، اور بالآخر اقتدار کی رسہ کشی میں پہلے پنجاب کی بیوروکریسی نے اترپردیش سے آئی ہوئی بیوروکریسی کو فارغ کیا پھر پنجاب کی سول بیوروکریسی کو اپنا چھوٹا حصے دار بنا لیا گیا۔ اور اس طرح اب تک یہ کام جاری ہے۔ بال سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور پھر کلیم اللہ سے سلیم اللہ کی ہاکی تک محدود رہی اور تماشائی تالیاں بجاتے رہے۔

ہمارے فیض احمد فیض کو یہ احتساب کا عمل کچھ اس طرح لگا جب ایوب خان نے اس کا شوروغل تیز کیا کہ ’’احتساب ہوگا احتساب ہوگا‘‘ تو آپ بھی اپنے آپ کو جیل کی کوٹھڑی میں بحیثیت اسیر دیکھتے دیکھتے یہ اشعار کہہ بیٹھے:

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال ملال کی پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم بھر پائے سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشک خاک جگر، ہاتھوں میں خون حسرت مئے

لو دامن ہم نے جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں

ہمیں اس احتساب سے نہیں ڈرنا چاہیے، ہمارے ہاں جمہوریت تو ہے لیکن اشرافیہ جمہوریت پرست نہیں۔ کسی کو خادم اعلیٰ بننے کا شوق ہے اور پولیس کو کوئی کہنے والا نہیں، پٹواریوں کا دور دورہ ہے۔ قانون توڑنے والے خود قانون کے محافظ بنے بیٹھے ہیں۔

جہاں تک رہا سوال مارچ میں مارچ ہونے کا، وہ مجھے ایک لحاظ سے اس لیے دکھائی نہیں دے رہا کہ کوئی بھی دنیا میں اس بات کو پسند نہیں کرے گا، نہ ہی چائنا جو اتنا بڑا انفرااسٹرکچر پاکستان لا رہا ہے۔ ہاں البتہ سول و ملٹری کے تعلقات میں پلہ کچھ حد تک طاقتور کی طرف جھکا رہے گا، اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی اپنی اقربا پروریاں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔