محبت کا ایک نام… فاطمہ ثریا بجیا!

شیریں حیدر  اتوار 21 فروری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک خوبصورت سے باغیچے سے گزر کر ہم اس گھر کے لاؤنج کم ڈائننگ میں داخل ہوئے، ہمیں وہاں کھڑے ایک منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ ہماری رہنمائی ایک اور چھوٹے سے کمرے کی طرف کی گئی، ’’ آپ یہیں بیٹھیں، بجیا آ رہی ہیں! ‘‘ ہم دونوں نے نشستیں سنبھالیں اور میں کمرے کا جائزہ لینے لگی۔

دو دیواروں کے ساتھ زمین سے چھت تک کتابوں کے شیلف، ایک دیوار میں دروازہ تھا جہاں سے ہم داخل ہوئے تھے اور جہاں ہم بیٹھے تھے اس کے سامنے والی دیوار میں کھڑکی تھی اور اس کے سامنے ایک نیچی سی نشست، تقریبا فرشی، سامنے چھوٹے سے سائز کی میز، جس پر کاغذ ، قلم اور کچھ کتب تھیں۔ اگلے ہی منٹ میں بجیا ہمارے سامنے تھیں… سراپا شفقت، اس طرح ملیں جیسے میرا ان سے کوئی خونی رشتہ ہو یا جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں، یہ تھی بجیا سے میری دوسری ملاقات، مگر اللہ کا شکر ہے کہ وہ بھی آخری ملاقات نہ تھی۔

مئی 2006 میں کراچی میں میری پہلی چھپنے والی کتاب، ’’ ایک محبت دو افسانے‘‘ کی تقریب رونمائی میں بجیا میری درخواست پر ، میری کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے آئی تھیں، بجیا نے کتاب کے سرورق کی تعریف میں اتنی طوالت اختیار کی کہ مجھے گمان ہوا کہ انھیں میری کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ملا غالباً۔ مگر اس کے بعد انھوں نے میری کئی کہانیوں کے اقتباسات کا حوالہ دیا اور ان کے مواد کی وضاحت کی، میرے لیے ان کا میری کتاب کا اتنا تفصیلی مطالعہ، میں واقعی توقع نہیں کر رہی تھی۔

تقریب کے اختتام پر انھوں نے نہ صرف اپنی شفقت کا اظہار کیا بلکہ دعوت بھی دی کہ ان سے ملنے ان کے گھر آؤں، سو اس روز ہم ان کے ہاں کھانے پر مدعو تھے۔’’ بیٹا… گھر کا سادہ کھانا ملے گا کھانے کو، بازار وغیرہ کے پکے کھانے ہمارے ہاں نہیں ملتے!! ‘‘ انھوں نے دعوت دیتے وقت کہا تھا۔ کھانا کھانے سے کسے دلچسپی تھی، میں تو اس دن کے لیے دن گن رہی تھی جب میں ان کے ہاں جاؤں گی، یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اور کون کون ہو گا، مگر وہاں پہنچ کر علم ہوا کہ ہم دو ہی بجیا کے مہمان تھے۔

ہم ان کی اسٹڈی میں ان کے ساتھ بیٹھے تھے اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں ان سے سیکڑوں سوال کر ڈالوں، ان کی میز پر ایک کینوس پیپر پرا سکیچ بنا ہوا دیکھا تو اس کی بابت پوچھ لیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی بھانجی کے ایک عروسی جوڑے کے لیے موٹف بنا رہی تھیں، میں نے اسے دیکھنے کی خواہش کی تو انھوں نے میری طرف بڑھایا، وہ ایک مور کا نقش تھا، انتہائی تفصیلات کے ساتھ نمونہ بنا ہوا تھا، ان کی بھانجی ایک معروف ڈیزائنر ہیں۔

’’ تو آپ مصورہ بھی ہیں؟ ‘‘ میں نے سوال کیا تھا۔

’’ بھئی سبھی کچھ کیا ہے، ہمارے ماں باپ نے ہمیں سب کچھ سکھایا ہے، میں روئی سے تاگا، تاگے سے کپڑا بھی بن لیتی ہوں، اپنے ہاتھ سے جوتا بھی سی لیتی ہوں، کوئی کام کرنے میں کبھی عار سمجھا نہ ہی کسی کام کے سیکھنے کو نا ممکن جانا، اس لیے سب کچھ کر لیتی ہوں ،کسی کی محتاجی نہیں، دوسروں کو کام کر کے بھی دیتی ہوں ، دوسروں کی مدد کرنے میں مجھے بہت لطف آتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان کی ذاتی لائبریری میں سیکڑوں کتابیں تھیں اور انھوں نے سب کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔

میں نے اپنی کتاب کے لیے تعارف لکھنے اور اپنی پہلی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ پیارسے کہنے لگیں، ’’ تم لکھتی اتنا اچھا ہو، مجھے تو خود شوق تھا تم سے ملنے کا!! ‘‘ کاش وہ جان سکتیں کہ میرا شوق دیدار ان کے شوق سے کتنا بڑا تھا۔ ایسے دور میں جب سب ایک دوسرے کی برائیاں کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس پائے کی لکھاری مجھے کہہ رہی تھیں کہ میں اچھا لکھتی ہوں ، بڑے ظرف کی بات ہے۔

انھوں نے خود ہی اپنے خاندان کا تعارف کروایا تواندازہ ہوا کہ اس خاندان میں تو کتنے ہی جگمگاتے ستارے تھے، ان سب کی اپنی جگہ مگر جو شفقت، محبت اور پیار بجیا نے لوگوں میں بانٹا ہے اس کا کوئی حساب نہیں، وہ سرتاپا شفقت اور محبت تھیں، اپنی سادگی میں وہ کمال تھیں، میں نے انھیں ہمیشہ سوتی سفید ساڑی میں دیکھا جس کا رنگدارحاشیہ بھی بالکل سادہ ہوتا تھا۔کھانے کی میز پر حیرت کا اور جہاں آباد تھا، کئی اقسام کے کھانے ہمیں شرمندہ کرنے کو کافی تھے مگر ان کھانوں میں بھی سادگی اور ذائقہ تھا، انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس ملازم ہیں مگر وہ کھانا حتی الامکان اپنے ہاتھوں سے بناتی ہیں بالخصوص جب وہ کسی کو مدعو کریں تو۔ کھانے میز پر گوشت ، دال اور سبزی ہر طرح کی چیزیں تھیں مگر اس کے ساتھ سلاد، چٹنیاں ، مربے اور اچار، ایک سے بڑھ کر ایک اور کھانے کا لطف دوبالا کرتے ہوئے۔اصرار کر کر کے انھوں نے ہمیں بہت سا کھانا کھلا دیا، بلکہ ان کی کوشش تو یہ تھی کہ جو کچھ ہمیں پسند آیا تھا وہ ہم پیک کروا کر ساتھ لے جاتے۔

بجیا اس دور میں خود بھی سندھ حکومت میں فرائض سرانجام دے رہی تھیں، ایک دن ان کی کال آ گئی، ’’ بیٹا جانے لوگ کہاں کہاں سے کھرا نکال لیتے ہیں کہ میری تم سے دعا سلام ہے، بس کسی کو کام پڑ گیا ہے ایسا جو میرے بس میں تو نہیں مگر اس کا اصرار ہے کہ تم سے کہوں تو تم اپنے میاں سے کہہ کر ان کا کام کروا دو!!‘‘

’’ جی بجیا ، بتائیں کس کا کام ہے اور کیا ہے، جس نے آپ کو بیچ میں ڈالا ہے اسے علم ہے کہ آپ کو کوئی انکار نہیں کر سکتا!!‘‘

’’ ارے نہیں ‘‘ وہ فوراً بولیں، ’’ مجھے علم ہے تمہارے میاں کی شہرت کا، وہ کسی کا غلط کام نہیں کرتے چاہے کوئی ان کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسی لیے تو اس نے مجھ سے رابطہ کیا ہے!! بس تم ایسا کرو کہ اپنے میاں سے کہو کہ ایک بار اس سے مل کر اس کا مسئلہ سن لیں ، کام اس کا چاہے ہو نہ ہو مگر کم از کم اسے یہ یقین تو آ جائے گا کہ میں نے اس کی عرضی تم لوگوں تک پہنچا دی ہے، اور اگر اس کا کام جائز نہ ہو تو میرے کہنے پر قطعی نہ کریں!!‘‘

’’ جی آپ انھیں بتا دیں کہ ہم سے رابطہ کر کے وقت مقرر کر لیں اور آجائیں، ان کا مسئلہ سن لیں گے اور اگر ممکن ہوا تو حل بھی کردیں گے!!‘‘

’’ ایسا کیوں نہ کریں کہ تم لوگ آجاؤ میری طرف اور میں انھیں بھی یہیں بلا لیتی ہوں، اکٹھے کھانا بھی کھائیں گے اور بات چیت بھی ہو جائے گی، اسی بہانے تم لوگوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی !! ‘‘

’’ آپ بہت تکلف کرتی ہیں بجیا، اس لیے اس دفعہ آپ ہمارے ہاں آ جائیں!! ‘‘ میں نے اصرار کیا۔

’’ نہیں بھئی بچے ہو تم لوگ میرے… ‘‘ انھوں نے فورا کہا، ’’ کوئی تکلف نہیں ہو گا، پکا وعدہ، بس وہی بھنڈی بناؤں گی جو تم لوگوں کو بہت پسند آئی تھی!! ‘‘ ان کی دعوت ہو اور دل اڑ کر نہ جائے۔ ان کے ہاں کھانے پر ان صاحب کا مسئلہ زیر بحث آیا، میرے شوہر نے بجیا کو وضاحت کی کہ اس مسئلے میں کیا کیا قباحتیں تھیں۔’’ بس بیٹا، سب تم نے خود سن لیا نا کہ تمہارا کام نہ جائز ہے نہ آسان، اس کے بعد نہ تم مجھے اس کام کے بارے میں کہنا نہ ہی کسی اور ذریعے سے انھیں رابطہ کرنے کی کوشش کرنا، کچھ اگلے جہاں کے لیے بھی جمع کر لو، سب کچھ اسی دنیا میں رہ جانا ہے!! ‘‘ انھوں نے اپنے انتہائی شفیق لہجے میں ان صاحب کو سمجھایا، انھیں بھی بات پلے پڑ گئی۔

ان کا کام بھی نہ ہوا مگر بجیا کے اس خوبصورت حوالے کی وساطت سے ہماری ان میاں بیوی سے دوستی ہو گئی ۔ بجیا سے میں نے ان کی شادی کی بابت پوچھا تو ان کا جواب واضع مگر انتہائی مختصر تھا، خود کسی کی ماں نہ تھیں مگر جگ بجیا کہلائیں اور ماؤں جیسی شفقت اور محبت کا سرچشمہ کہ شاید ہی ہم میں سے کوئی ایسا ہو۔ وہ بے مثال تھیں، ہر دلعزیز، خدمت میں پیش پیش، سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج۔ انھوں نے اپنی لازوال تحریروں سے جو شہرت پائی، اسے آپ سب جانتے ہیں اور اس کے بارے میں بہت لوگ لکھ چکے، حالانکہ جتنا بھی لکھا جائے وہ بجیا کی بے لوث محبت کا قرض چکانے کو ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ، ان کا سلیقہ اور ہنر ان کے گھر کے چپے چپے سے جھانکتا تھا۔

ہم سب اس دنیا میں آتے ہیں تو واپس لوٹنے کا عہد کر کے، ہر آنے والے کو جانا ہے، وہ بھی ایک مختصر علالت کے باعث اس دار فانی سے رخصت ہوئیں ، اپنی محبتوں کے انمٹ نقوش ہمارے دلوں پر چھوڑ کر، وہ اپنی تحریروں کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اپنی محبت کی خوشبو کے ساتھ ان کی یاد ہمیں بار ہا محسوس ہو گی۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے، ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے اور جتنا پیار انھوں نے اس دنیا میں اللہ کے بندوں میں بانٹا ہے اس کے عوض اللہ تعالی ان کا شمار اپنے پیارے بندوں میں کرے۔ آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔