نفاذ اردو کا دھماکا ناگزیر ہے

نسیم انجم  اتوار 21 فروری 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے

علامہ اقبال نے اردو زبان کو منت پذیر شانہ کہا، داغ کہتے ہیں کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

بے شک ہماری قومی زبان اردو کی دھوم پوری دنیا میں ہے اور ترتیب کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے جو بڑی بات ہے، اردو کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس کے ارتقاء میں صوفیائے کرام کا اہم کردار رہا ہے۔ صوفیا کرام نے اسے رشد و ہدایت اور تعلیم و تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔بزرگان دین نے روحانی پیغام پہنچانے کے لیے اسی زبان اردو کا ہی انتخاب کیا، بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق ’’اردو کی ابتدا درباروں میں نہیں بلکہ فقیروں کی خانقاہوں اور صوفیوں کے تکیوں میں ہوئی اور وہیں سے اسے قبولیت، شہرت اور وسعت نصیب ہوئی‘‘۔

خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ نے اردو کو اپنایا اور اسی زبان میں شاعری بھی کی اور کچھ ہندی دوہے بھی ان سے منسوب ہیں۔ شیخ بو علی قلندرؒ کا ہندی دوہا بے حد مشہور ہوا کہ:

سجن سکارے جائیںگے اور نین مریںگے روئے
بدھنا ایسی رہن کو بھور کدھی نہ ہوئے

حضرت امیر خسروؒ، شیخ امی سراجؒ شاہ برہان الدین غریبؒ بندہ نواز گیسو درازؒ، عبداﷲ قطب عالمؒ ، سید محمد جونپوریؒ، شیخ عبدالقدوسؒ گنگوہی جیسے بڑے مراتب والے بزرگوں کی بدولت اردو کو اعتبار اور وقار حاصل ہوا۔ بقول مولوی عبدالحق کے ’’حضرت امیر خسروؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے سرزمین ہند میں اس زبان کا بیج بویا جو بعد میں ریختۂ اردو یا ہندوستانی کے نام سے موسوم ہوئی‘‘۔آج کی صورت حال قومی زبان کے حوالے سے بڑی دردناک ہے،بقول ڈاکٹر سید عبداﷲ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ صورتحال درپیش ہے کہ قومی زبان کو اپنا حق منوانے کے لیے اپنی ہی قوم سے لڑنا پڑ رہا ہے، خود اپنے ہی لوگ اردو کو تعلیم کی زبان نہیں بننے دیتے۔

اسے دفتروں اور کاروبار میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم مرکزی مسئلہ قومی تعلیم کا ہے جو قومی زبان کی رفاقت سے محروم ہے، تعلیم جہاں ایک نظری سلسلہ ہے، وہاں اس کے عملی پہلو اور افادی مقاصد بھی ہیں۔ ذریعۂ تعلیم اگر تبدیل ہو بھی جائے تو بھی اس وقت تک بے نتیجہ اور بے اثر ہوگا، جب تک وہ زندگی کے اہم کاموں کے لیے مفید نہ ہو، تعلیم محض دماغی ورزش اور تفریحی مشغلہ نہیں، وہ ایک نافع اور فائدہ مند استعمال کی مشق ہے‘‘۔1973 کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور 1988 کے اندر اندر اس کے نفاذ کے انتظامات مکمل کرنے کی بات کی گئی تھی اور جب ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ نے اپنا کام شروع کیا تو ان ہی آئین کی لسانی شقوں کے ساتھ ’’اردو سائنس بورڈ‘‘ لاہور ’’اردو لغت بورڈ‘‘ نے بھی اردو کے لیے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔

مقتدرہ نے چند کمیٹیاں ذریعہ تعلیم زبان دفتری وغیرہ کے متعلق قائم کیں۔ مقتدرہ قومی زبان کی تاسیس کے بعد اس مسئلے پر زیادہ سنجیدگی سے سوچا گیا۔ مقتدرہ کی سفارشات جو مارچ 1983 میں حکومت کے سامنے اور نومبر 1985 میں پھر پیش ہوئیں، جس میں بتایا گیا کہ انٹرمیڈیٹ، ایل ایل بی، بی ایس سی، ایم بی بی ایس، ایم اے، ایم کام غرض اعلیٰ تعلیم کے لیے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔لیکن یہ بات بڑے ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ سابق جسٹس جواد اے خواجہ نے نفاذ اردو کے حوالے سے واضح الفاظ میں احکامات صادر کرچکے ہیں۔

ایک سال گزرنے کے بعد تھوڑی سی امید کی لو روشن ہوئی ہے کہ وزیر قانون اور وزیراعظم نواز شریف نے اردو کی حمایت میں احکامات صادر کیے ہیں کہ PCS،CSS اور دیگر ملازمتوں کے امتحانات اور انٹرویز اردو میں لیے جائیں اور قوانین کو اردو زبان میں تبدیل کیا جائے۔صدر ضیا الحق کے زمانے میں بھی اردو کی قسمت کو چار چاند لگنے کے بعد ایک واضح قومی پالیسی وضع کردی تھی کہ اردو کو بحیثیت قومی زبان کے ہر ادارے میں رائج ہونا لازم و ملزوم کیا جائے اور یہ بات بھی 1989 میں طے پاگئی تھی کہ کوئی ادارہ ذریعۂ تعلیم انگریزی کو نہیں بنائے گا۔ اسی پالیسی کے تحت ثانوی درجے تک انگریزی کو دوسری لازمی زبان کے طور پر پڑھایا جانا تھا۔

لیکن افسوس کہ بیورو کریٹ حضرات نے صدر ضیا الحق کو اس بات پر راضی کرلیا کہ باہر کے اداروں کے ساتھ بعض اسکولوں کے الحاق کی اجازت دے دی جائے تاکہ یہ ادارے انگریزی میں امتحان لے سکیں پھر اس کے بعد وہ ہی ہوا کہ بے شمار کیمبرج اسکول سامنے آگئے۔ اس صورتحال کے تحت معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا۔ عام اور سرکاری اسکولوں کے طالبعلموں اور او لیول اسکولوں کے طلبا و طالبات میں احساس برتری اور کمتری کے جذبات پیدا ہوئے، اس طرح معاشرہ کئی طبقات میں بٹ گیا، ایک طرف انگریزی تعلیم تھی تو دوسری انگریزی اور اردو تعلیم نہ ہونے کے برابر اور تیسری طرف تعلیمی معاملہ بالکل صفر تھا۔

یعنی جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا جو بڑھتا ہی جارہا ہے، تعلیمی اداروں میں اصطبل باندھنے کی نوبت آگئی اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد بڑھتی چلی گئی، آج پورا ملک جہلا کے سیاہ کارناموں سے داغدار ہوچکا ہے۔ بے شک ترقی اور عزت اپنی ہی زبان کو اپنانے اور اس پر فخر کرنے ہی سے ملتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے ترقی و خوشحالی دوسروں کی زبان اختیار کرکے کی ہو۔ تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جاپان کا کوئی ملک ہو مقابل نہیں ہے۔ انھوں نے جاپانی زبان کے ذریعے کامیابی کی منزلیں طے کی ہیں۔ چین، جاپان، یورپ اور امریکا کے باسی اپنی ہی زبان بولتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں، انھیں تو ایسا کرکے ذرا برابر شرم نہیں آتی اور بھلا شرم کس بات کی؟

شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں انگریزی آتی نہ ہو لیکن بولیںگے ضرور۔ انگریزوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ وہ پانچ سو سال تک فرنچ اور لاطینی زبان کی قید میں رہے، نورمن حملے اور نورمن قبضہ انگلستان کے بعد انگریز قوم ذلت اور خود تحقیری کے گڑھے میں اس قدر گرچکی تھی کہ وہ اپنی زبان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور فرنچ زبان بولتی تھی۔ 1150 سے 1500 تک کا زمانہ انگریزی کی بدبختی کا زمانہ تھا۔ آخرکار انھوں نے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا، ہمیں ان حالات سے سبق سیکھنا ہوگا اور اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد سے جلد ہم اپنی قومی زبان پر توجہ دیں۔

تمام امور کی رسیدیں، فارم، سائن بورڈوں، ناموں کی تختیوں، اسکولوں اور دوسری عمارتوں کے نام اردو میں تبدیل کیے جائیں اور امتحانات اردو میں لیے جائیں تاکہ امیر غریب کی تفریق مٹ جائے اور پاکستان کا ہر باشندہ اس امتحان میں شریک ہوسکے، محض انگریزی میں امتحان لینے کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی امتحان میں شریک نہیں ہوپاتے ہیں، غیر سرکاری اسکولوں کی فیسیں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ معمولی تنخواہ پانیوالے محنت کشوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور زمیندار و جاگیردار، بیوروکریٹ یہی تو چاہتے ہیں کہ دولت، عزت، علم پر ان کی اجارہ داری رہے۔

ان سے کوئی آگے نہ بڑھ سکے۔اردو میں علم حاصل کرنے اور کارنامے انجام دینے والے معمولی نہیں بلکہ بڑے اور عظیم لوگ بن کر سامنے آئے، ان ہی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالسلام ہیں۔لہٰذا وزیراعظم صاحب کو اپنی حکومت میں نفاذ اردو کا دھماکا کرانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں پاکستان کی تاریخ میں اردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جاسکے۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں، یونیورسٹیوں، اسکولوں، اسپتالوں، عدالتی شعبوں میں اردو کا سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان ببانگ دہل کردیا جائے، اسی میں ہی قوم کی بقا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔