بلا لو اپنے اللہ کو

اوریا مقبول جان  پير 22 فروری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جمعہ خان صوفی کی کتاب ’’فریبِ نا تمام‘‘ ہاتھ میں آئی تو ستر اور اسّی کی دہائیاں آنکھوں میں گھوم گئیں۔ اس مملکت خداداد پاکستان کے روشن خیال، ترقی پسند اور قوم پرست رہنماؤں، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں میں کمیونسٹ انقلاب کا غلغلہ تھا۔ امریکا، برطانیہ، یورپ اور ان کی جمہوریت فیض احمد فیض کے نزدیک بھی گالی تھی اور شاہی قلعے میں جان دینے والے حسن ناصر کے نزدیک بھی۔ کچھ روس کی جانب نگاہیں جمائے کھڑے تھے اور اکثر چین کے مداحین میں شامل تھے۔

چینی سفارت خانے سے مفت لٹریچر، رسالے اور ساتھ میں سرخ رنگ والا بیج ملتا تھا جس پر سنہری پانی سے ماؤزے تنگ کا چہرہ ابھرا ہوا ہوتا تھا۔ کوئی سیاسی جلسہ، جلوس، ریلی یا کانفرنس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں امریکا کو گالی نہ دی جاتی ہو۔ بورژوا یعنی سرمایہ دار اور پرولتاریہ یعنی مزدور، دو ایسے الفاظ تھے جو زبان زد عام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ایسے کتنے تھے جو یہ خواب لے کر شامل ہوئے کہ اس شخص کی کرشماتی شخصیت کے ذریعے ہم اس ملک میں کمیونسٹ انقلاب لے آئیں گے۔ لیکن جیسے ہی مرحوم نے چوہدریوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو شامل کرنا شروع کیا تو پہلے سخت قسم کے انقلابی چھوڑ گئے اور اقتدار میں آنے کے بعد جے رحیم اور معراج محمد خان کا حشر دیکھتے ہوئے باقی بھی قوم پرست سیاست میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔

یہ قوم پرستی بلوچ اور پختون علاقوں میں ایک عرصے سے ایک مستحکم تحریک کی حیثیت رکھتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انا پرستی اور آمرانہ سوچ نے جب بلوچستان کی جمہوری حکومت توڑی اور وہاں فوجی ایکشن شروع کیا تو خیبر پختونخوا جو اس وقت سرحد کہلاتا تھا، وہاں کی حکومت مستعفی ہو گئی، غداری کے مقدمے شروع ہوئے اور بلوچ، پختون افغانستان میں پناہ گزین ہو گئے۔ دراصل، پاکستان بننے کے ساتھ ہی بھارت اور افغانستان کی مدد سے پختونستان کی علیحدگی کی تحریک کی آبیاری کی جا رہی تھی۔ اس تحریک کو روس کی کمیونسٹ حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔

1920 میں سوویت یونین کے قیام کے صرف تین سال بعد آذر بائیجان میں علاقائی قومیتوں کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں بلوچ اور پشتون وفد شامل تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ قوم پرستی کے ذریعے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کی جائے گی۔ جمعہ خان ان قوم پرست انقلابیوں میں سے تھا جس نے پاکستان سے افغانستان ہجرت کی اور ان تمام تخریب کاریوں اور دہشت گردیوں کا حصہ رہا جو روس، بھارت اور افغانستان کے سرمایہ اور مدد سے پاکستان میں کی جاتی تھیں۔ اس نے ان رازوں سے اس کتاب میں پردہ اٹھایا ہے۔ وہ دیباچے میں لکھتا ہے ’’اس جلاوطنی کے دوران میں بھارت، سوویت یونین، افغانستان سے داؤد خان، حفیظ اللہ امین، ترہ کئی، کارمل اور ڈاکٹر نجیب تک سب کے ساتھ براہ راست رابطہ میں رہا۔

اس دوران پاکستان میں ولی خان اور بلوچستان کی آزادی کے داعیوں کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رہا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے سیاسی مقصد کے نام پر بڑے بڑے لوگ اور خاندان پیسے کماتے اور نام بناتے ہیں‘‘۔ جمعہ خان انگریزی لٹریچر میں 1970 میں لیکچرار مقرر ہوا لیکن ساتھ ساتھ وہ 1971 میں صوبہ سرحد میں کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل میں بھی شامل تھا۔ اس نے اجمل خٹک کے ذریعے ماسکو کا خفیہ دورہ کیا اور وہاں ٹرینگ حاصل کی۔ 23 مارچ 1973 کو جب بھٹو حکومت نے لیاقت باغ میں حزب اختلاف کے جلسے میں موجود نہتے عوام پر گولیا ں برسائیں تو نیپ نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگوں کو افغانستان بھیجا جائے تا کہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کا آغاز ہو۔ ان لوگوں میں جمعہ خان بھی شامل تھا۔

ولی خان آنکھوں کے علاج کے بہانے 1973 کے آخر میں لندن جانے کے بجائے کابل گیا ، اور وہاں تمام حالات کا خود جائزہ لیا اور پھر فوراً بعد بلوچ نوجوان ٹریینگ کے لیے افغانستان آنا شروع ہو گئے۔ یہاں جمعہ خان نے ان تمام معاملات کا ذکر کیا ہے کہ کن راستوں سے بلوچوں اور پشتونوں کو اسلحہ  وغیرہ دے کر  پاکستان بھیجا جاتا تھا ۔ ’’کو کران‘‘ اور ’’زابل‘‘ میں دو کیمپ تھے جن میں سات ہزار لوگوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ انھی لوگوں نے 8 فروری 1975 کو بم دھماکے سے حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل کیا اور وہ مہمند ایجنسی کے راستے افغانستان پہنچ گئے۔

جمعہ خان نے اس کتاب میں ان تمام پشتون اور بلوچ رہنماؤں کا کھل کر تذکرہ کیا ہے جو روس اور بھارت سے سرمایہ حاصل کر کے پاکستان میں دہشت پھیلانے  کے لیے کارروائیاں کراتے تھے۔ جمعہ خان ایک جگہ لکھتا ہے۔ ’’ہم جو ہندوستان کے دوست تھے، اپنے مشترکہ دشمن پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور مشترکہ دوست افغانستان میں بیٹھے سرگرم تھے۔،، اس نے ہندوستانی سفیر سے ملاقاتوں، بھارتی سرمائے اور ٹریننگ کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے ، اس  میں ولی خاں اور دیگر بلوچ لیڈروں کا کھل کر تذکرہ کیا ہے۔

پاکستان کے وہ ’’عظیم‘‘ مورخ اور ’’دانشور‘‘ جو اس قوم کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہم نے افغانستان کے معاملات میں مداخلت شروع کی اسی لیے ہم بدامنی کا شکار ہیں ان کے منہ پر جمعہ خان صوفی کی یہ کتاب ا یک طمانچے سے کم نہیں۔ اسی کتاب میں اس نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکمت یار، ربانی، احمد شاہ مسعود، یونس خالص، محمد نبی اور قاضی امین قادر، جون 1974میں پاکستان آئے اور بھٹو نے نصیر اللہ بابر کو انھیں جوابی کارروائی کے طور پر ٹریننگ دینے کے لیے مامور کیا۔ جن لوگوں کی تاریخ ضیاء الحق سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے ان کے لیے اس کتاب کی حقیقت کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔

لیکن اس ساری جنگ و جدل میں مجھے آج بھی وہ ایام یاد آتے ہیں جب نور محمد ترکئی نے افغانستان میں حکومت سنبھالی تو پاکستان میں کمیونسٹ دانشور اور سیاسی کارکن یہ نوید دے رہے تھے کہ سرخ سویرا اب ہماری سرحدوں پر دستک دے رہا ہے۔ 30 اپریل 1978کو آنے والے اس انقلاب کو ثور انقلاب کہا جاتا تھا۔ ادھر انھی دنوں میں ایران کی کمیونسٹ ’’تودہ‘‘ پارٹی اور مجاہدین خلق نے شاہ کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا اور 1979 میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن وہاں قیادت مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ کمیونسٹ مایوس نہ ہوئے، لیکن ظاہر ہے انقلاب کی خونریزی کمال کی ہوتی ہے۔

مجاہدین خلق کو منافقین اور امریکی ایجنٹ کہہ کر مولویوں نے قتل کر دیا اور انھیں جیلوں میں پھانسی دے دی گئی۔ وہ جو پاکستان کی دونوں سرحدوں سے سرخ سویرے کی آمد کے خواب دیکھتے تھے اب صرف افغانستان سے ان کی امیدیں وابستہ رہ گئیں اور جیسے ہی دسمبر 1979 میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، پاکستان کے کمیونسٹ انقلابیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دور کے تبصرے، مضامین، یہاں تک کہ شاعری نکال کر دیکھ لیں، سرحدوں سے سرخ سویرے کی خوشبوؤں کی آمد کے تذکرے تھے۔ وہ جو بھٹو کی پیپلزپارٹی سے مایوس ہوچکے تھے زور زور سے مذہبی قوتوں کو للکارتے کہ دیکھو بس چند دن کی بات ہے، تمہارا حشر بھی تاجکستان اور ازبکستان کے مولویوں کی طرح ہونے والا ہے۔

کتنے دن اور اپنی مسجدوں کو بچاؤ گے، کتنے دن اور اپنی داڑھیاں رکھ لو گے۔ ہمارا مرحوم دوست آفتات مفتی تازیانہ اخبار کا ایڈیٹر تھا، عالمی تبصرہ نگاری کرتے ہوئے کہا کرتا تھا اب دنیا پر کمیونزم کا راج آنے والا ہے، اگر چاہتے ہو تو بلا لو اپنے اللہ کو کہ وہ اسے روک لے۔ بلوچستان اور سرحد میں حالات گھمبیر نہ تھے۔ ہمیں حیرت ہوتی تھی۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہاں کے انقلابیوں نے جمعہ خان صوفی کی طرح ان وطن فروش لیڈروں کا چہرہ افغانستان میں دیکھ لیا تھا۔

دوسری بات ضیاء الحق کا عام معافی کا اعلان تھا جس نے پورے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اگلے دس نہیں بلکہ بیس سال امن کے نام لکھ دیے۔ ایسے میں پہلے دو سال افغان مجاہدین نے پاکستان کی بقا، سلامتی اور اس کی سرحدوں کی جنگ افغانستان کی سرزمین پر اپنے خون سے لکھی۔ ضیاء الحق آج تک اس لیے گالی ہے کہ اس نے ان تمام دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے خواب چکنا چور کر دیے جو اس سرزمین پاکستان پر واپسی روسی ٹینکوں اور روسی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔

دو سال بعد امریکا اور مغربی دنیا کو اندازہ ہوا کہ افغانوں کے ذریعے روس کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ہر مغربی ملک اس جہاد میں کودا اور یوں اس جہاد نے پاکستان کی سرحد سے روسی افواج کو اس قدر دور دھکیل دیا کہ خود روس کا کمیونزم ذلت آمیز موت کا شکار ہو گیا۔ لینن گراڈ میں لینن کا مجسمہ گرا دیا گیا۔ وہ جو کہتے تھے بلاؤ اپنے اللہ کو کہ روک لے روس کی افواج کو، ایسے خاموش ہوئے کہ میرا دوست آفتاب مفتی مجسمہ گرتے دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا۔ جو سخت جان تھے وہ جس امریکا اور مغرب کو روز گالیاں دیتے تھے انھی کے سفارت خانوں میں اپنی این جی اوز کے لیے گرانٹ کی درخواستیں لے کر لائن میں کھڑے نظر آئے۔

کمیونسٹ روس کے ختم ہوتے ہی چند ماہ بھی صبر نہ کر سکے اور امریکا کے دروازے سامنے بھکاریوں کی طرح جا کھڑے ہوئے۔ آج ان کے منہ سے افغان جہاد، امریکا اور ضیاء الحق کی مخالفت سنتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ لیکن کیا کریں میرا اللہ بھی بہت غیرت و حمیت والا ہے۔ جو اس کے دروازے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے وہ اسے دربدر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔