تنظیم سازی بنیادی انسانی حق ہے، محروم نہیں رکھا جاسکتا !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 22 فروری 2016
حکومتی و مزدور رہنماؤں اور ماہرین قانون کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

حکومتی و مزدور رہنماؤں اور ماہرین قانون کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

 

بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق تنظیم سازی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور آئین پاکستان بھی اس کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کی جدوجہد میں بھی مزدور تنظیموں نے بہت کردار ادا کیا اور ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔

آزادی کے بعد آئینی اجازت ہونے کی وجہ سے تنظیمیں منظم ہوئیں، کچھ نئی تنظیمیں بنیں اور اس وقت سرکاری و نجی اداروں میں یونینز موجود ہیں۔ آئین نے یونین سازی کا حق تو دیا ہے لیکن اس حوالے سے قانون میں قدغن ہے اور اس کے قواعد و ضوابط بھی قائم کیے گئے ہیں کہ کن مقاصد کے لیے یونین بنائی جاسکتی ہے، کون سا ملازم بنا سکتا ہے اور کس کو یونین سازی کی اجازت نہیں ہے اور اس کے علاوہ ہڑتال کے حوالے سے بھی قانون میں ہدایات موجود ہیں، اگر اس کے مطابق ہڑتال کی جائے تو جائز ہے ورنہ قانون حرکت میں آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ٹریڈ یونینز کی وجہ سے مزدوروں کے حقوق محفوظ ہیںلیکن اگر ٹریڈ یونینز نہ ہوں تو مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ٹریڈ یونینز کے بارے میں یہ رائے بھی قائم ہے کہ وہ ادارے کا پر امن ماحول خراب کرتی ہیں، مالکان پر بے جا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ناجائز مطالبات کیے جاتے ہیں۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق اداروں کی نجکاری کرنا پڑ ررہی ہے جس پر یونینز سراپا احتجاج ہیں۔

اس حوالے سے یونینز اور حکومت کے درمیان تناؤ کی صورتحال ہے جبکہ ٹریڈ یونینز پر پابندی کے حوالے سے بھی باتیں گردش کررہی ہیں۔ اس معاملے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ٹریڈ یونینز کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں حکومتی و لیبر نمائندو ں اور ماہرین قانون نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خلیل طاہر سندھو (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

آئین کی رو سے اظہار رائے اور پر امن احتجاج سب کا حق ہے اور کسی کو اس سے روکا نہیں جاسکتا۔ یونین سازی سب کا بنیادی آئینی حق ہے، اگر یونین سازی ملکی مفاد، اداروں کی بہتری اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہو تو ہم اس کے حق میں ہیں لیکن اگر یونین سازی کی آڑ میں تشدد، بلیک میلنگ یا حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش اور لوگوں کے حقوق پامال کیے جائیں تو یہ یونین سازی نہیں ہوتی اوردنیا کا کوئی بھی قانون ا س کی اجازت نہیں دیتا۔ پنجاب پہلا صوبہ ہے جس میں مزدوروں کے لیے لیبر پالیسی کی منظوری دی گئی ہے۔

حکومت نے اس کے ساتھ ہی ہوم بیسڈ ورکرز کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کا عمل شروع کررکھا ہے۔ قوانین انسانی فلاح و بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ہر مذہب میں انسانی حقوق کی پاسداری کا درس دیا گیا ہے اس لیے ہر معاشرہ قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ آئین پاکستان تمام شہریوںکے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اس میں مذہب و نسل کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور یہاں اقلیتوں کو بھی برابر حقوق حاصل ہیں۔

حکومت اداروں کی ترقی کے لیے مختلف سطحوں پر مشاورت کے بعد قوانین اور قواعد و ضوابط مرتب کرتی ہے اور ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ غیر جمہوری رویے ہمیشہ منفی رجحانات کو جنم دیتے ہیں اور اس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت کوئی بھی ادارہ جس میں پانچ یا اس سے زائد لوگ کام کرتے ہوں وہ لوگ یونین بنا سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی ادارے کی یونین کو تشدد آمیز رویے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اگر کارکنوں کو ان کا حق نہیں مل رہا یا ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوتی ہے تو ان کی دادرسی کے لیے قوانین موجود ہیں، محتسب کے ادارے قائم ہیں، لیبر کورٹس موجود ہیں جن سے سے وہ رابطہ کرسکتے ہیں۔

کیا یہ غیر جمہوری رویہ نہیں ہے کہ اپنے ملک کے قیمتی اداروں، جن سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے  یونین بازی کے نام پر انہیں تباہ کرنے کی اجازت دے دی جائے؟ احتجاج سب کا حق ہے لیکن آئین دوسروں کے حقوق کو بائی پاس کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ حکومتیں حالات کے مطابق اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرتی رہتی ہیں اور اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی ادارے کی ترقی، قوم اور ملک کی ترقی ہوتی ہے اور اگر ترقی کے اس عمل میں رکاوٹ آجائے تو حکومت کو بہتری کے لیے اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔

حکومت مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے واضح موقف رکھتی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے لیبر پالیسی کے تحت بھٹہ مزدور بچوں کے تحفظ کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے لیبر لاء پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے بھٹہ مزدوروں کے حقوق کی فراہمی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عزم بھی کیا ہے اور بچوں سے مشقت کا خاتمہ یقینی بنایا جارہا ہے ۔ حکومت پڑھا لکھا پنجاب کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ہم نے بھٹہ مزدور بچوں کے لیے انقلابی تعلیمی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔

دوران پڑھائی بچے کو ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ، مفت کتابیں اور یونیفارم دی جارہی ہیں۔ اب تک 28 ہزار بھٹہ مزدور بچوں کا سکولوں میں داخلہ ہوچکا ہے اور ابھی مزید بچے سکولوں میں داخل ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ جبری مشقت کروانے والے بھٹہ مالکان کے لیے 50 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ تک قید کی سزا رکھی گئی ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، جس میں ہمیں دہشت گردی اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے، ایسی صورتحال میں حکومت معاشی بحالی کے لیے دن رات کام کررہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری لانے اور جی ایس پی پلس سٹیٹس دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ابھی ہمیں توانائی کے بحران کا بھی سامنا کرنا ہے۔

ترقی کے اس سفر میں سب کو مل کر حکومت کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا اور ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہڑتال کی سیاست سے ملک کی معاشی ترقی ممکن نہیں ہوگی۔ حکومت نے خواتین، خاص کر خواتین مزدوروں کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ خواتین کو بھی یونین سازی کا حق حاصل ہے اور وہ بھی یونین بنا سکتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا توڑ پھوڑ اور جلاؤ ، گھیراؤ مسائل کا حل ہے؟

میرے نزدیک پر امن مذاکرات سے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مزدوروں کا ہمارے ملک کی ترقی میں بہت اہم کردار رہا ہے، ہم ان کی بہتری اور تعلیم کے لیے بھی اقدامات کررہے ہیں۔ لاکھوں افراد کو فنی تربیت بھی دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر انداز سے کما سکیں۔ لیبر کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ منفی رویے ترک کرکے، متحد ہوکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں اور بین الاقوامی برادری میں اعلیٰ مقام دلوائیں۔

خورشید احمد (جنرل سیکرٹری آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن)

عالمی حالات اب تبدیل ہوچکے ہیں۔ روس کی بربادی اور گلوبلائزیشن آف اکانومی کے بعد واشنگٹن ڈکلیریشن کے مطابق پرائیویٹائزیشن اور فری لیبر مارکیٹ پر کام ہورہا ہے۔ ترقی پزیر ممالک پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا دباؤ ہوتا ہے اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جو کہتے ہیں ہماری حکومت ویسا ہی کرتی ہے۔ ماضی میں ترقی پزیر ممالک ٹریڈ یونینز کے بجائے کمیونزم کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے لیکن اب اس کا الٹ ہورہا ہے۔ اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی کردار ہے کیونکہ وہ آزاد یونینز نہیں چاہتی۔

ٹریڈ یونینز جمہوری ادارے ہیں لیکن نیو لبرل ازم کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک میں این جی اوز کو سپورٹ کیا جانے لگا اور ان عوامل کی وجہ سے آزاد ٹریڈ یونینز کو نقصان پہنچا۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ جاگیردارانہ نظام ہے اور اس نظام کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار یونین سازی کے خلاف ہیں کیونکہ جہاں مزدور مضبوط ہو وہ اپنی بات منوا لیتا ہے لیکن اگر یونین نہ ہو تو سرمایہ دار اپنی من مانی کرتا ہے اور مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔

حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت واپڈا کی نجکاری کررہی تھی لیکن یونین منظم تھی،اس نے احتجاج کیا تو حکومت نجکاری کا فیصلہ ترک کرنے پر مجبور ہوگئی اورآئی ایم ایف سے کہا کہ ہم اس میں بہتری کے لیے ریفارمز لائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 17-A ،ILO کنونشن اور جی ایس پی پلس سٹیٹس کی وجہ سے حکومت کی یہ عالمی ذمہ داری ہے کہ وہ مزدوروں کو یونین سازی کا حق دے لیکن اگرحکومت یہ حق نہیں دیتی تو اقوام متحدہ کی ڈکلیریشن کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ٹریڈ یونین قومی وحدت پیدا کرتی ہے اور مزدور رنگ، نسل، مذہب و لسانیت سے بالاتر ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔

افسوس ہے کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کے مسائل سننے کے لیے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی، اراکین اسمبلی اپنی تنخواہ تو دوگنی کرلیتے ہیں لیکن مزدور کہاں جائیں؟ لیبر لاء پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے، لاکھوں مالکان ہیں جبکہ لیبر انسپکٹر صرف  569 ہیں لہٰذا ایسے حالات میں عملدرآمد کیسے کروایا جاسکتا ہے۔مزدور دن رات محنت سے اپنا کام کرتا ہے لیکن یہ توقع کرنا کہ لیبر پاکستان میں انقلاب لے آئے اور ٹریڈ یونین ایسا کام کردے جس سے ادارے خود ہی بہتر ہوجائیں درست نہیں ہے۔

آئمہ محمود (مرکزی جنرل سیکرٹر ی آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)

بین الاقوامی انسانی حقوق کا چارٹر اور آئین پاکستان کا آرٹیکل 17 ہر شخص کو تنظیم سازی کا حق دیتا ہے لہٰذا کسی کو اس سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہاں بات کی جارہی ہے کہ یونین ہونی چاہیے یا نہیں، میرا سوال یہ ہے کہ یونین کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ جب ملک میں جمہوریت ، سسٹم کی بہتری اور جوابدہی کے عمل کی بات کی جائے تو تنظیم سازی اور سیاسی عمل بہت ضروری ہے۔ جمہوری ملک اور معاشرے میں تنظیم سازی بہت اہمیت رکھتی ہے اور ٹریڈ یونینز جمہوری اداروں کی نرسری کا کام کرتی ہیں۔

جہاں تنظیم سازی کا حق نہیں رہتا وہاں جمہوریت کا بھی کوئی جواز نہیں ہوتا اور نہ ہی وہاں جمہوریت کی بات کی جاتی ہے اس لیے میرے نزدیک یونین سازی کے حق کے حوالے سے کوئی دورائے نہیں ہے، یہ سب کا بنیادی انسانی حق ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سارے ادارے ہیں جہاں یونین سازی کی اجازت نہیں ہے جن میں پولیس و اسی طرح کے دیگر محکمے شامل ہیںتاکہ لوگوں کی ویلفیئر کا کام متاثر نہ ہو۔ اب دیگر اداروں میں بھی یونین سازی نہ ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یونین سے خطرہ ان عوامل کو ہے جو مزدوروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

وہ یہ چاہتے ہیں کہ مزدور اپنے استحصال پر چپ رہے، تقسیم در تقسیم ہوجائے اور پھر سرمایہ داروں کی حکمرانی آسان اور دیرپا ہوجائے۔ جہاں یونینز کام کی جگہ پر تحفظ ، کم از کم تنخواہ پر عملدرآمد، مستقل ملازمت، ٹرانسپورٹ و دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے کام کررہی ہیں وہیں لیبر لیڈروں کے بارے میں یہ رائے بھی ہے کہ وہ لیڈر بننے کے بعد کام نہیں کرتے ۔اس حوالے سے سرمایہ داروں نے سازشیں تو کی ہیں لیکن اس میںٹریڈ یونینز کی اپنی خامیاں بھی ہیں۔

ٹریڈ یونین کی لیڈرشپ میں خواتین کونمائندگی نہیں دی جاتی جبکہ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین کو یونین کا حصہ نہیں بنایا گیا اور اس کے علاوہ 45 فیصد مزدوروں کا تعلق زراعت کے شعبے سے ہے جو اس حق سے محروم ہیں۔ صنعتی مزدورجو صرف 13سے 14فیصد ہیں انہیں تنظیم سازی کا حق ہے۔ مزدوروں کے حوالے سے جو حالیہ اعداد و شمار آیا ہے اس کے مطابق 3.4 فیصد لیبر فورس یونین کے تحت منظم ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں کتنے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہوگا؟

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینز میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے اور ٹریڈ یونین تحریک کادائرہ کار بڑھانا ہوگا۔ پنجاب کے قانون کے مطابق تنظیموں میں خواتین کی متناسب نمائندگی ہے لیکن افسوس ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں لیبر خواتین انسپکٹر نہیں ہیں،اسی طرح انصاف کے حصول میں بھی خاتون ملازمین کو مسائل درپیش ہیں لہٰذا خواتین کے مسائل کو ٹریڈ یونین کے ایجنڈے پر لانا ہوگا۔

پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس کی صورت میں بین الاقوامی سپورٹ حاصل ہے، تنظیم سازی کے حوالے سے اسے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں لائحہ عمل کا فقدان ہے اور ٹریڈ یونینز کو قابل لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ کسی بھی محکمے میں نقصان کا الزام یونین پر لگا دیا جاتا ہے جبکہ حکومت بری الذمہ ہوجاتی ہے۔

میرے نزدیک پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کے دوران ہونے والے نقصان کی ذمہ داری یونین پر نہیں بلکہ حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ احتجاج ٹریڈ یونین کا حق ہیں لیکن حکومت نے بروقت مسئلے کو حل نہیں کیا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ٹریڈ یونینز مل بیٹھیں، نجکاری کے خلاف جوائنٹ پلیٹ فارم پر ایک موقف اختیار کریں اور اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، عوامی مسائل اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہوجائیں۔

فاروق طارق (جنرل سیکرٹری عوامی ورکرز پارٹی)

یہ محنت کشوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اکٹھے ہوں اور جو کام وہ الگ الگ نہیں کرسکتے ، متحد ہوکر ادارے کی بہتری کے لیے کریں۔میرے نزدیک ٹریڈ یونین لازمی ہونی چاہیے لیکن سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی ادارے میں یونین نہ بنے اور وہ افراد کو تر جیح دے کر یونین کے اندر گروہ بندی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونین سازی پر حملہ پاکستان کے محنت کش طبقے کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔

ہم اس وقت اہم دور سے گزر رہے ہیں، ملک میں سرمایہ داروں کی حکومت ہے جو اداروںکوبہتر کرنے اور ان میں اصلاحات لانے کے بجائے ان کی نجکاری کررہی ہے۔ پہلے واپڈا کی نجکاری کی کوشش کی گئی لیکن یونین نے اس پر احتجاج کیا ،اگر یونین نہ ہوتی تو اب تک واپڈا کی بھی نجکاری ہوچکی ہوتی۔ اسی طرح پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے بھی پی آئی اے ملازمین کی یونینز نے احتجاج کیا لیکن حکومت نے اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے اور اب احتجاج ختم ہونے کے بعد ٹریڈ یونینز حکومت کے نشانے پر ہیں اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

میرے نزدیک اداروں کی نجکاری کا تجربہ پاکستان میں ناکام ہوچکا ہے، یہ سرمایہ داروں کی یونین کے خلاف سازش ہے کیونکہ جس بھی ادارے کی نجکاری ہوئی وہاں مزدوروں کا استحصال ہوا اور سرمایہ دار یونین نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیبر لا کو نظر انداز کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ جہاں یونین نہیں ہے وہاں مزدوروں کی تنخواہ کم ہے، صحت کی سہولیات نہیں ہیں، جان کا تحفظ نہیں ہے، وہاں چائلڈ لیبر بھی ہے اور مزدوروں پر ظلم بھی ڈھائے جاتے ہیںلیکن جہاں یونین موجود ہے وہاں کسی حد تک محنت کش کو ریلیف ملتا ہے۔

بھٹہ مزدوروں، چائلڈ لیبراور بانڈڈ لیبر کے حوالے سے ہم کافی عرصے سے آواز اٹھارہے ہیں ، اب حکومت نے اس طرف توجہ دی ہے جو اچھا اقدام ہے لیکن مالکان چاہتے ہیں کہ کسی طرح قانون میں تبدیلی ہوجائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ نہ ہو۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں محنت کش کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اوراس کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ مزدور اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو ریاست کے ادارے اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن اگر سرمایہ دار احتجاج کریں تو حکومت خود ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کرتی ہے۔

افسوس ہے کہ پنجاب میں لیبر لاز پر عملدرآمد نہیں ہورہا جبکہ اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے والوں کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ سندر اسٹیٹ میں کوئی حقیقی ٹریڈ یونین نہیں، مالکان نے خود ڈمی یونینز بنائی ہوئی ہیں، وہاں مزدور کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے اور بغیر حفاظتی انتظامات اور سہولیات کے مزدوروں سے دن رات کام لیا جاتا ہے جو باعث افسوس ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ جب بھی مزدور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر بلیک میلنگ کا الزام لگا کر منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے تاکہ شکوک شبہات پیدا کیے جاسکیں۔

خواجہ عمر مسعود (ماہر قانون)

آئین کے مطابق پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو ٹریڈ یونین بنانے کا حق حاصل ہے اور ابھی تک ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی جس سے ٹریڈ یونین کو ختم کیا جاسکے۔سرکاری اداروں میں صرف ایسوسی ایشن بنائی جاسکتی ہے اور سول سرونٹس نہ تو ایسوسی ایشن بنا سکتے ہیں نہ ہی ٹریڈ یونین۔ آئین کا آرٹیکل 17 ایسوسی ایشن بنانے کی اجازت دیتا ہے لیکن اس حوالے سے قانون سازی میں قدغن ہے اور حکومت انہیں کسی حد تک روک سکتی ہے۔

1964ء کاگورنمنٹ سرونٹ کنڈکٹ رول ہے جس میں ایسوسی ایشن سازی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں ۔ ٹریڈ یونینز کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوئے اور مزدوروں کی مختلف تنظیمیں مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے اکٹھی نہیں ہوتیں۔ اب جن بوتل سے باہر آگیا ہے اوراداروں کی نجکاری شروع ہوگئی ہے جو اب رک نہیں سکتی۔ یونین کے حوالے سے مالکان کی یہ رائے ہے کہ یونین بدمعاشی کرتی ہے، مزدور اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور فیکٹری کا پر امن ماحول خراب ہوجاتا ہے۔

میرے نزدیک ٹریڈ یونینز کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ گزشتہ 25 برسوں سے نان ایشوز پر بات ہورہی ہے جبکہ لیبر کے مسائل پر بات نہیں ہوئی۔ افسوس ہے کہ ٹریڈ یونینز نے آج تک لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ایجوکیٹ کرنے کی ڈیمانڈ نہیں کی۔لیبر ڈیپارٹمنٹ اس طرح سے مزدوروں کے حقوق کے لیے کام نہیں کررہا جس کی ضرورت ہے، اگر حکومت چاہے تو ایک دن میں لیبرلا  پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لیبر لیڈر کی ایک آواز پر ہزاروں مزدور سڑکوں پر نکل آتے تھے اور لیبر لیڈر بھی اپنے مزدور کارکنوں کے ساتھ مخلص تھے۔ 90ء کی دہائی میں چیز ختم ہوگئی، حکومتوں نے کوشش کرکے تنظیموں میں پولرائزیشن کردی جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوگئے اور مزدوروں کی حالت زار خراب ہوگئی۔

ٹریڈ یونینز انفرادی کوشش کرتی ہیں لیکن اجتماعی طور پر جدوجہد نہیں کررہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہے اور اب بات یونین کے وجود پر آگئی ہے کہ یونین ہونی چاہیے یا نہیں؟ ہڑتال کا باقاعدہ طریقہ کار آئین میں موجود ہے، اگر اس پر عمل کیے بغیر ہڑتال کی جائے گی تو وہ غیر قانونی ہے اور اس پر حکومت کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے۔ پی آئی ملازمین کے خلاف بھی جو کارروائیاں ہورہی ہیں اس میں یہی کہا جارہا ہے کہ اس طریقہ کار کے بغیر ہڑتال کی گئی ہے۔ میرے نزیک پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کے درمیان ہونے والے نقصان کی ذمہ دار یونین کو نہیں ٹہرایا جاسکتا، اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔