یوٹیوب پر سب ملے گا!

خرم زکی  منگل 23 فروری 2016
یوٹیوب کی بحالی ایک ایسی خبر تھی جس نے مجھ سمیت بہت سے افراد کو اطمینان بخشا کہ اب یو ٹیوب کسی متبادل طریقے سے کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ فوٹو:اے ایف پی

یوٹیوب کی بحالی ایک ایسی خبر تھی جس نے مجھ سمیت بہت سے افراد کو اطمینان بخشا کہ اب یو ٹیوب کسی متبادل طریقے سے کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ فوٹو:اے ایف پی

یوٹیوب سے پابندی اٹھالی گئی، یہ ایک ایسی خبر تھی جس نے مجھ سمیت بہت سے افراد کو اطمینان بخشا کہ اب یوٹیوب کسی متبادل طریقے سے کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ بالاآخر دو برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد حکومتِ پاکستان نے مشروط طور پر یوٹیوب بحال کردی۔ اِس بحالی کے بعد ڈاکیومینٹریز، سائنسی تحقیق، مذہبی مباحثے، موسیقی، فیشن، فلمیں، ڈرامہ غرض ایک جہان سمٹ آیا ہے میری انگلیوں کی پوروں پر۔

یوٹیوب دنیا بھر میں ویڈیو شئیرنگ کا مقبول ترین ذریعہ ہے۔ دلچسپ، مزاحیہ، کاروبار سمیت براک اوبامہ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی میں معاون سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ روز نت نئی ویڈیوز کا ایک سیلاب امڈا آیا ہے اور اس منفرد ویب سائٹ کو پے پیل کمپنی سے وابستہ 3 دوستوں ہرلے، اسٹیو اور جواد کریم نے مشترکہ طور پر تخلیق کیا، جس کے ذریعے اپنے یاد گار لمحات کو اپنے احباب کے ساتھ باآسانی شئیر کرکے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ یوٹیوب پر پہلی اپ لوڈ کی جانے والی ویڈیو تھی ’’میں چڑیا گھر میں‘‘، جس میں یوٹیوب کے مشترکہ بانی جواد کریم سان ڈیاگوکو چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جسے 23 اپریل 2005 میں اپ لوڈ کیا گیا۔

اس کے بعد تو جیسے ویڈیوز کا ایک سلسلہ چل پڑا اور یو ٹیوب ویڈیوز کے رحجانات کی ایک تاریخ رقم ہوئی، ذاتی دلچسپی سے لیکر اشتہارات، بزنس، فنونِ لطیفہ اور اس پر ہی بس نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی اس انقلابی جہت نے امریکہ کے صدارتی امیدوار کے لئے کامیابی کی راہ ہموار کی۔ آئیے یوٹیوب کی کامیابی پر سرسری نظر دوڑاتے ہیں۔

یوٹیوب پر اپنے روز مرہ مشاغل اور دلچسپ و عجیب واقعات کو دنیا کے ساتھ شئیر کرنے کا رحجان اس وقت شدت پکڑ گیا جب 2007ء میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے دو کم سن بھائیوں کی شرارت بھری ویڈیو ’’چارلی نے میری انگلی پر کاٹ لیا‘‘ انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی۔ اس ویڈیو میں 3 سالہ ہیری کی انگلی اس کا چھوٹا بھائی منہ میں ڈال کر مزے سے چبانے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہیری اور چارلی کے معصومانہ اور بے ساختہ تاثرات اور گفتگو نے یوٹیوب صارفین کو خوب محظوظ کیا۔ اس 55 سیکنڈ کی ویڈیو کو 813 ملین سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔

یوٹیوب صارفین کی توجہ حاصل کرنے اور سیریز کی شکل میں ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا آغاز 2006 میں ’’15 سالہ تنہا لڑکی‘‘ کے ویڈیو کلپ سے ہوا۔ جس میں ایک 15 سالہ لڑکی اپنی داستان سناتے ہوئے بتاتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے والدین سے ناراض ہے اور اسے کمرے میں بند کردیا گیا ہے۔ 15 برس کی ’’بری‘‘ نامی لڑکی کی ویڈیو سیریز کا دورانیہ جون 2006ء سے اگست 2008ء تک محیط ہے اور اس انجان لڑکی کے سحر اور باتوں میں لوگ سالوں تک جکڑے رہے، حتیٰ کہ ناظرین نے کھوج لگانا شروع کردیا اور تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ’’بری‘‘ بن کر فرضی قصے سنانے والی لڑکی 19 سالہ نیوزی لینڈ کی رہائشی جسیکا روز ہے اور ان کی 3 ارکان پر مشتمل ٹیم یوٹیوب کے ذریعے باقاعدہ ایک ڈرامہ سیریز نشر کر رہی تھی۔ ایک اندازہ کے مطابق ’’15 سالہ تنہا لڑکی‘‘ کے سیریز ویڈیوز کو ا ب تک 110 ملین بار دیکھا جا چکا ہے۔

یوٹیوب پر تجرباتی اور ترغیبی رحجان پر مشتمل ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی ابتداء کوک اور منٹوز کی گولیوں کے ملاپ سے ہونے والے کیمیائی عمل کے بعد کوک کے انتہائی دباؤ کے ساتھ باہر آنے کی ویڈیو سے ہوئی۔ جسے ابتداء میں 2005 میں پہلی بار اپ لوڈ کیا گیا اور اس کے بعد تو جیسے سلسلہ چل نکلا، اور ہر کوئی کوک کی بوتل میں منٹوز کی گولیاں ڈال کر اپنا تجربہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا ضروری سمجھنے لگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس رحجان کے بعد کوک اور منٹوز کی گولیوں کی فروخت میں نا محسوس طریقے سےغیر معمولی اضافہ ہوا۔

اب اگر بات کی جائے ویڈیو ٹیوب کے ذریعے تشہیر کی تو اگست 2006ء میں برازیلین فٹبالر رونالڈینیو کے ایک ویڈیو کلپ نے یو ٹیوب پر تباہی مچادی۔ جس میں رونالڈینیو کو اسٹیڈیم میں پریکٹس کے دوران سنہرے ڈبے میں ایک جوتوں کا جوڑا پیش کیا جاتا ہے۔ اسے پہن کر رونالڈینیو مہارت سے فٹبال کو پیروں اور سر کی مدد سے حرکت دیتے ہوئے لگاتار 7 مختلف انداز میں فٹبال نیٹ میں پھینکتے ہیں۔ اس کلپ کی مقبولیت کے بعد جب اس پر غور کیا گیا تو واضح ہوا کہ غیر محسوس انداز میں جوتوں کے سنہری مائل تلوؤں اور جوتوں پر بنے گئے ایک مخصوص برانڈ کے ٹریڈ مارک کو نمایاں کیا گیا۔ یہ تشہیر کا موثر اور کامیاب انداز تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ یوٹیوب کے اثرات کا دائرہ کار بھی بڑھتا گیا اور بات امریکہ کے صدارتی انتخابات تک جا پہنچی۔ جی ہاں 2008 میں امریکی صدارتی امیدوار باراک اوبامہ نے یوٹیوب کے ذریعے بھرپور انتخابی مہم چلا کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا۔ مسلسل یوٹیوب چینل کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے اور موثر کاؤنسلنگ نے باراک اوبامہ کو فتح سے ہمکنار کیا۔

یہ تھا سماجی رابطوں اور اس کے دائرہ کار کا مختصر سا جائزہ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ آج کا دور رابطوں اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، کسی بھی سماجی رابطے پر پابندی کا مطلب گلوبل ولیج کے اس دور میں خود کو دنیا سے کاٹنا ہے۔ میرے خیال میں تو حکومت کو یوٹیوب کی بحالی کا فیصلہ پہلے ہی کرلینا چاہئیے تھا، لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق ہم اِس فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

آپ بھی یوٹیوب کو سماجی رابطوں کے لیے اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا بلاگر نے بتایا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
خرم زکی

خرم زکی

بلاگر ایک نجی ادارے سے وابستہ ہونے کے ساتھ سول سوسائٹی کے رکن بھی ہیں اور انٹرنیشنل معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔