’’جماعتیں اپنا حقیقی کردار ادا کریں، فوج خودبخود ٹھیک ہوجائیگی‘‘

اصغر خان کیس کے فیصلے کو ملکی سیاسی سفر میں سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

اصغر خان کیس کے فیصلے کو ملکی سیاسی سفر میں سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

عوامی حلقوں اور سیاستدانوں کی طرف سے پاکستان کے سابق ایئر چیف اصغر خان کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ میں دائر کیس کے سلسلے میں مختلف مواقع پر ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ فوج کی طرف سے قومی خزانے سے جو خطیر رقم تقسیم کی گئی اسکا بلاتاخیر فیصلہ کیاجائے تاکہ قوم حقائق جان سکے۔

ذمے داروں کو بے نقاب کرکے انکے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے چنانچہ سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ دنوں جب اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا گیا تو اس پر ملک کے سیاسی حلقوں میں خاصی ہل چل مچ گئی اور پھر اس پر مختلف سطحوں پر گفتگو اور نقدو تبصرہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ غیر معمولی تاخیر سے ہوا اسکے باوجود پاکستانی سیاست میں یہ فیصلہ بہرحال دور رس نتائج کا حامل اور ملک وقوم کے سیاسی سفر میں سنگ میل قرار دیا جارہا ہے ۔ روزنامہ ’’ایکسپریس ‘‘ نے اپنے قارئین کو اس فیصلے کے ملکی سیاست پر مضمرات کے بارے میں آگاہ کرنے کیلیے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں عوامی نمائندوں ، سیاسی، عسکری اور قانونی ماہرین کو دعوت دی گئی کہ وہ اس فیصلے کے مختلف پہلووں اور ملکی سیاست پر اسکے ممکنہ اثرات پر روشنی ڈالیں ۔ جن ماہرین کو مدعوکیاگیا ان میں صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اﷲ خان ، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری، جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم ، تحریک انصاف کے رہنما محمودالرشید، فنکشنل لیگ کے سینئر نائب صدر سلطان محمود خان اور آئی ایس آئی پنجاب کے سابق کمانڈر بریگیڈیئر (ر) محمد اسلم گھمن شامل تھے۔ ایکسپریس فورم میں ان ماہرین نے مذکورہ موضوع پر جو اظہارخیال کیا اسکی تفصیل نذر قارئین ہے ۔

رانا ثناء اﷲ 
(وزیر قانون پنجاب )
اصغر خان کیس کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے ۔اس میں میڈیا کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ اس پوائنٹ اسکورنگ کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اس فیصلے میں دو تین نکتے واضح ہوئے ہیں حالانکہ پہلے بھی لوگوں کو معلوم تھا۔عام آدمی سے لے کر اعلیٰ عہدے پر متعین فرد بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں 54ء سے جنرل ایوب کو وزیر دفاع بنانے سے اسٹیبلشمنٹ کا جو کردار شروع ہوا وہ 2008ء کے الیکشن کے بعد بھی جاری ہے۔ 56ء کے آئین کے بعد الیکشن کس طرح ملتوی کیا گیا اور 62ء کے الیکشن میں فاطمہ جناح کو شکست میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار تھا جس کے بعد آج تک کوئی الیکشن انکے کردار کے بغیر نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار کا فیصلہ خود کرتی ہے اگر88ء میں انھیں جس جماعت کی سپورٹ مقصود تھی تو خود کی اور 93ء میں انکا مفاد کسی اور طرف تھا تو انھوں نے پیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا۔ 93ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے لانگ مارچ کے پانچ کروڑ روپے یونس حبیب نے دیئے تھے۔

زکواۃ وعشر کے فنڈ سے منظور وٹو نے نواز حکومت گرانے کی کوششیں کیں اور دس کروڑ روپے خرچ کیے ۔ جنرل اسلم بیگ اس میں بھی شامل تھے۔2002ء میں یہ کردار تمام الیکشنوں سے بڑھ گیا تھا جس میں گورنر ہاوس کے اندر مسلم لیگ(ق)کے امیدواروں کے باقاعدہ انٹرویو ہوئے اور ان میں آئی ایس آئی ، آئی بی ، اس وقت کے چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری نے باقاعدہ لسٹیں تیارکی تھیں۔ اب 90کے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر فیصلہ آیا ہے۔ آج اس رول کو نہ صرف محدود بلکہ جڑ سے اکھاڑکر پھینکا جاسکتا ہے اور ملک وقوم کیلئے رحمت بن سکتا ہے، اگر سیاسی جماعتیں ایک نقطے پر متفق ہوں اسٹیبلشمنٹ کو مزید موقع ملنا ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے۔صدرکے کردار پر جو وضاحت ہوئی میں کہتا ہوں گزشتہ چار سال کا حساب ان سے نہ لیں اگر وہ آئندہ چھ ماہ کیلئے سوچ لیں تو یہ بھی آئندہ الیکشن اور عوام کیلئے خوش آئند ہوگا۔اس فیصلے میں کہا گیا کہ جن لوگوں نے پیسے لئے اور جنہوں نے دیئے ان کے خلاف آئین وقانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے تاہم جرنیلوں کو گرفتار کرنا سیاسی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں اور حکومت میں اتنی جان نہیں کہ جرنیلوں کو گرفتار کرے۔ تیسرے حصے کو اہمیت دی جارہی ہے کہ جن سیاست دانوں نے پیسے لئے تھے ان کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن سپریم کورٹ کے سب کے خلاف کارروائی کے حکم کے باوجود ایک سو افراد میں سے بار بار صرف ایک نام میاں نوازشریف کا لیا جارہا ہے۔23افراد نے تو رقم کروڑوں روپے میں وصول کی ۔ سپریم کورٹ نے کسی کو ملزم یا مجرم نہیں ٹھہرایا بلکہ ’’ تھاروپروب‘‘ یعنی تفصیلی انکوائری کی بات کی جس میں گواہان، ملزمان اور مدعیان کو طلب کرکے انکوائری کی جائے ۔شفاف انکوائری ہونی چاہیے جس کے نتیجہ خیز ہونے کے بعد وہ کسی کو ملزم ٹھہرا سکتی ہے ۔

مجرم نہیں۔ 80افراد پر الزام عائد ہونے سے وہ مجرم نہیں ہوجاتے بلکہ انکے خلاف اگر مقدمہ ٹرائل کورٹ میں جائے اور وہاں سے انھیں سزا ہوتو پھر وہ نااہل ہونگے۔صرف پوائنٹ اسکورنگ کرنا قومی خدمت نہیں اس سے فضا میں بہتری نہیں آسکتی۔ اپوزیشن لیڈر کے بیان کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے میں بتادوں کہ ہماری جماعت کا موقف ہے کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ خوش آئند، قوم اور سیاسی حوالے سے سنگ میل ہے۔اس پر عمل کرنے سے ملک وقوم کی حالت بہتر ہوگی۔ ذمے داروں کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے لیکن ہمارا مطالبہ شفاف انکوائری کا ہے۔ ہماری رائے میں ایف آئی اے کی موجودہ پوزیشن سے ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ این آئی سی ایل سکینڈل اور دوسرے کرپشن سکینڈلز میں ایف آئی اے کی تحقیقات انتہائی ناقص رہی ہیں، ہمیں ایف آئی اے سے شفاف انکوائری کی امید نہیں ، ایف آئی اے کے سربراہ اس کی وضاحت بھی کرسکتے ہیں۔ جو فیصلہ بھی ملک کی عدالتیں کریں گی ہم اسے قبول کریں گے۔وزیر قانون نے کہا کہ اس فیصلے کے تناظر میں آئندہ الیکشن میں یہ ضرور ہوگا کہ صدر کو ایوان صدر کے اندر بوتل میں بندکردیا جائے گا۔

فواد چوہدری 
(مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور و رہنما پیپلزپارٹی)
اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت بڑے دل کامظاہرہ کرے اور قوم سے معافی مانگے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے پیرا گراف 13 اور 14 کے مطابق ملزمان کی دوکیٹگریز ہیں‘ پہلے میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کا کہاگیا ہے۔ان دونوں سابق جرنیلوں کے خلاف کارروائی وفاقی حکومت براہ راست کریگی یا فوج کو فیصلہ بھیج دیگی کہ وہ فوجی قانون کے مطابق انکا ٹرائل کریں اور انکے خلاف کارروائی کرے۔ اس بات کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان نے کرناہے ویسے میری ذاتی رائے کے مطابق ان دونوں سابق جرنیلوں کے خلاف کیس فوج کوبھیجنا چاہیے تاکہ وہ انکا کورٹ مارشل کریں۔ فیصلے کے دوسرے حصہ میں 35سیاستدان شامل ہیں ۔

میاں محمد نوازشریف نے35لاکھ لئے اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو 25لاکھ لے کردیئے اسکے علاوہ سیدہ عابدہ حسین نے 10لاکھ روپے لئے جس پر عابدہ حسین نے قوم سے معافی مانگ لی ہے اب میاں نواز شریف بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لیں باقی 33سیاستدان ہیں جن میں سے سابق صدر فاروق لغاری اور سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو سمیت زیادہ تر وفات پا چکے ہیں جو موجود ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے صرف شریف برادران کی زیادہ اہمیت ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں انکوائری کا نہیں بلکہ انویسٹی گیشن کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اب میاں نواز شریف کے پاس دو راستے ہیں وہ گرفتاری دیدیں یا پہلے ضمانت کروا لیں۔ عدالت نے اس کیس میں سمجھا ہے کہ کافی مواد موجو د ہے اسلئے انکوائری کی ضرورت نہیں بلکہ ایف آئی اے سے تفتیش ہونی چاہیے۔فیصلے کا تیسرا حصہ صدر کے متعلق ہے کہ ایوان صدر میں سیاسی سیل نہیں ہونے چاہئیں اور اسوقت ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل موجود بھی نہیں ہے اور نہ ہی ممکن ہے کیونکہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے پاس زیادہ رقوم کے فنڈز ہوتے ہیں جن کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا جبکہ سول اداروں کے تمام فنڈز کا آڈٹ ہوتا ہے اور جب تک آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نہ چاہیں ایوان صدر میں سیاسی سیل نہیں بن سکتا۔ صدر آصف زرداری اگرروزانہ ایوان صدر میں جہانگیر بدر اور امین فہیم سے ملیں یا وزیراعظم سے ملتے ہیں تو یہ کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہے اگر چوہدری نثار صدر سے ملنے کی درخواست کریں گے تو ان سے بھی صدر ملاقات کرلیں گے بلکہ ن لیگ صدر زرداری کو اپنے جلسے میں بلائیگی تو وہ وہاں بھی چلے جائیں گے۔

فوج کو قانون سے بالا تر نہیں ہوناچاہیے اور نہ وزیراعظم یا کوئی اور قانون سے بالاتر ہے فوج کا احترام ضرور ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے فوج کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں جبکہ مہذب ملک میں فیصلہ سازی کا اختیار فوج کے پاس نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ کام سول حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایوب خان سے لے کر اب تک فوج کا سیاسی کردار رہا ہے لیکن اب اسکا وقت چلاگیا ہے اور موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھا ہے اس میں تمام ملک کی سیاسی پارٹیوں کا بھی کردار ہے جو اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کی تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعے ہوگی اسکا کوئی اور طریقہ نہیں ہوگا۔پہلے آمریتوں کے ذریعے تبدیلیاں آتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور جمہوری حکو مت اپنا وقت پورا کرتی ہے یہ بات پاکستان کے مستقبل کیلئے بہت اچھی ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے کے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ کے مستقبل پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور انہیں براہ راست فائدہ ہوگاکیونکہ اس فیصلہ پر عملدرآمد کے بعد ن لیگ کی قیادت تو نااہل ہوجائیگی اسکے بعد رانا ثناء اﷲ آگے آسکتے ہیں اور مسلم لیگ (ن)کی صدارت بھی انہیں مل سکتی ہے۔

خان سلطان محمود خان 
(سینئر نائب صدر مسلم لیگ(فنکشنل)
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر آدمی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقیدکرتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے ماننے کیلئے ہوتے ہیں تنقید کرنے کیلئے نہیں ہوتے کہ اس سے جمہوریت کا قتل کیا گیا میں کہتا ہوں انکی خبر لیں جنہوں نے پاکستان کا قتل کیا جسے میں نے اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا تھا ۔جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار خان عبدالقیوم کی مسلم لیگ تھی جنہوں نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان جانیوالوں کی ٹانگیں توڑ دوںگا۔افسوس کی بات ہے کہ آج وہ لوگ جمہوریت کی بات کرتے ہیں جو جمہوریت کو سب سے پہلے قتل کرنے والے تھے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور بات ہے۔ حقائق پرکتاب لکھوں گا جس میں مبینہ طور پر بنائے جانیوالے ملک پختونستان کا نقشہ اور اسکے مبینہ وزیراعظم اجمل خٹک کے ثبوت دکھائوں گا۔ سپریم کورٹ کی شرافت ہے کہ فیصل رضا عابدی کو اتنی زیادہ تنقیدکرنے پر الٹا نہیں لٹکا دیا۔چیف جسٹس 1971ء میں سقوط پاکستان کے وقت سے از خود نوٹس لیں کہ جمہوریت کے قاتل اگر آئی جے آئی کے ذریعے پیسے لینے والے تھے تو پاکستان کا قاتل کون تھا۔ایک وزیراعظم 20، 30 ارب روپے اگر اپنے حلقے میں خرچ کردیتا ہے تو یہ کرپشن نہیں تو اورکیا ہے۔ جونیجو دور میں جب ایک ایک ایم این اے کو 65لاکھ روپے دیئے گئے تو میں نے کہا کہ یہ کرپشن ہے ۔

میں ہائیکورٹ کے اندر قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر لگی دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ انکی آنکھوں میں آنسو آرہے ہیں۔کل سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرنیوالے آج بغلیں بجارہے ہیں۔ خدا کیلئے دنیا کو یہ نہ بتائیں کہ پاکستان کے لوگ پیسے لے کر ووت دیتے ہیں۔77ء کے الیکشن میں جتنی دھاندلی ہوئی تھی سب جانتے ہیں کہ بیلٹ بکس اور مخالف امیدوار تک اٹھا لئے گئے تھے۔لوگوں کو بتائیں کہ پاکستان کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے جمہوریت مغرب ، امریکا سے لی لیکن انکی سیاسی جماعتوں کے آئین کو ہم نے نہیں اپنایا۔ وہاں پارٹی سے ایک عرصے سے وابستہ رہنے والوں کو ٹکٹ دیتے ہیں۔

ان میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ وہاں پارٹیاں لیڈر پیدا کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں لیڈر پارٹیاں بناتے ہیں۔ ہمارے آئین میں طے ہے کہ پارلیمنٹ طے کریگی کہ کسی کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت کتنی ہوسکتی ہے۔ہمارے ہاں تعریف نہیں کی جاتی ، مخالف بھی اگر اچھا کام کرے تو اسکی تعریف کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں طبقاتی نفرت پھیلا دی گئی۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک سیاسی پارٹی چھوڑنے والا دوسری میں جاکر اسکا صدر بن جاتا ہے۔ دس سال تک ایک ورکر پر عہدہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ بیعت توڑنا حرام ہے۔ میاں نوازشریف نے قائداعظم کی جماعت کو زندہ رکھا ہے ۔ پیر پگاڑا نے بھی کہاتھا کہ ہم ہر قربانی کیلئے تیار ہیں لیکن مسلم لیگ کو ’’ ایک ‘‘ ہونا چاہیے۔ میرے والد نے کہا تھا کہ وکیل تو بن گئے ہو مسلم لیگ نہ چھوڑنا۔ میرے والدکی قبر پر بھی لکھا ہے مسلم لیگی۔

میاں محمود الرشید
(مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف )
یہ فیصلہ بہت پہلے آجانا چاہیے تھا ، جتنا پہلے آجاتا اتنا ہی بہتر ہوتا کیونکہ اتنی دیر بعد فیصلے آنے سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ کچھ کیسوں کی سماعت روزانہ ہورہی ہے اورکچھ کیسوں کی سالوں سے تاریخیں نہیں مل رہیں۔اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے ایوان صدر کے کردار کی بھی مذمت کی کہ ایوان صدر کو غیر سیاسی ہونا چاہیے۔ اب بھی اگرکوئی ایوان صدر کو سیاسی اکھاڑہ بنائیگا اور کسی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی کریگا تو غیر آئینی بات ہوگی۔ صدر کا منصب انتخاب کے بعد ریاست کے سربراہ کا ہے ۔ایجنسیوں کے کردار کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قراردیا ، آج بھی اگر ایجنسیاں سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوتی ہیں تو غلط ہے انکا بھی یہ کردار ختم ہونا چاہیے۔

جنہوں نے پیسے صدر کے کہنے پر بانٹے سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ یہ غلط تھا اور انکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جبکہ جن لوگوں کے بھی نام فہرست میں آتے ہیں انکی انویسٹی گیشن ہونی چاہیے۔ اگر وہ ایف آئی اے سے انویسٹی گیشن کروانا نہیں چاہتے تو سپریم کورٹ میں جائیں اور التجا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن)کو اب تک سپریم کورٹ سے رجوع کرلینا چاہیے تھا۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثارکو یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔کھلے دل سے تمام فریقوں کو فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ فیصلے کی اسپرٹ کے مطابق ملوث افرادکو بے نقاب کرکے حقائق لوگوں کے سامنے لائے جائیں تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرات نہ ہوسکے ا ور نہ نتائج تبدیل کئے جاسکیں۔

امیرالعظیم
(مرکزی رہنماجماعت اسلامی )
اصغرخان کیس پر پورے ملک میںاتفاق ہے کہ فیصلہ بہت اچھا ہے لیکن قوم اس فیصلہ کی برکتوں سے مستفید ہوتی بھی نظر آنی چاہیے۔ قابل تعریف بات ہے کہ اصغر خان اس کیس میںکھڑے رہے لیکن خود اصغر خان کو اپنے کیے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ ملک وقوم کے اندر تبدیلی جزوی طور پر نہیں آتی بلکہ تبدیلی ہمیشہ اخلاق اور اقدار سے آتی ہے۔ پاک فوج دنیا کی منفرد فورس ہے جو جذبہ ایمانی ان کے پاس ہے وہ کسی اورفوج میں نہیں ہے جبکہ ہماری سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ کمپنیوں کی طرح ہیں خاندانی پارٹیاں چل رہی ہیں بیٹا ،بیٹی اور بھائی آگے لائے جارہے ہیں اس طرح کی فضا میں فوج سے مطالبہ کریں کہ وہ ٹھیک ہوجائے کس طرح ہوسکتا ہے ۔جب اپنی مرضی کے جرنیلوں کو ترقی دیکر اوپر لایا جائیگا تو پھر یہی کچھ ہوگا۔سیاسی پارٹیاں اگر حقیقت میںا پنا رول اداکریں تو فوج خود بخود ٹھیک ہوجائیگی۔

ہمیں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرناہوگاکہ فوج جرنیل کی بجائے اجتماعی قیادت پر چلے گی۔ کوئی جرنیل اکیلا فیصلہ نہ کرے۔ مشرف اور ضیاء الحق گیارہ گیارہ سال تک مسلط رہے کسی نے چیلنج نہیں کیا،فوج کو بزنس اور ہاؤسنگ سوسائٹییوں کو چھوڑنا ہوگا اور ہمیں بھی جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع والے سسٹم کو ختم کرناہوگا لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ فوج کو یہ رول ملنا چاہیے کہ وہ دانا دشمنوں اور نادان دوستوں پر نظر رکھے ۔ پاکستان میں اس وقت ایک ایسی بھارتی لابی کام کررہی ہے جو ہمارے سیاستدانوں کو خریدنے کی پوری طاقت رکھتی ہے اسلئے فوج کا ایک رول رہنا چاہیے اور ہمیں اجتماعی سوچ اپنانی چاہیے۔
بریگیڈئیر (ر) محمد اسلم گھمن
( سابق کمانڈر آئی ایس آئی پنجاب وسیاسی تجزیہ نگار)
پاکستان کی فوج بہت محب وطن ہے خدارا میڈیا اور سیاستدان اپنے ملک کی فوج کو بدنام نہ کریں۔ انھوں نے کہاکہ امریکی صدر اوبامہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوج اور آئی ایس آئی کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے امریکہ نے خود پوری دنیامیں عقوبت خانے کھول رکھے ہیں اور وہاں کے معاملات میں مداخلت کررہاہے جبکہ ہمارے اداروں پر تنقید کررہا ہے۔ پاکستانی قوم بڑے فخر سے کہہ سکتی ہے کہ ملک کی فوج باقی ادارو ں سے زیادہ محب وطن ہے۔فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے سول حکومتی معاملات میں مداخلت فوج کا کام نہیں ہے۔ دو چار جرنیل غلط کام کرتے ہیں اور مارشل لاء لگاتے ہیں لیکن 99فیصد فوج اس طرح نہیں چاہتی۔

اصغر خان کیس کے فیصلہ سے بحیثیت پاکستانی سب کیلئے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عدالت نے کچھ باتیں خذف کردی ہیں۔دنیا بھرکی ایجنسیاں بیرون ملک اور اندورون ملک دشمن قوتوں سے نبٹنے کیلئے کام کرتی ہیں اگرپاکستان کی ایجنسیاں اپنے ملک کی حفاظت کیلئے کام کرتی ہیں تویہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے ۔آئی ایس آئی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ماضی میںایک پارٹی سربراہ نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل بنوایاتھا حالانکہ یہ ایجنسی کا کام نہیں ہے۔ میری میڈیا اور سیاست دانوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے ادارو ں کو بدنام نہ کریں دنیا میں کوئی ملک اپنے اداروں کو بدنام نہیں کرتا۔

ہمارے ہاں ایک رہنما کو قتل کیاگیا اور اسکی تفتیش اقوام متحدہ سے کرائی جارہی ہے یہ بڑی شرم کی بات ہے ۔حکومتیں آتی جاتی ہیں تکلیف دہ بات ہے کہ ہم اپنے پیارے ملک کو کرپشن کی نذر کررہے ہیں پاکستان اسلام اور ایک نظریہ کے تحت حاصل کیاگیا کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی بلکہ طاقت کا غلط استعمال بھی کرپشن کی زمرے میںآتاہے۔ اصغر خان کیس کافیصلہ اگر اس وقت ایک یادوسال کے اندر آجاتا تو ہم اس نہج پر نہ پہنچتے۔ فیصلہ جراتمندانہ ہے اس کے اثرات دیکھنے چاہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارہ کے کریش کے وقت سابق آرمی چیف اسلم بیگ کے پاس بہترین وقت تھا کہ وہ ٹیک اوورکرلیتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور جمہوریت کو چلنے دیا ۔ہمارے ہاں میر جعفر اور میر صادق پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ ایک وقت تھا جب امریکہ نے آئی ایس آئی کودنیا کی بہترین ایجنسی قرار دیاتھا آج وہ اسے دہشت گرد قرار دے رہے ہیں یہ سب کچھ مفادات کی گیم ہے ہمیں کسی کے مفاد کی خاطر اپنے ادارو ں کو بدنام نہیںکرنا چاہیے۔ پاکستان کا مستقبل بہت اچھا ہے اور اﷲ تعالی کسی بھی رہنما سے کام لے سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔