ذرا ٹھنڈے ہو جائیں‘ دکان چلتی رہنے دیں

نصرت جاوید  بدھ 7 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میرا یہ کالم آج جمعرات کو چھپا ہے۔

اس وقت تک آپ ہمارے ملک کے تمام بڑے دانشوروں کے ذریعے پوری طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ سپہ سالار جنرل کیانی نے اپنے ایک جامع مگر مختصر بیان کے ذریعے کس کو کیا پیغام دیا۔ اب پیغام دینے والے جانیں اور وہ لوگ جن تک اسے پہنچایا گیا ہے۔ بحیثیت ایک معمولی سے رپورٹر کے میں تو کسی کونے میں بیٹھ کر صرف دہی کھا سکتا ہوں اور یقین مانیے یہی کر بھی رہا ہوں۔ مگر یہ کہنے پر پھر بھی مجبور ہوں کہ میرے لیے یہ بیان قطعی حیران کن ثابت نہیں ہوا۔ کھچڑی بہت دنوں سے بڑی ہی دھیمی آنچ پر رکھی پکے جا رہی تھی۔ کچھ نہ کچھ تو سامنے آنا ہی تھا۔

بہت ساری باتوں سے قطع نظر جو ہمارے ہر وقت مستعد ہونے کے دعوے دار میڈیا سے چھپی ہوئی ہیں تھوڑا بہت ’’کھڑاک‘‘ سپریم کورٹ کے اس ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے بعد سے شروع ہوا جو اس نے اصغر خان کی جانب سے دائر کردہ ایک بہت پرانے مقدمے کے بارے میں بالآخر دے ہی دیا۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس بات کا اثبات کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 1990کے انتخابات کو یونس حبیب کے سرمائے، اسلم بیگ کی وطن پرست فرض شناسی اور اسد درانی کی شاندار مہارت کے ذریعے چرا لیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ انتخابات چرانے والا اس دنیا میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ جس کو لوٹا گیا تھا۔ وہ تو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کر دی گئیں۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ محترمہ کو درحقیقت کن لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے مار ڈالنے کا منصوبہ کب اور کہاں بنایا اور اس پر عملدرآمد کے لیے کونسے حربے استعمال کیے گئے۔ اصل ’’چور‘‘ اور اس کے ’’شکار‘‘ کی عدم موجودگی میں انصاف ملے تو کس کو ملے۔

اسی لیے تو میں نے اس کالم میں التجائیں شروع کر دی تھیں کہ ’’تاریخی فیصلے‘‘ کو مزید ’’تاریخی‘‘ بنانے کی خواہش اور کوشش تماشے تو ضرور لگا دے گی مگر حاصل کچھ بھی نہ ہو گا۔ ہمارے ٹی وی اینکروں کو مگر شام سات بجے سے رات 12 بجے تک اپنا دھندا چلانا ہوتا ہے۔ ریٹنگ لینی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہاہا کار مچی رہی۔ پہلے تو کوشش یہ ہوئی کہ کسی طرح آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی ’’شیر‘‘ بنے۔ ایف آئی اے کے انسپکٹر بھیج کر اسلم بیگ اور اسد درانی کو کسی سیف ہائوس میں لے جا کر ’’چھترول‘‘ کرے اور ان کے ’’اعترافی بیانات‘‘ کی روشنی میں یونس حبیب سے رقومات لینے والوں کو گرفتار کرے۔ ان سے ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ واپس لی جائے اور اس امر کا اہتمام بھی کہ ان جیسے بد دیانت آیندہ انتخابات میں حصہ نہ لے پائیں۔

آصف علی زرداری اور ان کی جماعت تو شیر نہ بن پائے البتہ بیگ صاحب اور جنرل درانی نے ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہو کر ’’کر لو جو کرنا ہے‘‘ پکارنا ضرور شروع کر دیا۔ دریں اثناء حمید گل صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ 1990 سے پہلے 1988 بھی تو ہوا تھا جس کے دوران انھوں نے دائیں بازو کے نظریاتی ووٹوں کو اکٹھا کر دینے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ ہمارے کچھ دور اندیش صحافیوں نے ماضی کے قضیوں میں اُلجھنے کے بجائے اپنی پوری توجہ موجودہ صدر پر مرکوز کر دی اور اس بات کی شدید تمنا کا اظہار بھی آصف علی زرداری کو آیندہ انتخاب کے لیے غلام اسحاق بنانے سے روکا جائے۔ بات وہیں تک محدود رہتی تو وقت ذرا سکون سے کٹ جاتا۔ مگر لاہورکی ریلوے اراضی کیس کے ضمن میں تین جرنیلوں کو احتساب والوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں طلب کر لیا۔ ان ریٹائرڈ جرنیلوں میں سے ایک صاحب نے ’’شٹ اپ یو ایڈیٹ‘‘ کہہ ڈالا اور رونق لگ گئی۔ جنرل کیانی کو ایک جامع مگر مختصر بیان کے ذریعے اس رونق کو ختم کرنا ہی تھا۔ اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔

میں اب بھی اس بات پر بضد ہوں کہ ہمارے ریاستی ستونوں کے اصل کرتا دھرتا اداروں کے درمیان تخت یا تختہ والے ڈرامے رچانا نہیں چاہتے۔ مگر وہ جو لاہور کی گلیوں والے ’’اونترے منڈے‘‘ ہیں وہ ان کو سکون سے اپنے اپنے دائروں میں محدود دیکھنا گوارا ہی نہیں کر رہے۔ طے کیے بیٹھے ہیں کہ رونق لگے اور گلشن کا کاروبار چلے۔ میڈیا پر اسٹار بنے چند ایسے ’’اونترے منڈوں‘‘ سے میری درد مندانہ التجا ہے کہ پانی کا ایک پورا گلاس سکون و اطمینان سے ختم کرنے کے بعد پل بھر کو ذرا یہ حقیقت بھی یاد کر لیں کہ ریاستی اداروں میں اگر واقعی تخت یا تختہ والی چپقلش شروع ہو جائے تو پہلا نقصان ہمیشہ میڈیا کا ہوا کرتا ہے۔ اس کی زبان بندی کے بعد ہی باہمی جنگ میں مصروف اشرافیہ اپنے اپنے حصے کو بقدر جثہ وصول کیا کرتی ہے۔ ذرا ٹھنڈے ہو جائیں۔ دکان چلتی رہنے دیں۔ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک لوگ آپ کا بھاشن سنتے ہیں۔ آپ کو اسٹار سمجھتے ہیں۔

سڑکوں اور دکانوں پر روک کر آپ کے ساتھ تصویریں کچھواتے ہیں۔ ٹی وی اسکرینوں پر آپ دو تین ماہ نظر نہ آئے تو لوگ بھول بھال جائیں گے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وحید مراد جیسے ایک زمانے میں ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ کہلائے جانے والے کا درد ناک انجام دیکھا ہوا ہے۔ اس جیسی تنہائی، اداسی اور ڈپریشن سے خدا کی پناہ مانگیں۔ اداروں کو اپنا کام کرنے دیں اور توجہ ذرا رپورٹنگ کی جانب زیادہ مبذول کر دیجیے۔ آج کے حالات و واقعات پر غور و فکر کرنے کے بعد فلسفیانہ موتی بکھیرنے والے بہت لوگ مل جائیں گے۔ ان کی کتابوں کا انتظار کیجیے۔

چلتے چلتے یہ بات بھی ضرور یاد دلانا چاہوں گا کہ آئین پاکستان میں صرف قرارداد مقاصد ہی شامل نہیں ہے۔ اس آئین کا مقصد صرف کٹر ترین ’’صادق اور امین‘‘ حضرات کو آرٹیکل 62 اور 63 کے ذریعے پارلیمان میں لانا بھی نہیں ہے۔ آپ کے ذہن پر اگر 20 کروڑ کی اس قوم کو مکمل طور پر پارسا بنانے کا جنون سوار ہو چکا ہے تو میں اس پر اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ مگر پارسائی کے جنون میں اگر آپ کسی ایک ادارے کو آرٹیکل 62 اور 3 6 والے ہتھوڑے کے بے دریغ استعمال کرنے پر مجبور کر دیں گے تو معاملات دوسری طرف چل پڑیں گے۔ ایک بہت بڑی آبادی والے ملک کو مکمل طور پر پارسا بنانا ایک طویل المدت حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے۔

اس کے لیے شارٹ کٹ نظر آنے والے راستے مکمل تباہی کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں۔ ذرا سوچ لیجیے۔ میری نسل والوں نے تو ایوب خان بھی دیکھا ہے، یحییٰ خان بھی۔ ضیاء الحق شہید کا ’’اسلام‘‘ بھی بھگتا اور جنرل مشرف کی روشن خیالی بھی۔ ان کے ادوار میں حرکت تیز اور سفر آہستہ آہستہ ہی رہا اور جب وہ چلے جایا کرتے تھے تو یہ جان کر مزید دُکھ ہوتا تھا کہ آہستہ آہستہ ہونے والا سفر بھی دائروں میں ہوتا رہا۔ کولہو کے بیل کی طرح ہم آنکھوں پر پٹی باندھ کر دائروں میں سفر کرنے کو اتنے بے چین کیوں رہا کرتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔