صاحبزادہ یعقوب خان

غلام محی الدین  جمعرات 25 فروری 2016
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

ہندی کی ایک کہاوت ہے کہ کسی سادھو فقیر نے ایک دروازے پر صدا لگائی۔ جو خاتون فقیر کو خیرات دینے دروازے پر آئی اس کی جسمانی حالت سے ظاہر تھا کہ اس کے ہاں اولاد ہونے والی ہے۔ خاتون نے بھیک سادھو کے کشکول میں ڈالتے ہوئے کہا ’’بابا آنے والے کے لیے ارادھنا (دعا) کرو، جس پر فقیر نے کہا۔

ماتا! گن ونت نہ جنیو، جنیو بھاگا ونت

بھاگا ونت کے دوار پر کھڑے رہیں گن ونت

اور وہاں سے آگے روانہ ہوگیا۔

گن ونت کے معنی ہیں گُنی، ماہر، ہُنر میں کمال رکھنے والا جب کہ بھاگا ونت سے مراد بھاگوان ہے، خوش بخت، مقدر کا دھنی جو مطلوبہ اہلیت کے بغیر دیگر طریقوں سے اعلیٰ ترین مقام پر جا پہنچا ہو۔ سادھو کا کہنا ہے کہ اے اماں! تو کوئی ماہر فن و ہنر پیدا نہ کرنا بلکہ وہ بچہ پیدا کرنا جو بھاگوان ہو کیونکہ جو بھاگوان ہوتا ہے گُنی، ماہرین فن اور ہنرمندوں کو اُن کے دروازے پر آنا پڑتا ہے۔

حالانکہ کاروبار دنیا تو انھی ماہرین، عالموں اور ہُنرمندوں کے دم قدم سے چلتا ہے۔ پرانے وقتوں میں بادشاہ، راجے، مہاراجے اور ان کے حواری اپنی اپنی سطح پر بھاگوان ہوا کرتے تھے۔ ان کی زبان سے جو نکل جائے وہی قانون تھا۔ لیکن انسانی تمدن نے علم و حکمت کو فائق مقام دلانے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے، تا کہ قانون، اصول اور ضابطے کی پابندی کے تصور کو برتری ملے۔ یوں حاکم کی مطلق العنان حیثیت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن یہ کشمکش اب بھی جاری ہے۔

طاقت اور اختیار رکھتے ہوئے اصول ضابطے کی پابندی زور آوروں کے لیے مشکل ہے، وہ کمزوروں کو مطیع اور فرمانبردار بنائے رکھنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بالادست طبقات نے جمہوری نظام کی ایسی زبردست ’’تربیت‘‘ کی ہے کہ اس کے بطن سے موروثی حکمرانی کا ناک نقشہ برآمد ہو رہا ہے۔ ایسا ماحول حکمرانوں میں ایک اور خصلت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ کمتر صلاحیتوں کے حامل افراد کو اہم ذمے داریاں سونپتے ہیں تا کہ ان سے بڑے قد کی کوئی شخصیت نظر نہ آئے حالانکہ ان کا اپنا قد کاٹھ بھی مصنوعی ہوتا ہے۔

احساس عدم تحفظ کا یہ عالم ہے کہ انتظامی سربراہ اہم ترین وزارتوں کی کارکردگی تو چاہتا ہے لیکن وزارت چلانے والے کو وزیر کا عہدہ عطا کرنے کو تیار نہیں۔ سو بات یہ ہے کہ پاکستان میں بونے بھاگوانوں کی ماتحتی میں قدآور شخصیات کے خدمات انجام دینے کا سلسلہ دراز ہے۔ پاکستان کے انھی گُن ونتوں میں ایک غیر معمولی شخصیت، طویل ترین عرصہ وزیر خارجہ رہنے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ محمد یعقوب خان تھے۔

جن کا گزشتہ دنوں 95 برس کی عمرمیں انتقال ہو گیا۔ پیرس، واشنگٹن اور ماسکو میں سفیر رہے اور ایسے وقت میں جب بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان مشکل میں تھا جسے آسان بنانے میں ان کا کردار غیر معمولی رہا۔ وزیر خارجہ تھے تو بھی دور پُر آشوب تھا لیکن عالمی سطح پر انھوں نے پاکستان کی نمایندگی کا حق ادا کیا۔

صاحبزادہ یعقوب ریاست رام پور کے شہزادے تھے۔ 1946ء میں تربیتی پروگرام پر واشنگٹن میں مقیم تھے وہیں ایک ضیافت میں ممتاز مُنجم جین ڈکسن سے ملاقات ہوئی۔ اس نے علم نجوم کی روشنی میں بتایا ’’برصغیر تقسیم ہو گا اور تم اِس سے الگ ہونیوالے نئے ملک میں ازسرنو زندگی شروع کرو گے۔‘‘ صاحبزادہ نے یہ بات ہنسی میں اڑا دی لیکن ایسا ہی ہوا۔ پاکستان بنا تو اپنے سب گھر والوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ ان کے بھائی کرنل (ر) صاحبزادہ یونس خان بھی بھارت ہی میں رہ گئے۔

سی آر گوپال کرشنا نامی ایک بھارتی دانشور نے ان دو بھائیوں پر Two Khans کے عنوان سے ایک فرضی کہانی بھی گھڑی تھی جس میں کشمیر کے محاذ پر بھارتی یونس خان کے ہاتھوں پاکستانی یعقوب خان کو مروا دیا تھا۔ کہانی کے آخری منظر میں یونس اپنے اعلٰی افسروں مانک شاء، جسبیر سنگھ، تھمایا وغیرہ کو مشن کی تکمیل کی خبر دینے آتا ہے، اُس کے چہرے پر کوئی تاسف نہیں اور ہیڈ کوارٹرز میں سب اُداس ہو جاتے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے اس ’’نوحے‘‘ کو لیپیری اور کولنز نے اپنی کتاب “Freedom at Mid night” میں بھی شامل کیا تھا۔  بہرحال بھارتی تخلیق کار کی خواہشات کے برعکس یونس خان جلد ریٹائر ہو گئے اور صاحبزادہ یعقوب جنرل کے عہد ے پر پہنچے اور بعدازاں سفارتکاری کی طویل اننگز کھیلی۔

ان کے ناقدین ان پر سب سے بڑا اعتراض 1971ء میں عین دورِ ابتلاء میں استعفیٰ دینے پر کرتے ہیں۔ صاحبزادہ یعقوب نے استعفیٰ اس لیے دیا کہ وہ فوجی آپریشن کے خلاف تھے اور پاکستانیوں پر گولی نہیں چلانا چاہتے تھے۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر انھیں نشانہ بنانیوالے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کی زبانیں مارشلاؤں اور فوجی آمریتوں کو  ملامت کرتے نہیں تھکتیں۔ صاحبزادہ نے استعفیٰ اُس وقت دیا جب سیاسی حل کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئیں اور جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ آنے سے صاف انکار کر دیا۔ صاحبزادہ کے خیال میں سیاسی حل میں ناکامی کا مطلب مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھا اور ان کا تجزیہ درست ثابت ہوا۔

ستمبر 1965ء کی جنگ پر بھی ان کی بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی تھی۔ صاحبزادہ یعقوب تب اسٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈر تھے۔ جب کشمیر میں آپریشن گرینڈ سلام شروع ہوا تو سیکریٹری خارجہ عزیز احمد وار کورس کے شرکاء سے خطاب کے لیے اسٹاف کالج آئے تا کہ انھیں باور کرایا جائے کہ پاکستان کشمیر میں کامیاب ہو گا اور جنگ بین الاقوامی سرحد تک نہیں پھیلے گی۔ کرنل شوکت رضا نے (بعد میں میجر جنرل) پوچھا کہ اس تجزیئے کی بُنیاد کیا ہے؟ عزیز احمد کے دلائل فوجی نقطہء نظر سے بچگانہ تھے۔ اس شام جنرل یعقوب  نے کرنل شوکت رضا سے اتفاق کرتے ہوئے ان الفاظ میں تبصرہ کیا تھا ’’اگر اگلے 48 گھنٹوں میں پاکستان پر حملہ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ دہلی میں دنیا کا احمق ترین شخص بیٹھا ہے۔ اور پھر بالکل ایسا ہی ہوا۔

یہی میجر جنرل شوکت رضا 1971ء میں بحرانی دور میں بنگال میں ایک ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ وہ بھی فوجی آپریشن کو تباہ کُن قرار دیتے تھے۔ پہلے جنرل نیازی نے ان کے زیر کمان دو بریگیڈ ان سے لے لیے۔ پھر انھی کے علاقے میں  ایک سول افسر کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تو واقعے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی مزاحمت شروع ہو گئی اور جنرل نیازی کی جانب سے اس کی پُشت پناہی کے شواہد سامنے آنے لگے جس پر جنرل رضا نے اپنا استعفٰے جی ایچ کیو بھجوا دیا اور مغربی پاکستان چلے آئے۔ یہ واقعات حمودالرحمٰن کمیشن کے ریکارڈ پر ہیں۔

فوجی کمانڈروں کی حکم عدولی کوئی بہت انوکھی بات نہیں۔ مئی 1757ء میں روس، جرمن (سلطنت پروشیا) کے درمیان زورن ڈروف کا معرکہ سات برس جاری رہا ۔ روسی کمانڈر ولیم فرامور 43 ہزار کے لشکر اور 136 توپوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا جس کے مقابلے میں جرمنی کے شاہ فریڈرک دوئم کا 35 ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکر تھا جسے 193 توپوں کی مدد حاصل تھی۔

اس خونریز لڑائی میں جرمن رسالے (گُھڑ سوار فوج) کا ایک افسر جنرل فریڈرچ ولیم وان سیڈ لٹز بھی تھا۔ سپریم کمانڈر شاہ فریڈرک نے میدان جنگ میں تین مرتبہ سیڈلیٹز کو  روسی توپ خانے کیسامنے پیش قدمی کا حکم دیا۔ لیکن اس نے تینوں مرتبہ صاف انکار کر دیا۔ اپنے بادشاہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے اس کا جواب انتہائی دلچسپ تھا۔

اس نے کہا ’’جنگ اختتام کو پہنچ جائے تو شہنشاہ معظم میرے سر کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں، لیکن کیا وہ اتنا کرم فرمائیں گے کہ جنگ کے دوران مجھے اپنا سر استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔‘‘ سیڈلٹز کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ 1914ء میں احکامات کے باوجود فرنچ جنرل مارشل لوئی ہوبرٹ گونزالیو لیاٹی نے مراکو پر قبضہ ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس پر ڈی گال نے کہا تھا ’’اعلیٰ کردار کی حامل باعمل شخصیات کے لیے اکثر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ تر مقاصد کے لیے نظم و ضبط سے روگردانی کر گزریں۔‘‘

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں کور کمانڈر کی حیثیت سے اپنی تقرری کے بعد دنیا کی 9 اہم زبانوںکے ماہر جنرل یعقوب نے دسویں زبان، بنگالی سیکھی۔ وہ بنگالیوں کی بات براہ راست سمجھنا چاہتے تھے لیکن انھیں عمل کی آزادی حاصل نہ تھی۔ یکم مارچ 1971ء کو انھوں نے ایڈمرل احسن سے گورنر مشرقی پاکستان کا چارج لیا اور یہ کوشش شروع کر دی کہ صدر یحییٰ سیاسی حل کو یقینی بنائیں۔ کچھ عرصہ انھوں نے انتظار بھی کیا کہ اگر صدر سیاسی حل پر راضی ہو جائیں تو وہ استعفیٰ واپس لے لیں گے۔

لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جنرل یحییٰ نے بطور سزا ان کی تنزلی کر کے انھیں میجر جنرل بنا دیا تھا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اپنی ضد کے باوصف انھوں نے خود کو اور ملک کو کیسی مذلت اور پستی میں دھکیل دیا۔ بعد میں بھٹو نے ان کا آخری فوجی رینک بحال کر دیا تھا۔ اس ملک سے محبت کرنیوالوں، اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کو آخری حدوں تک آزمانے والوں کے ساتھ عہد کے جبر نے ہمیشہ اس شعر جیسا برتاؤ کیا ہے  ؎

ہم کبھی شمشیر جوہر دار تھے لیکن ہمیں

دست ناہنجار میں تلوار ہونا تھا، ہوئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔