زورداری سے زرداری تک

جاوید قاضی  ہفتہ 27 فروری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جہاں ایسا تھا کہ خود رہنے والوں کے حواس باختہ ہوگئے، خبر کہاں سے چلی کدھر کو رکی، کچھ پتا نہیں۔ اور پھر تردیدوں کا معاملہ شروع ہوا کہ ہم نے تو کہا ہی نہیں۔ ہم نے تو جنرل راحیل پر قصیدے کہے ہی نہیں، ہم تو زوردار بیان دینے کے قائل ہیں کہ ہم بھٹوؤں کی شہادتوں کا تسلسل ہیں۔

ہم گھر گھر میں بھٹو ہیں اور پھر زیردار بیان خاکی وردی کے سائے تلے سے چور بیان کچھ اس طرح سے اپنا کام کرگیا کہ سول ملٹرے میں جو نیا توازن بنا تھا اس کو مزید کمزور کرتے ہوئے ایک اور منزل پہ لے آیا۔ میاں صاحب کل جس دھرنے کا ڈی چوک پر سامنا کر رہے تھے اس میں پیپلز پارٹی بھی شانہ بشانہ تھی۔ آج دھرنا لگانے والوں کی خیر  اڑائی ہوئی گرد تو بیٹھ گئی ہیں مگر ہوائیں تیز ہیں اور اوپر بادل منڈلانے کے بعد مسلسل گرج رہے ہیں۔

ان تیز ہواؤں میں چارٹر آف ڈیموکریسی کا معاہدہ کسی کٹی پتنگ کی مانند رہ گیا اور بات رہی جاکے اس امر پر کہ ’’آخری شب کے ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے‘‘ کہاں گئی جمہوریت کی ریل گاڑی اور کہاں رہی پٹری ، پاکستان کی تاریخ کا دماغ گھما دینے والا کیس جو ڈاکٹر عاصم پر بالآخر نیب نے داخل کر ہی دیا ، لگ بھگ ساڑھے چار سو ارب۔ عذیر بلوچ کے کیس میں بالآخر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا رینجرز کے دفتر یاترا کرتے ہوئے اپنا بیان رقم کروا گئے۔

جو کام اب کے بار نہیں کر رہا ہے وہ کل تک ڈی چوک پر دھرنا کر رہا تھا۔ حکمران جو کل  مشرف پر غداری کا مقدمہ چلا رہے تھے پھر یوں بھی ہوا کہ جنرل راحیل کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر سیر سپاٹے کر رہے تھے۔ اب کون کہے کہ جن پہ ہمیں ناز تھا آج وہی پتے ہوا دینے لگے۔پاکستان میں بنیادی تضاد جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کا ہے اور پھر اسی حوالہ  سے اسی کے تسلسل میں ہے ۔ وفاق اور اس کی اکائیوں میں اتحاد اور اسی اتحاد میں تضاد۔ اور پھر خود ان اکائیوں میں بھی لسانی رنگ تو خود مذہبی حوالے سے بھی ایک جدا رنگ وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ تضاد بھی اپنا بٹوارہ اسی بنیادی جمہوری وغیر جمہوری تضاد میں کرتا ہے۔

تاریخ کی کروٹ دیکھئے کہ جمہوریت کے کارواں کی قیادت پنجاب سے خود ایک  بڑا سرمایہ دار کر رہا ہے ۔ اس جدوجہد میں عوام کی حالت تو تبدیل نہ ہوئی ان بزر جمہروں کی  تبدیل ہوگئی۔ سندھ سے بھی اس وقت جمہوری قوتوں کی جو قیادت کر رہا ہے اس  بھاری اثاثے ملک سے باہر تو خود لگ بھگ ایک لاکھ ایکڑ وہ شوگر ملیں اب کے بار ان کی جاگیر میں آئی ہیں۔ ایسی جمہوری قوت تو خدا دے کسی غیر جمہوری قوت کے نصیب میں۔ جمہوریت جب عوام کو کچھ دے نہ سکی تو پھر یہ لوگ بے چارے آپ جیسی پامردی کی سوچ تھوڑی رکھتے ہیں کہ جمہوریت کتنی بھی بدتر ہو بہترین آمریت سے بھی بہتر ہوتی ہے۔

ان اونچے خاندانوں میں صرف ذوالفقار علی بھٹو تھا جو غیور تھا جو کوئے یار سے نکلا تو سوئے دار چلا  ۔ پھر بے نظیر تھی کہ پتا تھا پاکستان آنا مقتل سے گزر کے ہوگا ، کسی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ، تو کیا ؟  وہ  شعلہ نوائی کرتی ہوئی جاں سے گزر گئیں۔ اور اب ہیں زرداری صاحب اس تاریخ کے امین مگر خیانت کر بیٹھے۔ وہ بھرم توڑ بیٹھے۔

آپ کتنی بھی تردیدیں کریں مگر آپ کے پنجاب اسمبلی میں ایک ممبر منظور وٹو صاحب کے بیٹے نے ایک قرارداد ایوان میں ڈال دی کہ جنرل راحیل کی میعاد  بڑھائی جائے اور تاریخ کے انداز تو دیکھیے کہ  رانا ثنا اللہ کہہ رہے ہیں یہ قرارداد غیر آئینی ہے۔ اس پاکستان میں کیا کچھ نہیں ملتا دیکھنے کو۔ وفاقی حکمران جمہوری قوت تو ہیں مگر سیکولر نہیں اور کون انہیں سمجھائے کہ جمہوریت خود سیکولر سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ کبھی آپ جرأت نہ کرتے طالبان پر وار کرنے کی۔ یہ جرأت کوئی مانے نہ مانے جنرل راحیل کی قیادت میں پاک افواج نے کی۔ جنرل راحیل نے اس لحاظ سے امریکا وغیرہ میں اپنی اہمیت منوائی۔

تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھیے کہ زرداری صاحب کی پارٹی ٹھہری سیکولر پارٹی، لیکن جب رسم چلی کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے تو آپ نے دو سال قبل، 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں خانہ کعبہ کے کفیل کو مدعو کیا اور پہلی بار اس شہیدوں کے قبرستان کے اطراف نعرہ تکبیر کے نعرے سنے گئے۔ شکار پور و جیکب آباد میں امام بارگاہوں پر حملے ہوئے ۔ نہ آپ گئے نہ آپ کی ہمشیرہ فریال گئیں نہ آپ کے فرزند ارجمند بلاول گئے۔

اور تو اور ایک بھی اجتماع یا جلسہ انتہا پرستی کے خلاف ان علاقوں میں آپ نہ کروا سکے۔یہ سارے کام سندھ کی سول سوسائٹی کے کندھے پر تھے ۔ اسکول اجڑتے رہے۔اسپتالیں دیمک زدہ ہوتی رہیں مگر جمہوریت کے پاسداروں کی تجوریاں بھرتی رہیں۔انھوں نے عذیز بلوچ کو بھرتی کیا بحیثیت پاسبان جمہوریت کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور اب جب لینے کے بعد دینے کے زمانے آئے وہاں جمہوریت کی پاسداری کی ذمے داری اہل سندھ پر۔

اس پورے تذبذب میں  زرداری صاحب اس الجھن کا شکار رہے کہ کیا کریں؟ زیر لگائیں زبر لگائیں۔ یہ تھی وہ بات جو ان کو بے نظیر کے سامنے بہت کمزور کرتی ہے ۔ اور ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ بھٹو اب تاریخ ہوئے کہ یہ پہلے تو عتاب میں پابند سلاسل رہتے تھے مگراس بار ان کا اعصابی نظام جواب دیا گیا اور عتاب کے ڈر کی کیفیت سے گھبرا گئے۔ یوں کہیے کہ ’’ہم تو ہیں جمہوریت کے عاشق مگر، عاشقی کے انجام سے گھبرا گئے۔‘‘

فیض صاحب کی کلیات میں کچھ حکمت آمیز اشعار کے  دلکش تراجم بھی ہیں۔ ان میں سے ایک اس طرح ہے :

میری جاں تجھ کو بتلاؤں کیا

بہت نازک یہ نکتہ ہے

بدل جاتا ہے انساں

جب مکاں اس کا بدلتا ہے

ہماری اشرافیہ، جس کا ذکر میں نے پچھلے مضمون میں تفصیل سے کیا تھا، آج اس اشرافیہ میں سے یہ جمہوری قیادت، غیر جمہوری قوتوں کو بالآخر دعوت دے رہی ہے کہ  ہم نالائقوں پر ذرا سا ہولا ہاتھ رکھیے اور آپ لیجیے ہم سے اس ملک کی باگ ڈور اور پھر یہ اشرافیہ گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلے گی کہ پھر سے لائن بحال ہو، اور پھر جب جائے گی آمریت تو پھر یہی اشرافیہ جمہوری قوت بن جائے گی۔

کیا تماشا ہے کہ یہ اقتدار میں آتے ہیں تو کرپشن کرتے ہیں، ان سے بیورو کریسی کرواتی ہے اور یہ اس کے دم چھلے بن جاتے ہیں۔ پھر عوام سے کٹ جاتے ہیں اور اس طرح خود ہی محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اقتدار میں سے نکالنا اس طرح ہے جیسے آٹے میں سے بال۔ اب تک جب بھی شب خون ہوا ایک بھی قطرہ خون کا نہیں بہا۔

آپ موصوف کا سابقہ بیان کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے خود غیر ضروری تھا، اور آپ پکڑے گئے کہ آپ پی ایچ ڈی نہیں بلکہ میٹرک فیل ہیں ، یہ سن کر منہ کے بل گرے، لیکن کیا کرتے جو اتنا تنگ جو کیا تھا ذوالفقار مرزا نے اپنے بیانوں سے۔ مرزا نے یہی سلوک اس سے پہلے الطاف حسین کے ساتھ کیا کہ بالآخر اب وہ اپنی تقاریر میں عجیب وغریب حقائق پر مدلل باتیں کرنے لگے ہیں۔

فلک کج رفتار کہتا ہے کہ زرداری صاحب نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، یہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سقوط جمہوریت ہے۔ لیکن مجھے دکھ نہیں کہ میری جمہوریت کے لیے جدوجہد اور صاف و شفاف ہوئی۔ ضرورت پاکستان کی اشرافیہ سے اب جان چھڑانا ہے۔ یہ اشرافیہ اور اس اشرافیہ کے پاس جمہوریت کی قیادت خود جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔