کالا باغ ڈیم کی تعمیر… ابھی نہیں تو کبھی نہیں (آخری قسط)

رحمت علی رازی  اتوار 28 فروری 2016

یہ وطنِ عزیز کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے اربابِ سیاست نے صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مادرِ وطن سے بیوفائی کا رویہ اپنا رکھا ہے۔ ملکی اور ملی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہماری سیاسی زندگی میں اس طرح نمایاں   ہے کہ ہم نے حق و باطل میں فرق کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

کالا باغ ڈیم جیسا ٹھوس اور قابلِ عمل منصوبہ اگر بروقت پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہوتا تو آج ہم معاشی دنیا کے ارفع پائیدان پر براجمان ہوتے۔ فنی اور تکنیکی اعتبار سے ماہرین نے جب بھی اس کا جائزہ لیا تو کسی علاقہ یا طبقہ کے لیے نقصان کا کوئی پہلو اُنکی نظر میں نہیں آیا لیکن چند سیاسی طبقات اور ملک دشمن قوتوں نے اس کے خلاف بے بنیاد محاذ کھڑا کر کے ملک کو نہ صرف بے انتہا نقصان پہنچایا بلکہ اس کی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑا بند باندھ دیا۔ صوبائی تعصب کی بنیاد پر اپنی اپنی دکانداری چمکانے والے مفاد پرستوں کے پاس اس عظیم منصوبہ کے خلاف کوئی ٹھوس بنیاد ہر گز نہیں ہے بلکہ انھوں نے بے بنیاد نعروں کی بنیاد پر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے۔

زراعت کے لیے پانی اور صنعت کے لیے بجلی جسم میں روح کی مانند ہیں۔ ہم خدا کے عطا کردہ ان دونوں وسائل کو بے دردی سے ضایع کر کے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی انتہائی ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مفاد پرست عناصر کی ہٹ دھرمی سے ملک کے پانچوں صوبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن چونکہ اس منصوبے کی لوکیشن پنجاب ہے اس لیے اس کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے اور ملک کے مجموعی مفاد کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

وقت اس اَمر کا شدید متقاضی ہے کہ پانی اور بجلی بحران کو حل کرنے کے لیے جامع پروگرامز تشکیل دیے جائیں جس میں کالا باغ ڈیم کو اولین ترجیح حاصل ہو۔ خوش قسمتی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں قدرت بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ اس طرح کہ ڈیم کی تعمیر کی جگہ کے تین اطراف میں مضبوط اور بلند و بالا دیواریں قدرتی طور پر موجود ہیں‘ صرف ایک دیوار تعمیر کرنے سے ڈیم 6.1 سے 7.1 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تیار ہو گا۔

پاکستان میں ہر سال برسات کے دنوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوتی ہے‘ اس سیلابی پانی کو نہ صرف اس ڈیم میں محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ سیلابی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم کالا باغ ڈیم بنانے میں کامیاب ہو گئے تو ہماری لاکھوں ایکڑ بنجر زمین نہ صرف قابلِ کاشت بنائی جا سکتی ہیں بلکہ اس طرح ہم خوراک کی درآمد میں خرچ ہونے والا سالانہ اربوں روپیہ بھی بچا سکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے ذریعے نہ صرف سستی بجلی پیدا ہو گی بلکہ تیل کی درآمد میں بھی کمی آئیگی جو ملکی معیشت کو چاٹ رہی ہے‘ لوڈشیڈنگ کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے ثمرات یہیں ختم نہیں ہونگے بلکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے تالا بند صنعتی یونٹ، کارخانے اور ملیں بھی چالو ہو جائینگی اور ساتھ ہی بیروزگاری و مہنگائی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

اس کے لیے بھارت کو پاکستانی دریاؤں پر مزید ڈیم بنانے سے فوری روکنا ہو گا کیونکہ خدشہ ہے اگر پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ یونہی جاری و ساری رہا تو پاکستان کی مزید ہزاروں لاکھوں ایکڑ اراضی مستقبل قریب میں بنجر ہو جائے گی۔ ماہرین کی رائے میں کالاباغ ڈیم نہ بنا تو ہمارے دریاؤں کا پانی سمندر میں جا کر بدستور ضایع ہوتا رہیگا اور اگلے دس پندرہ سالوں میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہو جائے گا اور زراعت تباہی سے دوچار ہو جائے گی‘ ایسی صورتحال میں ملک میں یقینا ایتھوپیا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی اقتصادیات واٹر بیس ہے‘ ابھی تک ہمیں کچھ حد تک خوراک اپنی زراعت سے مل رہی ہے، کچھ عرصہ پہلے سوویت یونین کے ٹوٹنے کیوجہ بھی اس کے پاس اپنی خوراک کا نہ ہونا تھا۔ کالاباغ ڈیم سے دراصل پاکستان کے صوبوں کے بہت بڑے معاشی مفادات وابستہ ہیں اور یہ کئی سالوں سے قومی سطح پر موجود پاکستان کی معاشی بقاء کا واحد بڑا منصوبہ ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت پاکستان کی معیشت کے خلاف بین الاقوامی ہندو یہودی سازش ہے جسکا حصہ بن کر ملک دشمن عناصر اپنے ہی معاشی گلستاں کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔

ایک جنرل نے ہمیں بتایا کہ پاکستان کے ازلی اور مکار دشمن کی دوست پارٹی سے جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں اگر اپنی غربت مٹانے کے لیے معقول رقم دیدی جائے تو ہم اس کی تعمیر کی مخالفت نہیں کرینگے‘ اسی طرح سندھ کی قوم پرست تانگہ پارٹیوں نے بھی اپنا حصہ لے کر خاموش رہنے کا عندیہ دیا۔ امریکی تھنک ٹینک اور یہود و ہنود اسی خوف سے پاکستان کو توڑنے کے درپے ہیں کہ کہیں پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے قدرتی و آبی وسائل سے فائدہ اٹھا کر مسلم اور ایشیائی دنیا کا ہیرو نہ بن جائے‘ اس کے سدِراہ کے طور پر ان طاغوتی طاقتوں نے پاکستان کے اندر اپنے وظیفہ خوار سیاسی پنڈت متحرک کر رکھے ہیں۔

کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف بغاوت کی حد تک جانیوالوں میں اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے بزرگوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی یا وہ حضرات ہیں جن کا موقف ہے کہ اگر وہ اُس وقت موجود ہوتے تو پاکستان کے قیام کی بھرپور مخالفت کرتے، اب کچھ کم فہم حضرات بھی ان کے شاملِ حال ہو گئے ہیں۔ اس گناہ کے سب سے پہلے ذمے دار ذوالفقار علی بھٹو ہیں جنھوں نے جنرل ایوب کے اس اہم ترین معاشی منصوبہ کو کوئی اہمیت نہ دی۔

پیپلزپارٹی کے سنجیدہ طبقہ نے بھی اپنی سیاسی ضرورت اور صوبائی کارڈ کے تحت ڈیم کی علیٰ الاعلان مخالفت کی اور پھر اس کے رہنما بڑھ چڑھ کر سندھی قوم پرستوں کی زبان بولنے لگے۔ بینظیر کی طرف سے بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت خود ان کا سیاسی تضاد تھا‘ ان کی حکومت میں اس وقت کے وزیر بجلی و پانی فاروق لغاری نے کالا باغ ڈیم کے ساتھ انڈس ویلی ڈویلپمنٹ اس کیم تیار کی تھی جسے بینظیر کی حمایت حاصل تھی۔

بعدازاں محترمہ بھی عددی افراط و تفریط میں غلطاں ہو کر یہ تو جیہہ ظاہر کرنے لگیں کہ کالا باغ ڈیم سے منرل واٹر کی قیمت پر پانی ملے گا حالانکہ اس ڈیم سے ایک بوتل منرل واٹر کی قیمت میں 20 ہزار بوتل پانی ملتا اور اس حساب سے 50 سال میں 540 کھرب روپے کے منرل واٹر کے برابر اور 1500 ارب روپے کی بجلی مہیا ہوتی جب کہ پراجیکٹ کی لاگت صرف 250 ارب روپے لگائی گئی تھی۔ اس سے کالا باغ ڈیم کے کثیرالمعاشی فائدے کے ساتھ ساتھ محترمہ کی سیاسی موقع پرستی واضح تھی۔

پنجاب کے پیپلزپارٹی کے قائدین پاکستان کی اقتصادی و زرعی ضروریات کے حوالے سے کالا باغ ڈیم کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں تاہم اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت کے نکتہ نظر کے برخلاف کوئی بات کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ صوبائی سیاست کے کمالات ملاحظہ فرمائیے کہ وہ لب و لہجہ جس سے جماعت اسلامی جیسی قومی و ملی پارٹی مکمل طور پر ناآشنا تھی وہ ان کے اندازِ گفتگو سے بھی نمایاں ہونے لگا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ایک اخباری بیان منسوب ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’خیبرپختونخوا حکومت کسی صورت کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیگی‘ یہ ڈیم ہماری غیرت کے لیے چیلنج ہے‘ یہ ہماری تباہی کا منصوبہ ہے‘ ہم جلد عوام کو منظم کرنے کے لیے صوبائی آل پارٹیز کانفرنس طلب کرینگے‘‘۔

اے این پی کے صدر اسفند یار ولی (جو آجکل پاک چین راہداری منصوبے کو بھی کالا باغ ڈیم بنا دینے کی دھمکیوں پر کمربستہ ہیں) کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے ’’پنجاب کالا باغ ڈیم اور پاکستان دونوں میں سے کسی ایک کو چُن لے‘‘۔ سرحد میں اُردوئے معلیٰ بولنے والے اس خاندان کی پنجاب اور پاکستان کے خلاف معاندانہ روش اور متعصبانہ لب و لہجہ اس کی دیرینہ سیاسی روایت رہی ہے۔

اسفندیار ولی نے جب بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں زبان کھولی، زہر آلود پھول ہی گرائے۔ ان کے لہجے میں ان کے والد خان عبدالولی خان کی جھلک نمایاں ہوتی ہے‘ ایک بار انھوں نے گدھے پر لدی چوڑیوں پر ایک ڈنڈا مارنے کے بارے میں پشتو کی ایک کہاوت سنائی کہ ’’اگر دوسرا ڈنڈا بھی مار دیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا‘‘۔ ولی خان بھی 1970ء سے یہ کہاوت سناتے چلے آ رہے تھے۔

انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا گیا تو اے این پی 1940ء کی لاہور کی قرارداد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیگی‘ ان کے بزرگوں نے تحریکِ پاکستان کی کھل کر مخالفت کی تھی‘ وہ پاکستان کی مخالفت کرنے کا سیاسی فائدہ کانگریس سے حاصل کرتے تھے‘ سرحدی گاندھی باچہ خان کو بھارتی حکومت نے سونے میں تولا تھا‘ انھوں نے پاکستان کے بجائے افغانستان میں دفن ہونے کو ترجیح دی تھی‘ پھر پختونستان کے شوشے پر روس سے سیاسی مفادات اٹھاتے رہے۔

افغانستان میں روس کی شکست کے بعد نفاذِ شریعت بِل 1999ء کی مخالفت کر کے امریکا سے بھی سیاسی مفادات اٹھائے‘ اب کالا باغ ڈیم کے معاشی منصوبے کی مخالفت کر کے بھارت سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ایک دور میں مولانا فضل الرحمن اور سرحد اسمبلی نے کالا باغ ڈیم کی بھرپور حمایت کی تھی کیونکہ اس سے ڈیرہ اسماعیل خان کا چار لاکھ ایکڑ کا بہت بڑا بارانی رقبہ آبپاشی میں آ جاتا لیکن اپنے ذاتی مفادات کے پیشِ نظر آج وہ بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ایم ایم اے کی قیادت قومی مفادات کے بجائے علاقائی اور ذاتی مفادات کا زیادہ خیال رکھتی ہے چنانچہ یہ فرمان بھی مولانا فضل الرحمن کا ہے کہ کالاباغ ڈیم کو گن پوائنٹ پر بنایا گیا تو قومی سلامتی کے لیے زبردست خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے محمود خان اچکزئی جو متبسم لب و لہجے میں تلخ باتیں دلنشین انداز میں کہہ جاتے ہیں اور ہمیشہ پاکستان کی سالمیت و خوشحالی کی بات کرتے ہیں‘ افسوس کہ انھوں نے بھی پنجاب کی مخالفت میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت بڑے شدید انداز میں کی ہے۔

مشرف دورِ حکومت میں الطاف حسین کی جانب سے واضح یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم کے ووٹروں میں یہ تاثر مضبوط ہو گیا کہ حکومت کالا باغ ڈیم کے مسئلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو اس خوشی میں نائن زیرو پر لڈوؤں کے ٹوکرے لٹائے گئے اور ڈھول کی تھاپ پر جشن منایا گیا‘ یہ صورتحال صرف پرویز مشرف کے ایک صحیح فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ سندھ میں کالا باغ ڈیم کے بدترین مخالف قادر مگسی اور ان کے جیسے دیگر قوم پرست بھی ہیں، ان ہی کی طرح کے کچھ اصحاب کی رائے کے مطابق پنجاب کو سندھ کے ساتھ شامل ہو کر مرکز کی مخالفت کرنی چاہیے اور یوں فیڈریشن کو بچانے کے لیے کالاباغ ڈیم کا راستہ روکنا چاہیے۔

یہاں ہم عرض کر دیں کہ فیڈریشن آف پاکستان ایسی شاخِ نازک نہیں جو بادِسموم کے ہلکے سے جھونکے سے ٹوٹ جائے گی‘ یہ ان شاء اللہ تاابد قائم رہے گی تاہم پنجاب اور فوج کو ایک چیز نہ سمجھا جائے۔ جمہوریت کے قیام اور سیاسی اداروں کے استحکام کے لیے پنجاب نے ہمیشہ ہراول دستے کا کام دیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اقتدار کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے والے سیاستدان پنجاب میں بھی موجود ہیں۔ تاریخِ پاکستان کا ایک ایک ورق اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ بڑا بھائی بن کر دکھایا ہے مگر چھوٹے بھائیوں نے ہمیشہ دستِ نگر رہنے کے بجائے خودکفیل بننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔

پنجاب نے پاکستان کے مفاد کو اپنے صوبائی مفاد پر ہمیشہ ترجیح دی۔ اب تو پرویز مشرف نے غالباً پہلی مرتبہ نواز شریف کا نام لے کر کہا ہے کہ 1991ء میں انھوں نے پنجاب کے حصے کا بہت سا پانی سندھ کو دیکر وہاں کی زمینوں کو سیراب کیا۔ پنجاب ہی طرح کے عوام دوسرے صوبوں میں بھی بستے ہیں مگر محب ِوطن عوام کسی صوبے میں بھی متحد نہیں۔ یوں کوتاہ نظر اور علاقائی سوچ والی سیاست سے تعلق رکھنے والوں کی موج لگی ہوئی ہے۔ پنجاب کا اجمال کچھ ایسا ہے کہ اس نے اپنے ساتھ بَیر رکھنے والوں کا بھی سدا ساتھ دیا۔

علاقائی تعصب کی سیاست کرنیوالوں نے ہمیشہ ’’اینٹی پنجاب کارڈ‘‘ کا استعمال کیا۔ پنجاب کے ساتھ جو ہوا وہی متحدہ ہندوستان کے ساتھ ہوا۔ چندرگپت موریہ اور پھر مغل حملہ آور اور اس کے بعد تاجِ برطانیہ کی ہندوستان پر گرفت اس وقت ممکن ہوئی جب پنجاب ان کے قبضہ میں آ گیا۔ آج بھی پنجاب اور پاکستان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت جسے پنجاب کے عوام کی حمایت کے بغیر برسراقتدار آنا ممکن نہیں‘ ایک ایسے ڈیم کی کڑیاں پنجاب سے جوڑ کر اس کی مخالفت کرتی آئی ہے جو پانی کے ایک بڑے ذخیرے کی صورت میں پورے ملک کا اجتماعی اثاثہ ہو گا۔ کالا باغ ڈیم مسئلہ کو گورنر سرحد جنرل فضل حق نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے ضیاء الحق کے خلاف استعمال کیا۔

اس سے پہلے کالا باغ ڈیم کی سروے ’’فزیبیلٹی ڈیزائن کنسٹرکشن ڈاکومنٹ‘‘ اور ورلڈ بینک کی منظوری تک کہیں کوئی ایشو نہیں اٹھا تھا۔ سرحد سے مخالفت کے بعد سندھ میں جئے سندھ گروپ نے بھی اس ایشو کو اپنایا اور وہاں سے سیاسی مخالفت زور شور سے چل پڑی۔ میاں نواز شریف کے گزشتہ جمہوری دور میں اس پر چاروں صوبوں کا اتفاقِ رائے ہو چکا تھا‘ بعد کے ادوارِ اقتدار میں یہ منصوبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ پرویز مشرف نے اپنی پسپائی کو بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کی کیونکہ بھاشا ڈیم پر زلزلے کے بعد تکنیکی شبہات بہت زیادہ بڑھ گئے تھے۔ ویسے بھی یہ منصوبہ 2016-18ء سے قبل بہرصورت تکمیل پذیر نہیں ہو سکتا تھا جس کی آڑ میں پرویز مشرف اپنے ناجائز آمرانہ اقتدار کو مزید دس بارہ سال عوام پر مسلط رکھنا چاہتے تھے۔

گاہے مشرف نے کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم پورے اتفاقِ رائے سے بنائینگے جس کی انھوں نے کوشش تک نہ کی، حالانکہ یہ اتفاقِ رائے تو ان کے لیے مشکل نہ تھا۔ جنرل مشرف نے بالآخر بھاشا ڈیم کو اولیت دینے کا اعلان کر کے کالا باغ ڈیم کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اس اعلان سے قبل تین مہینے تک وہ کالا باغ ڈیم کی فوری ضرورت و اہمیت کے حق میں مضبوط دلائل اور بیانات دیتے رہے۔

وہ کالا باغ ڈیم کو تکنیکی مسئلہ کہتے رہے‘ انھوں نے خود اس کی تکنیکی کمیٹی قائم کی اور مخالفین کو کالاباغ ڈیم کے موافق بنانے کی ذمے داری بھی خود لینے کا اعلان کیا‘ اس حد تک کہ کالا باغ ڈیم نہ بنانے کو ملک سے غداری اور سندھ کی خودکشی قرار دیا، اس طرح قوم کے لیے ایک اقتصادی اور معاشی ترقی کے منصوبے کی تعمیر کے فیصلے میں مشرف کی جرنیلی جمہوریت بری طرح ناکام ہوئی۔ بھاشا ڈیم اور کٹزرہ ڈیم کو کالا باغ ڈیم کے خلاف صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جب کہ تکنیکی طور پر ماروی میمن کے والد سے موسوم ’’سینیٹر نثارمیمن کمیٹی‘‘ کے چاروں صوبوں کے 8 ممبران میںسے 7 نے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر اور اس کے بعد بھاشا ڈیم کی سفارش کی تھی لیکن کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر نثار میمن اس کی مخالفت میں اس اقلیتی نقطہ نگاہ کے حامل رہے۔

جس سے کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو سیاسی فائدہ ہوا‘ یوں اکثریت کی ماہرانہ رائے ناکامی کی نذر ہو گئی۔ بعینہٖ کٹزرہ ڈیم بھی 35 سال سے قبل تعمیر ہی نہیں ہو سکتا تھا لیکن اسے بھی کالا باغ ڈیم کو رکوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دوسرے ڈیموں کے نام لے لے کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے توجہ ہٹانا مقصود ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ عہدہ کے حامل سرکاری ملازم غلام اسحق خان جنھیں بعد میں سیاسی حیثیت ملی اور وہ ملک کے صدر بھی بن گئے، تعصب پھیلانے والوں میں وہ بھی ہیں۔

ان کی تعصبانہ سوچ اور چند خارجی قوتوں نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا یوں کہ سرحد میں کینیڈا کی مدد سے وارسک میں ڈیم اور بجلی گھر بن گیا‘ اس منصوبہ کی تکمیل سے مقامی آبادی کو فوائد عیاں ہو گئے‘ پھر اس وقت کے واپڈا کے چیف نے ایوب خان سے تربیلا کے حق میں فیصلہ لے لیا حالانکہ رپورٹ میں کالاباغ ڈیم بہت فوائد کا حامل اور موزوں ترین ڈیم بتایا گیا تھا اور اس کی اولین وقت میں تعمیر کا مشورہ بھی تھا‘ تربیلا کو ایک ناموزوں منصوبہ کہا گیا تھا مگر واپڈا چیف نے تعصب سے کام لے کر فیصلہ تربیلا کے حق میں کروایا جو آج کل ’’سلٹ‘‘ سے بھر رہا ہے۔

پھر بھٹو کے 1973ء کے آئین پر دستخطوں کا وقت آ گیا‘ وہ اسے ایک متفقہ دستاویز بنانا چاہتے تھے۔ ولی خان مرحوم نے یہ شرط رکھی کہ آئین میں شق ڈالی جائے کہ جس صوبہ میں آبی ذخائر پر ڈیم اور بجلی گھر بنے اس صوبے کو اس کی رائلٹی دی جائے۔ یوں آئین کی شق 161 وجود میں آئی‘ حالانکہ دنیا کے کسی خطہ میں صدیوں سے آبی گزرگاہوں میں بہنے والے پانی پر رائلٹی نہیں ہوتی، یہ تو صرف معدنی ذخائر کے دریافت ہونے پر رائلٹی مل سکتی ہے، یہ ہتھیار کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ کالا باغ ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کر کے ’’کیری اوور ڈیم‘‘ کا شوشہ بھی ایک سازش ہے جس سے سارا فائدہ صرف سندھ کو  ہو گا۔

خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان پانی کے لیے ترستے رہیں گے جب کہ ’’واٹر اکارڈ‘‘ کے تحت سندھ، پنجاب 37,37 فیصد اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان 14 اور 12 فیصد بالترتیب حصے کے حقدار ہیں۔ اس طرح کیری اوور ڈیم بھی سندھ کے سوائے کوئی قبول نہیں کریگا نہ ہی بن سکے گا۔ بھاشا ڈیم کی بھی ابھی الف و ب ہی شروع ہوئی ہے اور ویسے بھی وہ کالا باغ ڈیم کا بدل ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی سائٹ زلزلوں کے خطے میں ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرانے والی لابی پاکستان اور چین کا زمینی راستہ ختم کرانا چاہتی ہے۔

ڈیم جب بنے گا تو بنے گا مگر شارعِ ریشم تو 125 کلومیٹر ختم ہو جائے گی اور اس کا متبادل 340 کلومیٹر جب قابلِ عمل ہو گا تب تک تو دشمن جانے کیا سے کیا کر جائے۔ جنرل ایوب کے بعد آنیوالی کوئی بھی جرنیلی حکومت ملک میں ڈیم تو کیا ایک ندی نالہ تک نہ بنا سکی۔ کالا باغ تو دُور کی بات بھاشا اور دیگر اعلان کردہ ڈیم بھی صرف کمیٹیوں اور فائلوں کی حد تک محدود رہے‘ حتیٰ کہ دریائے سندھ پر قدرت نے ہمیں جو 10 لارج ڈیم سائٹس دی ہیں ان کا معاملہ بھی آج تک دھرے کا دھرا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی معاشی ترقی کے منصوبے کی تعمیر رکوانے کے لیے ’’را‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ کا کردار مسلمہ حقیقت ہے۔

جہاں اس سے پاکستان کی معیشت کمزور اور مسلسل دباؤ میں رہتی ہے وہاں بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بہانے ہاتھ آئے ہوئے ہیں جس کا بھرپور استعمال کر کے اس نے ہمارے دریاؤں پر کئی اسٹوریج تعمیر کر لیے ہیں۔ وہ ہمارا پانی ہضم کر گیا اور ہمارے اعتراض کا یہ جواب دیتا ہے کہ پاکستان خود اپنے دریاؤں سے 30 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ سمندر میں ضایع کرتا ہے تو اسے بھارت کو روکنے کا کیا حق ہے۔ سندھ طاس معاہدہ میں پاکستان کے پانی کے حقوق کی غیر مبہم انداز میں وضاحت کرائی گئی ہے۔

اس سمجھوتے کے تحت قائم ہونے والے انفراسٹرکچر کی مالیت 60 سے 70 ارب ڈالر ہے لیکن اس انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال صوبوں کی ذمے داری ہے جواسے پورا نہیں کر رہے۔ نہروں کی خستہ حالت کے باعث پانی ضایع ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان اہم اثاثوں کے تحفظ اور ان کی دیکھ بھال و مرمت کے لیے فوری طور پر اقدامات کریں۔ پاکستان کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔

انڈیا ہمارے مغربی دریاؤں اور دریائے سندھ کا پانی چوری کر کے اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھا رہا ہے اور صریحاً سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر کے اپنے ڈیم وسائل کو ترقی دے رہا ہے مگر ہمارے حکمران پیہم مجرمانہ غفلت کے موئے پیچاں میں بندھے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے ڈھانچہ پر ہم اتنی رقم خرچ نہیں کر رہے جتنی دشمن ممالک اسے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ نوکر شاہی کا پانیوں کی ترقی کے لیے کبھی قابلِ تعریف کردار نہیں رہا اور وہ محض نام نہاد مفادات کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتی چلی آ رہی ہے۔

انڈیا دریائے جہلم اور چناب کا پانی روک رہا ہے لیکن ہم کثیر رقم خرچ کر کے منگلا ڈیم کو مچھلیاں پالنے کی جھیل بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اب بھارت نے عالمی سطح پر یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے کہ پاکستان سالانہ اوسطاً34 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک رہا ہے اور اسے پانی کی کوئی ضرورت نہیں لہٰذا بھارت دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم بنانے کا حق رکھتا ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پاکستان کو تربیلا اور منگلا کی تیزی سے گھٹتی عمر کے پیشِ نظر 12 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ ذخیرہ کرنے کے لیے فوری طور پر نئے ڈیم بنانے چاہییں‘ ہمارے پاس 55 ہزار میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے تیار منصوبے موجود ہیں۔

اس کے علاوہ کل ایک لاکھ میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی ہے۔ پاکستان اس وقت صرف 30 فیصد بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے جب کہ اس کے پاس گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے پاکستان کو کالا باغ ڈیم سمیت دوسرے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے‘ وقت بڑی تیزی سے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے‘ اب ہمارے پاس کھونے کے لیے مزید کچھ نہیں بچا‘ اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ خواب ِ غفلت سے جاگ کر ملکی توانائی کی قلت کو ختم کرنے کے لیے جلد از جلد کالاباغ ڈیم سمیت اہم آبی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں‘ ان میں مزید تاخیر ملک کو معاشی و اقتصادی لحاظ سے مکمل مفلوج کرنے کے مترادف ہو گی۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی سیاسی نہیں معاشی ضرورت ہے۔

اس ضرورت کو جتنی جلدی ممکن ہو پورا کیا جانا چاہیے۔ ہم پاکستانیوں نے کالا باغ ڈیم پر بہت عرصہ سیاست کر کے دیکھ لی‘ وقت آ گیا ہے کہ اقتصادی راہداری کے شانہ بہ شانہ اب ہم کالاباغ ڈیم پر معیشت استوار کر کے دیکھ لیں۔ اگر بروقت پانی کے بڑے ذخائر تعمیر نہ کیے گئے تو ہمارے اردگرد جتنی تیزی سے موسمی تغیرات جنم لے رہے ہیں اس سے پاکستان کو شدید پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے، ان ذخائر میں کالا باغ ڈیم سب سے اہم اور بڑا پانی کا ذخیرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

خطرہ یہ ہے کہ اگر اب بھی ہم نے معاشی ترجیحات کو سامنے رکھ کر نہ سوچا تو نہ صرف ہماری رہی سہی زراعت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا بلکہ زراعت سے جڑی ہوئی سب سے بڑی صنعت (ٹیکسٹائل انڈسٹری) اپنی باقی ماندہ حیثیت بھی کھو دیگی جسکے نتیجہ میں بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا، برآمدات کو نقصان ہو گا اور پاکستان ترقی کی جملہ راہ کھوٹی کر بیٹھے گا۔ اگر واقعی حکمران اس کی تعمیر میں سنجیدہ ہیں اور اسے ملک کی تقدیر کی کنجی سمجھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ تمام صوبوں کے عالمی شہرت کے حامل انجینئروں اور معترض پارٹیوں کو یکجا کریںاور ان سے ہونے والے ڈائیلاگ کو میڈیا کے ذریعے براہِ راست عوام کو دکھائیں‘ عوام جو فیصلہ کریں اس پر فوری عمل کروایا جائے تو مخالفین قوم کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری اگر خطے کے لیے ’’گیم چینجر‘‘ ہے تو کالا باغ ڈیم پاکستان کے لیے ’’فیوچر چینجر‘‘ ہے‘ سو لازم ہے کہ اسے سی پیک کے ہم پلہ قرار دیکر نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کی نگرانی بھی پاک فوج کی سپردگی میں دیدی جائے‘ یہی وقت ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے‘ یہ قومی منصوبہ اگر اب عملی قالب میں نہ ڈھل سکا تو پھر کبھی بھی شرمندۂ حق نہ ہو پائیگا۔ مصلحت کا تقاضا ہے کہ اس عظیم تر قومی مفاد میں علاقائی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچا جائے‘ کالا باغ ڈیم ایک قابلِ عمل معاشی منصوبہ ہے‘ اس کی تعمیر اور آبی ذخائر کے تحفظ ہی میں پاکستانی قوم کی مجموعی خوشحالی، ترقی اور خودانحصاری کی منزل کا راز پنہاں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔