انتظار حسین اور فاطمہ ثریا بجیا کی رخصتی

نسیم انجم  اتوار 28 فروری 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں اردو ادب کا بڑا نام انتظار حسین انتقال کر گئے، فاطمہ ثریا بجیا بھی چند روز قبل اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔ دونوں شخصیات اپنے اپنے شعبوں میں اپنے کام کے حوالے سے بے حد مقبول تھے۔ انتظار حسین نے 2 فروری 2016 کو اس دنیائے آب و گل سے رخت سفر باندھا، وہ فکشن کا اہم ستون تھے، تنقیدی مضامین اور انگریزی و اردو کے کالموں کے حوالے سے ان کی ایک علیحدہ شناخت تھی، وہ ادبی کاموں کے حوالے سے ایک ادارے کا درجہ رکھتے تھے، ’’آج‘‘ اور ’’کل‘‘ بھی ادب کے طالب علم ان کی تحریروں سے استفادہ کریںگے۔

انتظار حسین کا نام ناول نگاری اور افسانوی ادب کے اعتبار سے بے حد شہرت کا حامل ہے، انھوں نے لکھنے کی ابتدا قیام پاکستان سے قبل کی، ان کا ایک افسانہ بیرم کاربوسیٹ کو مجلس ترقی اردو نے 1958 کا بہترین افسانہ قرار دیا تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ 1953 میں اور 1971 کے المیہ پر ’’شہر افسوس‘‘ شایع ہوا، انتظار حسین کے ناولوں کو اردو ادب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، ان کے تینوں ناول ’’بستی‘‘ ، ’’تذکرہ‘‘ ، ’’آگے سمندر ہے‘‘ نے قارئین کے دلوں کو جیت لیا، ان کی کتاب ’’چراغوں کا دھواں‘‘ کو بے حد پسند کیا گیا۔ ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں لاہور کے ادبا و شعرا اور تنقید نگاروں کے بارے میں خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ انتظارحسین کا ناول ’’بستی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی ناولوں کے ترجمے بھی کیے تھے۔

انتظار حسین کے افسانوں کی خاصیت زبان کی سادگی اور روانی ہے، اسی لیے ابلاغ کا مسئلہ پیش نہیں آتا ہے، ان کا انداز بیاں بے حد موثر اور اسلوب جاذب نظر ہے، اپنے افسانوں اور ناولوں میں انھوں نے اسلامی تاریخ کے حوالوں، دیومالائی قصوں اور ہجرت کے کرب کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ سمویا ہے، چوں کہ انھوں نے یوپی سے ہجرت کرکے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے روتی اور سسکتی انسانیت کو دیکھا تھا۔

وہ غم اور مصائب برداشت کیے تھے جو مہاجرین کے حصے میں آئے لہٰذا ان کے افسانوں میں ماضی کا دکھ رچا بسا ہے، انھیں اپنا لڑکپن، گلی کوچے شدت سے یاد آتے ہیں، انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں اس کرب کو بیان کیا ہے جو انھیں تقسیم ہندوستان کی بدولت ملا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں اپنے دوست احباب، عزیز و اقارب کا ذکر بھی دکھ کے ساتھ کرتے ہیں ’’کٹا ہوا ڈبا‘‘، ’’پسماندگان‘‘ اور ’’اجودھیا‘‘ جیسے افسانوں میں یہ دکھ شدت کے ساتھ ابھرتا ہے۔

انتظار حسین کی کتابوں کی تعداد چالیس تھی، ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں ’’مین بوکر پرائز‘‘ کے لیے 2013 میں نامزد کیا گیا تھا جو یقیناً بڑے اعزاز کی بات تھی۔ وہ فرانسیسی انعام کے بھی حق دار ٹھہرے، اس کے علاوہ کمال فن اور ستارہ امتیاز جیسے ایوارڈ بھی ان کے مقدر کا حصہ بنے، انھیں شوکت صدیقی اور بانو قدسیہ کے ساتھ اے آر وائی کا انعام بھی ملا تھا۔

وہ بے حد نرم خو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے، تقریباً ہر سال ’’اردو کانفرنس‘‘ آرٹس کونسل میں تشریف لایا کرتے تھے، ان سے کئی بار ملاقات کا شرف ہمیں بھی حاصل رہا۔ وہ افق کے اس پار چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ ان کی یادوں کے چراغوں کو روشن کرنے کے لیے مختلف انجمنوں میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اسی حوالے سے پچھلے ہفتے پریس کلب میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ صدارت انور سن رائے کی تھی۔ مہمان خصوصی راقم السطور اور نظامت مجید رحمانی، تشکر کے کلمات صحافی زیب اذکار نے ادا کیے، انتظار حسین کے علم و فن کے حوالے سے گفتگو کی۔

انتظار حسین کی ادبی امور پر روشنی ڈالنے کے لیے کئی مقررین موجود تھے، جہانگیر سید، شہناز پروین اور اقبال خورشید نے مضامین نذر سامعین کیے، جب کہ سلیم صدیقی نے قدوس مرزا کے مضمون کا ترجمہ کیا تھا۔ انھوں نے ٹھہرے ہوئے انداز میں ترجمہ پڑھ کر سنایا جو بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے۔ عمران پیرزادہ نے بے حد خوبصورت اور مدلل انداز میں اپنا مختصر مضمون پڑھا، جو سب کو پسند آیا۔

جہانگیر سید کا مضمون بھی اپنے اندر انفرادیت سمیٹے ہوئے تھا۔ شہناز پروین نے کہاکہ انتظار حسین ناول اور افسانوں کے حوالے سے ہمارے درمیان میں موجود ہیں، نیز ان کا ایک واضح مقصد تھا۔ اقبال خورشید کا مضمون ہندی الفاظ کی آمیزش سے مزین تھا، انھوں نے کہاکہ اگر کہانی نہیں تو انتظار حسین بھی نہیں۔

مجید رحمانی بھی نظامت کے دوران انتظار حسین سے عقیدت و محبت اور ان کی تخلیقیت کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے، راقم الحروف نے بھی اپنا مختصر مضمون پڑھا۔ انور سن رائے نے اپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ جو کچھ انتظار حسین نے دیا وہ دنیائے ادب سے قریب ہے، اس پر ناز کرسکتے ہیں، بڑی بات ہے کہ میں نے انھیں دیکھا اور ان کے زمانے میں انھیں پڑھا، وہ ترقی پسند تھے بھی اور نہیں بھی۔

فاطمہ ثریا بجیا ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے اہم ترین نام ہے۔ وہ ایک بااخلاق نیک سیرت خاتون قلمکار تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں ساری عمر قلم رہا اور وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے افراد کے لیے دلچسپ اور سماجی حقائق سے پر ڈرامے پیش کرتی رہیں۔ بجیا کے ڈرامے ’’الف لیلیٰ‘‘ کی داستانوں سے قطعی مختلف تھے، ان کی تحریریں جو ڈراموں کی شکل میں تھیں بے حد پسند کی جاتی تھیں، بچے بوڑھے ہر شخص اس وقت ٹی وی کے گرد جمع ہوجاتے، جب کسی سیریل کی قسط اسکرین پر دکھائی جارہی ہوتی۔

فاطمہ ثریابجا نے بہت سے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل بھی کی تھی، جن میں افشاں، عروسہ، تصویر، انا، آگہی، آبگینے، تاریخ و تمثیل، ایک گھر ایک نگر، فرض ایک قرض، جیسے ڈرامے لکھے تھے جو زبیدہ خاتون اور اے آر خاتون کے ناولوں سے ماخوذ تھے۔ پہلا طویل دورانیہ کا ڈراما ’مہمان‘ تھا، وہ بے حد محنتی اور اپنے فن سے محبت کرنے والی کامیاب ڈراما نگار تھیں۔

اگر میں ماضی کے دھندلکوں سے یادوں کے جگنوؤں کو تلاش کروں تو مجھے کئی نام یاد آتے ہیں، ان ہی میں ایک نام فاطمہ ثریا بجیا کا بھی ہے، ان دنوں بجیا کے نام کا طوطی بول رہا تھا اور میں نے لکھنے کی ابتدا کی تھی، کچھ افسانے خواجہ حمید الدین شاہد کے پرچے ’’سب رس‘‘ میں شایع ہوچکے تھے اور اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں میں باقاعدگی سے لکھ رہی تھی، کچھ مخلص لوگوں کے مشورے سے میری پہلی کتاب ’’دھوپ چھاؤں‘‘ منظر عام پر آئی اور اس پر مقدمہ بجیا نے لکھا۔

بجیا سے میری بارہا ملاقاتیں، تقریبات کے مواقعوں پر ہوئیں، انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی میری تحریروں کی تعریف کرکے کی، جب میرا ناول ’’نرک‘‘ آیا تو انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہاکہ یہ تمہارا ناول بہت اچھا ہے، اسے تو ٹی وی پر آنا چاہیے۔ اس کے بعد ان سے جب ملاقات ہوتی تو وہ ناول کی تعریف کرتیں اور اپنے گھر مدعو کرتیں کہ تم آؤ تو میں تمہاری فلاں صاحب سے ملاقات کروادوں گی، لیکن وائے نصیب میرا جانا نہ ہوسکا۔ یکم ستمبر 1930 میں وہ حیدرآباد انڈیا میں پیدا ہوئیں اور فروری 2016 میں وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

فاطمہ ثریا بجیا نے 1960 میں پی ٹی وی جوائن کیا تھا، ابتدا میں انھیں اداکاری کرنے کا بھی موقع آغا ناصر کے ڈرامے میں ملا، شاندار ڈرامے لکھنے کے نتیجے میں انھیں سب سے بڑا سول ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا، اسی طرح جاپان سے بھی ان کے تخلیقی و تعمیری کاموں پر سول ایوارڈ دیا گیا۔

سب سے بڑا ایوارڈ ان کے چاہنے والوں کی محبتیں اور قدر دانی تھی، وہ بے حد مخلص اور سادہ مزاج تھیں۔ غرور، تکبر سے دور بہت دور، وہ ڈگری یافتہ نہیں تھیں لیکن اپنے حسن اخلاق کی بدولت اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات پر بھاری تھیں۔ سید عفت حسن رضوی نے بجیا کی آپ بیتی ’’آپ کی بجیا‘‘ کے نام سے 2012 میں لکھی تھی۔ کراچی میں ان کی زندگی کا سورج غروب ہوگیا۔ اﷲ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔