کچھ دن خودکش بم باروں کے ساتھ

ندیم سبحان  اتوار 28 فروری 2016
ناروے کے صحافی اور فلم ساز پال ریفسدال کی پُرخطر مہم کی کہانی ۔  فوٹو : فائل

ناروے کے صحافی اور فلم ساز پال ریفسدال کی پُرخطر مہم کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

20 مئی 2015ء کو ناروے سے تعلق رکھنے والا صحافی اور فلم ساز پال ریفسدال شورش زدہ شام کے شمالی صوبے حلب میں موجود تھا، جب اچانک دھماکے کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ کیمرا ہاتھوں میں تھامے وہ بڑی سرعت سے سفید منی بس میں سوار ہوگیا، جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر جبہۃ النصرہ (نصرہ فرنٹ) کا ایک جنگ جو براجمان تھا (واضح رہے کہ جبہۃ النصرہ شام میں القاعدہ کا اتحادی گروپ ہے)۔ تین میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بس تواما کے قصبے میں پہنچی۔

جبہۃ النصرہ کے جنگ جوؤں کی ہم راہی میں ریفسدال نے دھماکے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کا جائزہ لیا۔ ریفسدال ان مناظر کی عکس بندی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ دھماکے میں امریکی اور اتحادی طیاروں نے قصبے میں ایک اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ریفسدال کی بنائی ہوئی فوٹیج میں نصرہ فرنٹ کے جنگ جو اپنے ’بھائیوں‘ کے اوپر سے ملبہ ہٹانے کی جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس دوران ایک سویلین، جس کی داڑھی مونچھ نہیں ہے، کیمرے کی طرف منہ کرکے طیش کے عالم میں کہتا ہے کہ اس حملے میں عام شہریوں اور ان کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اچانک النصرہ فرنٹ کا ایک جنگ جو اس کی بات قطع کرتے ہوئے کیمرے کے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے،’’برادر! حوصلے سے کام لو۔ یہاں عام شہریوں کے علاوہ ایک فوجی اڈا بھی موجود ہے۔ انھیں سچ بتائو۔ وہ بتائو جو پیش آیا ہے۔‘‘ اپنی گفت گو کے اختتام پر جنگ جو یہ بات تسلیم کرلیتا ہے کہ فضائی حملے کا ہدف نصرہ فرنٹ کا اڈا تھا۔ سویلین اور النصرہ فرنٹ کے جنگ جو کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ریفسدال کے لیے القاعدہ کے رُکن کا یہ پیغام سمجھنا مشکل نہیں تھا:’’جو چاہو عکس بند کرو، ہم کوئی پروپیگنڈا نہیں کریں گے۔‘‘

ریفسدال کے لیے یہ بات بڑی حیران کُن تھی کہ القاعدہ کے اتحادی گروپ نے ایک مغربی صحافی کو سینسر کی شرط لگائے بغیر اپنے جنگ جوؤں کی عکس بندی کرنے کی کُھلی اجازت دے دی تھی اور کسی مرحلے پر انھوں نے اس اجازت کو محدود کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ریفسدال کی تازہ دستاویزی فلم Dugma: The Button جنگ جوؤں کی اسی ’مہربانی‘ کا نتیجہ ہے جو دورحاضر کے تنازعات سے جُڑے چند خود کش بم باروں کے شب و روز سے پردہ اٹھاتی ہے (یہ فلم آئندہ ماہ چار یورپی ممالک میں ٹیلی ویژن پر نشر کی جائے گی)

ریفسدال کا کہنا تھا کہ دورے کے اختتام پر النصرہ فرنٹ کے جنگ جوؤں کے گروپ نے عکس بند کیے گئے مناظر میں قطع و بُرید نہیں کی۔ البتہ ان کی درخواست پر اس نے کچھ جنگ جوؤں یا ان کی رہائش گاہوں کے بیرونی مناظر کو عکس بند کرنے سے گریز کیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان فوٹیجز سے ان کے دشمنوں کو ان کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں علم ہو۔

باون سالہ ریفسدال آزاد صحافی ہے جو گذشتہ تین عشروں سے جنگ زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کررہا ہے۔ قبل ازیں وہ میانمار، سری لنکا، نکاراگوا، اور کوسوو میں باغی گروپوں کے ساتھ وقت گزار چکا ہے۔ ’’تکمہ‘‘ کی عکس بندی کے لیے ریفسدال نے شام کے دو دورے کیے۔ دسمبر 2014ء اور پھر مئی تا جون 2015ء کے دوران عکس بند کی گئی یہ دستاویزی فلم القاعدہ سے جُڑے دو خودکش بم باروں ابوباصر البرتنی اور ابو قصوریٰ المکی کے شب و روز کا احاطہ کرتی ہے، جو شام میں صدر بشارالاسد کی آمرانہ حکومت سے برسرپیکار ہیں۔ 26 سالہ ابوباصر البرتنی نومسلم ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے وہ لوکاس کنی تھا، جس کی رہائش مغربی لندن میں تھی۔ دوسرا خودکش بم بار 32 سالہ ابوقصویٰ المکی سعودی شہری ہے۔

ریفسدال نے النصرہ فرنٹ کے جنگ جوؤں کے ساتھ مجموعی طور پر چھے ہفتے گزارے۔ اس کی کاوش ناظرین کو دونوں خودکش بم باروں کو بہت قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے جو اپنے عقائد، افکاروخیالات اور خواہشات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں پتا چلتا ہے کہ المکی کو گائیگی کا شوق ہے اور کھانے میں اسے تلا ہوا مُرغ پسند ہے؛ نیز یہ کہ البرتنی کی شادی کچھ عرصہ قبل ہی انجام پائی ہے اور شہادت کے بارے میں اس کے خیالات بدلنے لگے ہیں۔ اس کی شریک حیات امید سے ہے اور وہ اپنی بیوی اور بچے کو تنہا چھوڑ جانے کے خیال سے اداس ہے۔ دستاویزی فلم میں یہ متوقع خودکش بم بار ایک پیچیدہ مگر ہم درد انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

امریکا اور یورپ النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد تنظیم گردانتے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس معقول جواز بھی موجود ہیں۔ النصرہ فرنٹ کے جنگ جوؤں نے بشارالاسد کی فوجوں سے برسرپیکار رہنے کے ساتھ ساتھ غیرملکیوں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں۔ انھوں نے 13 یونانی راہبائوں اور امن کی بحالی کے لیے کام کرنے والے فجی کے ادارے کے 45 اہل کاروں کو اغوا کیا، چار لبنانی فوجیوں کو پھانسی دی، اور دو سال امریکی صحافی تھیو پیڈنوس کو قید میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کی رہائی اگست 2014ء میں عمل میں آئی تھی۔ نومبر 2015ء میں النصرہ فرنٹ کے ترجمان اور حامیوں نے بیروت اور پیرس میں ہونے والے حملوں کو سراہا جن میں 170 سے زاید ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ریفسدال کے لیے ادلب، حلب اور الاذقیہ کے جنگ زدہ شہروں میں النصرہ فرنٹ کے ساتھ وقت گزارنے کا امکان 2013ء میں اس وقت پیدا ہوا جب وہ مراکشی جہادی گروپ حرکت شام الاسلام کے اراکین کے ساتھ الاذقیہ میں تھا۔ یہ جہادی گروپ گوانتاناموبے سے رہا ہونے والے تین قیدیوں نے تشکیل دیا تھا۔ شام میں قیام کے دوران ریفسدال سوچنے لگا تھا کہ کیا اسے النصرہ فرنٹ کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل پائے گا جو بااثر ترین جہادی گروپوں میں سے ایک ہے۔

ریفسدال کو قوی امید تھی کہ وہ اپنے ارادے میں کام یاب ہوجائے گا۔ یہ سوچنے کا اس کے پاس معقول جواز موجود تھا۔ مئی 2011ء میں امریکی فوجیوں نے پاکستان میں واقع اسامہ بن لادن کی محفوظ رہائش گاہ پر ہلہ بول دیا تھا۔ اس حملے میں القاعدہ کا راہ نما ہلاک ہوگیا تھا۔ آپریشن کے اختتام پر امریکی فوجی اسامہ کی پناہ گاہ سے جو دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے ان میں القاعدہ کے امریکی ترجمان آدم یحیٰ غدن کی جانب سے کسی نامعلوم شخص کو لکھا گیا خط بھی شامل تھا۔

اس خط میں غدن نے (جو گذشتہ برس امریکی حملے میں مارا گیا تھا) ایک درجن سے زاید صحافیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ القاعدہ کو ان کے ساتھ تعاون شروع کردینا چاہیے۔ ان صحافیوں میں سے ایک نام ریفسدال کا تھا۔ ریفسدال 2009ء میں افغان جنگ پر دستاویزی فلم کی تیاری کے دوران طالبان کے ساتھ وقت گزار چکا تھا۔ خط میں ریفسدال کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا تھا،’’ناروے کا وہ صحافی جس نے طالبان کے ساتھ (افغانستان میں) وقت گزارا تھا اور ایک فلم بھی بنائی تھی جسے مغرب نے ناپسند کیا تھا، کیوں کہ اس (صحافی) نے دکھایا تھا کہ طالبان بھی انسان ہیں، ان کے بیوی بچے اور اہل خانہ ہیں، اور وہ باقی انسانوں ہی کی طرح ہنستے مسکراتے اور کھاتے پیتے ہیں۔‘‘

ریفسدال نے اس خط کے بارے میں سُن رکھا تھا جو 2012ء میں انٹرنیٹ کے ذریعے منظرعام پر آیا تھا۔ ریفسدال نے النصرہ فرنٹ کے رابطوں کی تلاش شروع کردی تھی۔ بالآخر دسمبر 2013ء میں اپنے ترجمان کے ذریعے الاذقیہ میں اس کی رسائی گروپ کے ایک کمانڈر تک ہوگئی۔ کمانڈر نے ریفسدال کے ترجمان سے کہا کہ وہ موسم بہار میں ان کا مہمان بن سکتا ہے۔ اپریل 2014ء میں النصرہ فرنٹ کے الاذقیہ میں قائم میڈیا آفس نے ریفسدال سے کچھ معلومات طلب کیں۔ جواباً ریفسدال نے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی تفاصیل ارسال کرتے ہوئے النصرہ فرنٹ کے جنگ جوؤں کے ساتھ وقت گزارنے کی

اجازت چاہنے کی وجہ بیان کی اور یہ بھی بتایا کہ دستاویزی فلم میں وہ کیا پیش کرنا چاہتا ہے۔ ریفسدال اس بات کا ذکر کرنا نہیں بُھولا تھا کہ وہ ناروے کی فوج میں خدمات انجام دے چکا ہے۔ طویل تجربے کی بنیاد پر وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جنگ جوؤں سے دروغ گوئی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

جولائی 2014ء میں النصرہ فرنٹ نے ریفسدال کی درخواست قبول کرتے ہوئے اسے جنگ جوؤں کے شب و روز عکس بند کرنے کی اجازت دے دی۔ دورۂ شام اور دستاویزی فلم کی عکس بندی کے لیے ریفسدال نارویجن فلم انسٹیٹیوٹ سے فنڈز حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا تھا۔ اس انسٹیٹیوٹ کا انتظام و انصرام وزارت ثقافت اور آزادی اظہار کی حامی ایک نجی تنظیم چلاتی ہے ( باوجود کوشش کے ریفسدال کسی ٹیلی ویژن چینل کو اس منصوبے کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے راضی نہیں کرسکا تھا۔ لیکن جب فلم کی عکس بندی مکمل ہوگئی تو پھر اسے برطانوی، جرمن، اور ڈینش ٹی وی اسٹیشنوں نے ایڈیٹنگ اور پروڈکشن کے لیے رقم فراہم کی)۔ ریفسدال ان چند مغربی صحافیوں میں سے ایک ہے جنھوں نے حالیہ برسوں کے دوران جنگ زدہ شام میں دوبارہ جانے کی ہمت کی ہو۔ پانچ سال سے خانہ جنگی کا شکار شام، صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک خطے میں ڈھل چکا ہے۔ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق 2012ء سے اب تک شام میں 91 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

2014ء میں داعش کے ہاتھوں امریکی صحافیوں جیمز فولی اور اسٹیون سوٹلوف کے سر قلم ہونے کے بعد سے بیشتر خبررساں اداروں اور آزادانہ کام کرنے والے صحافیوں نے شام کو علاقۂ ممنوعہ تصور کرلیا تھا۔ پھر ریفسدال کو یہ اطمینان کیوں تھا کہ وہ اپنے میزبانوں پر اعتماد کرسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں معروف صحافی نے بتایا،’’نصرہ فرنٹ لوگوں کو اغوا یا گرفتار ضرور کرتی ہے، مگر صرف اس صورت میں جب وہ بلااجازت اس کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔‘‘ ریفسدال کو یقین ہے گروپ کے کرتا دھرتا خطے کی موجودہ صورت حال میں، ایک مغربی صحافی کو خوش آمدید کہنے کے امکانی فائدے کا ادراک رکھتے ہیں۔ ریفسدال کا کہنا ہے،’’میرے خیال میں عمومی طور پر القاعدہ کو بیرونی دنیا تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے صحافیوں سے رابطہ ضرور رکھنا چاہیے۔ صحافیوں پر مکمل اعتماد کرنا ان کے لیے ضروری نہیں، لیکن اگر وہ غیرجانب دار کوریج کی حد تک ان پر اعتماد کرسکیں تو میرے خیال میں یہ کافی ہوگا۔‘‘ ریفسدال النصرہ فرنٹ سے یہی توقع کررہا تھا، اور اپنے مقصد سے جُڑے ممکنہ خطرات کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار تھا۔

اوسلو سے شام پہنچنے کے بعد ریفسدال اور اس کا مقامی ترجمان ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد تنظیم کے میڈیا آفس میں پہنچ گئے جو شمالی مغربی صوبے الاذقیہ کے کسی قصبے میں تھا (ریفسدال نے اس قصبے کا نام یا شام میں اپنے داخلے کے بارے میں کسی بھی قسم کی تفصیل ظاہر کرنے سے انکار کردیا تھا)۔ یہاں ان کی ملاقات النصرہ کے لڑاکوں سے ہوئی۔ ریفسدال کے مطابق تنظیم کے جنگ جوؤں نے اپنی ہم راہی میں اس کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اسے ایک جنگ جو جیسا بھیس اختیار کرنے کی تجویز دی۔

صوبہ حلب کے شمالی مغربی قصبے، حرم میں گروپ کے لڑاکوں نے ریفسدال کو خبردار کیا کہ وہ دروازہ بند رکھے، کیوں کہ داعش کے اراکین قصبے میں موجود تھے۔ صوبہ حلب کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں جب چیچن باشندوں کے ایک گروپ نے ریفسدال پر جاسوس ہونے کا الزام عائد کیا تو النصرہ فرنٹ سے وابستہ مذہبی عالم نے معاملے کو سنبھالا۔ ریفسدال کا کہنا ہے کہ جنگ جوؤں کی ہم راہی میں بیشتر وقت اس نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ شام کے وقت گروپ کے اراکین اگلے محاذوں سے دیہات کو لوٹ آتے تھے، جہاں ریفسدال آزادی سے گھومنے پھرنے کے علاوہ انٹرنیٹ کیفے میں جاکر ناروے میں اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرسکتا تھا۔ ریفسدال کا کہنا ہے کہ افغانستان کے طالبان کے مقابلے میں اس کے لیے النصرہ کے جنگ جوؤں سے گفتگو کرنا سہل ثابت ہوا جن میں سے بیشتر تعلیم یافتہ اور اچھی انگریزی بولنے پر قادر تھے۔

النصرہ فرنٹ کے اراکین کے ساتھ رہتے ہوئے ریفسدال کو تحفظ کا احساس ضرور ہوا ہوگا مگر اسے ایک تسلیم شدہ دہشت گرد گروپ کے ساتھ رہنے کے قانونی مضمرات کو بھی مدنظر رکھنا پڑا ہوگا جو خود کو نائن الیون کی ذمہ دار تنظیم کا حصہ سمجھتا ہے۔ نارویجین پالیسی سیکیوریٹی سروس کے سنیئر مشیر مارتن بریسنن کہتے ہیں کہ وطن واپسی پر فلم ساز کو تفتیش کے لیے حراست میں نہیں لیا گیا کیوں کہ وہ انتہا پسند گروپ کا حلف بردار یا عہدے دار نہیں تھا۔ بہرحال شام میں گزارے گئے شب و روز کی بدولت ریفسدال کو النصرہ فرنٹ کے انداز کار اور دہشت گردانہ حملوں کی تیاری اور اسے عملی جامہ پہنانے کے طریقے سے گہری واقفیت ضرور ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر فلم کے ایک منظر میں المکی ریفسدال کو بارود سے بھرے ٹرک کے گرد گھماتا ہوا نظر آتا ہے، جس میں ڈرائیور کی نشست کے سامنے دھماکا خیز آلے سے منسلک ایک بٹن (تکمہ) لگا ہوا ہے (خودکش مشن کے دوران حملہ آور ہدف سے گاڑی ٹکراتے یا قریب پہنچتے ہی یہ بٹن دبا دیتا ہے)۔ ایک اور منظر میں، جو ریفسدال نے خاصے فاصلے سے عکس بند کیا ہے، النصرہ فرنٹ کا تُرک جنگ جو اﷲ اکبر کے نعروں کی گونج میں بارود سے بھرا ہوا ٹرک اڑا دیتا ہے۔ فلم میں محاذ پر اور محاذ سے باہر جنگ جوؤں کی زندگی کو مربوط کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرک کے شعلوں میں بدل جانے کے بعد اگلے منظر میں المکی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک ریستوراں میں کبسہ (گوشت اور چاول پر مشتمل عربی پکوان) طلب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پھر چند لمحوں کے بعد فون پر سعودی عرب میں موجود اپنی والدہ سے بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور موقع پر البرتنی النصرہ فرنٹ کے ایک محفوظ ٹھکانے کے باغیچے میں گلاب توڑتا ہے تو اس کا ساتھی مذاقاً اسے گردن مار دینے والے داعش کے اراکین سے تشبیہہ دیتا ہے۔

فلم کا ہر منظر ناظر کو تنائو میں مبتلا کردیتا ہے۔ وہ حیرانی سے سوچتا ہے ٹرک اڑنے کا جو منظر اس نے دیکھا کیا وہ حقیقت تھا؟َ یا جن افراد کو وہ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں وہ دارِفانی سے کوچ کرچکے ہیں؟ ریفسدال نے انٹرویو کے دوران امریکی جریدے سے درخواست کی کہ ایک خودکش بمبار کی تقدیر کے بارے میں کچھ ظاہر نہ کیا جائے البتہ دوسرے خودکش بم بار البرتنی نے خودکش مشن سرانجام نہیں دیا۔ ریفسدال کے مطابق البرتنی کی ماں ڈیبورا فپس اپنے لخت جگر کے بارے میں بہت پریشان تھی۔ فلم ساز اور اس کا پروڈیوسر Ingvil Giske، فپس سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ اسے اس کے بیٹے کی فوٹیج دکھاسکیں۔ Giske کا کہنا ہے ریفسدال نے ایک ایسی فلم بنائی ہے جو انتہاپسند گروپوں کے بارے میں عالمی تصور کو چیلینج کرتی ہے، اس سے دنیا کو اندازہ ہوگا کہ یہ جنگ جو بھی عام انسان ہیں اور ان کے ساتھ وہی برتائو ہونا چاہیے جو عام انسانوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔