احتساب کا عمل جاری رہنا ملکی مفاد میں ہے، ادارے پر تنقید درست نہیں !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 29 فروری 2016
آئینی و قانونی ماہرین کی ’’نیب کے حوالے سے مجوزہ ترامیم‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

آئینی و قانونی ماہرین کی ’’نیب کے حوالے سے مجوزہ ترامیم‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘میں گفتگو۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اگر یہ کسی معاشرے میں پھیل جائے تو وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔

اس کی وجہ سے جہاں ترقی کا سفر متاثر ہوتا ہے وہاں بدعنوانی اور رشوت اتنی عام ہوجاتی ہے کہ لوگوں کو اپنے جائز کام کے لیے بھی رشوت اور سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے اور پھر پورے سسٹم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اور کرپٹ عناصر کو سزا کے عمل تک پہنچانے کے لیے ملک میں احتساب کے ادارے موجود ہیں جن میں ’’نیب ‘‘ کا ادارہ بھی شامل ہے۔

قومی احتساب بیورو(NAB) کا قیام 1999ء میں قومی احتساب آرڈیننس کے تحت عمل میں لایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے نہ صرف اقدامات کیے جائیں بلکہ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے ملکی خزانے میں جمع کروائی جائے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے جہاں انہیں قانون کے مطابق سزا دی جاسکے۔ یوں تو نیب شروع دن سے ہی کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے مگر گزشتہ سال سے بڑے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائیوں میں نیب کافی متحرک نظر آرہا ہے۔

گزشتہ سال احتساب کے اس عمل کا آغاز صوبہ سندھ سے کیا گیا جس میں معروف سیاسی شخصیات کے خلاف بھی کارروائی کی گئی اور پھر نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سندھ کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے نیب کی کارروائی کو امتیازی کہا گیا اور پنجاب میں بھی ایسا ہی آپریشن کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ گزشتہ چند ماہ سے نیب، صوبہ پنجاب میں بھی متحرک ہوچکا ہے اور اس میں پنجاب کی بڑی شخصیات کے خلاف کارروائی کی تیاری کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق چند اہم شخصیات کو نوٹس بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ رواں ماہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے نیب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد سیاسی ماحول کافی گرم نظر آرہا ہے۔

نیب کو صرف تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیابلکہ اب حکومت کی جانب سے اس کے کردار کو محدود کرنے اور احتساب آرڈیننس میں ترامیم لانے کی باتیں بھی گردش کررہی ہیں۔ بعض حلقوں کی یہ رائے ہے کہ احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے اور اسے سیاسی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ اس قومی مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’ نیب کے حوالے سے مجوزہ ترامیم‘‘ کے موضوع پر مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایس ایم ظفر (سابق وفاقی وزیرقانون)

دیکھنا یہ ہے کہ کیا نیب نے اپنے قانون سے باہر کوئی کارروائی کی ہے؟ اس وقت تک ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں نیب نے اپنے قانون سے باہر کوئی کارروائی کی ہو۔ اختیارات سے باہر کارروائی کرنے سے حکمرانوں کی مراد یہ ہے کہ یہ کارروائیاں ان کی مرضی کے بغیر اور ان کے اپنے لوگوں کے خلاف ہوررہی ہیں۔ اگر تمام شوروغل کی وجہ یہی ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے جب امراء اور سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالا تو ان پر بھی اسی قسم کے الزامات لگنا شروع ہوگئے اور کوشش ہوتی رہی کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں اور بدقسمتی سے وہ واپسی کا راستہ اختیار کرگئے۔

کرپشن ہمارے ملک میں انتہا کو پہنچ چکی ہے، کرپشن کینسر بن چکا ہے اور اس نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ ہر طرف سے کرپشن کے خلاف دہائی ہو رہی تھی لہٰذا اگر اس کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام شروع ہوا ہے تو اسے روکنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرے نزدیک احتساب اگر صرف سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو کبھی شروع نہ ہوتا اور اگر شروع ہو بھی جاتا تو امتیازی ہوتا۔ احتساب کا یہ عمل آرمی چیف کی وجہ سے شروع ہوا ہے جنہوں نے اپنے ادارے میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا۔

انہوں نے احتساب کا عمل شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں اب کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیب جن لوگوں کے خلاف کارروائی کررہا ہے وہ سب کرپٹ ہیں، سیاستدان، امراء ، مافیا اور جن پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے ان کے پیسے کا تعلق کسی نہ کسی طرح دہشت گردی میں استعمال ہوا لہٰذا کرپٹ لوگوں کا احتساب ملکی مفاد میں ہے۔ نیب نے چھوٹے کرپٹ لوگوں کے خلاف بھی بلاا متیاز کارروائی کی ہے اور اب بڑے عناصر پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے، مجھے ابھی تک اس میں کوئی غیر اسلوبی بات دکھائی نہیں دی۔ جب نیب کی کارروائی سندھ سے شروع ہوئی تو بہت شور ہوا اور ایک تعصب کی لہر پھیل گئی۔

سوال یہ ہے کہ سندھ سے ہی احتساب کا عمل کیوں شروع ہوا؟ ایجنسیوں ، رینجرز و دیگر ذرائع سے حکومت کو کرپٹ لوگوں کے خلاف معلومات ملتی رہیں جو نیب کو بھی دی گئیں اور پھر اپنے قانون کے مطابق نیب نے کارروائی کی۔ نیب کو جو اطلاعات ملی اس نے اس حوالے سے کارروائی کرنا تھی، اسے سب سے پہلے سندھ کے بارے میں اطلاعات ملیں اور اسی لیے وہاں کارروائی عمل میں لائی گئی۔ ہم سب کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں اس لیے سب نے کہا کہ یہ عمل صرف سندھ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے پورے ملک میں پھیلانا چاہیے۔ میں صوبوں کی بات نہیں کرتا، جس شہر میں جس جگہ کرپشن ہورہی ہے وہاں کارروائی کی جائے۔

سندھ میں کارروائی شروع ہوئی تو وہ لوگ خاموش رہے جن پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور صرف پیپلز پارٹی والے شور مچاتے رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب میں ہاتھ کیوں ڈالا گیا؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ پارلیمنٹ نے شور مچایا، اس کے علاوہ سیاستدانوں نے اور جن کی دم پر پاؤں رکھا گیا انہوں نے تعصب کی ہوا سے شور مچایا کہ سندھ کے لیڈروں اور پیپلز پارٹی کااحتساب کیوں ہورہا ہے، تخت لاہور کے خلاف کیوں نہیں ہوتا؟ احتساب کرنے والوں نے کوشش کی کہ ادھر بھی آجاتے ہیں۔ پھر انہیں کرپٹ لوگوں کے بارے میں اطلاع ملنا شروع ہوئی اور یہ اطلاع مخالفین نے نیب کو دیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سب ایک جھولی میں پڑیں گے تو فائدہ ہمیں بھی پہنچے گا۔

میں کہتا ہوں کہ پنجاب اور سندھ کا نام چھوڑ دیجئے، جہاں جہاں کرپٹ لوگ ہیں ان کا احتساب کریں۔ ہم ایک قوم ہیں ،سندھ اور پنجاب کا نام لے کر کیوں تعصب اور امتیاز کو ہوا دی جاتی ہے۔ یہ کارروائیاں سندھ یا پنجاب کے خلاف نہیں بلکہ کرپٹ لوگوں کے خلاف ہورہی ہیں ا ور اس میں ملکی بہتری ہے۔ کرپشن کے خلاف کارروائی درست سمت میں چل رہی ہے لہٰذا اسے کسی بھی صورت روکنا نہیں چاہیے۔ اس پر صرف سیاستدانوں نے شور مچایا ہے کہ نیب دائرہ اختیار سے باہر کام کررہا ہے لیکن مجھے تو ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ آئین نے جس حد تک نیب کو ٹھیک رکھا ہوا ہے اب ا س میں ایسی کیا ضرورت پڑ گئی کہ نیب کے حوالے سے نیا قانون لایا جائے؟ سیاستدان عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، کیا عوام نے احتساب کے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کیا؟

میرے نزدیک سیاستدان مک مکا کی سیاست چاہتے ہیںاور ترامیم کے ذریعے نیب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میرے نزدیک ترمیم کی طرف جانے والے تمام لوگوں کے ہاتھ کرپشن میں ملوث ہیں۔ہماری عدلیہ آزاد ہے، کسی کے خلاف ریفرنس بھیج دیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہو تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے لہٰذا نظر ثانی کے لیے بیورو بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر سیاستدان قانون میں ترامیم لے آتے ہیںتو سیاست بے اثر ہوجائے گی، نیا الیکشن ہوگا ، عوام آگاہ ہوجائیں گے اور بہتر لوگوں کا چناؤ کرسکیں گے۔اس کے علاوہ سینیٹ میں قابل لوگ آجائیں گے، ملک میں اطمینان آنا شروع ہوجائے گا اور بحیثیت قوم ہماری عزت بڑھے گی ۔

پیر مسعود چشتی (صدر لاہور ہائی کورٹ بار)

سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے احتساب کی بات کرتی ہیں لیکن اپنا احتساب نہیں چاہتی۔ جب عام لوگ یا مخالفین پکڑے جاتے ہیں تو خوشی منائی جاتی ہے لیکن جب ان کے اپنے لوگوں کا احتساب شروع ہوتا ہے تو اس پر شور برپا ہوجاتا ہے، حکومت تنقید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم انہیں روکیں گے کہ یہ اپنی حد سے تجاوز کررہے ہیں۔

آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں لہٰذا قانون بھی سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے کرپشن فری پاکستان سے مراد صرف دوسروں کا احتساب ہے جبکہ اپنے احتساب کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ پارلیمنٹ نے احتساب کے حوالے سے قانون سازی کی، اگر حکومت اسے ختم یا اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو وہ پارلیمنٹ سے کروا لے گی کیونکہ ہمارے ہاں تو عجلت میں ہی قانون میں ترامیم کرلی جاتی ہیں ، نیب کے حوالے سے ایسا نہ کیا جائے بلکہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور طریقہ کار اپنائے بغیر اس میںکوئی ترامیم نہ لائی جائیں۔

دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ احتساب کے اداروں پر انگلی اٹھائی جائے، ہمارے ہاں احتساب اور قانون پر عملدرآمد کروانے والے اداروں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے کہ ان اداروں میں حد سے تجاوزکیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک احتساب کے اداروں کے پر کاٹنے یا ناخن تراشنے کی باتیں کرنے کے بجائے ،اصلاحات کے ذریعے احتساب کے اداروں میں اگر کہیں خرابیاں ہیں تو انہیں دور کیا جائے ۔ کسی بھی کیس کا پہلا حصہ انکوائری ہوتا ہے، اگر تفتیش کے دوران کیس نہیں بنتا تو اس معاملے کولٹکانے کے بجائے ختم کر دیا جائے لیکن اگر اسے آگے چلانا ہے تو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (تجزیہ نگار)

ہر نیا قانون اس چیز کا معترف ہوتا ہے کہ پچھلا قانون ناکام ہوگیا اور اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے جن کے لیے وہ بنایا گیا تھا۔ ایسا ہی معاملہ ملکی اداروں کے ساتھ بھی ہے۔ نیب احتساب کا پہلا ادارہ نہیں ہے، یہاں احتساب کے اور بھی ادارے کام کررہے ہیں جن میں اینٹی کرپشن، اور ا یف آئی اے بھی شامل ہیں۔ اگر کسی نئے ادارے سے کوئی فائدہ لینا چاہتے ہیں تو دیکھنا چاہیے کہ اس سے پہلے اداروں کی کیا روایت رہی ہے تاکہ ان مسائل سے بچا جاسکے اور اپنے لیے بہتر لائحہ عمل تیار کرسکیں۔

ہمارے ہاں احتساب کے حوالے سے تین مسائل ہیں جن کا بغور جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اول تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں لیکن خود احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہ انفرادی رویہ بھی ہے اور اداراہ جاتی بھی ۔ دوسرا یہ ہے کہ ماضی میں احتساب کے عمل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ تیسرایہ کہ ہمارے ہاں برابری کا رواج نہیں ہے، کمزور پر تو قانون فوری حرکت میں آتا ہے لیکن طاقتورکے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا عمل وقعت نہیں پاسکا اور اس کی اچھی ساکھ نہیں بن سکی۔ 99ء میں یہ ادارہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں بنا اور اس دور میں اسے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔

میرے نزدیک پلی بارگین ،نیب کی کارکردگی میں ایک سٹرکچرل خامی ہے۔ جب سزا کی بجائے جزوی ریکوری کی طرف جاتے ہیں تو اس میں پیچیدگیاں سامنے آ تی ہیں اور نیب کا جو مشن سٹیٹمنٹ تھا کہ کرپٹ عناصر کو عبرت بنایا جائے گا وہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ یہ قدرے آسان ہے کہ کرپشن کرنے کے بعد پلی بارگین کے نام پرکچھ پیسہ دے کر جان چھڑا لی جائے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ ڈھائی سو ارب روپے کی ریکوری ہوئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ ریکوری کتنی رقم کے عوض ہوئی اور لوٹی ہوئی رقم کتنی ہے؟

جمہوری معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس، لائف لائن ہوتے ہیں لیکن اگر یہ عمل نہیں ہوتا تو جمہوریت کو سولین ڈکٹیٹر شپ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔میرے نزدیک احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن اس میں احتساب کے اداروں کا کام کرنے کا طریقہ کار اہم ہے۔لندن میں سکاٹ لینڈ یارڈ نے ایک سیاسی رہنما کو منی لانڈرنگ و دیگر الزامات میں تفتیش کے لیے بلایا، ان سے تفتیش کی گئی، ضمانت میں توسیع کردی گئی لیکن گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی نظر میں ہیں لیکن ان کے خلاف ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ انہیں ہراساں کیا گیا ہو۔ اس لیے میرے نزدیک کسی بھی ادارے کے کام کامقصد واضح ہونا چاہیے۔

نیب کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے تفتیش کے عمل میں بہتری لانی چاہیے ۔ میرے نزدیک پہلے گرفتاری نہیں بلکہ انکوائری کا عمل ہونا چاہیے ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تفتیش کا عمل بہتر کرنے سے انصاف کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی بلکہ اس طرح نیب پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔ نیب کے حوالے سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس کے اہداف کیا ہیں، جس کے خلاف انکوائری ہورہی ہے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا اور احتساب کے معاملے میں تمام اداروں میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

احتساب کا عمل معاشرے میں بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اسے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اگر احتساب کے عمل میں کوئی کمی یا کوتاہی ہوگی تو اسے انتقامی کارروائی کا الزام دیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے نیب کے حوالے سے حالیہ بیانات کے پیچھے یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے لوگوں کے خلاف ریفرنس آئے ہیں۔ جس کے خلاف بھی انکوائری ہوتی ہے اسے تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن اس تکلیف کو شکایت نہ بننے دینا نیب کا کام ہے اور اس حوالے سے تفتیش کے عمل میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اگر شکایت کا یہ راستہ بند کردیا جائے تو نیب کی کارروائی بہتر ہوگی اور قوم کے لیے نتائج بھی معانی خیز ہوں گے ۔

نفیر اے ملک (ماہر قانون)

نیب کا قانون بننے سے پہلے تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی ہوتی تھی لیکن اس میں ریکوری کا معاملہ نہیں تھا۔ اس قانون کے ذریعے سزا کے ساتھ ساتھ ریکوری کا معاملہ بھی حل ہوا، میرے نزدیک اگر نیب نہ ہوتا تو ڈھائی سو ارب روپے کی ریکوری نہ ہوتی۔نیب کے قانون میں یہ درج ہے کہ سزا کا ڈر دے کر کرپٹ لوگوں سے پیسے کی ریکوری کی جائے اور ملکی خزانے میں لوٹی ہوئی دولت شامل کی جائے۔

اب اگر پلی بارگیننگ کے ذریعے کچھ رقم خزانے میں آتی ہے تو وہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ عام لوگ پکڑے جاتے ہیں تو نیب پر کوئی بات نہیں آتی، اب حکومت کے چالیس سے زائد وزراء کے خلاف جب انکوائریاں اور ریفرنس آئے ہیں تو نیب کے اختیارات کم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔اس طرح اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور نیب کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔

احتساب کے عمل میں اگر کوئی خرابی ہے تو اسے دور کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ایک خاص مقصد کے لیے نیب کو محدود کیا جارہا ہے تو وکلاء برادری اس کی مذمت کرتی ہے۔ نیب کے قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس کے عملدرآمد کے طریقہ کار کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ تمام سیاستدانوں کے مفادات ایک ہیں، کرپشن کے الزامات بھی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں پر ہیں لہٰذا اب سیاستدان متحد ہوکر احتساب کے مضبوط ادارے کو محدود یا ختم کرکے اپنے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔