سائیڈ ایفیکٹ

اوریا مقبول جان  پير 29 فروری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جس طرح پاکستان کے بداحتیاط ڈاکٹر دواؤں کو استعمال کرواتے ہوئے اس بات کا اکثر دھیان نہیں رکھتے کہ اس دوا کی وجہ سے مریض پر کونسے ایسے دیگر اثرات مرتب ہوں گے جس کا انھیں خیال رکھنا چاہیے‘ اسی طرح پاکستان کے مغرب زدہ دانشور اس مغربی تہذیب اور مغربی طرز تعلیم کو اختیار کرنے کا درس تو دیتے ہیں لیکن اس سے جنم لینے والی اخلاقی اقدار‘ جنسی بے راہ روی‘ خاندانی نظام کی بربادی‘ تشدد اور اس حد تک بڑھی ہوئی انفرادیت کہ والدین کا اولڈ ایج گھروں میں اذیت ناک زندگی اور عبرت ناک موت کا شکار ہونے جیسے مسائل کے بارے میں دلیل اور منطق یہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ مسائل تو مغرب کے ہیں‘ ان کا ہمارے ساتھ کیا تعلق۔

دوا تم بھی وہی کھا رہے ہو جو انھوں نے دو سو سال پہلے کھانا شروع کی اور آج اپنا سب کچھ برباد کر لیا۔ دوا آپ نے شروع کر رکھی ہے لیکن جہالت‘ ہٹ دھرمی اور کج بحثی کا عالم یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ یہ سب تو ان کے مسائل ہیں‘ ہمیں ان سے کیا لینا‘ ہم پر تو نہ ان کی اقدار اپنانے سے کچھ ہو گا‘ نہ ان کا طرز تعلیم اور نصاب پڑھانے سے بچوں کی سوچ متاثر ہوگی‘ اور نہ ہی ان کی طرح کے قوانین بنانے‘ ویسے اخلاقی ضابطے وضع کرنے سے ہم میں تبدیلی آئے گی۔

جس طرح ہمارے ڈاکٹر کسی بھی قسم کی سکون آور دوائیں یا پھر اینٹی بائیوٹک مریض کو کھلاتے ہوئے دوا کے ساتھ منسلک اس پرچے پر لکھی ہوئی ہدایت میں بتائے گئے ’’سائڈ ایفیکٹ‘‘ یا جسم اور ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کو بھول جاتے ہیں اور اپنے مریض کو ان کے طویل استعمال سے ایسے مرض کا شکار کر دیتے ہیں کہ ایک دن اس کا علاج ہی ممکن نہیں رہتا بس وہ ا نہی یا ان سے بھی بہتر ادویات کا عادی اور رسیا بن چکا ہوتا ہے۔

اسی طرح ہمارے یہ عظیم دانشور اپنے معاشرے میں جنم لینے والے اس خلفشار‘ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ طلاق کا رجحان‘ جنسی بے راہ روی سے جنم لینے والے جرائم اور حد سے بڑھی ہوئی انفرادیت میں والدین کا عدم احترام جیسے مسائل جو مغرب کی ’’تہذیبی دوا‘‘ کے ’’سائیڈ ایفیکٹ‘‘ ہیں‘ وہ اس کا احساس تک نہیں کرتے۔ جس طرح ہمارے ڈاکٹر دواؤں کے استعمال سے اکثر مریضوں کو دائمی مریض بنا دیتے ہیں اور ان سے کئی اذیت ناک موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ویسے ہی ہمارے یہ مغربی کاسہ لیس دانشور‘ سیاسی رہنما اور ’’عظیم‘‘ تجزیہ کار پاکستانی تہذیب کو غیر محسوس طریقے سے اذیت ناک برائیوں کا شکار ہوتے دیکھ کر جس منطق سے اس مغربی تہذیب و اقدار اور طریقۂ تعلیم کو جاری رکھنے کا درس دیتے ہیں اس کا ٹھیک نتیجہ وہی ہے جو دوا کے استعمال سے ہوتا ہے۔ دوا کو بغیر کسی احتیاط کے استعمال سے آغاز میں بہت اچھا محسوس ہوتا ہے پھر ایک دن وہ دو ا بے اثر ہو جاتی‘ آپ اس سے بڑے ’’سائیڈ ایفیکٹ‘‘ والی دوا شروع کر دیتے ہیں اور آخر کار اس کے عادی ہو کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

یہی صورتحال تہذیبی تبدیلی کی دوا اور نصاب تعلیم کے ٹیکے سے پیدا ہوتی ہے۔ آغاز میں اس کا احساس تک نہیں ہوتا لیکن ایک دن ہم ماتم کر رہے ہوتے ہیں جیسے اس وقت پوری مغربی دنیا ماتم کرتی ہے اور اس تہذیب سے جنم لینے والے مسائل سے لڑتے لڑتے لہولہان ہو چکی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بچپن سے کہانیوں‘ کارٹون‘ فلموں‘ افسانوں‘ تقریبوں اور تہواروں تک ہر وہ چیز سکھائیں جو مغرب میں جنم لینے والا بچہ سیکھتا اور پڑھتا ہے اور ہمارے بچے ایسے نکلیں جیسے مولانا روم اور شیخ سعدی کے شاگرد۔ تہذیب‘ کلچر‘ ثقافت‘ نصابِ تعلیم وغیرہ ایک ’’پیکیج ڈیل‘‘ ہے۔

اس میں آپ دوا کی طرح ایک مرض کا علاج تو کرتے ہیں لیکن دس امراض ساتھ لے آتے ہیں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ دوا کھائیں اور ’’سائیڈایفیکٹ‘‘ آپ پر مرتب نہ ہوں۔ آپ تو وہ بد احتیاط قوم ہیں کہ آپ پر اس تہذیبی دوا کے خوفناک نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ ذرا اس تہذیبی دوا کی خوفناکی ملاحظہ کیجیے جو مغرب نے بھگتی اور اب ہمیں بھگتنا ہے اور ہمارے دانشور چاہتے ہیں کہ ہم یہ سب برداشت کر لیں۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی میں مغرب اور امریکا کے معاشرے اور تعلیمی اداروں میں ایک انقلاب نے دستک دی۔ دو بڑے واقعات نے یونیورسٹیوں کی زندگی پر اثرات مرتب کرنا شروع کیے۔ ایک ووڈسٹاک Woodstockکا  فیسٹول تھا جو نیویارک کے میکس لیگر فارم میں 15 سے 18 اگست 1969ء کو منعقد ہوا۔ اسے میوزک اور امن کے فیسٹول سے یاد کیا جاتا ہے جس میں پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی۔

اس فیسٹیول کا اپنی مروجہ تہذیب کے خلاف ایک بیانیہ تھا جسے وہ Counter culture Archtype کہتے تھے یعنی ’’مروجہ تہذیب کے مقابل ایک نئی تہذیب‘‘ اسی کی کوکھ سے ہپی کلچر نے جنم لیا اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے خسیت  اور نشہ آور اشیاء میں پناہ ڈھونڈی گئی۔ نہ خاندان کی اہمیت اور نہ معاشرتی اقدار کی۔ ساٹھ کی دہائی کا دوسرا بڑا انقلاب خواتین کی آزادی کی تحریک کا اہم موڑ ہے جب خواتین نے ایک خاص انداز میں آزادی کا اظہار کیا۔

اٹلانٹک سٹی میں 1968ء کی مس ورلڈ کی قیادت میں ڈیڑھ سو کے قریب خواتین اکٹھا ہوئیں اور انھوں نے لوگوں کے سامنے اپنے زیر جاموں کو آگ لگائی جسے وہ Bra  Burning فیسٹول کہتی تھیں اور پھر پورے امریکا اور یورپ میں یہ فیسٹول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں منائے گئے۔ دلیل یہ تھی کہ زیر جامے ہمیں مردوں نے اپنی ہوس کے لیے پہنائے ہیں۔ اس دن انھوں نے کہا کہ ہم نے ان زبرجاموں کو آزادی کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے۔

مذہب سے آزادی نے سیکولرازم کو جنم دیا اور سیکولرازم نے لبرل خیالات کی آبیاری کی اور اس کی کوکھ سے ایک ایسی سوچ ابھری جو خالصتاً جنسی ہیجان کے آتش فشاں کو سینوں میں لیے ہوئے تھی۔ اس کا درس تھا کہ خاندان‘ معاشرہ‘ اخلاقیات‘ طرز زندگی سب فراڈ ہے۔ ہم دو مرد یا دو عورتیں شادی کرنا چاہیں تو ہمیں کون روک سکتا ہے‘ سیکولرازم کے تحت یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔ عریانیت کیا بکواس ہے‘ یہ سب تو آنکھوں میں ہوتا ہے۔ ہر کوئی عریاں گھومنے لگے تو کوئی اسے دیکھتا تک نہیں۔ یہ پادری ہمیں ساری زندگی کے لیے میاں بیوی کیوں بناتا ہے۔

ہم بغیر پادری کے اکٹھے کیوں نہیں رہ سکتے۔ اس کے بعد یہ سب اخلاقیات میڈیا پر آئیں‘ اس کے بعد کہانیوں اور کارٹونوں کا حصہ بنیں۔ جنسی تعلیم اسکول میں لازمی قرار دی گئی۔ جہاں عورتوں کو جوان ہوتے ہی چند احتیاطیں سکھائی جانے لگیں۔ ان میں بوائے فرینڈ سے دور رہنا نہیں شامل تھا‘ بلکہ اس کے ساتھ قربت کو کس طرح بہتر اور پرلطف بنایا جا سکتا ہے اور کس طرح بیماریوں اور اولاد کی لعنت سے بچا جا سکتا ہے شامل تھا۔

یہ تھی وہ دوا‘ وہ بیانیہ جسے مغرب نے Counter culture Archetypeکے طور پر اپنایا۔ اسے اپناتے ہوئے انھیں اس کے ’’سائیڈ ایفیکٹ‘‘ کا اندازہ ہو سکتا ہے نہ کیا ہو۔ لیکن میں ماننے کو تیار نہیں اس لیے کہ اس نئی تہذیب اور نئی تعلیم کاروباری ہوس ہی سب کچھ کیا۔ عورت کو اس طرح بازار میں لا کر کھڑا کیا گیا کہ پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک اس کا کوئی مقام نہیں جس پر مصنوعات نہ بیچی جاتی ہوں۔

کیسے کیسے شعبہ ہائے زندگی وجود میں آئے ہیں‘ جنسی معالج‘ خاندانی کونسلنگ‘ بیوٹی کلینک‘ پلاسٹک سرجری‘ اولڈ ایج نفسیاتی کلینک‘ اور وہ نفسیاتی معالج جو جنسی تشدد‘ گھریلو تشدد‘ بغیر باپ کے بچوں‘ خاندان کے سگے رشتوں کے ہاتھوں جنسی تشدد‘ ہر دو ماہ بعد نئے محبوب کی بے وفائی وغیرہ سے جنم لینے والے نیم پاگل پن کا علاج کرتے ہیں۔ اس تمام قسم کے ’’سائیڈایفیکٹ‘‘ نے اس معاشرے کو جس سطح پر لا کر کھڑا کیا ہے اس کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ہر چار میں سے ایک عورت مغرب اور امریکا میں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے اور جو گھر بسا لیتی ہیں ان میں بھی ہر چار میں سے ایک گھریلو تشدد سہتی ہے۔ اس مسئلے کے دو حل دریافت کیے گئے۔

ایک یہ کہ سخت سے سخت قانون بناؤ اور دوسرا یہ ہے کہ ایسے متاثرین کے لیے سہولیات بناؤ۔ جتنے قانون سخت بنائے گئے‘ اتنا ہی تشدد بڑھتا چلا گیا اور سہولیات کو تو دیکھو‘ اولڈ ایج ہوم‘ خاندانی جنسی تشدد کا شکار بچیوں کا ادارہ‘ عورتوں کے تحفظ کے ادارے‘ جنسی تشدد کا شکار عورتوں کے خاندانی اور نفسیاتی مسائل کے ادارے‘ اپنے بوائے فرینڈ اور سابقہ شوہروں کے ہاتھوں قتل ہونے والی عورتوں کے لیے قانونی چارہ جوئی کی تنظیمیں‘ مرد کی تسکین کے لیے جنسی تعلیم کے کورسز‘ ایسے ہزاروں ادارے ہیں جو اس تہذیبی اور نصابی تبدیلی سے پیدا ہوئے۔

لیکن جیسے ایک جاہل اور کم عقل ڈاکٹر دوا نہیں چھڑواتا اور مریض کو اذیت ناک زندگی طرف دھکیلتا ہے‘ یہ لوگ بھی اپنی سیکولر اور لبرل اخلاقیات نہیں بدلتے اور نہ ہی سائیڈ ایفیکٹ کا رونا روتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ابھی ہمارے درمیان اس تہذیب کی آمد آمد ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ابھی تو اس تہذیب کے سائیڈ ایفیکٹ کا رونا رونے والے موجود ہیں۔ کس قدر جہالت ہے کہ تہذیب اور نصاب اختیار کرو‘ اثرات تو صرف مغرب میں ہوتے ہیں ہمارا اس سے کیا تعلق۔

یہ منافقت ان میں رچی بسی ہے ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایسے کسی ’’عزت دار‘‘ سیاسی رہنما‘ دانشور‘ ادیب‘ زمیندار یا صاحب حیثیت کی بہن یا بیٹی گھر سے بھاگ کر شادی کر لے تو اخبارات یا ٹی وی کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ خبر کو دبا دیں لیکن شرمین عبید جیسی عورتوں کو کہتے ہیں کہ بناؤ فلمیں‘ یہ تو ہمارے مسئلے ہیں‘ ہمارے زخم ہیں‘ منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔