کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

شاہد سردار  پير 29 فروری 2016

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے ملک میں صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے معیاری سہولتوں کی ہمیشہ سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ گو علاج کے لیے سرکاری اسپتال اور ڈسپنسریاں تو موجود ہیں مگر ایک تو ضرورت کے مقابلے میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، دوسرے ان میں معیاری علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

خطرناک بیماریوں کے علاج کی سہولت یا تو سرے سے موجود نہیں یا مطلوبہ اہلیت کے ڈاکٹر دستیاب نہیں، ماتحت طبی عملہ بھی کم یا زیادہ تر نیم تربیت یافتہ ہے۔ ان اسپتالوں کی عمومی حالت بھی اتنی خراب ہے کہ حفظان صحت کے عالمی اصول پر پوری نہیں اترتی، غریب اور نادار مریضوں سے سلوک بھی عام طور پر اچھا نہیں ہوتا، ہنگامی حالت میں او پی ڈی روم یا ایمرجنسی وارڈز میں مریضوں کوگھنٹوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے، جہاں پرائیویٹ اسپتال کے قیام کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے، مگر ان کے اخراجات غریب آدمی تو کیا ایک مڈل کلاس فرد کے بس سے بھی باہر ہیں۔کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ غربت و افلاس وطن عزیز کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے اور علاج کی معیاری سہولتوں پر عام لوگوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے کا۔ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں آج بھی ’’وینٹی لیٹر‘‘ اسپتالوں میں میسر نہیں ہیں، بیشتر اسپتالوں میں ضرورت سے کم ہیں اور اکثر میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

ہمارے شہر کراچی کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں صرف پانچ وینٹی لیٹر ہیں اور ان پر ہمیشہ مریض موجود رہتے ہیں جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ کیا شہر میں صرف پانچ مریض ہی آخری سانسیں لیتے ہوئے اسپتال آتے ہوں گے اور اگر چھٹا کوئی مریض آجاتا ہوگا تو کیا اسپتال کا عملہ کسی اور مریض کی سانسیں روک کر نئے مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھتا ہوگا؟ بعض ڈاکٹروں کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں وینٹی لیٹر خریدنے کا عمل اتنا پیچیدہ ہے کہ عام مارکیٹ میں جو وینٹی لیٹر پندرہ سے سترہ لاکھ روپے کا آجاتا ہے، سرکاری اسپتال کے لیے اس کی خریداری کا عمل کئی گنا زیادہ لاگت میں پڑتا ہے بوجوہ۔

ملک کے معروف سرکاری اسپتالوں میں وینٹی لیٹر مشینوں کا حال یہ ہے کہ وہ سانسوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ان کی سانسیں روکنے کے کام کر رہی ہیں اور اکثروبیشتر اسپتالوں میں وینٹی لیٹر مشین کے انتظار میں لوگ دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنی فکر اورکتنی شرم کی بات ہے کہ وینٹی لیٹر تو ندارد اسپتالوں میں جان بچانے والے انجکشن اور ادویات تک کی سہولت میسر نہیں۔

ایمرجنسی آپریشن کے لیے تمام سرکاری اسپتالوں میں مریض کے ورثا کو آپریشن میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے تیسے لاکر دینا پڑتی ہیں۔ ملک میں مریضوں کے لیے بستر یا بیڈز تک کی تعداد ہولناک حد تک کم ہیں، بیشتر اسپتالوں میں مریض ننگے فرش پر پڑے رہتے ہیں اور انھیں اسی عالم میں ٹریٹمنٹ دی جا رہی ہوتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں سالانہ تقریباً 10 ہزار افراد بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ تھیلیسیمیا، بلڈ کینسر، الے پلاسٹک اینمیا اور لمپ فوما سمیت بچوں کے بیشتر موروثی امراض ایسے ہیں جن کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنا پڑتا ہے۔

ایک مریض کے بون میرو ٹرانسپلانٹ پر تقریباً 20 سے 25 لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے، چونکہ یہ بہت مہنگا علاج ہے۔ اس لیے عام شہریوں کے بس کی بات نہیں، جب کہ سرکاری سطح پر اس کے علاج کی سہولت سرے سے میسر نہیں ہے، یوں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5 ہزار سے زائد ایسے بچے ہوتے ہیں جنھیں تھیلیسیمیا کی بیماری ہوتی ہے۔ 2 ہزار افراد سالانہ الے پلاسٹک اینمیا میں مبتلا ہوتے ہیں اور 15 سو سے زائد افراد ہر سال خون کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، اس کے علاوہ لمپ فوما اور قوت مدافعت کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں، جنھیں بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت پاکستان کے صرف چار اسپتالوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت مہیا ہے اور یہ چاروں ادارے مل کر ایک سال میں تقریباً 125 ٹرانسپلانٹ کرسکتے ہیں، بقیہ افراد یوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے ملک میں دو درجن ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو ہر سال 500 ٹرانسپلانٹ کرسکیں۔ کراچی میں قومی ادارہ صحت برائے اطفال (این آئی سی ایچ) اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) بون میرو ٹرانسپلانٹ کے یونٹ بنانے کی گزشتہ کئی سال سے کوشش کر رہے ہیں تاہم تاحال یہ دونوں ادارے اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ محکمہ سندھ نے بھی ’’گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کی عمارت تعمیر کرکے جدید مشینری حاصل کر لی ہے لیکن تادم تحریر اسے فعال نہیں کیا جاسکا ہے۔

ملکی وسائل اور خزانے سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کے علم میں کیا یہ بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ہیپاٹائٹس اورکینسر کا مرض بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کینسر سے ہر سال 80 لاکھ افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ظاہر ہے جب دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی صورتحال اچھی نہیں تو پاکستان تو ایک پسماندہ ملک ہے جسے حکمران نت نئی حماقتیں اور تجربے کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملک ترقی یافتہ ہوچکا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ہفتوں کینسر کا عالمی دن منایا گیا اور مختلف اداروں اور اسپتالوں کے تحت سیمینار منعقد کیے گئے جس کے توسط سے یہ جان کاری ہوئی کہ پاکستان میں ہر سال کینسر کے پانچ لاکھ نئے مریض سامنے آرہے ہیں اور ان میں سے ساٹھ فیصد لوگوں کو علاج کی سہولت سرے سے میسر ہی نہیں ہے اور یہ کتنی لرزہ خیز حقیقت اور دکھ کی بات بھی ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں کینسر کے مرض کی درس و تدریس کے باقاعدہ شعبے تک نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں اس وقت پچاس فیصد افراد منہ کے کینسر، سینتالیس فیصد سینے کے کینسر اور چالیس فیصد لوگ جگر، پھیپھڑے اور معدے کے کینسر میں مبتلا پائے جاتے ہیں، اکیس فیصد لوگ خون کے کینسر اور دس فیصد ہڈیوں کے گودے کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ خواتین میں سینے اور رحم میں سرطان کی وبا بہت عام ہے اور بیس فیصد خواتین اس میں مبتلا پائی گئی ہیں اور اب ان کی تعداد میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں حد درجہ آلودگی، ناقص خوراک اور پینے کے لیے مہیا ناقص پانی کینسر اور ہیپاٹائٹس کے امراض کا بنیادی سبب ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ملک میں جان لیوا امراض کے تدارک یا کمی کے لیے جو ادویات مہیا ہیں ان میں غالب اکثریت جعلی ہیں، اس کی وجہ سے بھی مریض شفا پانے میں ناکام پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ کینسر کا علاج بہت طویل اور حد درجہ مہنگا ہے جو ایک ’’عام آدمی‘‘ افورڈ ہی نہیں کرسکتا لہٰذا اسے یوں موت باآسانی مل جاتی ہے۔

ان حالات میں ’’پرائم منسٹر ہیلتھ پروگرام‘‘ شدید حبس یا گرمی میں بارش کا پہلا قطرہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ جس کی طرف سے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے مفت علاج معالجے کی سہولت کا اعلان کرکے حکومت نے بہرطور تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کا آغاز ملک کی غربت کی ماری نصف سے زائد آبادی کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے لیکن اس کا آغاز صرف ملک کے 15 اضلاع سے کیا جا رہا ہے جب کہ ’’مستحقین‘‘ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، تاہم پروگرام کی افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اس پر عمل درآمد سے ہزاروں غریب موت کے منہ میں جانے سے بچیں گے اور قومی صحت کا عمومی معیار بھی بہتر ہوگا۔ اسے جتنی جلد پورے ملک تک وسعت دی جائے اتنا ہی اچھا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔