جامعات کے اساتذہ کا کنونشن

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 1 مارچ 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ہر بات میں مغرب یا ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں اور اپنے تئیں زندگی گزارنے کے انداز ہوبہو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے حکمران بھی ایسی ہی ترقی کا خواب عوام کو دکھاتے ہیں مگر جب بھی اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کا عملی وقت آتا ہے ہم اکثر وہ فیصلے کرجاتے ہیں کہ جس سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار مزید نیچے کی جانب آجاتا ہے۔

اسی تناظر میں گزشتہ ماہ کراچی پریس کلب میں ملک بھر کی جامعات کی نمایندہ تنظیم فیڈرل آف آل پاکستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ چیپٹر کی جانب سے ایک کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں فپواسا پاکستان کے صدر ڈاکٹر نعمت اﷲ لغاری اور سندھ چیپٹر کی صدر ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور جامعہ کراچی سے ڈاکٹر شکیل فاروقی نے سندھ یونیورسٹیز ایکٹ میں ترامیم واپس نہ کرنے کی صورت میں ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس کنونشن میں صحافیوں، وکلا اور سماجی تنظیموں کی معروف شخصیات نے بھی اظہار خیال کیا اور جامعات کے اساتذہ کے مسائل سن کر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے مسائل کو فوری حل کرنے پر زور دیا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایچ ای سی کے تحت اعلیٰ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے تھے جن پر تنقید بھی کی گئی تھی اور اسی تناظر میں اٹھارویں ترمیم کے تحت باقی دیگر اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ساتھ اس ادارے کے اختیارات بھی صوبوں کو منتقل کرنے کی بات کی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ صوبوں کو اختیارات منتقل ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار بھی بلند ہوگا۔ لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا؟ اس کنونشن میں اظہار خیال کرنے والے محترم اساتذہ کرام کے گلے شکووں نے جو کچھ کہانی بیان کی وہ انتہائی شرمناک تھی۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے شکوہ کیا کہ ایم اے اور نان پی ایچ ڈی افراد کو جامعات کے پرووائس چانسلر اور چانسلر کے عہدوں پر تعینات کیا جارہا ہے، اس طرح پی ایچ ڈی اساتذہ اب ایک ایم اے پاس سفارشی شخص کو جواب دہ ہیں اور ان کی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور ہیں۔

خیرپور کے ایک پروفیسر نے انتہائی جذباتی انداز میں کرپشن کے ثبوت ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہانی بیان کی کہ کس طرح ان اداروں سے سیاسی اور مالی فوائد اٹھائے جارہے ہیں، انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے تھے مگر عملاً یہ اختیارات ان وڈیروں کے ہاتھ آگئے ہیں جو کہ اس دھرتی پر پرائمری تعلیم بھی عوام کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے جامعات کے اختیارات چھین کر اب غیر تدریسی آسامیوں پر بھرتیاں کی جارہی ہیں اور ان سے پیسہ بنایا جارہا ہے۔

ایک دوسرے پروفیسر کا کہنا تھا کہ سندھ کی جامعات کے وائس چانسلر کو ’’کمدار‘‘ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ایک خاتون پروفیسر نے کہا کہ جامعات کو ایک فیکٹری کی طرح چلانے کی روش اپنائی جارہی ہے، جامعات کو فنڈ جنریٹ کرنے کا کہا جاتا ہے، آخر ہم کون ہیں؟ استاد یا کسی فیکٹری کے ملازم؟

اس کنونشن میں بہت سے شکوے اور فکری گفتگو کی گئی جس کا مختصراً ذکر کیا جائے تو یہ نکات سامنے آتے ہیں کہ مذکورہ ترمیم کے بعد (1) سندھ بھر کی جامعات میں سرکاری اختیارات گڈ گورننس کے قیام میں مدد دینے کے بجائے کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں۔

(2) اعلیٰ تعلیمی پالیسی بجائے ماہرین تعلیم (پروفیسرز) کے، سیاسی وڈیرے مرتب کر رہے ہیں۔

(3) جامعات میں غیر تدریسی آسامیوں پر (بلکہ بعض اوقات پرو وائس چانسلر اور وائس چانسلر کی آسامی پر بھی) کم پڑھے لکھے اور نااہل افراد کی تقرری کی جارہی ہے۔

(4) جامعات کے فنڈ کی تقسیم بھی غیر منطقی اور ضرورت کے برعکس کی جارہی ہے۔

(5) جامعات میں وائس چانسلر کی تقرری کے لیے اشتہار دیا جارہا ہے اور سرچنگ کمیٹی میں ممبران صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں، یوں نان اکیڈمک اور کم پڑھے لکھے لوگ اب پی ایچ ڈی کی سطح کے سینئر پروفیسرز کو سلیکٹ کررہے ہیں۔

(6) کراچی شہر کے علاوہ سندھ کی دیگر جامعات میں سرکاری، سیاسی مداخلت اور کرپشن تصور سے کہیں زیادہ ہے۔

یوں دیکھا جائے تو ایک بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ معاشرے کا وہ طبقہ (یعنی پروفیسرز یا دانشور) جن سے تمام ممالک میں مستقبل اور مسائل کے حوالے سے رہنمائی لی جاتی ہے، انھیں اب سیاسی اور بیوروکریسی کے لوگ ہدایات جاری کریں گے اور یہ طبقہ اپنی تقرری اور ترقی کے لیے ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہوگا۔

اس کنونشن میں اور بھی بہت سے انکشافات کیے گئے جن کو جان کر اندازہ ہوا کہ اختیارات صوبوں کے پاس آنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں کا حال بھی ایسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ پرائمری سطح کے سرکاری اسکولوں کا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی جامعات سے اپنے ملکی مسائل کے حل میں مدد ملنی چاہیے تاکہ معاشی سطح پر ہی نہیں فکری سطح پر بھی ہم آنے والے حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں، لیکن یہ موجودہ روش میں ممکن نہیں ہے۔

ہماری جامعات پہلے ہی دنیا کی دیگر جامعات کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں، ہمیں اپنی جامعات سے خرابیاں ختم کرکے گڈ گورننس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، مگر موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ ہماری جامعات کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور عالمی سطح پر ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے مزید معیار کھو دیں گے، خاص کر سندھ کی جامعات اپنا معیار پست کر بیٹھیں گی۔

سندھ حکومت کی انتظامی بصیرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی جامعات سے اگر استاد کو بیرون ملک کسی سیمینار وغیرہ میں شرکت کرنا ہو تو اس استاد کو اس کے لیے اجازت نامہ (این او سی) کراچی شہر میں موجود گورنر ہاؤس سے لینا پڑتا ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ ہمارے دفتری کلچر کے مطابق اتنی دیر میں ملتا ہے کہ بعض اوقات پروگرام کی تاریخ ہی نکل جاتی ہے۔

اس کنونشن میں جامعہ کراچی سے معیز خان اور ڈاکٹر شکیل فاروقی نے بھی خطاب کیا اور حاضرین کو ان تمام ملاقاتوں کی تفصیل بھی بیان کی جو سندھ کے وزیراعلیٰ اور گورنر سے ہوئیں اور جن میں انھوں نے مسائل کے حل کے لیے زبانی وعدے بھی کیے مگر وہ وعدے بقول ان کے ہر مرتبہ توڑ دیے گئے۔

اس کنونشن کی ایک خاص بات یہ تھی کہ تمام اساتذہ خاص کر فپواسا سندھ چیپٹر کی صدر ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور جامعہ کراچی کے ڈاکٹر شکیل فاروقی نے سندھ دیہی اور شہری کی تقسیم کے تصور کو رد کرتے ہوئے تمام جامعات کے مسائل کو اپنے مسائل قرار دیا اور اعلان بھی کیا کہ حکومت انھیں اس تقسیم کے تحت کمزور کرنا چاہتی ہے لیکن ان کا یہ اتحاد ایسی ہر سازش کو ناکام بنادے گا۔ راقم کے نزدیک یہ ایک اہم ترین اور قابل تعریف بات ہے۔

بہرکیف یہ استاد بھی بڑے بھولے ہیں، ہر بار آس لگالیتے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے ہوجائیں گے، جب کہ سندھ حکومت وفاق کا رونا تو بار بار روتی ہے کہ وفاق انھیں اختیارات نہیں دے رہا ہے مگر وہ خود اپنی جامعات کو اختیارات دینے کو تیار نہیں۔ کتنی عجیب اور شرمناک بات ہے کہ ہم اپنے ان اساتذہ اور دانشوروں کو ان کے جائز اختیارات دینے کو بھی تیار نہیں جو نہ صرف اس ملک کے مستقبل کے معماروں کو تیار کرتے ہیں بلکہ وہ رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں کہ جس سے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے، شاید یا پھر یقینا ہمارے حکمران اس ملک کی ترقی نہیں چاہتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔