مردم شماری میں نادرا سے مدد لی جائے

قادر خان  بدھ 2 مارچ 2016
qakhs1@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جسے سیاسی جماعتیں اپنی بقا کا مسئلہ قرار دے رہی ہیں، پاکستان کے آئین کے مطابق ہر دس برس بعد مردم شماری کروانا ضروری ہے۔ لیکن آئین اس حوالے سے خاموش ہے کہ مردم شماری کس طریقے سے کروائی جائے۔ سب سے پہلے تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ مردم شماری ہے کیا؟

آسان لفظوں میں ایسے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ تقریباً تمام ممالک میں کچھ وقفے کے بعد جو عموماً دس سال ہوتا ہے، مردم شماری ہوتی ہے، اس سے مراد ملک میں لوگوں کی تعداد اور ان کے بارے میں مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ یہ مواد معاشی منصوبہ بندی میں مددگار ثابت ہوتا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں، ملک کی آبادی میں کیا اضافہ یا کمی آئی ہے، ملک کی آبادی کا تعلق کس زبان اور نسل سے ہے، ان کی تعلیم کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951ء میں ہوئی تھی، پھر 1961ء، 1972ء، 1981ء، 1998ء میں ہوئی۔ 1972ء والی مردم شماری اصل میں 1971ء کو ہونی تھی، مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر ہوئی اور پھر 1991ء میں مردم شماری سیاسی گہماگہمی کے باعث موخر ہوئی۔ پاکستان میں آخری بار مردم شماری 1998 میں کرائی گئی۔

آخر مردم شماری کیوں ضروری ہے؟ 18 سال بعد مردم شماری کے لیے تمام سیاسی جماعتیں بے چینی کا اظہار کیوں کر رہی ہیں؟ اس بحث پر جائے بغیر ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ مردم شماری ہونی چاہیے۔ ماسوائے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے اعلان کیا کہ ابھی وقت مناسب نہیں ہے۔ متفق اس بات کے لیے ہیں کہ فوج کی نگرانی میں کرائی جائے۔ لیکن پاکستان کی افواج اس وقت زمینی جنگ میں مصروف ہے، مغربی شمالی سرحدوں اور مشرقی سرحدوں پر پاک فوج الجھی ہوئی ہے۔ اس لیے ان کی جانب سے مردم شماری کے لیے مزید دستوں کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی اسے موت و زندگی کا مسئلہ قرار دے رہی ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں مردم شماری نہیں کرا سکی۔ اس پر اخراجات کا تخمینہ ساڑھے چودہ ارب روپے کا لگایا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بڑھ بھی جائے۔ فنڈ کون سا کسی سیاسی جماعت کی جیب سے جاتا ہے۔ میں مردم شماری کے گورگھ دھندے اور گنجلک اعداد و شمار میں نہیں جاتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ مردم شماری صرف معاشی جائزے کا نام نہیں بلکہ لسانی، صوبائیت اور فرقہ واریت کی صورتحال کا جائزہ لینے کا دوسرا نام ہے۔

مردم شماری میں یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ پختون کتنے ہیں، پنجابی کتنے ہیں، سندھی کتنے ہیں، مہاجر اور بلوچی کتنے ہیں؟ ان کی مادری زبان کیا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ لسانیت اور صوبائیت کا چکر ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب پاکستان دو قومی نظریے کے تحت بنا تو دو باتوں کو سامنے ہونا چاہیے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ بس اس کے علاوہ کون کس قوم سے تعلق رکھتا ہے، یہ طریقہ لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دیتا ہے اور سب سے بڑی خرابی کی جڑ بھی۔

تمام مردم شماری اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں تعداد باحساب قومیت نظر آئے گی۔ ارے بھائی جب دو قومی نظریہ ہے اور اسلام میں مسلم اور غیر مسلم قومیتیں ہیں، تو لسانی قومیتیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ مردم شماری کا فارمیٹ ہی لسانیت کی بنیاد پر ہے۔ جب اردو قومی زبان ہے تو بس۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ کیا جاننے کی ضرورت ہے کہ کون کون سی زبانیں ملک میں کتنی تعداد میں بولی جاتی ہیں؟ یہی تو سارا جھگڑا ہے کہ ہمیں اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ارے پاکستان میں پاکستانی ہو، تو پھر اقلیت کا کیا سوال؟

اگر انتظامی لحاظ سے صوبے ہیں تو پھر کسی صوبے میں چاہے کوئی بھی کتنی زیادہ تعداد میں زبان بولتا ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ سندھی بولنے والا خیبرپختونخوا نہیں جا سکتا، پنجابی بولنے والا بلوچستان نہیں جا سکتا۔ جب قومی شناختی کارڈ بنا دیا گیا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اس کی شناخت پاکستانیت ہے۔ اس سے لسانیت کا خاتمہ ہو جائے گا، دو صوبوں میں لڑائی ختم ہو جائے گی کہ ہم اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

افغانستان تین عشروں سے جنگ میں مصروف ہے، کیا اس کی نسل ختم ہو گئی؟ یہودیوں کو لاکھوں کی تعداد میں عیسائیوں نے قتل کیا، کیا اس سے اسرائیل ختم ہو گیا؟ جاپان میں امریکا نے ایٹم بم گرایا، کیا اس سے جاپانی ختم ہو گئے؟ ویت نام میں امریکا نے کیا کیا ستمٕ نہیں ڈھائے، کیا ویت نام کا وجود مٹ گیا؟ ہماری صرف ایک پہچان ہے، اسلام اور پاکستان۔ باقی سب خرافات اور وقت کا ضیاع ہے۔

تعلیم کے حوالے سے کتنے پڑھے لکھے ہیں، تو گھر گھر جانے کی کیا ضرورت، سرکاری اور پرائیوٹ اداروں اور مدارس میں یہ تفصیلات ایک دن میں مل جاتی ہے کہ کتنے طالب علم ہیں۔ ان سے کہہ دیں کہ آپ بتا دیا کریں کہ ہر سال کتنے بچے کون سی تعلیم حاصل کر کے نکلتے ہیں؟ تعلیمی وزرات کے لیے یہ کونسا مشکل کام ہے۔ کتنے لوگ ہنرمند ہیں اور کتنے بے روزگار، اس کا اندازہ ملک کی تمام فیکٹریوں میں لگایا جا سکتا ہے، ان سب کا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہے۔ وہ بتا دیں گے کہ کتنوں کو عارضی ملازمت کے نام پر کنٹریکٹ بنیادوں پر پیسا جا رہا ہے اور کتنے ملازمین مستقل ہیں۔

سرکاری اداروں میں یہ تعداد تو صرف ایک منٹ میں معلوم کی جا سکتی ہے۔ جب مرد و عورت سب برابر ہیں تو اس میں اس بات کی تخصیص کیوں کہ عورتیں کتنی ہیں، مرد کتنے ہیں؟ بحیثیت انسان کتنے لوگ ہیں، یہ سب نادرا سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ آپ ساڑھے 14 ارب روپے مردم شماری پر خرچ کرنے کے بجائے نادرا پر خرچ کر دیں، وہ گھر گھر جا کر ایک ایک فرد کا بائیومیٹرک کرائے، اس کا اندارج کرے، اس کے کارڈ جاری کرے، تمام تفصیلات ایک جگہ جمع کرے، اس کے لیے اگر ساڑھے 14 سو ارب بھی خرچ ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں، ہمیشہ کے لیے اس مسئلے سے جان چھوٹ جائے گی۔ گھر گھر جا کر نادرا کی ٹیمیں بغیر رشوت لیے اسی وقت بائیو میٹرک سسٹم سے عوام کا اندارج کریں۔

ویسے تو 98 فیصد اندارج نادرا کے پاس موجود ہی ہے جو مردم شماری میں جانا جاتا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی تسلی کے لیے ایک بار اور کر لیں۔ حدود، حلقے، سب الیکشن کمیشن نادرا کے تعاون سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ ووٹر لسٹ بھی نادرا بنا رہی ہے، تو پھر کیا قباحت ہے نادرا جیسا قابل بھروسہ ادارہ جو پاکستانی کو پاکستانیت کی شناخت دیتا ہے، اس کو یہ ٹاسک دے دیا جائے۔ بائیومیٹرک سسٹم کے بعد وہ کسی بھی جگہ چلا جائے ڈبل اندارج نہیں کرا سکے گا۔ اپنا مستقل ایڈریس اور موجودہ ایڈریس کی بنا پر کسی دوسرے صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا۔ جدید دور ہے، تمام دنیا فرسودہ نظام کو چھوڑ کر جدیدیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور ہم پوچھتے پھر رہے ہیں کہ تمھاری زبان کون سی ہے اور تم کپڑے کون سے پہنتے ہو۔

مردم شماری ہوئے 18 سال تو ویسے ہی ہو گئے ہیں، دو سال اور سہی۔ دو سالہ پراجیکٹ بنا کر مردم شماری کو نادرا کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ گھر گھر جا کر ٹیمیں بائیو میٹرک کے ذریعے اندراج کریں۔ اٹھارہ سال میں مردم شماری نہیں ہوئی تو پاکستان میں کوئی قیامت آ گئی۔ دو سال میں مردم شماری، خانہ شماری کے لیے مختص رقم کو جدید نظام کے تحت لایا جائے، چاہے اس کے لیے مزید ساڑھے چودہ ارب خرچ کرنے پڑیں تو کیا مضائقہ ہے۔

ایک مصدقہ ریکارڈ تو سامنے آ جائے گا۔ کسی بھی جرم میں ملوث ہونے والے شخص کے فنگر پرنٹس، اس کا ٹیکس ڈیٹا، ووٹر لسٹ، علاقے میں درست آبادی کے تناسب سے درست حلقہ بندی، میرے حساب سے مردم شماری کا کسی کو معلوم کرنا ہو تو وہ ایک گھنٹہ میں کسی بھی علاقے کا ڈیٹا معلوم کر سکتا ہے، اس سے این ایف سی ایوارڈ کے رقم کی تقسیم بھی متنازعہ نہیں بنے گی۔ غیر ملکیوں کی پہچان بھی از خود ہو جائے گی۔

جرائم پیشہ افراد نادرا کے مکڑی کے جال میں از خود آ سکیں گے، کیونکہ ان کے پاس شناخت نہیں ہو گی تو وہ پاکستانی ہونے پر رشوت دے کر بیرون ملک بھاگ نہیں سکیں گے۔ ایک گھر میں 600 افراد کے ووٹ نہیں نکلیں گے۔ شاید یہ طریقہ وقت طلب ہو، لیکن اسے مرحلہ وار شروع کر دیا جائے۔ کچھ مشکل نہیں ہے، مینول سسٹم میں صرف دھاندلی ہے اور مخصوص طبقات سیاسی جماعتوں کو فائدہ۔ جب کہ نادرا سسٹم میں ایسا کچھ نہیں۔ فرق مردم زار شماری سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔