دل تھام کر بیٹھیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 مارچ 2016

جو کوئی بھی پاکستانی قوم کو جاہل، عقل و دانش سے عاری، فلسفے اور فلسفیوں سے نفرت کرنے والی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اصل میں بہت ہی بڑی زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور سچ کو چھپانے کا عظیم گناہ بھی کر رہا ہوتا ہے۔ ہاں یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ پاکستانی قوم سقراط، افلاطون، ارسطو کی پیروکار نہیں ہے اور ان کی فکر، سوچ اور نظریے سے کوسوں دور ہے۔ آئیں دل تھام کر بیٹھیں، اب میں ثابت کرنے جا رہا ہوں کہ پاکستانی قوم کن فلسفیوں کی فکر، سوچ اور نظریے کی پیروکار ہے اور وہ نہ صرف ان کے فلسفے کو دل و جان سے چاہتے ہیں بلکہ ان کی فکر، سوچ اور نظریے کے عین مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔

(1) فلسفہ لذتیت (Epicureanism) اس فلسفے کا بانی تیسری صدی قبل مسیح میں ایپی کیوریس تھا۔ اس نے ایک باغ میں اپنا مدرسہ کھولا تھا اور وہیں اپنے شاگردوں کو درس دیا کرتا تھا۔ ایپی کیورس بے عملی، ناکارگی، لاپروائی اور غیر ذمے داری کی ترغیب دیتا ہے۔ اس نے یہ تعلیم دی کہ چونکہ زندگی فانی ہے، رفتنی وگزشتنی ہے، اس لیے جتنا بھی وقت ملے اسے حسیاتی لذائذ کوائف کے حوالے کر دیا جائے۔ اس فلسفے کی رو سے لطف جوئی اور راحت طلبی ہی زندگی کا مقصد ہے۔ اس فلسفے کے ایک ممتاز مقلد Epictetus کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے۔ جب وہ غلام تھا تو اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی، اس کے مالک نے اسے سزا دینے کے لیے اس کی ٹانگ کو مروڑنا شروع کیا، وہ بڑے سکون اور اطمینان سے برداشت کرتا رہا، لیکن جب درد کی شدت بہت بڑھ گئی تو اس نے بڑی نرمی سے کہا آپ میری ٹانگ زیادہ مت مروڑیں، ورنہ ٹوٹ جائے گی۔ مالک نے سنی ان سنی کر دی اور اپنا عمل جاری رکھا، آخرکار اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، اس نے پھر اسی سکون سے کہا ’’میں نہ کہتا تھا کہ میری ٹانگ ٹوٹ جائے گی، آخر وہی ہوا‘‘۔ اس نے اپنی ٹانگ چھڑانے کے لیے قطعاً کوئی جدوجہد نہ کی، نہ ہی کوئی احتجاج کیا اور بڑے اطمینان سے اپنی ٹانگ تڑوا لی۔

(2) فلسفہ لامقصدیت (Cynicism) اس فلسفے کا بانی چوتھی صدی قبل مسیح کے اوائل میں دیوجانس کلبی تھا۔ اس کی بنیادی تعلیم بے نیازی و لاپروائی پر مبنی تھی، زندگی کے اعلیٰ تقاضوں سے فرار اور گریز اس کا عام اصول تھا، نہ تو وہ اپنی قوم کی جنگ آزادی میں شامل ہوا اور نہ ہی اس نے اپنے اجتماعی فرائض و ذمے داریوں کو محسوس کیا، وہ ہر چیز سے بے نیاز، بلکہ بیزار تھا۔ جب سکندراعظم نے اس کے شہر کو فتح کیا تو وہ دھوپ میں لیٹا ہوا تھا۔ سکندر اس کی فلسفیانہ شہرت سن کر اس کے پاس آیا اور اسے ٹھوکر مار کر کہا ’’اٹھ (او بے کار بندے) میں نے تیرا شہر فتح کر لیا ہے‘‘ اس پر اس نے جواب دیا ’’شہروں کو فتح کرنا بادشاہوں کا کام ہے اور لات مارنا گدھوں کی خصلت ہے‘‘ سکندر نے اس سے پوچھا ’’بتا تجھے کیا چاہیے؟‘‘ اس نے بڑی بے نیازی کے ساتھ کہا ’’آپ ذرا دھوپ چھوڑ کر پرے کھڑے ہو جائیے، بس مجھے اتنا ہی چاہیے‘‘ سکندراعظم اس کا شہر فتح کرتا ہے، اسے ٹھوکر مارتا ہے، اس کی قوم کو ذلیل کرتا ہے، اسے غلام بنا لیتا ہے، لیکن دیوجانس کلبی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، اس کے دل و دماغ میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوتی، وہ کوئی آواز بلند نہیں کرتا، نہ ہی کوئی احتجاج کرتا ہے۔

(3) فلسفہ تشکیک (Scepticism) اس مدرسہ فکر کی بنیاد تیسری صدی قبل مسیح کے قریب پائرو نے ڈالی، اس کی تعلیم یہ تھی کہ چونکہ ہمیں کسی چیز کے بارے میں اتنا علم نہیں ہوتا کہ ہم فیصلہ کریں کہ آیا اس میں نقصان ہے یا فائدہ، اس لیے ہمیں اس سے سروکار نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہر چیز کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ پائرو کا خیال تھا کہ ہر مسئلے کے کئی پہلو ہوتے ہیں، کوئی روشن ہوتا ہے، کوئی تاریک اور کوئی ان کے بین بین۔ اس لیے ہمیں اس کے کسی پہلو پر عمل نہیں کرنا چاہیے، تا کہ ہم نقصان سے بچے رہیں۔ اس طرح یہ فلسفہ مکمل بے عملی اور ناکارگی کی تعلیم دیتا ہے، دوسرے لفظوں میں ہم ہر مسئلہ، ہر ادارہ، ہر روایت، ہر اصول اور ہر سوال سے علیحدہ ہو کر بیٹھ جائیں اور حق و باطل اور خیر و شر کی کسی کشمکش میں حصہ نہ لیں۔

(4) فلسفہ ترک (Stoicism) اس فلسفے کی بنیاد تیسری صدی قبل مسیح کے قریب مشہور فلسفی زینو نے ڈالی۔ اسے ترک علائق یا بے نیازی کا فلسفہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیروکار ہر چیز کی طرف سے لاپروائی اور بے حسی کا اظہار کرتے ہیں، خواہ وہ درد و غم ہو، قسمت کا نشیب و فراز ہو یا آمرانہ ظلم و ستم ہو۔ ان کا خیال ہے کہ ہر چیز کا مقدر پہلے سے طے ہو چکا ہے، لہٰذا تمام جدوجہد، کوشش و کاوش اور کشمکش بیکار و بے معنی ہے۔ اسی لیے وہ مکمل طور پر پرسکون اور مطمئن رہتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں گا کہ پاکستانی قوم نہ صرف فلسفے اور فلسفیوں سے محبت کرتی ہے، بلکہ وہ اپنے ان چاروں پسندیدہ فلسفیوں کے فلسفے کے عین مطابق اپنی زندگیاں آرام و چین و سکون سے گزار رہے ہیں، نہ وہ خود کو تنگ کر رہے ہیں اور نہ ہی خرابیاں، برائیاں پیدا کرنے والوں کو تنگ کر رہے ہیں اور ہمارے لوگ تمام مسائل، تمام خرابیوں، تمام خرابیوں، انتہاپسندی سے بے نیاز، بے پرواہ اپنی زندگیوں میں مست ہیں۔

امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بھی جاری و ساری رہے گا اور ساتھ ہی ساتھ ہماری دنیا بھر کے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ لٹیروں، قاتلوں، چوروں، کمیشن ایجنٹوں، بھتہ خوروں، رشوت خوروں، انتہاپسندوں کو ہماری طرح کھلی چھوٹ دے دیں تا کہ انھیں بھی آزادی کا احساس ہو اور وہ اپنا اپنا کام بغیر کسی خوف و خطر و ڈر کے آزادانہ اور کھلی فضا میں سرانجام دے سکیں، کیونکہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہر کام کرنے کی آزادی حاصل ہے، اسے قانون کی زنجیروں میں جکڑنا غیر انسانی عمل ہے، اس لیے وہ ہماری طرح نہ خود تنگ ہوں اور نہ دوسروں کو تنگ کریں، تا کہ لٹیرے، کمیشن ایجنٹ، بھتہ خور، رشوت خور، انتہاپسند اپنا اپنا کام سکون اور چین و آرام سے کرتے رہیں۔ آپ بھی خو ش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش ہونے کا پورا پورا موقع دیتے رہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔