میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا، سال کیسے منایا گیا

انتظار حسین  جمعرات 8 نومبر 2012
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ن م راشد کا سال، پھر فیض کا سال، پھر منٹو کا سال، تواتر کے ساتھ تینوں سال پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی شایان شان طریقے سے منائے گئے۔

منٹو کا سال ہنوز جاری ہے۔ بس اب آخری دموں پر ہے۔ نومبر کا مہینہ شروع ہے۔ آگے دسمبر ہے۔ راوی اس کے ساتھ منٹو کے سال کا تمت بالخیر لکھتا ہے۔

بس انھیں مہینوں میں کسی بھلے مانس کو اچانک خیال آیا کہ سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرا جی بھی تھا۔ اور اس کی پیدائش کا سو واں سال بھی اتفاق سے یہی 2012ہے۔ میرا جی کو بھی معمولی شے مت سمجھو۔ اردو شاعری میں جدیدیت کو صحیح معنوں میں متعارف کرانے والا اور نظم آزاد کو سب سے بڑھ کر قائم کرنے والا تو وہی ہے۔ کل اسی شہر لاہور میں میرا جی کے اثر میں شاعروں کا ایک پورا گروہ جدیدیت کے نام پر پروان چڑھا تھا۔ مختار صدیقی، قیوم نظر، یوسف ظفر، ضیاء جالندھری، مبارک احمد۔ اور ہاں اعجاز بٹالوی اور الطاف گوہر بھی اسی مکتبۂ فکر کے ہونہار فرزند تھے۔ حلقۂ ارباب ذوق اسی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتا تھا۔ اور جب میرا جی اس دنیا سے سدھار گئے تو حلقہ کتنی باقاعدگی سے سال کے سال یوم میرا جی مناتا تھا اور میرا جی کے واسطے سے سال کے سال جے جے ونتی کا راگ کس پابندی سے ادیب سنا کرتے تھے۔ لیکن اس مکتبۂ فکر کے وہ شاعر ایک ایک کر کے سب دنیا سے سدھار چکے ہیں اور حلقہ بھی اب وہ حلقہ نہیں رہا ہے۔ وہ ہوتے تو میرا جی کے نام پر کچھ دال دلیا ہو جاتا۔

بہرحال نئے ادب کے نام لیوائوں کے حلقہ میں سے کسی کسی کو غیرت آئی اور اس نے میرا جی پر قلم اٹھایا۔ اچانک خبر ملی کہ لمز میں میرا جی کی یاد میں تقریب ہو رہی ہے۔ اس پر مبارک احمد کے فرزند ارجمند ایرج مبارک کی غیرت نے جوش کھایا اور وہ جو مہینے کے مہینے ان کی ادبی انجمن کا اجتماع کسمو پولیٹن کلب میں ہوتا ہے وہ اب کے ان کے والد مبارک احمد کے اولین گرو میرا جی سے منسوب کر دیا گیا۔ اگلے دن اتوار تھا۔ اور ہم نے دیکھا کہ ڈان (اخبار) نے اپنے ہفتہ وار ایڈیشن ’بُکس اینڈ آتھرز، کا اس ہفتے والا شمارہ، میرا جی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اور اسی ہنگام جرمنی سے رسالہ ’جدید ادب‘ کا ایک ضخیم خصوصی نمبر موصول ہوا۔ یہ میرا جی نمبر تھا۔ حیدر قریشی نے اسے مرتب کیا ہے اور بڑی کاوش سے چیزیں جمع کی ہیں۔

تو لیجیے آخر کے تئیں میرا جی کا سال بھی لشتم پشتم منا ہی لیا گیا۔ یہ بھی بہت غنیمت ہے۔ میرا جی کا بمبئی شہر میں انتقال ہوا تھا۔ شہر میں جہاں اس زمانے میں اردو کے ادیبوں کی بہت یلغار تھی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا تو وہ ہیڈکوارٹر تھا وہاں میرا جی کے جنازے پر صرف پانچ آدمی تھے۔ اختر الایمان، مہندر ناتھ، مدھو سودن، اختر الایمان کے ہم زلف آنند بھوشن اور فلم ڈائریکٹر نجم نقوی۔ اس لحاظ سے میرا جی کے سال کا یہ نقشہ بہت اطمینان بخش ہے۔

ہاں لیجیے ہم میرا جی سال کی اختتامی تقریب کو تو بھول ہی چلے تھے۔ وہ بھی سن لیجیے۔ انھی برسوں میں فرانس کا ایک نوجوان دانشور ژولیاں وارد ہوا۔ ریڈ کراس سے وابستہ تھا۔ اس کے سارے لچھن وہی تھی جو فرانس کے دانشوروں اور شاعروں سے منسوب چلے آتے ہیں۔ اسے اِس دیس کی زبانوں اور ادبیات سے کچھ زیادہ ہی شغف ہو گیا۔ میرا جی مخصوص طور پر اس کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو سونگھ کر وہ چونکا کہ یہاں سے تو کچھ اپنے شاعرِ اعظم بادلیئر کی مہک آ رہی ہے۔ اس نے میرا جی کی ذات کو مرکز بنا کر اردو میں ایک ناول لکھ ڈالا۔

ہم نے وہ ناول پڑھا اور اس سے کہا کہ برادر یہ ناول فرانسیسی رنگ ڈھنگ کا ہے جو اردو میں لکھا گیا ہے۔ میرا جی اس ناول کا مستحق تھا۔ اس نے بھی تو فرانس کے زوال پسند، شعری اسکول سے خاص طور پر بادیلیئر سے بہت رس اور چس حاصل کیا تھا۔ وہی بادیلیئر جس کا ذکر ہمارے ترقی پسند دانشور کس حقارت سے کیا کرتے تھے کہ وہ فرانس کا بیمار ذہن آتشک زدہ شاعر بادیلیئر۔ ہمارا یار عزیز مظفر علی سید اس بیماری کو فرانسیسی بیماری بتاتا تھا۔ اس عنوان سے اس نے ایک کہانی بھی لکھنی شروع کی تھی۔ مگر اس کے دوسرے کاموں کی طرح یہ کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔ میرا جی نے اپنی جان پر کھیل کر اس کہانی کو مکمل کیا۔ پھر بمبئی میں تو اس پر دن بھاری ہی گزرنے تھے۔

میرا جی کے بمبئی جانے کی تقریب کیسے نکلی، یہ بھی سن لیجیے۔ میرا جی کی دھوم تو لاہور سے شروع ہوئی تھی۔ مولانا صلاح الدین احمد کے رسالہ ’ادبی دنیا‘ کو انھوں نے اپنی ادبی رزم گاہ بنایا ہوا تھا۔ مگر ادھر دلی میں پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنے بیٹھے تھے۔ اردو کے ادیبوں کو تخصیص کے ساتھ نوازا جا رہا تھا۔ اور لاہور کے ادیبوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ بس جیسے کسی بھلے وقت میں دلی کا ہر شاعر لکھنؤ کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا اسی طرح اب لاہور کا ہر ہونہار ادیب دلی کی طرف لپک رہا تھا۔ میرا جی بھی دلی کی طرف چل پڑے۔

خیر وہاں تو اس وقت ہر رنگ کا ادیب جمع تھا۔ میرا جی کو آسانی سے قدر دان میسر آ گئے۔ مگر جب ایک اور رو آئی اور ادیبوں نے فلموں کی چکا چوند میں دلی سے بمبئی کی طرف زقند لگائی تو میرا جی نے بھی پھر ادھر ہی کا رخ کیا۔

بمبئی میں میرا جی کا آغاز تو ایسا برا نہیں تھا۔ اختر الایمان جیسا بھلا مانس رفیق انھیں میسرآ گیا۔ ایک رسالہ ’خیال‘ کے نام سے نکالا۔ اختر الایمان ان کے شریک کار تھے۔ میرا جی کے قلم کی جولانیوں نے ’خیال‘ کو کیا سے کیا بنا دیا۔ مگر تابکے۔ پٹری سے اتری اس ذہین و فطین شخصیت نے کیا کیا روگ پال رکھے تھے۔ جب امراض نے زور پکڑا تو اختر الایمان انھیں اپنے گھر لے آئے۔ اس کی ساری تفصیل اختر الایمان نے اس خط میں لکھی ہے جو انھوں نے رشید امجد کے نام لکھا تھا اور جو اب حیدر قریشی کے مرتب کردہ میرا جی نمبر میں شایع ہوا ہے۔

میرا جی کی حالت بگڑتی ہی چلی گئی۔ جب حالت زیادہ دگرگوں ہوئی تو انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسپتال میں ان سے ایک ملاقات اعجاز بٹالوی نے کی تھی۔ اس کا احوال بھی سن لیجیے۔ لندن جاتے ہوئے بمبئی میں پڑائو کیا۔ میرا جی سے ملنے اسپتال گئے تو کیا دیکھا۔

’’میرا جی کے پلنگ کے ساتھ دوسرے مریض کو الگ کرنے کے لیے ایک اسکرین لگا دی گئی تھی۔ میں نے دیکھا، میرا جی کچھ پریشان ہیں۔ اتنے میں اسکرین کی دوسری طرف سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوئی۔ میرا جی کا ہمسایہ دنیا سے جا چکا تھا۔ میرا جی نے مجھ سے کہا ’’وہ میری مالا اٹھا دیجیے میں عبادت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور ان کی مالا کے منکے ان کی انگلیوں سے پھسلنے لگے۔ چند منٹ کے بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں اور مالا کو ایک ’’طرف رکھ دیا۔‘‘

دوسرا منظر جو انھوں نے دیکھا وہ یوں ہے کہ ایک پادری دوسرے مریضوں سے گزر کر میرا جی کے پاس آن پہنچا ’’اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈوری تھی جس کے سرے پر مر مر کا بنا ہوا مسیح مصلوب کا ایک خوبصورت مجسمہ لٹک رہا تھا۔ اس نے قریب ہو کر میرا جی کے سامنے یہ مجسمہ لہرایا۔ میرا جی نے کہا ’’ان کو میں ہمیشہ سے جانتا ہوں۔ مگر آپ سے ملاقات نہیں۔‘‘

پادری نے کہا ’’آپ یسوع کی برکت سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ میرا جی بولے ’’آپ جب پچھلے ہفتے یہاں آئے تھے تو آپ نے میرے سامنے والے مریض سے یہی کہا تھا۔ وہ آج ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘
پادری صاحب کچھ پریشان ہوئے۔ مسکرا کر میرا جی کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ اسپتال میں کب سے ہیں۔‘‘
جواب دیا ’’روز ازل سے یہیں ہوں۔‘‘

اعجاز بٹالوی کی اس ملاقات کے تھوڑے ہی دن بعد میرا جی آخر جان ہار گئے۔ اب اختر الایمان کی سنیے ’’میرا جی اپنے زمانے کا بڑا نام تھا۔ میں نے بمبئی کے تمام ادیبوں کو اطلاع بھجوائی۔ اخبار میں بھی چھپوایا۔ مگر کوئی ادیب نہیں آیا۔ جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔‘‘ وہی جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ایسے پراگندہ خاطر پراگندہ دل کا جنازہ ایسے ہی اٹھنا تھا اور سال بھی اسی رنگ سے منایا جانا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔