رومنی کیوں ہارے ؟

نصرت جاوید  جمعـء 9 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے ایک بڑے ہی جید کالم نگار ہیں۔ ہمیشہ بڑی دُور کی کوڑی لاتے ہیں۔

میں ہمیشہ انھیں بہت غور سے پڑھ کر سامراجی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چند روز پہلے انھوں نے جانکاہ تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ امریکی ظالموں نے ہارپس نام کی ایک ٹیکنالوجی ایجاد کر لی ہے۔ اس کے ذریعے وہ دنیا میں جب اور جہاں بھی چاہیں ’’قدرتی آفت‘‘ کے نام پر بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ پاکستان میں 2005 کا زلزلہ اور 2010 کے سیلاب اسی کے ذریعے برپا کیے گئے تھے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ کبھی کبھار منتر اُلٹے بھی پڑ جاتے ہیں۔ امریکنوں نے دوسروں کے لیے جو گڑھے کھودے تھے، اب ان کے ہاں سینڈی طوفان کی صورت میں نمایاں ہو رہے ہیں۔

یہ سب لکھنے کے بعد ہمارے اس جید کالم نگار نے سارا زور یہ جاننے پر صرف کر دیا کہ امریکا میں برپا ہونے والا سینڈی کسی منتر کے اُلٹ جانے کے باعث برپا ہوا یا امریکی حکومت میں بیٹھے کچھ طاقتور لوگوں نے دوسروں کو تباہ کرنے والی ٹیکنالوجی اپنے ہی لوگوں پر استعمال کر ڈالی۔ موصوف نے صاف بات تو نہ کی مگر لسانی مہارت کو پوری طرح بروئے کار لاتے ہوئے اس امرکے ٹھوس اشارے ضرور دے دیے کہ سینڈی کا طوفان جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر برپا کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سینڈی جیسی ’’آفت‘‘ سے ہونے والی تباہی کی آڑ میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات ملتوی کرا دیے جائیں۔ ہنگامی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فی الحال اوباما ہی وائٹ ہائوس میں براجمان رہیں اور بالآخر کسی مناسب موقعہ پر امریکا میں مارشل لاء لگا دیا جائے۔

اپنے ملک میں مارشل لاء لگانے کے بعد امریکی فوج مزید کیا کرنا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب موصوف نے فراہم کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔ انھیں یقیناً علم ہو گا۔ مگر مقبول جاسوسی ناولوں کے لکھاریوں کی طرح انھیں بھی اپنے قارئین کو اگلی قسط کے انتظار میں مبتلا رکھنا تھا۔ میں بھی بڑی بے تابی سے منتظر رہا۔ مگر ہوا یہ کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہر چار سال بعد آنے والے نومبر کے پہلے منگل کو امریکا میں صدارتی انتخاب ہو گیا۔ اس میں ووٹروں نے بھرپور حصہ لیا۔ آخری لمحات تک اوباما اور رومنی کے درمیان ’’کانٹے دار‘‘ مقابلے کی فضاء موجود رہی۔

اس فضاء کو ایجاد کر کے برقرار رکھنے کا سارا کریڈٹ امریکی میڈیا کو جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے۔ اس میں کھربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اب تو ٹویٹر اور فیس بک بھی آ گئے ہیں۔ ’’کانٹے دار مقابلے‘‘ کی فضا نہ بنے تو کون ہر لمحہ اپنے آئی فون کے بٹن دباتا ’’تازہ ترین‘‘ جاننے کی علت پوری کرتا رہے گا۔ یہ علت قائم رہے تو اشتہاری کمپنیوں کا دھندا بھی چلتا ہے جو اپنی جگہ کھربوں کی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے۔

پاکستان میں رہنے والے ایک عام سے رپورٹر کی حیثیت سے البتہ میں نے رومنی سے کبھی بھی ’’کانٹے دار مقابلے‘‘ کی توقع نہ رکھی۔ یہ درست ہے کہ وہ امریکی شہریوں کی اکثریت کی مانند ایک پروٹسٹنٹ گورا نہ تھا۔ بلکہ ایک ایسے فرقے اور مسلک سے تعلق رکھتا تھا جسے وہاں کے پارسا عیسائی بدعتی نہ سہی عجیب اور مضحکہ خیز ضرور سمجھتے ہیں۔ مگر اپنے مسلک سے قطع نظر رومنی سنگ دل منافع خور سرمایہ داروں کی مکمل نمایندگی کرتا تھا۔ ان لوگوں کا ایمان ہے کہ حکومتوں کو ’’دن رات محنت کر کے‘‘ مال بنانے والے ’’ذہین‘‘ سرمایہ کاروں پر بھاری ٹیکس عائد کر کے انھیں گویا ان کی کامیابیوں کی ’’سزا‘‘ نہ دینا چاہیے۔ ’’محنتی اور ذہین لوگوں‘‘ کی آمدنی پر بے تحاشا ٹیکس لگا کر ریاست جو رقم حاصل کرتی ہے وہ غریب لوگوں کی تعلیم اور علاج کے نام پر ضایع کردی جاتی ہے۔

ریاست کی جانب سے بچھڑے ہوئے طبقات کی دیکھ بھال غریبوں کو ’’بھیک کا عادی‘‘ بنا دیتی ہے۔ چونکہ انھیں کسی صورت زندہ رہنے کی بنیادی سہولتیں مل ہی جاتی ہیں، اس لیے وہ بالآخر کام کرنے کی لگن ہی کھو دیتے ہیں۔ رومنی نے اپنے نائب صدر کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو اس سے بھی کہیں زیادہ سنگدل سرمایہ داری کا نمایندہ تھا اور ایک نوجوان اور متحرک رکن پارلیمان ہوتے ہوئے اس بھرپور مزاحمت کا سرغنہ سمجھا جاتا تھا جو اوباما کے عام لوگوں کو بیماری کے دوران بہتر علاج و معالجہ کے پروگرام کے خلاف اُٹھائی گئی۔ رومنی اور اس کے معتمد کی سنگ دل سرمایہ داری نظام سے وابستگی کے ساتھ ان دونوں کے عورتوں کے حقوق کے بارے میں قدامت پرستانہ نظریات بھی اوباما کی مدد کرتے نظر آ رہے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ خوف بھی کہ اگر امریکا کے پہلے ’’کالے‘‘ صدر کی جگہ ایک قدامت پسند گورا آ گیا تو امریکا میں مقیم غیر ملکیوں کے لیے زندگی اجیرن ہو جائے گی۔

بُش کے آٹھ سالوں میں عراق اور افغانستان پر طویل اور ملکی معیشت کو نچوڑ ڈالنے والی جنگوں کے ہولناک اثرات کے سبب اوباما اپنے چار سالوں میں لوگوں کو وہ سب کچھ نہ دے پایا جس کا اس نے وعدہ کر رکھا تھا۔ مگر لوگوں کو اس کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا بخوبی علم تھا۔ اوباما کے خلاف جمع ہونے والے غصے سے مغلوب ہو کر وہ رومنی کو انجانے خوف اور خدشوں کے باعث منتخب کرنے کو تیار نہ تھے اور بالآخر یہی ہوا۔ اوباما مزید چار سال کے لیے بڑی واضح مگر کافی لوگوں کے لیے حیران کن اکثریت کے ساتھ وائٹ ہائوس میں ٹکے رہنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

مجھے پورا علم ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اوباما کو اتنا پسند نہیں کرتی۔ عام انسانوں کو تو چھوڑیے ہماری ریاست کے بہت سارے کرتا دھرتا بھی رومنی کے لیے نیک خواہشات رکھتے تھے۔ ان کرتا دھرتائوں کی مدد کے لیے امریکی یونیورسٹیوں سے پڑھے کچھ دانشور انگریزی اخباروں کے ادارتی صفحات پر میرے جیسے عامیوں کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ری پبلکن پارٹی ہمیشہ پاکستان کی خیر خواہ رہی ہے۔ اس ’’خیر خواہی‘‘ کو سمجھانے کے لیے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف سے ریگن اور بش کی محبتوں کو اکثر یاد دلایا جاتا تھا۔ مگر شاذ ہی منہ بگاڑ کر رعونت سے میرے جیسے عامیوں کو امریکی سیاست اور اشرافیہ کے اسرار و رموز سمجھاتے یہ منشی قسم کے برائے فروخت دانشور کبھی یاد رکھتے ہیں کہ کبھی ایک مشرقی پاکستان بھی ہوا کرتا تھا۔ وہ اب بنگلہ دیش بن گیا ہے۔

یہ واقعہ 1970 میں ہوا تھا اور اس وقت امریکا کا صدر نکسن ہوا کرتا تھا جس کے ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر چین بھیجنے کے سارے انتظامات جنرل یحییٰ نے کیے تھے۔ اب چین اور امریکا جڑواں معیشتوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مگر مشرقی پاکستان کی جدائی کے وقت ایک ری پبلکن صدر نکسن ہمارا والی وارث نہ بنا۔ 1970 تو دور کی بات ہے۔ 1989 یاد کیے لیتے ہیں، ان دنوں بھی ایک اور ری پبلکن بش امریکا کا صدر ہوا کرتا تھا۔ صدر بننے سے پہلے وہ سی آئی اے کا سربراہ تھا۔ اپنی اس حیثیت میں اسے ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پوری خبر تھی۔ مگر افغانستان کو ’’آزاد‘‘ کرانا تھا۔ سوویت یونین کو تباہ کرنا تھا اور جب تک یہ دونوں کام نہ ہو جاتے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے درگزرکرنا تھا۔ 1989 کے آخری مہینوں میں یہ سب مقاصد پورے ہوتے نظر آئے تو اسی بش نے پریسلر ترمیم کو بروئے کار لا کر ہمارے خلاف اقتصادی اور عسکری پابندیاں عائد کر دیں۔

یہ پابندیاں ختم ہوئیں تو اس وقت جب نائن الیون کے بعد امریکنوں کو افغانستان ہی کے حوالے سے دوبارہ پاکستان کی ضرورت پڑ گئی۔ مشرف کے ناز نخرے شروع ہو گئے۔ مگر جب اسی بش کے بیٹے۔ ایک اور ری پبلکن صدر۔ کو 2005 کے ستمبر میں شک ہوا کہ کمانڈو ’’چالاکیاں‘‘ کر رہا ہے تو نئی بساط سجا دی گئی۔ این آر او وغیرہ ہوا۔ امریکا کسی بھی ملک کی طرح صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچتا ہے خواہ اس کا صدر اوباما ہو یا بش۔ ہمارے منہ بگاڑ کر رعونت بھری تحریریں لکھنے والے ذرا کوشش کر کے میرے جیسے عامیوں کو پاکستان کے حقیقی اور قابلِ حصول مفادات اور اہداف بتا دیں۔ ان کا یقین ہو جائے تو ان ہی کی روشنی میں ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے میں زیادہ آسانی ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔