سری نگر اور دہلی کے بڑھتے ہوئے فاصلے

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 3 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دہلی یونیورسٹی کے ممتاز استاد اور سابق پروفیسر، جناب سید عبدالرحمن گیلانی جو کشمیری بھی ہیں، کی ناجائز گرفتاری اور ان پر بھارتی پولیس کا بہیمانہ تشدد تمام کشمیریوں کو غم و غصہ میں مبتلا کر گیا ہے۔

ان پر بھی وہی بیہودہ اور بھدا الزام عائد کیا گیا ہے جو ان سے قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بے گناہ طالب علم لیڈر (کنہیا کمار) پر لگایا گیا تھا۔ یہی کہ ان کے منعقد کردہ جلسے میں ’’اینٹی انڈیا‘‘ اور ’’پاکستان نواز‘‘ نعرے بلند کیے گئے۔ عبدالرحمن گیلانی اور کنہیا کمار، دونوں اس واقعہ سے انکار کر رہے ہیں لیکن بھارتی حکمران اور بھارتی پولیس اپنے ظلم سے باز نہیں آئے۔ دونوں کی بے جا گرفتاری اور ان پر کیے جانے والے سرکاری تشدد کی بنا پر بھارتی عوام اور بھارتی میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بھی۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ بھی منقسم ہے۔

بھارتی عدالت نے سید عبدالرحمن گیلانی کی درخواست برائے ضمانت بھی مسترد کردی ہے۔ پروفیسر گیلانی کو محض کشمیری ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ بھارتی جج، پروندر سنگھ، جس کے سامنے درخواست ضمانت پیش کی گئی تھی، کے ریمارکس پر بھی انصاف پسند حلقوں میں حیرت اور پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے۔ پروندر سنگھ نے کہا: ’’پروفیسر عبدالرحمن گیلانی پر لگایا گیا غداری کا الزام بادی النظر میں صحیح لگتا ہے۔‘‘

وادی کشمیر میں جج کے ان الفاظ پر سخت ناراضی کا اظہار سامنے آیا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پروندر سنگھ کے ان الفاظ سے افضل گرو شہید کو سنائی جانے والی سزائے موت کے الفاظ سے جنم لینے والے زخم پھر سے تازہ ہو گئے ہیں۔ افضل گرو کو پھانسی کی سزا دیے جانے پر بھارتی عدالت نے بھی انصاف اور آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے (بھارتی عوام کے) اجتماعی ضمیر کو خوش کرنے کی بات کہی تھی۔ عبدالرحمن گیلانی کی درخواست ضمانت مسترد ہونے پر مقبوضہ کشمیر کے عوام چراغ پا بھی ہیں اور اس فیصلے کو انتقام گیری بھی کہا گیا ہے۔

2 مارچ 2016ء کو ایک ممتاز بھارتی اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے جن مسلمان طلباء پر بھارت مخالف نعرے لگانے کا الزام عائد کر کے غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے، وہ سرے سے بے بنیاد اور جھوٹ ہیں۔ لیبارٹری میں فارنزک ٹیسٹ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویڈیو میں جن ’’طلباء ‘‘ کو ’’بھارت مردہ باد ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ تکنیکی مہارت سے ویڈیو میں شامل کیے گئے ہیں۔ فارنزک ٹیسٹ نے اس چوری کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ان مایوس کُن حالات کے باوجود بھارت میں ایسے انصاف پسند اور جرأت مند لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی سُود و زیاں کی پروا کیے بغیر مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے حقوق کی پاسداری اور ان سے روا رکھی گئی زیادتیوں کے بارے میں برسرِ مجلس آواز اٹھا رہے ہیں۔ جناب اجے گوڈا وارتھی ہی کو لے لیجیے۔ گوڈا صاحب بھارت کے ممتاز دانشور اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ دہلی کی نامور جامعہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، کے شعبہ سیاسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنے متعینہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے 19 فروری 2016ء کو ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے مفصل آرٹیکل میں جرأت مندی کے ساتھ یوں لکھا: ’’اس حقیقت سے ہم سب آشنا ہیں کہ کشمیری، انڈین یونین سے مطمئن اور خوش نہیں ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ ان سے ہندوستان کی حکومتوں کا سلوک مناسب نہیں رہا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی پامال کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ ایک بار نہیں بلکہ یہ کہانی ہر روز دہرائی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر جے این یو میں کشمیری طلباء اپنے کشمیری بھائی، محمد افضل گرو کی پھانسی کو بھارتی عدالت کا عدالتی قتل قرار دیتے ہیں تو اس اقدام کو غیر معمولی نہیں کہا جانا چاہیے۔

ہندوستان میں بہت سے لکھاریوں نے بھی گرو کی پھانسی کو یہی نام دیا ہے، حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے بھی۔ (مقبوضہ) کشمیر کی محبوبہ مفتی، جو پی ڈی پی کی صدر ہیں اور جس سے بی جے پی کی سیاسی ساجھے داری بھی رہی ہے، نے بھی حکومتِ ہند سے یہی مسئلہ اٹھائے رکھا ہے اور انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ افضل گرو کی میت ان کے اہلِ خانہ کو واپس کی جائے لیکن گرو کی لاش، پھانسی دیے جانے کے بعد بھی خاندان کے سپرد نہ کی گئی۔

یہ گمبھیر مسائل بہ حسن و خوبی حل ہو سکتے ہیں، اگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ ٹھنڈے دل سے متعلقہ اور متاثرہ فریقین سے مکالمے کی راہ اپنانے کی کوشش کرے۔‘‘ جناب اجے گوڈا وارتھی اپنے اسی آرٹیکل میں مزید لکھتے ہیں: ’’مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ مزید بگاڑ پیدا ہو اور تباہی کا راستہ کھلے، بھارت کے کار پردازوں کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر کا ہر نوجوان بھارت سے دُور کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ کشمیر اور بھارت کے درمیان خلیج کیوں بڑھ رہی ہے؟ بھارت کو اگر اپنا سیکولر ازم عزیز اور اپنا سماجی تنوع پیارا ہے تو اسے آگے بڑھ کر کشمیریوں کے ہر فرد سے مکالمہ کرنا ہو گا۔‘‘  نریندر مودی کی حکومت کے دوران بھارت میں جو زبردست داخلی کھچاؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس سے بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں میں شدید قسم کا ہیجان اور خوف محسوس ہو رہا ہے۔ بھارتی اور کشمیری مسلمان، بھارتی ہندوؤں کے غالب خوف کے باوجود، اس کا اظہار لبوں پر لا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری کا حال ہی میں لکھنؤ کی ایک کانفرنس میں یہ کہنا: ’’بھارت کا ہر مسلمان خود کو ٹھگا ہوا، خوفزدہ اور غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔‘‘ اگرچہ احمد بخاری بدقسمتی سے اپنے کئی متضاد بیانات کی وجہ سے مسلمانانِ بھارت کا اعتبار کھو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے مذکورہ بیان کو معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔ دہلی کی ہندو اور مسلم مخالف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی سامنے آئے ہیں۔

انھوں نے ’’ہندوستان ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: ’’کیا کشمیری مسلمان ہونا جرم ہے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ وہ عمر عبداللہ، جو مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں اور دہلی اسٹیبلشمنٹ کے قریب بھی، ایسے بیانات دینے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مودی حکومت کے زیرِ سایہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے گرد، بغیر کسی استثنیٰ کے، گھیرا تنگ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔ عمر عبداللہ نے تنگ آ کر مذکورہ بیان اس لیے دیا ہے کہ ایک کشمیری ہندو پنڈت نے اپنے ٹویٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ایک مسلمان طالبہ، شہلا رشید، جو نسلاً کشمیری بھی ہے اور جے این یو طلباء یونین کی نائب صدر بھی، سے تفتیش کی جائے ’’کیونکہ وہ یونیورسٹی میں اینٹی انڈیا سرگرمیوں میں ملوث ہے۔‘‘ عمر عبداللہ نے اس کے جواب میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: ’’شہلا رشید کا جرم یہ ہے کہ وہ کشمیری بھی ہے اور مسلمان بھی۔ کیا کشمیری مسلمان ہونا جرم اور گناہ ہے؟ اگر یہ بات ہے تو پھر مجھ سے بھی تفتیش کی جائے۔ مَیں بھی کشمیری ہوں اور مسلمان بھی۔ میں تفتیش کے لیے تیار ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے شہلا رشید پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

بھارتی مسلمانوں کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کے لیے فروری 2016ء کے آخری ہفتے بھارتی ہندو تنظیموں نے علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی کے خلاف ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ الزام لگایا گیا (اور الزام لگانے والوں میں علی گڑھ شہر کی مئیر شکنتکہ بھی شامل ہے) کہ یونیورسٹی مذکور کی کنٹین میں جو بیف بریانی کھلائی جا رہی ہے، اس میں گائے کا گوشت استعمال کیا جا رہا ہے۔

علی گڑھ یونیورسٹی کی ترجمان، راحت ابرار، بار بار وضاحت کر رہی ہیں کہ یونیورسٹی کنٹین میں تو گزشتہ ایک سو برس سے کبھی گائے کا گوشت استعمال ہی نہیں کیا گیا اور یہ کہ بیف بریانی میں بھینس کا گوشت استعمال کیا گیا تھا، لیکن بھارتی متعصب ہندو تنظیمیں مان ہی نہیں رہیں۔ ایک مغربی خبر رساں ادارے نے اس تہمت کا راز یہ کھولا ہے کہ ہندو تنظیمیں یہ الزام لگا کر دراصل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کنٹین پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ اب تو بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور معتدل قوتیں بلند آہنگ سے یہ کہنے لگی ہیں کہ بھارت کی مذہبی جنونی جماعتیں، جو رواں لمحوں میں اقتدار میں بھی ہیں، دیش پریم کا لبادہ اوڑھ کر بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کو کچل دینا چاہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔